ڈاکٹر ساجد عباسی
اسلام کی شہادت کے بعد نماز دین کا سب سے اہم ستون ہے۔ نماز کا مقصد ہے اللہ کی یاد کو باقی رکھنا: إِنَّنِي أَنَا اللَهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ترجمہ: میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔(سورۃ طٰہ ۱۴)۔
اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کی یاد سے اللہ تعالیٰ سے بندے کا تعلق قائم ہوتا اور برقرار رہتا ہے۔ اگر اللہ کی یاد باقی نہ رکھی جائے تو بندے کا اللہ سے تعلق منقطع ہو جاتا ہے اور جب بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ٹوٹ جائے تو پھر اس کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ اور جب بندے کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے تو وہ فحش و منکرات کو اس کے لیے خوشنما بنا دیتا ہے۔اسی بات کو قرآن میں اس طرح بتلایا گیا ہے: ’’پھر ان کے بعد وہ نا خلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں‘‘ (سورۃ مریم ۵۹)
نماز کا اصل اور اہم ترین مقصد اللہ کی یاد کو قائم و دائم رکھنا ہے، جس سے اللہ سے تعلق جڑتا اور قائم رہتا ہے۔ تعلق باللہ ہی سے بندہ مومن کو روحانی طاقت، اطمینان ِ قلب، توکل علی اللہ اور صبر حاصل ہوتا ہے جس سے راہِ حق کی مشکلات کو انگیز کرنا آسان ہو جاتا ہے اور جنت کا راستہ ہموار ہوگا جو کہ حقیقی کامیابی ہے۔
نماز ترک کرنے سے اللہ سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ اور جب اللہ سے تعلق ٹوٹتا ہے تو پھر شیطان سے تعلق جڑ جاتا ہے۔ جیسے ہی شیطان سے تعلق جڑ جاتا ہے شیطان انسان کے سامنے خواہشات نفس کو خوشنما بناکر پیش کرتا ہے اور بندہ گمراہی کے راستے کو اختیار کرنے لگتا ہے۔ اس طرح نماز ایک اہم ذریعہ بن جاتی ہے فحش اور منکرات سے بچنے کا۔ یہ نماز کا دوسرا مقصد ہے: (اے نبیؐ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کی ذریعے سے بھیجی گئی ہے۔ اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو۔ (العنکبوت:۴۵)
نماز میں اللہ کی کبریائی کا نقش دل میں بٹھایا جاتا ہے۔ اذان اور اقامت میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی ہے۔ اللہ ہر اس چیز سے بڑا ہے جسے بندہ دنیا میں بڑا یا بڑی سمجھتا ہے۔ جب اللہ کی بڑائی اور اس کی محبت ہر شئے سے بڑی بن جاتی ہے تو بندہ اذان کی صدا پر لبیک کہتا ہوا ہر کام کو چھوڑ کر اللہ کے دربار میں حاضر ہو جاتا ہے۔ اللہ کی اطاعت ہر کاروبار سے بڑی اور ہر دل کو بھانے والی چیز سے اہم بن جاتی ہے اور اسی وقت ایک بندہ اللہ کی پکار سن کر اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہے۔ میٹھی نیند کو قربان کرنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ نماز میں ہر حرکت پر اللہ اکبر کہا جاتا ہے لیکن اللہ کی بڑائی ہمارے تصور سے ماورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لا محدود کائنات کو جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے اس لیے بنایا کہ اس کی لا محدود قدرت کا تصور انسان کے ذہن میں پیدا ہو ورنہ ایک نظامِ شمسی ہی ہمارے لیے کافی ہوتا۔
نماز کا اہم ترین حصہ قیام ہے۔ قیام میں سورۃ الفاتحہ پڑھی جاتی ہے جس کے پہلے حصہ میں اللہ کی تعریف بیان کی جاتی ہے کہ وہ رب ہے، رحمن و رحیم ہے اور روزِ جزا کا مالک ہے۔ اس کے بعد اعتراف ہے کہ چونکہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اس لیے و ہی عبادت کا مستحق ہے اور وہی ہماری مدد کرنے پر قادر ہے۔ ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور ساری حاجتیں لے کر اسی کے دربار میں حاضری دیتے ہیں۔ اس اعتراف کے بعد گویا اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور ہم اس دروازے کے اندر داخل ہوکر سب سے اہم ترین دعا مانگتے ہیں اور وہ ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کی دعا جو ہمیں آخرت میں جنت کے راستے کی طرف لے جاتا ہے لیکن یہ راستہ دنیا سے ہو کر گزرتا ہے۔ دنیا میں ہم کو ہر وقت ہدایت کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم کس وقت کیا فیصلہ کریں۔ صحیح فیصلوں پر ہی دنیا و آخرت میں کامیابی ملتی ہے۔ سورۃ الفاتحہ کے بعد ہم قرآن کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں جس میں یہ ہدایت ہوتی ہے کہ ہم فکر و عمل کا کونسا راستہ اختیار کریں۔
