
نفرت پھیلانے والے ‘رہنما’ بھارتی سماج کے لئے ناسور سے کم نہیں
دلی تشدد کے سلسلہ میں کپل مشرا پر ایف آئی آر کا عدالتی حکم حوصلہ افزا
شہاب فضل، لکھنؤ
پولیس اور انتظامیہ کو غیرجانبداری کا اصول یاد دلانے کی ضرورت
شرپسند طاقتوں کو ایسی کھلی چھوٹ نہ ملے کہ وہ جمہوری اقدار کو اپنے پیروں تلے روند کر رکھ دیں۔۔۔
سال 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں متنازعہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے کردار کو بادی النظر میں قابل مواخذہ قرار دیتے ہوئے دہلی کی ایک مقامی عدالت کا ان کے خلاف ایف آئی درج کرنے کا حکم حوصلہ افزا ہے۔ کپل مشرا جو فی الوقت دہلی کی بی جے پی حکومت میں وزیر قانون ہیں ان کے اشتعال انگیز ویڈیو اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں جو تشدد اور بلوہ میں ان کے کردار کی گواہی دیتے ہیں۔ باوجود اس کے دہلی پولیس، راوز ایوینیو کورٹ کے ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی رہی کہ کپل مشرا کے خلاف جانچ کرلی گئی ہے اور ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ خونی تشدد کے تقریباً پانچ برس بعد گزشتہ یکم اپریل کو عدالت نے کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم یمنا وہار کے ایک باشندے محمد الیاس کی عرضی پر دیا جس میں انھوں نے مشرا، بی جے پی ایل ایل اے موہن سنگھ بشٹ، ڈی سی پی نارتھ ایسٹ، دیال پور پولیس اسٹیشن کے داروغہ، بی جے پی لیڈر جگدیش پردھان اور ستپال سنسد کو بلوہ میں ملوث قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کی استدعا عدالت سے کی تھی۔ عدالت نے عرضی دہندہ کے وکیل کے دلائل کو سنا، شواہد کو دیکھا اور حقیقی ملزمین کو بچانے کی دہلی پولیس کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
خیال رہے کہ دہلی پولیس نے اسی خونیں بلوہ میں کئی طالب علم لیڈروں بشمول عمر خالد، گلفشاں فاطمہ اور شرجیل امام کو دہلی فساد کا شریک سازش کنندہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ لوگ این آر سی کے خلاف مظاہرہ کی قیادت کررہے تھے اور ان کے بقول فساد، بلوہ یا تشدد سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ دہلی اقلیتی کمیشن کی ایک دس رکنی تحقیقاتی ٹیم نے شمال مشرقی دہلی کے بلوہ کی جانچ میں یہ پایا کہ یہ بلوہ منصوبہ بند تھا اور اس کے لئے کپل مشرا ذمہ دار تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق موج پور علاقہ میں 23 فروری 2020 کو کپل مشرا کی تقریر کے بعد ہی تشدد بھڑکا۔ مشرا نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جعفرآباد میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو وہ طاقت کے زور پر ہٹادیں۔ عدالت نے سینئر پولیس افسر ڈی سی پی وید پرکاش سوریہ کے کردار کی بھی جانچ کا حکم دیا ہے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے سی اے اے مخالف مظاہرین کو ڈرایا دھمکایا تھا۔
بھارت میں آج کل اشتعال انگیزی اور نفرت انگیزی ایک معمول بن چکی ہے اور سیاسی رہنما اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی میں لگے ہوئے ہیں۔ انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہنما بھی بلادریغ مسلمانوں کے خلاف ہزیان بکتے ہوئے سنے اور دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسے عناصر کو اگر بھارتی سماج اور ملک کے امن و امان کے لئے ناسور کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ دہلی کی مقامی عدالت کے جج ویبھو چورسیا نے بڑی ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا اور عدالت کے ایوان سے یہ پیغام دیا کہ قانون سبھی کے لئے مساوی ہے۔ کپل مشرا، بی جے پی ایم ایل اے موہن سنگھ بشٹ اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور تشدد اور بلوہ میں ان کے کردار کی جانچ کا حکم نفرت انگیز رہنماؤں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ ججوں کے لئے بھی یہ ایک پیغام ہے کہ انھیں غیرجانبدار رہنا چاہئے اور بلا لاگ لپیٹ کے معاملات کی سماعت کرتے ہوئے احکامات صادر کرنے چاہئیں تاکہ بھارت ایک کمزور اور کھوکھلا جمہوریہ بننے کے بجائے ایک ایسا ملک بنے جہاں امن و قانون کی پاسداری ہو اور لوگ حقیقی جمہوریت سے فیضیاب ہوں۔ جج صاحبان سرکار کے چشم و ابرو کے اشاروں کے منتظر نہ رہیں، بلکہ ملک میں امن و سلامتی کے تعلق سے فکرمند رہیں۔ وہ جمہوری قدروں کے تئیں ایماندار بنیں اور شرپسند طاقتوں کو ایسی کھلی چھوٹ دینے کی حماقت نہ کریں کہ وہ ملک کے امن و قانون اور آئین اور جمہوری قدروں کو اپنے پیروں تلے روند کر رکھ دیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج ایس مرلی دھر نے 26 فروری 2020 کو دہلی فساد کے سلسلہ میں ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے کے لئے دہلی پولیس کو لتاڑا تھا۔ جسٹس مرلی دھر نے دہلی فساد میں مشرا کے کردار کے سلسلہ میں سخت تبصرے کئے تھے اور سپریم کورٹ کی رولنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کسی شخص کے خلاف قابل مواخذہ جرم بنتا ہے تو پولیس کو فوری طور سے ایف آئی آر درج کرنا چاہئے جو دہلی پولیس نہیں کررہی ہے۔ جج موصوف نے جس دن یہ مذکورہ حکم سنایا تھا اسی شام ان کا ٹرانسفر پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ میں کردیا گیا اور دہلی فساد کے سلسلہ میں عدالتی نگرانی ڈھیلی پڑ گئی۔ اب پانچ سال بعد ایک ٹرائل کورٹ نے کپل مشرا کے خلاف شواہد کو بہت واضح مانا ہے۔ حالانکہ ایف آئی آر کے بعد جانچ کیا رخ اختیار کرے گی کہا نہیں جاسکتا۔ دہلی پولیس چونکہ مرکزی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے اور کپل مشرا خود دہلی کے وزیر قانون ہیں، اس لئے ایف آئی آر کا نتیجہ کیا نکلے گا ابھی کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ عدالت نے جو تبصرے کئے ہیں اس سے دہلی پولیس کے ماتھے پر ایک اور داغ لگ گیا ہے اور پولیس کا مشکوک کردار بھی زیر بحث آگیا ہے۔
پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ غیرجانبدار رہیں۔۔۔
غیرجانبداری، پولیس اور انتظامیہ کے اہلکاروں کی اخلاقیات کا کلیدی جزو ہے، لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ حکمراں سیاسی جماعتوں کی خوشنودی کے لئے پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار بعض دفعہ من مانی کارروائی کرتے ہیں اور خود کو ہی جج سمجھ کر مطلق العنان بن جاتے ہیں۔ اس تعلق سے اترپردیش ایک بے حد غلط نظیر پیش کررہا ہے۔ عید الفطر سے قبل اترپردیش کے متعدد شہروں اور قصبات میں پولیس اور ضلعی حکام نے اپنی حد سے آگے جاکر مسلمانوں کے لئے دھمکی آمیز جملے استعمال کئے اور انھیں وارننگ دی کہ عید کی نماز گھروں میں پڑھیں، چھتوں اور سڑکوں پر نہ پڑھیں اور امن و قانون کے لئے خطرہ نہ بنیں۔ میرٹھ شہر کے ایس پی آیوش وکرم سنگھ نے کہا کہ کھلی جگہ پر عید کی نماز ادا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ان کے پاسپورٹ اور لائسنس منسوخ کردئے جائیں گے۔ پولیس از خود اس طرح کی کسی کارروائی کے لئے مجاز نہیں ہے اور وہ لوگوں کو سزا نہیں دے سکتی مگر ایک سینئر افسر اپنی وردی کی حرمت کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آتا ہے اور اعلیٰ پولیس حکام اس سے باز پرس نہیں کرتے۔ یہ حیرت انگیز اور خطرناک معاملہ ہے۔
