نفرتوں کے بیچ عیدالفطر کا پیغامِ محبت

خوشیوں کے ساتھ سماجی اور روحانی بیداری کا بھی موقع

نور اللہ جاوید

عیدالفطر کے ذریعہ مسلمان سماجی نا انصافی، معاشی عدم توازن اور تقسیم شدہ بھارتی معاشرے کو زندگی بخش پیغام دے سکتے ہیں۔
مسلمانوں کی سب سے بڑی عید، عیدالفطر دنیا کی دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں کے لیے جشن و طرب، دولت کی نمائش یا عیش و عشرت میں مگن ہو جانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر، مناجات و دعا، ایثار و قربانی، باہمی اتحاد و یکجہتی اور روحانی ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو مسلمانوں کی عیدوں اور دنیا کی دوسری قوموں کے تہواروں میں پایا جاتا ہے۔
دنیا کی تمام قوموں کے مذہبی تہوار کسی نہ کسی تاریخی واقعے کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔ اگر بھارت میں برادرانِ وطن کے تہواروں پر نظر ڈالیں تو ان کا ہر تہوار کسی تاریخی واقعے کی یاد سے جڑا ہوا نظر آئے گا۔ لیکن مسلمانوں کی دونوں عیدیں (عید الفطر اور عید الاضحی) کسی ایسے تاریخی واقعے کی یاد میں نہیں منائی جاتیں جو ماضی میں پیش آ کر ختم ہو چکا ہو، بلکہ یہ دونوں عیدیں عبادات کی تکمیل کی خوشی میں منائی جاتی ہیں۔
رمضان المبارک کا مبارک مہینہ، جو تقویٰ، مساوات، مواخات اور بھائی چارے کا مہینہ ہے، جب مکمل ہوتا ہے تو اس کا شکر بجا لانے اور خوشی کے اظہار کے لیے عید الفطر منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر کھلے میدان میں جمع ہو کر دوگانہ نماز انتہائی نظم و ضبط اور اجتماعیت کے مظاہرے کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔
اسی طرح عید الاضحیٰ کے موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت کی یاد میں قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عید الاضحی اسلام کی دوسری عظیم عبادت یعنی حج کی تکمیل کے موقع پر منائی جاتی ہے۔ کیونکہ حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفہ 9 ذی الحجہ کو کیا جاتا ہے، جب پوری دنیا سے آنے والے لاکھوں مسلمان میدانِ عرفات میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں۔ اس عظیم عبادت کی تکمیل کے اگلے دن، 10 ذی الحجہ کو عید الاضحی منائی جاتی ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ المائدہ کی مشہور آیت "اَلْیَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ” کے حوالے سے یہودیوں نے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ سے کہا:
"اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی، تو ہم اس کے یومِ نزول کو بطورِ عید مناتے۔”
حضرت عمرؓ نے جواب دیا:
"جس دن یہ آیت نازل ہوئی، مسلمانوں کی دو عیدیں جمع ہو گئی تھیں۔ یہ آیت 10 ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر، عرفہ کے دن، 9 ذی الحجہ کو بروز جمعہ نازل ہوئی، جب نبی کریم ﷺ میدانِ عرفات میں اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور چالیس ہزار سے زائد صحابہ موجود تھے۔”
جب مسلمانوں کے لیے خوشیوں کے مواقع بھی عبادت اور بندگی کی تکمیل پر اظہارِ تشکر کے لیے ہوتے ہیں تو پھر ان میں عیش و طرب، اخلاقی اقدار کی پامالی اور معاشرتی بے حسی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ کھلے آسمان تلے دوگانہ نماز کی باجماعت ادائیگی جہاں ضبط و نظم اور ڈسپلن کی یاد دلاتی ہے، وہیں یہ احساس بھی دلاتی ہے کہ دنیا میں دولت، علم، عہدے اور دیگر امور میں انسانوں کے درمیان فرق ہو سکتا ہے مگر خالقِ کائنات کے نزدیک سب برابر ہیں۔ سب ایک ہی صف میں، کندھے سے کندھا ملا کر دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہاں کسی کے لیے کوئی وی آئی پی پروٹوکول نہیں۔ اگر نماز پڑھنی ہے تو سب کو ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ہوگا، چاہے وہ دفتر کا باس ہو یا چپراسی۔
یہ دونوں عیدیں جہاں روحانیت، للّٰہیت اور صدق و خلوص کے ساتھ عبادت کا تقاضا کرتی ہیں، وہیں اجتماعی ذمہ داریوں کی یاد دہانی بھی کراتی ہیں۔ انفرادی خوشی پر اجتماعی عبادت کے انتخاب کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔
ملک عزیز میں عید کا پیغام
