نقلی دواوں کا کاروبار۔انسانی جانوں سے کھلواڑ

برآمدکردہ ادویہ کے بارے میں مسلسل شکایات۔ غیر معیاری فارما کمپنیاں بھارت کو دنیا میں شرمسار کرنے کاسبب

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہمارے ملک میں ڈرگ کوالیٹی کنٹرول کرنے کا حسب ضرورت اور اطمینان بخش انتظام نہیں ہے جو تمام دس ہزار پیداواری اکائیوں پر کڑی نگرانی رکھ سکے اور دواوں کی بہتر کوالیٹی کو بازار لانے میں معاون ہو۔
ہمارے ملک کو دنیا کا فارماسیوٹیکل ہب یعنی عالمی دواخانہ کہا جاتا ہے، لیکن جس رفتار سے نقلی دواوں کا کاروبار یہاں شروع ہوا ہے وہ ہمیں پورے عالم میں شرمسار کر رہا ہے۔ دراصل کم وقت میں زیادہ کمانے کی ہوڑ اور ہوس نے ہمیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ ساتھ ہی سرکاری عملوں کے اندر کرپشن نے انہیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اسی سال 28 جولائی کو بلومبرگ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ چنئی میں واقع ایک کمپنی سے عراق بھیجی جانے والی کولڈ آوٹ کف سیرپ کے نمونے میں ضرورت سے زیادہ یعنی اکیس گنا ایتھائیل گلائیکول پایا گیا۔ یہ تجربہ امریکہ کے ایک معتبر اور عالمی صحت تنظیم (WHO) کا سند یافتہ تجربہ گاہ میں کیا گیا۔ اسی سال بلومبرگ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے مارشل آئی لینڈ اور مائیکرونیشیا میں کھانسی کی دوا کا مشتبہ نمونہ پایا تھا اور یہ سیرپ بھی بھارت کی کسی کمپنی کی تیار کردہ تھی۔ اس میں بھی ڈائی ایتھنائیل گلائیکول اور ایتھنائیل گلائیکول کے زہریلے مادے پائے گئے تھے۔ یکم اگست کو بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارت کی دوا ساز کمپنی نے گھٹیا کوالیٹی والی اسقاط حمل کی گولیاں ایک غیر سرکاری تنظیم کو فروخت کیں جس نے انہیں دنیا بھر میں پھیلا دیا۔ اس کے علاوہ بھارتی دوا ساز کمپنیوں کے ایسے نقلی اور جعلی دواوں کے کاروبار سے انڈونشیا، ازبکستان اور گمبیا جیسے افریقی ممالک میں ہونے والی درجنوں اموات سے بھارتی ڈرگ کوالیٹی پر لوگوں کا بھروسہ ختم ہونے لگا ہے۔
یاد رہے کہ ہمارے ملک میں ڈرگ کوالیٹی کنٹرول کرنے کا حسب ضرورت اور اطمینان بخش انتظام نہیں ہے جو تمام دس ہزار پیداواری اکائیوں پر کڑی نگرانی رکھ سکے اور دواوں کی بہتر کوالیٹی کو بازار لانے میں معاون ہو۔ ایسے حالا ت میں سبھی دوا ساز کمپنیوں کو برآمدات کی اجازت دینے سے پرہیز کرنا ہوگا کیونکہ بعض کمپنیاں اپنی دوا کی کوالیٹی کے بجائے اپنے فن اور ہنر مندی سے خریدار تلاش کرلیتی ہیں۔ دنیا میں کل دوا کا بازار کئی ٹریلین ڈالر کا ہے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق ہماری دواوں کی برآمدات سالانہ پچیس بلین ڈالر کی ہیں جبکہ اس شعبہ میں امکانات اس سے کئی سو گنا زیادہ ہیں۔ صرف جنریک دوا کی صنعت اکیلے ہی بآسانی دس گنا تک بڑھ سکتی ہے اور اس سے روزگار کی فراہمی بھی ہوسکتی ہے اور اچھا خاصا منافع بھی حاصل ہو سکتا ہے جن کا مقابلہ آئی ٹی شعبہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا شعبہ نہیں کر سکتا۔ مگر ایسے تمام تر امکانات پر چھوٹے اکسپورٹرس کے ذریعہ بازار میں گھٹیا ادویات لانے اور انہیں بنانے میں گھٹیا سالموں کا استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں اس پر نکیل کسنے کے لیے کوئی مناسب ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ اس لیے ملک کو ادویات کے برآمدات کے لیے ڈرگس کوالیٹی کنٹرول کا نظام ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔ لہذا ملک کے لیے محض ایسی ہی کمپنیاں آگے آئیں جن کا ٹرن اوور ایک ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہو کیونکہ یہ لوگ ہوس پرست چھوٹی کمپنیوں کی طرح حرکت نہیں کریں گے، کیونکہ ایسی چھوٹی کمپنیوں کا ایک جگہ راستہ بند ہوجاتا ہے تو وہ اس کے بدلے میں دوسری جگہ یونٹ قائم کرلیتے ہیں اس لیے ان پر سخت نگرانی ضروری ہے۔ پہلے وہ اپنا مال گھریلو بازار میں لاکر اپنی ساکھ بحال کریں یا اسے دوسری بڑی کمپنیوں کو فروخت کریں۔ جب ان کی ساکھ ملک میں بن جائے گی تب ہی انہیں برآمدات کی اجازت ملنی چاہیے۔ ایسی چھوٹی کمپنیوں کے لیے بہت غور و فکر کے بعد ایسے ضابطے متعین کرنے ہوں گے تاکہ بھروسہ مند اور بہتر دواوں کا ہی اکسپورٹ ہو سکے، ساتھ ہی اکسپورٹ کے لیے لائسنس کا حصول بھی لازم ہو۔
