نقد و نظر‘: ایک صحافی کی روحانی و فکری جولانیاں

مبصر: عارف اقبال

بزرگ خطاط اور کہنہ مشق صحافی جلال الدین اسلم صاحب کی ادبی و صحافتی خدمات تقریباً 50 برسوں کو محیط ہے۔ عمر کے 80ویں سال کو عبور کرنے کے باوجود ان میں علمی، ادبی، صحافتی اور دانشورانہ نشاط اور سوجھ بوجھ بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ممکن ہے کہ ضعف کے سبب اس وقت وہ اپنے کمرے سے باہر نکلنے میں حد درجہ احتیاط کرتے ہوں لیکن ان کی ذہنی توانائی الحمدللہ برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے میں انہوں نے درجنوں ایسے مضامین تحریر کیے ہیں جن کے مطالعہ سے ان کے دانشورانہ افکار اور تجزیے کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے طویل صحافتی تجربات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے امداد صابری، عثمان فار قلیط، سلمان ندوی، عشرت علی صدیقی، سلامت علی مہدی، محمد مسلم اور محفوظ الرحمن جیسے جید صحافیوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ان کا تعلق سہ ماہی اور ہفت روزہ دعوت کے علاوہ روزنامہ قومی آواز اور پیلو مودی کے اخبار ’مارچ آف دی نیشن‘ سے باضابطہ رہا ہے۔ اس طرح رسائل میں رامپور کے ماہنامہ نور، مشاہدہ، محراب وغیرہ سے بھی وہ منسلک رہے۔ وہ ’انقلاب‘ اور ’راشٹریہ سہارا‘ کے علاوہ ’اخبار مشرق‘ اور ’روزنامہ خبریں‘ کے کالم نگار بھی رہے ہیں۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ اگر ’انسانیت‘ اور ’انسانی اقدار‘ سے کوئی شخص عاری ہو تو یقینی طور پر اس کی تحریروں میں وہ بات نمایاں نہیں ہو سکتی جو کسی تحریر کی اصل روح ہوتی ہے۔ جلال الدین اسلم کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ وہ عام اردو صحافیوں کے علی الرغم ان تمام کمزوریوں اور خرابیوں سے گریز کرتے رہے جن کی وجہ سے عام صحافیوں کا کردار ہمیشہ مشکوک رہتا ہے۔ اسلم صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ان خوش نصیبوں میں شامل کیا ہے جن کی فکری تطہیر دراصل ان بزرگوں کی مرہون منت ہے جن کے دامن میں فقیری اور بوریا نشینی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جو دنیا کے حریص نہیں ہوتے بلکہ دنیا ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جلال الدین اسلم کا نظریہ صحافت یوں ہی قائم نہیں ہوا بلکہ انہوں نے برسوں اس دشت کی سیاحی کی ہے اور آبلہ پائی کو برداشت کیا ہے جہاں بڑے دانشور اور صحافی قدم رکھتے ہوئے خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
زیر نظر کتاب ’نقد و نظر‘ کا انتساب جن چار عنوان سے کیا گیا ہے ان میں ایک عنوان ’الحمدللہ‘ ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اُن تمام اہل قلم کے نام جو انتہائی نا خوش گوار اور نامساعد حالات میں ’علم فرائض‘ کی خشک ہوتی ہوئی زمین اپنے خونِ جگر سے سیراب کر رہے ہیں۔‘‘
ایک دوسرا انتسابی عنوان ہے ’قسم ہے قلم کی‘۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’صحافت کا پیشہ ضمیر فروشی نہیں نفس کشی ہے۔ لذتِ دنیا سے اپنا دامن بھرنے والے کبھی اچھے صحافی نہیں ہو سکتے، صحافت کی راہِ پُر خار پر صرف وہی لوگ چل سکتے ہیں جنہیں اپنے پاوں کے آبلے کی پروا نہ ہو۔‘‘
اندازہ کیجیے کہ اِن فکر انگیز اور دانشورانہ باتوں کے بین السطور میں کتنی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور زندگی کے لیے یہ کتنا شفاف اور بلیغ استعارہ ہے۔ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جس کی زندگی ایک مشن کے ساتھ گزر رہی ہو اور ایک واضح نصب العین کے ساتھ اس نے زندگی کی پُر خار راہوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھا ہو تاکہ جس قدر ممکن ہو زندگی کو آلائشوں سے پاک رکھا جاسکے۔