پھر ہم اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جاتے ہیں۔ انسان چونکہ محدود عقل کی قوتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اس لیے اللہ کی کبریائی سے متعلق ایک محدود تصور ہی ذہن میں پیدا ہو گا۔ اس کی تلافی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تسبیح سکھائی ہے۔ تسبیح کے ذریعے ایک بندہ اپنی محدود سوچ کا اعتراف کرتا ہے کہ اے اللہ تیری ذات کی عظمت میری محدود سوچ سے بہت بالا و برترباور تو ہر محدودیت سے پاک ہے۔اسی لیے نماز میں رکوع اور سجود کی حالت میں سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلی کے الفاظ دہرائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو رکوع کی حالت میں رکھا ہے اور انسانوں کو قیام کی حالت میں رکھا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا حیوانات کو حالت رکوع میں رکھنا اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ نے ان کو انسانوں کے لیے مسخر و عاجز بنایا ہے۔ اس احسان پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اللہ کے آگے عاجزی اختیار کرتے ہوئے حالتِ رکوع میں جاتے ہیں۔ حیوانات اضطراری طور پر اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور ہم نماز میں اختیاری طور پر اللہ کے آگے جھکتے ہیں۔ نماز میں ایک بندہ اپنے اختیار سے رکوع کی حالت میں جاکر یہ اقرار کرتا ہے کہ اے اللہ تیری ربوبیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ الوہیت کو تیرے لیے خالص کر کے میں تیرے آگے اپنا سر جھکا دوں اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر میرا سر تیرے قدموں پر رکھ دوں جو عاجزی کی آخری شکل ہے۔ سجدہ میں اپنے پورے وجود کو اللہ کے آگے سرنگوں کرنے کا اظہار ہے، اس احساس کے ساتھ کہ تو ہی میرا خالق ہے، تیرا ہی مجھ پر حکم چلتا ہے، تیری طرف ہی مجھ کو لوٹ کرجانا ہے، تو سراپا قدرت ہے اور میں سراپا عاجز ہوں۔ اس کا اظہار حالتِ سجدہ میں ایک بندہ اپنے جسم کو پیشانی کے بل گرا کر کرتا ہے اور یہی ادا بندے کو اللہ سے قریب کرتی ہے۔ بندہ اللہ سے حالتِ سجدہ میں بہت قریب ہوتا ہے جس میں وہ اپنی ہستی کو اللہ کے آگے ڈال دیتا ہے۔ سجدہ کی حالت انسان کی ساری انا کو خاک میں ملادیتی ہے اور اس سے انسان کے اندر تواضع کی صفت پیدا ہوتی ہے۔
سجدہ عبادت کی ایسی شکل ہے جس میں جسم کے اکثر و بیشتر جوڑ ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہاتھوں پیروں کولہوں کمر اور گردن کے جوڑ ہڈیوں کے جوڑ، یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں جن سے ہمارا جسم کام کرنے کے قابل بنتا ہے۔ ان کا حق یہ ہے کہ ہم ان سب کو ان کے خالق کے آگے جھکا کر یعنی سجدہ کرکے اللہ کا شکر ادا کریں۔
میدانِ حشر میں ان لوگوں سے جو دنیا میں سجدہ ریز نہیں ہوتے تھے یعنی نماز نہیں پڑھتے تھے ان سے کہا جائے گا کہ سجدہ کریں لیکن وہ سجدہ نہیں کرپائیں گے اس لیے کہ یہ تمام جوڑ جو سجدہ میں کام کرتے تھے وہاں وہ کام نہیں کریں گے۔ جوڑوں کا کام نہ کرنا آخرت کی بہت بڑی سزا ہوگی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے۔ اِن کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلّت ان پر چھا رہی ہوگی۔ یہ جب صحیح و سالم تھے اس وقت انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا (اور یہ انکار کرتے تھے) [سورۃ القلم ۴۲، ۴۳]
نماز بندہ کے لیے روحانی غذا فراہم کرتی ہے۔جس طرح جسم کے زندہ رہنے کے لیے غذا، پانی اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کی زندگی کے لیے بھی مسلسل خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ روزہ سال میں ایک مہینہ کے لیے رکھا جاتا ہے۔ زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ دی جاتی ہے۔ حج زندگی میں ایک مرتبہ کیا جاتا ہے لیکن نماز دن میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔ جس طرح ہم جسم کو توانا رکھنے کے لیے دن میں تین بار کھاتے ہیں اور ہر چند گھنٹوں کے بعد پانی پیتے ہیں اسی طرح روح کی زندگی کے لیے دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے حضور حاضری لازمی ہے۔ نماز کے ذریعے روح کو تقویت بھی ملتی ہے اور شیاطینِ جن و انس سے اس کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔
شیطان کا سب سے بڑا حملہ نفسانی خواہشات کے ذریعے ہوتا ہے اور ایک انسان اس سے بچ ہی نہیں سکتا جب تک کہ اللہ کی آغوش میں اس کو پناہ نہ ملے۔ اللہ کی آغوش نماز ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ ۱۵۳)
اس آیت میں نماز سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ صبر سے مدد لینے پر ابھارا گیا ہے اور صبر کو نماز سے پہلے لایا گیا ہے۔ صبر سے مراد ہے جذبات پر، خواہشاتِ نفس پر، ڈر اور خوف پر، لالچ اور حرص پر، غصے پر اور ہر طرح کی مصیبت اذیت اور نقصانات پر قابو پانا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے)
نماز اسی صورت میں پڑھی جاتی ہے جب ایک آدمی کو نیند پر اور خواہشاتِ نفس پر قابو ہو اور اپنی دل پسند مصروفیا ت پر اللہ کی محبت غالب ہو اور اس کی نافرمانی کے انجام کا ڈر اور خوف ہو۔ یہ صبر کی کیفیت ہے، اس صبر کے بعد ہی بندہ کو نماز پڑھنے کی توفیق ملتی ہے۔ پھر نماز اس کے لیے اللہ کی آغوش ثابت ہوتی ہے جس میں پنا ہ لے کر بندہ مومن شیطان کے حملوں سے بچ سکتا ہے۔ گویا نماز ایک ڈھال shield کی طرح کام کرتی ہے جس سے مدد لینے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
سورۃ فاتحہ کے بعد جب ہم سورہ البقرۃ کا آغاز کرتے ہیں تو فرمایا گیا کہ :یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
ان آیات میں قرآن سے ہدایت کے لیے تین شرطوں کو پیش کیا گیا ہے۔ ان میں پہلی شرط معرفت کی شرط ہے۔ یعنی انسان اتنا عقل مند ہو کہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر اور احسانات کو محسوس کرکے وہ اس کو بغیر دیکھے اس کو پہچان لے۔ معرفت کے بعد دوسری شرط ہے اللہ کی اطاعت۔ اطاعت کا پہلا مظہر نماز کی اقامت ہے۔تیسری شرط ہے ہر محبت پر اللہ کی محبت کا غالب ہونا۔ محبت کا مظہر یہ ہے کہ اپنی محنت سے کمائے ہوئے مال کو اللہ کی خاطر خرچ کرے۔
اہلِ ایمان کی سب سے پہلی صفت یہ ہے کہ وہ نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں: ’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں…اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔(سورۃ المومنون آیات ۱، ۲، ۹)
سورۃ المومنون کا آغاز مومنوں کی صفات سے کیا گیا ہے۔ ایسے مومنوں کے لیے فلاح کی ضمانت ہے۔ مومنوں کی صفات میں سرِ فہرست جو صفت بیان کی گئی ہے وہ ہے نماز میں خشوع و خضوع اور آخری صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
یہ عجیب وغریب معاملہ ہے کہ نماز کے دوران خیالات جتنے منتشر ہوتے ہیں وہ کسی دوسرے کام میں نہیں ہوتے۔ نماز میں یکے بعد دیگرے مختلف النوع چیزیں یاد آنے لگتی ہیں کہ ان کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں پاتا۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان ہماری نمازوں میں مداخلت کرکے ہماری نمازوں کو بے اثر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے نماز کے آغاز میں ثنا کے بعد تعوذ پڑھا جاتا ہے لیکن شاید ہم بے شعوری میں پڑھتے ہیں۔
ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم کو نماز سے اتنا ہی فائد ہ پہنچتا ہے جتنا ہمارا دھیان اللہ کی طرف ہوتا ہے: حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے ’’انسان نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لیے اس کی نماز سے صرف دسواں نواں آٹھواں ساتواں چھٹا پانچواں چوتھا تیسرا اور آدھا حصہ ہی لکھا جاتا ہے‘‘۔ ایک اور جگہ ہے: نماز کے آغاز سے ہی ہماری شیطان سے جنگ شروع ہو جاتی ہے اور شیطان ہماری نمازوں سے اکثر اچک لیتا ہے (اجر کو چرالیتا ہے)
نماز میں خشوع سے مراد نماز میں احسان کی کیفیت کو پیدا کرنا ہے۔ احسان کی کیفیت یہ ہے کہ ایسی نماز ہو جیسے ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم یہ احساس تو رہے کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ خشوع کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ نماز میں جو کچھ پڑھا جا رہا ہے اس کے معنی و مفہوم پر نظر رہے۔