مشہور سماجی جہدکار اور کالم نویس پروفیسر اپوروانند نے پولیس کی اس روش پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ الوداع جمعہ کی نماز والے دن سنبھل میں پولیس نے یہ حکم جاری کیا کہ کوئی اپنی چھت پر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس دن پولیس ڈرون اڑارہی تھی، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پولیس کے جوان کسی دشمن کی سراغ رسانی کررہے ہیں۔ اپوروانند اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے جلوس اور ہجوم سے کبھی انتظامیہ اور پولیس کو پریشانی نہیں ہوتی۔ دوسری طرف سنبھل میں ایک مؤذن کو صرف اس لئے گرفتار کرلیا گیا کہ اس نے افطار کے وقت مسجد سے اس کا اعلان مائیک پر کردیا تھا۔ تو کیا پولیس اب یہ ماننے لگی ہے کہ اذان یا افطار سے خلل پیدا ہوتا ہے اور ایسا کرنا جرم ہے؟
دراصل مسلمانوں کے ہر کام کو، ان کی ہر سرگرمی کو سازش اور ایک جرم کی طرح پیش کیا جارہا ہے نیز پولیس اور انتظامیہ کے لوگ حکمراں جماعت کے اشارے پر کارروائیاں کررہے ہیں جو جمہوری اور آئینی آزادی کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے ‘‘پریئر اینڈ پنشمنٹ’’ کے عنوان سے اپنے ایک اداریہ میں لکھا کہ جیسے انگریزوں نے بھارت میں کئی قبائل کو مجرم قبائل ڈیکلیئر کردیا تھا اسی طرح سے موجودہ وقت میں یہاں کی حکومت و انتظامیہ مسلمانوں کی ہر سرگرمی کو مجرمانہ فعل کی طرح پیش کررہی ہے۔
پروفیسر اپوروانند نے اس پورے معاملہ میں اس تشویشناک پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ ’’پہلے جہاں ہم سنگھ پریوار کے لوگوں کو یا ہندتوا نوازوں کو مسلم مخالف نفرت پھیلاتے اور تشدد کرتے ہوئے دیکھتے تھے، اب پولیس اور انتظامیہ کو وہی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘‘۔
اس منفی ماحول میں یہ خوش آئند پہلو ہے کہ دلی کی ایک عدالت نے اشتعال انگیزی کے عادی ایک شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا اور پولیس کے چند حکام کے کردار کی بھی جانچ کرنے کی ہدایت دی۔ اس فیصلے نے کچھ امید ضرور پیدا کی ہے اور یہ احساس جگایا ہے کہ ابھی بھی کچھ جج اور اہلکار ملک کے امن و قانون اور انصاف کے نظام کے لئے فکرمند ہیں اور وہ بھیڑچال کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے کاندھوں پر ملک کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور وہی اسے منجدھار سے نکال سکتے ہیں۔
***
یہ خوش آئند پہلو ہے کہ دلی کی ایک عدالت نے اشتعال انگیزی کے عادی ایک شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا اور پولیس کے چند حکام کے کردار کی بھی جانچ کرنے کی ہدایت دی۔ اس فیصلے نے کچھ امید ضرور پیدا کی ہے اور یہ احساس جگایا ہے کہ ابھی بھی کچھ جج اور اہلکار ملک کے امن و قانون اور انصاف کے نظام کے لئے فکرمند ہیں اور وہ بھیڑچال کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے کاندھوں پر ملک کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور وہی اسے منجدھار سے نکال سکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025