’نقد و نظر‘ تقریباً 167 متنوع موضوعات کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان مضامین پر ایک سرسری نظر ڈالنے ہی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے مصنف جلال الدین اسلم کا قلم و قرطاس سے رشتہ کس قدر مستحکم ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے تمام خیالات اور اظہار رائے سے اتفاق کیا جائے لیکن مجموعی طور پر ان کے مطالعے سے ذہن میں جو تصویر بنتی ہے اس میں ایک دیانت دار اور ایمان دار صحافی و دانشور کی شبیہ نظر آتی ہے۔ اس کتاب کا ’مقدمہ‘ صحافی ظفر انور شکر پوری نے لکھا ہے اور ’دیباچہ‘ معروف اردو صحافی سہیل انجم کے قلم سے ہے۔ معصوم مرادآبادی نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مصنف نے ’اعتراف‘ کے عنوان سے اپنی تحریر میں لکھا ہے:
’’دراصل کتابت و صحافت علم و ادب کی وہ راہ داریاں ہیں جو علوم و فنون کے شہ سواروں کو اس مقام کی چوکھٹ تک پہنچا دیتی ہیں جہاں خیر و شر کا انتخاب کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح صحافت و سیاست کے درمیان بھی ایک بہت ہی باریک سی لکیر ہوتی ہے جو عملی طور پر دونوں کو تقسیم کرتی ہے اور یہی لکیر جب تک قائم رہتی ہے تب تک ہی دونوں پیشوں کی پہچان باقی رہتی ہے۔‘‘ (صفحہ 31)
’صحافت اور سیاست‘ کے حوالے سے مصنف نے ایسی گہری بات لکھ دی ہے جس کی تشریح میں کئی صفحات سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔ اس کتاب کے اجرا کے دوران میں ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ مضامین کی ترتیب موضوع کے اعتبار سے کی جانی چاہیے تھی۔ اگر 80 سال کا کوئی مصنف اپنی دستاویز کو سمیٹ رہا ہو تاکہ محفوظ ہو جائے، تو اس سے اس تکلف کے اہتمام کا تقاضا نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ یہ کام ان کے ’غم خواروں‘ کو انجام دینا چاہیے تھا۔ تاہم، اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اوّل مضمون کا عنوان ہے: ’مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی: ایک بوریا نشین قائد‘ اور آخری مضمون کا عنوان ہے: ’رہِ بہار سے ہم بے نشاں نہیں گزرے (مولانا مودودیؒ کے یومِ وفات پر خراجِ عقیدت)‘۔ گویا ان دونوں مضامین کے درمیان میں وہ 165 مضامین ہیں جن کی فکری کاشت شاید انہی دونوں بزرگوں کے افکارِ صالحہ کی زمین پر کی گئی ہے۔
اس کتاب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے جن چند صحافیوں کے نام بتائے گئے ہیں، ان میں ’ابواللیث اصلاحی ندوی‘ کا نام شامل نہیں ہے، جو ایک زمانے میں خود اسلامی و ادبی صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کا گھریلو نام ’شیر محمد‘ تھا۔ ان کی رحلت 5 دسمبر 1990 کو چاند پٹی (اعظم گڑھ) میں ہوئی۔ ان کے بارے میں صفحہ 5 پر ’رحیلِ کارواں‘ کے لقب کے ساتھ فاضل مصنف لکھتے ہیں:
’’شیر ادبی نیند سو گیا، کچھار سونی ہو گئی۔‘‘
یہاں کتاب کے تمام موضوعات اور عنوانات کا احاطہ کرنا اور تعارف پیش کرنا آسان نہیں۔ لہٰذا چند موضوعات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
فاضل مصنف نے ’مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی‘ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آزادی کے بعد، جبکہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے قریبی رفقا نے پاکستان کو اپنا وطن بنا لیا تو اس وقت جو ہاتھ مسلمانوں کی دست گیری کے لیے آگے اٹھا تھا اور تحریک اسلامی کی تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانوں کو جن ہاتھوں نے جوڑنے کی کوشش کی تھی، وہ مولانا ابواللیث ندوی کے ہی ہاتھ تھے… 1948 میں انہیں جماعت اسلامی ہند کا امیر منتخب کیا گیا اور اس کے بعد 1972 تک وہ اس منصبِ جلیلہ پر مسلسل فائز رہے۔