اب حکومت نیند سے جاگی ہے۔ خیر جب جاگے تبھی سویرا۔ دوا ساز کمپنیوں پر لگام لگانے کے لیے مرکزی حکومت نے ان کمپنیوں کو اپنی کوالیٹی میں اصلاح کے لیے ایک متعینہ مدت طے کی ہے۔ متوسط اور چھوٹی کمپنیوں کے لیے ایک سال اور بڑی دوا ساز کمپنیوں کے لیے چھ ماہ کی مدت میں ادویہ کوالیٹی کو ڈبلیو ایچ او کے پیمانوں پر چلانا ہوگا کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک برآمد کی گئی ہیں۔ ادویات کے سلسلے میں مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ مذکورہ بلومبرگ کی رپورٹوں کے علاوہ سری لنکا کے دو مریضوں کی ملک میں تیار کردہ انستھیٹک دواوں نے جان لے لی ہے۔ مئی میں ملک میں تیار کردہ آئی ڈراپ کی وجہ سے تیس مریضوں کی آنکھیں خراب ہوگئیں اور اس میں سے دس مریض تو پوری طرح اندھے ہوگئے۔ اس سے قبل امریکہ میں مذکورہ آئی ڈراپ کی وجہ سے چند مریض اندھے ہوئے پھر ان کی موت ہوگئی۔ اس ڈراپ میں امریکہ کے ایک تجربہ گاہ میں تجربہ کے دوران بیکٹریا کی دریافت ہوئی۔ اس طرح کے متعدد حاثات سے بھارت میں تیار کردہ گھٹیا دواوں سے ملک کے شعبہ طب کو دھچکا لگا ہے، اس کے بعد ہی حکومت پر لازمی اقدام اٹھانے کے مطالبات بڑھتے گئے۔ واضح رہے کہ ملک میں کل ملا کر دس ہزار پانچ سو دوا ساز کمپنیاں ہیں جن میں محض دو ہزار کمپنیاں ڈبلیو ایچ او کے پیمانوں پر پوری اترتی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ڈرگس اور کیمسٹ ایکٹ کے تحت شیڈول ایم نام کی شق کو شامل کیا گیا تھا جس میں بعد میں ترمیم ہوئی، مگر یہ شق لازمی نہیں ہے۔ اب مرکزی حکومت نے ایسے اشارے دیے ہیں کہ دوا ساز کمپنیوں نے اگر ٹھیک سے کام نہیں کیا تو اسے لازمی کر دیا جائے گا۔ ملک میں تیار کردہ دوائیں خواہ اندرون ملک استعمال ہوں یا بیرون ملک ان کا تحفظ اور کوالیٹی، دونوں پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ بھارت میں جینرک دوائیں بڑی مقدار میں تیار کی جاتی ہیں اس لیے دوا ساز کمپنیوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ نقلی دواوں سے ہر سال تین لاکھ سے زائد لوگوں کی موت ہو جاتی ہے۔ عالمی سطح پر اس کاروبار کا دائرہ تیس ارب ڈالر کا ہے۔ نقلی دواوں کا کاروبار بڑھنے سے فارما کمپنیوں کو بڑے خسارے کا اندیشہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بھارت میں گھٹیا کیمیکل، کم کیمیکل یا ضروری کیمیکل کے بغیر ہی دوائیاں تیار کی جا رہی ہیں، اس کے ساتھ ہی ایکسپائرڈ ڈرگس کے کاروبار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ انڈین فارماسیوٹیکل اپلائنس (IPA) کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بھارتی فارما صنعت 2031ء تک 1130 ارب ڈالر تک بڑھنے کا امکان ہے۔ ہمارا ملک دنیا کا تیسرا بڑا فارما صنعت والا ملک ہے جو آج دنیا کی دو سو سے زائد ممالک کو دوائیں برآمد کرتا ہے۔ ساتھ ہی ایشوچیم کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں نقلی دواوں کا کاروبار دس بلین امریکی ڈالر کا ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ نقلی دواوں کی پیداوار بھارت میں ہی ہوتی ہے۔ اس کے تدارک اور کنٹرول کے لیے بھارت میں بہت زیادہ ٹیسٹنگ تجربہ گاہوں کی ضرورت ہے۔ دواوں کے تاجروں کے اسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جن بازاروں میں دوائیاں تقسیم کی جاتی ہیں وہاں تقسیم کار اصل دواوں کے ساتھ نقلی دوائیں بھی ملا دیتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ایک عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقسیم کی جانے والی دواوں میں سے ایک دوا نقلی یا گھٹیا ہوتی ہے۔ دوسری طرف امریکی ٹریڈ ریپرینزٹیٹیو آفس کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں بیچی جانے والی دوائیوں میں بیس فیصد نقلی یا گھٹیا پائی گئیں ہیں۔ نقلی دواوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت اب دواوں پر کیو آر کوڈ لگانے جا رہی ہے جسے اسکین کرنے پر دوا کے بارے میں اصلی و نقلی کا پتہ چل جائے گا۔ ڈبلیو ایچ او نے اسی ہفتے گولڈ آوٹ نامی کف سیرپ کے بارے میں پانچویں بار انتباہ جاری کرنے کے بعد اب عالمی الرٹ جاری کر دیا ہے کیونکہ اس کے زہریلے اثرات سے قے، اسہال، سر درد، پیٹ درد و دیگر شدید نقصان کا بھی احتمال ہے جو موت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023