ایک ایسے وقت میں جب یہاں کے مسلمانوں کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں، مذہبی آزادی خطرے میں ہے، مدارس کو مقفل کیا جا رہا ہے، مساجد فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں اور وقف جائیدادیں—جو مسلمانوں کے آبا و اجداد نے خیر و فلاح کے لیے وقف کی تھیں—ان پر ناپاک نظریں ڈالی جا رہی ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان عید الفطر کس طرح منائیں؟
بھارت کے مسلمانوں نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف اس یقین کے ساتھ حصہ لیا تھا اور صفِ اوّل میں رہ کر قربانیاں دی تھیں کہ آزادی کے بعد بھارت دنیا میں مسلمانوں کے لیے سب سے محفوظ ملک ہوگا۔ یہاں انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دیگر شہریوں کو حاصل ہیں۔ ملک میں مذہبی آزادی، یکجہتی اور ہم آہنگی کا ماحول ہوگا۔ مگر آزادی کے 77 برس بعد بھارت کے حالات یکسر بدل چکے ہیں۔
آج مسلمانوں کو غیر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آزادی کے بعد بھی بھارت کے مسلمانوں کو چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا تھا، مگر موجودہ حالات گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہیں۔
• مذہبی شناخت اور آزادی پر حملے ہو رہے ہیں۔
• فکر و خیال کی آزادی دبائی جا رہی ہے۔
• آئین، جو تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا تھا، محض ایک کتابی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
• ملک کا حکم راں طبقہ سرِ عام آئین کی پامالی کر رہا ہے۔
• عدلیہ، جسے آئین کا محافظ ہونا چاہیے تھی، اب تماشائی بنی ہوئی ہے، بلکہ بعض مواقع پر وہ خود کی بے حرمتی میں بھی شریک بھی نظر آتی ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح نفرت انگیز مہمات چلائی گئیں، اکثریتی طبقے کے بے روزگار نوجوانوں کو مسلمانوں پر حملے کے لیے اکسایا گیا، مدارس اور مساجد کو مسمار کیا گیا، اس سے کئی سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔
اب تو سوال ملک کی سالمیت، اتحاد اور آئین کے مستقبل پر بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ ان حالات میں مسلمان عید الفطر کا پیغام کیسے مرتب کریں؟
کیا اس موقع پر مسلمانوں کو اپنے برادرانِ وطن کو کوئی پیغام دینا چاہیے؟
یا عید الفطر کے موقع پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کو فروغ دینے کے لیے کوئی اقدام کیا جا سکتا ہے؟ یا ملک میں سماجی پولرائزیشن، معاشی عدم مساوات، فرقہ واریت اور اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو روکنے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے؟
یا ہم ملک کے عام شہریوں کو یہ باور کرا سکتے ہیں کہ اگر رواداری، قوتِ برداشت، مذہبی و ثقافتی تنوع—جو بھارت کا امتیاز تھا— اگرختم ہو گیا تو ملک کو کیسی بھاری قیمت چکانی پڑے گی؟
سب سے اہم بات یہ کہ بھارت کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان جو آج دلبرداشتہ، شکستہ دل اور وسوسوں میں گھرے ہوئے ہیں، کیا عید الفطر کے موقع پر ان کے زخموں کا کوئی مدوا اور پیغامِ امید موجود ہے؟
ملک کے مسلمان اس وقت جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں آئے۔ اگر گزشتہ چودہ صدیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مسلم امت نے ہمیشہ چیلنجوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا ہے۔ دنیا کی طاغوتی قوتیں ہر دور میں اسلام اور اس کے پیغام کو مٹانے کی کوشش کرتی رہی ہیں، مگر مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی اجتماعی بصیرت، علمی برتری اور عملی جدوجہد سے ان سازشوں کو ناکام بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے دنیا اسلام کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔
دوسری طرف بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ خود مسلمان اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں۔ آپسی اختلافات، مفادات اور نظریاتی کشمکش نے مسلم معاشرے کو بدترین زوال سے دوچار کر دیا ہے۔ مسلم نوجوان بے سمت ہوچکے ہیں اور مسلم قیادت دنیا کو کچھ دینے کے بجائے حکم رانوں کی چاپلوسی میں مصروف ہے۔ ایسے میں دنیا ہم سے کیا سیکھ سکتی ہے؟