فاضل مصنف نے آگے جو باتیں لکھی ہیں وہ چونکانے والی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اکتوبر 1972 سے لے کر مارچ 1990 تک کا یہ زمانہ مولانا مرحوم کے لیے سخت ذہنی اذیت کا زمانہ رہا ہے۔ اس مدت کے دوران وہ لوگ پوری طرح سرگرم رہے جو مولانا کی دوبارہ آمد کو اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ کچھ لوگ مولانا کے خلاف مسلسل سازش کرتے رہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے اور دستورِ جماعت میں ترمیم کر کے انہیں بالکل بے دست و پا بنا دیا۔ انہیں اس بات کے لیے مجبور کر دیا گیا کہ وہ ہر اس بات کو مان لیں جس پر جماعت کے قیم اور دو سکریٹری متفق ہیں۔‘‘ (صفحہ 36)
فاضل مصنف نے آگے لکھا ہے کہ دہلی میں ان کی موجودگی میں جب نئی شوریٰ کا اجلاس ہوا تو وہ اس کی کسی نشست میں شریک نہیں رہے۔ وہ اپنے بہت ہی قریبی لوگوں سے بڑے دکھ اور درد کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ:
’’جماعت ہے کہاں؟ وہ تو کب کی ختم ہو چکی ہے۔‘‘
واضح ہو کہ یہ بات اسلم صاحب نے صرف عقیدت میں نہیں لکھی ہے بلکہ اس تحریر کو ایک دیانت دار صحافی کا مصدقہ انکشاف خیال کیا جانا چاہیے۔
جلال الدین اسلم اپنے ایک مضمون ’مسلمان مغرب کو کبھی خوش نہیں کر سکتے‘ (صفحہ 365) میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’…سعودی عرب سے آنے والی خبروں کے مطابق اب وہاں نہ صرف یہ کہ ’علمائے حق‘ کو گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ ’درباری علما‘ کو ابھارا بھی جا رہا ہے اور یہ بھی کہ ایک ایسا شہر آباد کیا جائے، جہاں صرف وہی لوگ آباد ہوں گے جو ولی عہد کے ماڈریٹ اسلام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں۔‘‘
6 دسمبر 1992 بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے اپنے مضمون (صفحہ 370) میں لکھا ہے:
’’بے شک مسلمانوں کے درمیان بھی مسلمان نما موجود ہیں جو آپ کی چال کا مہرہ بنے ہوئے ہیں، جن کی حیثیت عام مسلمانوں کے درمیان ایک دلالِ لا اعتبار جیسی ہمیشہ رہی ہے۔ یہ مہرے چاہے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ہوں یا شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے، ان کی قدر و قیمت چند سکوں سے زیادہ کبھی تھی نہ اب ہے۔‘‘
’بے بصیرت قیادت‘ کے عنوان سے فاضل مصنف لکھتے ہیں:
’’…تقسیمِ ملک کے بعد اس ملک کا مسلمان سیاسی بصیرت و شعور اور دور اندیشی سے محروم ہو گیا ہے اور آئندہ یعنی 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ایسا لگ رہا ہے کہ پہلے کی طرح ہی مسلمانوں کا آپسی انتشار ان کی بے وزنی کا سبب بن رہا ہے۔‘‘ (صفحہ 456)
فاضل مصنف نے اپنے ایک مضمون (صفحہ 515) میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’…شام اس وقت تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ فلسطین دھیرے دھیرے چھینا جا رہا ہے اور ممکن ہے جلد ہی اسپین بن جائے اور مسلمان ناقابلِ معافی مجرمانہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔‘‘
’سنگھ پریوار‘ کے حوالے سے ایک مضمون میں مصنف لکھتے ہیں:
’’…بلاشبہ تاریخ میں نفرت و حقارت بھی ہوتی ہے لیکن سنگھ تو نفرت و حقارت کو دائمی تاریخ میں ڈھال رہا ہے۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ ہندو ہی ملک کے اصل باشندے ہیں، مسلمان تو باہر سے آئے درانداز ہیں، لیکن یہ کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ موجودہ ہندوؤں کے بزرگ آریا تو خود در انداز تھے۔‘‘ (صفحہ 521)