ابن القیم جوزی نے اپنی کتاب’وابل الصیب‘ میں لکھا ہے کہ نماز کے پانچ درجے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے ارکان ہی صحیح ادا نہ کرے نہ اس کا وضو صحیح ہو نہ ہی اس کے رکوع و سجود صحیح طریقے پر ادا ہوں اور نہ ہی اس کی نمازیں وقت پر ادا ہوں۔ ایسی نماز پر پکڑ ہوگی اور سزا بھی ملے گی۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ نماز کے ارکان صحیح ادا ہوں لیکن اس میں خشوع وخضوع اور اللہ کی طرف دھیان نہ ہو۔ ایسے بندے کی نماز کا یومِ قیامت حساب ہوگا۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ ایک بندہ نماز میں خیالات کو بار بار اللہ کی طرف موڑنے کی جد وجہد کر رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو معاف فرمائے گا۔ چوتھا درجہ یہ ہے کہ نماز میں پوری طرح وہ اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ پانچواں درجہ یہ ہے کہ بندہ مومن نماز میں اپنا دل مکمل طور پر اللہ کے حوالے کرچکا ہو۔ اس درجہ کی نماز سے بندے کو اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔
اس بندے کی تعریف کی گئی ہے جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا رہتا ہے اور مسجد میں دل اسی وقت اٹکا ہوا رہتا ہے جب مسجد اللہ تعالیٰ کی آغوش بن جائے جہاں ایک بندے کو یقین ہو کہ اس کی ہر دعا اور التجا سنی جائے گی اور مسجد وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی ہیں۔
اس دنیا میں اسلام اور کفر کے درمیان بظاہر فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ مسلم اللہ کی پکار پر لبیک کہتا ہوا مسجد کا رخ کرتا ہے جبکہ کافر اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا۔ حدیث میں ہے کہ ’’بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) ترک نماز ہے‘‘ (مسلم)
آخرت میں اہل جنت اور اہلِ جہنم میں فرق کو اہلِ جہنم کے قول سے یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔(سورۃ المدّثر)
قیامت میں سب سے پہلا حساب نماز کے بارے میں لیا جائے گا ۔حدیث میں ہے كہ قیامت كے دن بندے كا سب سے پہلا حساب نماز كے بارے میں لیا جائے گا۔ اگر وہ درست رہی تو اس كے سارے عمل درست رہیں گے، اور اگر وہ خراب رہی تو اس كے سارے عمل خراب رہیں گے۔
نماز سے اعراض کا وبال :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو اللہ کے ذکر سے اعراض برتے گا اللہ اس کی زندگی کو تنگ کردے گا: اور جو میرے ’ذکر‘ سے منہ موڑے گا اس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔(سورۃ طہ ۱۲۴۔)
اس آیت میں ذکر سے مراد نماز ہے اور قرآن بھی ہے۔ نماز میں بندہ اللہ سے کلام کرتا ہے اور قرآن کے ذریعے اللہ بندے سے کلام کرتا ہے۔ اس طرح یہ دو طرفہ اللہ سے مکالمہ اللہ سے بندے کے تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔جو کوئی اس تعلق سے محروم رہتا ہے اس کی زندگی اس دنیا میں تنگ ہوجاتی ہے چاہے وہ دنیا میں کتنا ہی مال دار ہو اور وہ آخرت میں نامراد اور ناکام ہوگا۔ جو قرآن کی بصیرت افروز تعلیمات سے محروم ہوگا قیامت میں وہ بصارت سے محروم ہوگا۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق کی اعلیٰ ترین کیفیت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو اس وقت پکارے جب سارا عالم سوتا ہے۔ اللہ کے خاص بندوں کی صفات میں سے اہم صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ راتوں میں قیام کرتے ہیں: یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں، راستباز ہیں، فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔(سورۃ آل عمران ۱۷)۔
نماز دین کا ایک ستون ہے لیکن یہ عمارت نہیں ہے۔ عمارت کیا ہے؟ اسلام کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی اطاعت، اسلام کی عمارت ہے۔ ہر عمارت کو ستون سہارا دیتے ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصد عبادت ہے (سورۃ الذاریات ۵۶) نماز ساری زندگی کو عبادت بنانے میں مدد کرتی ہے۔عبادت کی چوٹی یہ ہے کہ امت مسلمہ اس مقصد کو پورا کرے جس کے لیے اس کو برپا کیا گیا ہے۔ امت کا مقصدِ وجود ہے شہادت علی الناس، دعوت الی اللہ، امربالمعروف ونہی عن المنکر اور بالآخر اقامتِ دین۔
مری زندگی کا مقصد ترے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023