نجات و ہلاکت کے اسباب

ہدایت اور گمراہی دونوں ہی راہوں کو بالکل واضح کردیا گیا

محمد عزیز صائب المظاہری

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین صفات (دنیا و آخرت میں آدمی کو پستی و ذلت سے اور عذاب اور رسوائی سے) نجات اور چھٹکارا لانے والی ہیں (اور وہ یہ ہیں)
تقویٰ اللہ (خوف خدا)
قول حق۔ کسی سے راضی ہوں یا ناراض، بات بہر حال حق ہی کہی جائے۔
میانہ روی۔ خواہ خوش حالی کا دور ہو یا فقر و احتیاج کا۔
قوموں اور افراد کو تباہ و ہلاک کردینے والے سیرت و کردار بھی تین ہیں۔
ہوا و ہوس جس کی ہر اکساہٹ قابل اتباع بن جائے۔
وہ تنگ دل اور تنگ نظری جس کے ہاتھ میں زندگی کی نکیل دے دی گئی ہو۔
خود پسندی و خود رائی کہ ہر آدمی اپنے کو عقل کُل سمجھ بیٹھے۔
انسان تخلیق الٰہی اور منصوبہ علیم و عزیز و قدیر کا ایک عجیب شاہکار ہے۔
اس کو اختیار اور ارادہ کی آزاد دے دی گئی ہے۔اس کے سامنے خیر و شر، حسن و قبح، طاعت و معصیت اور زندگی کے نشیب و فراز رکھ دیے گئے ہیں پھر ان میں سے کسی بھی ایک کو مراد اور مقصد حیات بنالینے کو اس کے اپنے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے لا اکراہ فی الدین۔ دین و اطاعت میں کوئی زور وزبردستی اور جبر اکراہ نہیں ہے۔
پھر اس کے ضمیر و خمیر میں فجور و تقویٰ کو گوندھ دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے۔
فالھمہا فجورھا و تقوٰھا
پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی
پھر ارشاد ہے کہ و ھدیناہ النجدین اور فجور و تقویٰ دونوں راہوں میں سے ہر ایک پر چل پڑنے کی صلاحیت اور سمجھ بخش دی گئی
اور پھر فرمایا کہ قد تبین الرشد من الغی
ہدایت اور گمراہی دونوں ہی راہوں کو بالکل واضح اور نمایاں بھی فرما دیا گیا ہے۔
پس بندہ کو اختیار ہے کہ اما من اعطیٰ واتقی و صدق بالحسنیٰ فسنیسرہ للیسری
(تو جس نے راہ خدا میں مال دیا اور خدا کی نا فرمانی سے پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانا، اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ جو چاہے اللہ کی راہ میں دے اور تقویٰ اختیار کرے اور نظام حق کی عملی تصدیق کرے تو اس کے لیے ہماری پالیسی یہ ہوگی کہ ہم اس دین فطرت کی طرف آسانی سے جانے کے سارے اسباب مہیا کرتے چلے جائیں گے۔
اور اگر وہ بخل کرے اور خدا سے بے زاری اور بے نیازی کی روش اختیار کرکے دین فطرت کی عملاً تکذیب کردے۔ تو اس کے لیے بھی اس غلط راہ اور خلاف فطرت روش پر چلنے کے سارے اسباب مہیا کردے گا
و اما من بخل و استغنی
اور اسی مضمون کو سورہ بنی اسرائیل میں اس طرح واضح فرمادیا گیا ہے کہ ان دونوں راہوں میں سے کسی بھی راہ کے انتخاب اور اختیار اور مراد بنانے والے کو ہم مدد اور سہارے فراہم کریں گے، اور تیرے رب کی عطائیں کسی سے روکی نہ جائیں گی۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول نے اپنی رافت کا حق ادا کرتے ہوئے ہر انسان کے انجام کے دنیاوی اور اخروی نتائج و ثمرات، خطرات و مہلکات کی متعین طور پر نشاندہی بھی فرما دی۔ چنانچہ اس حدیث میں بہت چھوٹے چھوٹے جامع کلمات میں خطرات سے آگاہی ’رافت‘ ہے اور فوز و فلاح و نجات کے ثمرات کی بشارت ’رحمت‘ ہے۔
بقائے نفس اور بقائے نسل کی خاطر انسان کے جسد خاکی میں کچھ بنیادی توانائیاں بھر دی گئی ہیں۔
۱ ۔ قوت ادراک
۲۔ قوت
۳۔ قوت شہوت
ان قوتوں سے ہزاروں اخلاقی شاخیں نکلتی ہیں چنانچہ یہ قوتیں رحمانی ہدایت کے سانچے میں سنور کر نکلتی ہیں تو فضائل اخلاق کا گلشنِ آدمیت وجود میں آتا ہے۔ اور یہی قوتیں جب نفس کے شیطانی پنجے میں آجاتی ہیں تو رذائل اخلاق کا ایک ایسا خار دار جنگل اگتا ہے جس سے انسانی عصمت وشرافت کا دامن تار تار ہوکر رہ جاتا ہے۔
مبارک ہیں وہ بندے اور ملتیں جو اپنے وجود کا پیوند کلمہ طیبہ کے شجر طیب سے جوڑیں۔ اور نامبارک و نامراد ہے وہ انسان جو رب کی عطا کردہ توانائیں کی قلمیں نفس اور خواہش کے شجرہ کا خبیثہ سے جوڑے کس درجہ قابل قدر ہے یہ رہنمائی۔!
رب رءُوف و رحیم نے ہم کو رسول بھی ایسا عطا فرمایا جو نوع انسانی کے لیے رءُوف اور مومنین کے لیے رحیم ہے ﷺ
(کتاب ’تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى‘ سے ماخوذ)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 ستمبر تا 23 ستمبر 2023