حضرت امام حسینؓ کے تقدس پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’علمائے کرام، واعظین اور ذاکرین حضرات سے گزارش ہے کہ فرقہ واریت کے فتنہ کی کھل کر مذمت کریں۔ امام حسین اور آئمہ اہلِ بیت کسی فرقے کے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے محترم ہیں۔ ان کی محبت دین کا حصہ ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما شیعہ اور سنی کے درمیان رواداری پر زور دیں اور اختلافی امور کو وجہِ فساد نہ بننے دیں۔‘‘ (صفحہ 583)
جلال الدین اسلم نے اردو زبان کے حوالے سے کئی مضامین لکھے ہیں۔ نمونے کے طور پر ایک مضمون ’اردو کا گھر نکالا‘ (صفحہ 358) کا یہ اقتباس دیکھیے:
’’اردو کے پرستاروں نے تو انجمن ترقی اردو اترپردیش کے تحت دستخطی تحریک بھی چلائی اور بیس لاکھ افراد کے دستخطوں سے صدر جمہوریہ ہند کی خدمت میں میمورنڈم بھی پیش کیا، جسے اردو کے دشمنوں کے ’الاؤ‘ میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد سے ہی سیاسی کرتب بازوں نے کرتب دکھانے شروع کر دیے، کسی نے بگلا بھگت کا تو کسی نے مگر مچھ کا رول ادا کیا۔‘‘
اردو کی موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں مذکورہ بالا اقتباس پر غور کرتے رہیے، شاید کہ نکتے کی بات سمجھ میں آ جائے۔ اس ضخیم کتاب کے تمام ہی مضامین اس لائق ہیں کہ ان کا بالاستیعاب مطالعہ کیا جائے تاکہ موجودہ ہندوستان کے ساتھ بین الاقوامی مسائل پر فاضل مصنف کے خیالات سے لطف اندوز ہو سکیں۔
معصوم مرادآبادی کی رائے کتاب کے سرورق کی پشت پر موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جلال الدین اسلم ایک بہترین خطاط، صحافی اور ادیب ہی نہیں بلکہ ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ ان کی طبیعت میں مروت، رواداری، درمندی اور دل سوزی کے جو عناصرِ اربعہ ہیں، وہ دراصل انہیں ’انسانِ کامل‘ ہونے کی سند عطا کرتے ہیں۔‘‘
اس رائے میں معصوم صاحب نے مبالغہ آرائی کی ہے۔ یقینی طور پر اپنے کردار اور افکار کے لحاظ سے اسلم صاحب ایک اچھے انسان ہیں۔ لیکن کسی اچھے انسان کی شان میں ’بہترین‘ اور ’انسانِ کامل‘ کی اصطلاح شاید غلو کی انتہا ہے۔ ’انسانِ کامل‘ تو ہم اپنے رسول اللہ ﷺ کی شان میں ہی استعمال کر سکتے ہیں۔
ابتدا میں عرض کیا گیا تھا کہ جلال الدین اسلم نے بانی تحریکِ اسلامی ہند (غیر منقسم) کے یومِ وفات پر خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس لیے آخر میں انہی کی تحریر سے ’علامہ مودودی‘ (1903–1979) کے لیے ان کا خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ بڑے ادیبانہ اسلوب میں جلال الدین اسلم اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اس کی راہ مصائب و مشکلات سے بھرپور ثابت ہوئی لیکن وہ مرد حق اپنی راہ پر آگے بڑھتا ہی چلا گیا۔ اسے گالیوں کے تحفے ملے لیکن وہ بے مزا نہ ہوا۔ وہ زینت زنداں بنا مگر سرگرم سفر رہا۔ وہ دار و رسن کے مرحلوں تک پہنچا لیکن فاتح بن کر لوٹا، اس کی راہوں میں نوکیلے خار بچھائے گئے لیکن حرفِ شکایت زبان پر نہ لایا۔ وہ نگاہِ غیر کا کانٹا بھی تھا اور اپنوں کی مشقِ ستم کا شکار بھی لیکن اس کا پیمانہ صبر لبریز نہ ہوا۔ اس پر گُل پاشی کم اور سنگ باری زیادہ کی گئی لیکن ہر زخم اس کے شوقِ منزل کے لیے مہمیز ثابت ہوا۔ افکار باطل کے ایوان اس کے نام سے لرزاں و ترساں تھا کہ وہ مردِ توحید تھا۔ مصائب اس کے پائے ثبات کو متزلزل نہ کرسکے۔‘‘ (صفحہ 645-646)
بانی تحریک کے بارے میں اس خراج عقیدت کے بعد کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسلم صاحب ’تحریک اسلامی ہند‘ اور اس سے منسلک اہم شخصیات کی قربانیوں سے واقف نہیں۔ اس لیے اسلم صاحب کی رائے کو ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا۔
توقع ہے کہ ’نقد و نظر‘ کے اس مجموعہ مضامین کی بھرپور پذیرائی کی جائے گی۔ اس سے قبل فاضل مصنف کی آپ بیتی ’اوراقِ زندگی‘ کے نام سے 2023 میں شائع ہوچکی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025