رمضان المبارک میں لاکھوں مسلمانوں نے قرآن کریم کی تلاوت اور تراویح میں اس کی سماعت کی لیکن اگر قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی تو ہمیں معلوم ہوتا کہ آج کے چیلنجوں کا سامنا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ سورۃ کہف میں بیان کیے گئے چاروں واقعات میں ایمان اور مادیت کی کشمکش، دجالی تہذیب کی ملمع سازی اور فریب کاری کا پردہ چاک کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی قدرت و حکمت کو واضح کیا گیا ہے۔ اصحاب کہف قلیل تعداد میں تھے مگر انہوں نے ظالم حکم راں کے جبر کے آگے سر جھکانے کے بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ نتیجے میں اللہ نے خود ان کی حفاظت کا بندوبست کیا، اور یہی اصول آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اگر ہم بھی دجالی نظام کے خلاف ڈٹ جائیں اور واضح طور پر یہ اعلان کریں کہ صرف اللہ ہی بندگی و عبادت کے لائق ہستی ہے، اس کے سوا کوئی بندگی و عبادت کے لائق نہیں ہے، تو ضرور اللہ کی مدد ہمارے شاملِ حال ہوگی۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ آزادی کے بعد ہم کو کو جو مواقع حاصل تھے کیا ہم نے ان کی قدر کی؟ کیا ہم نے اسلام کے آفاقی پیغام کو اپنے برادرانِ وطن تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی یا ہم نے ان مواقع کو ضائع کر دیا اور نتیجے میں آج اس کی سزا بھگت رہے ہیں؟
قرآن کریم کی سورۃ المائدہ میں "خدائی دسترخوان” کا ذکر آتا ہے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا پر اللہ نے کھانے کی نعمت عطا فرمائی لیکن ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی کہ اگر ناشکری کرو گے تو سخت سزا دی جائے گی۔ جب طاقتور طبقے نے اس نعمت پر سوالات اٹھانے شروع کیے تو ان کے چہرے مسخ کر دیے گئے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کو بھی بڑے مواقع حاصل تھے لیکن وہ اسلام کے پیغام کو عام کرنے، ذات پات کی تفریق کو ختم کرنے اور سماجی اصلاحات لانے میں ناکام رہے۔ کہیں آج مسلمانوں پر ظالم حکم رانوں کا تسلط اسی اجتماعی ناشکری کی سزا تو نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو اس سے گلو خلاصی کی کیا صورت ممکن ہے؟
عیدالفطر یقیناً خوشی کا موقع ہے لیکن یہ ہمیں محاسبے اور احتساب کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ کیا ہم ایک زوال پذیر قوم کی تمام علامتیں اپنے اندر نہیں سمو چکے ہیں؟ کیا ہمارا معاشرہ اخلاقی اور دینی اعتبار سے دیوالیہ نہیں ہو چکا ہے؟ کیا ملی غیرت و حمیت ختم نہیں ہو چکی؟
یہ وقت خوشیوں میں کھو جانے کا نہیں بلکہ غور و فکر کا ہے۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:
"کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے نازل کردہ حق کے لیے نرم ہو جائیں، اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی، مگر مدت دراز ہونے کے باعث ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہوگئے؟” (سورۃ الحدید: 16)
عید الفطر اسلامی روایات کا اٹوٹ حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک عالمگیر اپیل بھی رکھتی ہے۔ یہ ہمیں اپنے ملک میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں اس موقع پر برادرانِ وطن کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ عید محض مسلمانوں کی خوشی کا دن نہیں، بلکہ یہ سماجی تفریق کے خاتمے، غربت زدہ طبقات کے ساتھ اظہار یکجہتی اور عملی اصلاح کی جدوجہد کا موقع بھی ہے۔ اگر عید کے پیغام کو مختصر کیا جائے تو اسے چار نکات میں سمویا جا سکتا ہے: تنظیم و اتحاد، سماجی ہم آہنگی، غریب پروری اور تکبیرِ مسلسل۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے حالات میں بہتری لا سکتے ہیں۔
عیدالفطر محض ایک مذہبی تہوار نہیں بلکہ یہ اتحاد، اخوت اور سماجی ہم آہنگی کا مظہر ہے۔ عید کی نماز کے دوران ہزاروں افراد کا کندھے سے کندھا ملا کر نماز دوگانہ ادا کرنا اجتماعی شعور اور مساوات کی علامت ہے۔ اس موقع پر کی جانے والی اجتماعی دعائیں مسلم امہ کے اندر اور دیگر اقوام کے ساتھ یکجہتی کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ اس امر کا اعلان ہے کہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں—کوئی بھی دولت، علم یا کسی اور امتیاز کی بنا پر برتری کا حق دار نہیں۔
زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے ذریعے ضرورت مندوں کی مدد، سماجی ہمدردی اور مساوات کے جذبات کو تقویت دی جاتی ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی خیر خواہی کا درس ہے بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری بھی ہے جو اسلامی معاشرت کی بنیادوں میں شامل ہے۔ عید ہمیں معافی، صلح اور رشتوں کو مضبوط کرنے کی تلقین کرتی ہے، تاکہ سماجی رشتے مزید مستحکم ہوں اور ماضی کی رنجشیں ختم ہوں۔
مذہبی تقسیم اور عدم برداشت کے موجودہ ماحول میں ہمیں ایسے کسی بھی عمل سے گریز کرنا چاہیے جو عید کے پیغام کو دھندلا کر دے۔ بلکہ اس موقع پر برادرانِ وطن کو احساس دلانا چاہیے کہ ہماری عیدیں محض ظاہری خوشیوں تک محدود نہیں، بلکہ ان میں روحانیت، صداقت، ہمدردی اور بھائی چارے کے عناصر نمایاں ہیں۔ ہم جس راستے سے نماز کے لیے جاتے اور واپس آتے ہیں ہماری زبانوں پر اللہ کی کبریائی کے الفاظ ہوتے ہیں تاکہ دنیا پر واضح ہو کہ حقیقی عظمت اور بڑائی صرف اسی ایک ہستی کے لیے ہے۔
اگر آج ہمارے جسموں پر نئے لباس ہیں، گھروں میں بہترین پکوان ہیں تو یہ سب اللہ کی عطا ہے، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں۔ یہی احساس بندگی ہمیں تکبر سے بچاتا اور شکر گزاری کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
ملک میں عید کا اجتماعی پہلو
بھارت جیسے تکثیری معاشرے میں بقائے باہمی کے اصولوں کو اپنانے کے لیے ہمیں نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور خاص طور پر حلف الفضول اور میثاقِ مدینہ جیسے تاریخی معاہدوں سے سبق لینا ہو گا۔ عید الفطر کے خطبات میں میثاقِ مدینہ کے بنیادی نکات پر روشنی ڈالنی چاہیے، جو مذہبی آزادی، رواداری اور باہمی احترام کا درس دیتی ہیں۔
یہی وقت ہے کہ ہم عید ملن جیسے پروگراموں کے ذریعے سماج کے نچلے طبقات تک اتحاد اور ہم آہنگی کا پیغام پہنچائیں۔ نفرت کا جواب محبت، اخلاق اور ایثار کے ذریعے دیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی مذہبی شناخت یا شعائر اسلام سے دستبردار ہو جائیں۔ عید کا اصل پیغام یہی ہے کہ مسلمان امتِ دعوت کا کردار ادا کریں—خود قرآن و سیرت پر عمل کریں اور پھر اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں۔
اگر ہم اپنے قریبی دو غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی دعوت پہنچا دیں تو یہ عید ہمارے لیے حقیقی کامیابی کا دن بن جائے گی۔
نفرت کا مقابلہ محبت سے
آج ملک میں کچھ شدت پسند عناصر اپنے تہواروں کو محبت اور انسانیت کی بنیادوں پر منانے کے بجائے نفرت اور تشدد کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ ان کی حرکتوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ بھی مثبت نہیں ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو ایک مثالی دعوتی کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دنیا دیکھے کہ اسلام کے دامن میں انسانیت، محبت اور عدل و انصاف کے کیسے اتھاہ خزانے موجود ہیں۔
اگر ہمارے معاشرے میں اقتصادی نا ہمواری ہے تو ہمارے پاس زکوٰۃ، صدقہ فطر اور خیرات کے نظام کی صورت میں اس کا حل موجود ہے۔ اسلام دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کا مخالف ہے، اسی لیے رمضان میں ہمیں ایثار و قربانی کی مشق کرائی جاتی ہے تاکہ ہم سال کے باقی دنوں میں بھی یہی رویہ اپنائیں۔
جیسا کہ اقبال نے کہا:
یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی
***

 

***

 آج ملک میں کچھ شدت پسند عناصر اپنے تہواروں کو محبت اور انسانیت کی بنیادوں پر منانے کے بجائے نفرت اور تشدد کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ ان کی حرکتوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ بھی مثبت نہیں ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو ایک مثالی دعوتی کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دنیا دیکھے کہ اسلام کے دامن میں انسانیت، محبت اور عدل و انصاف کے کیسے اتھاہ خزانے موجود ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 مارچ تا 05 اپریل 2025