
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
غیر ملکی کمپنیاں منافع نکال کر وطن لے جا رہی ہیں۔بھارتی کمپنیوں کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری میں 75 فیصد کا اضافہ
اگرچہ ہماری ملکی معیشت بڑی تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہے اور حکومت دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہونے کا دعویٰ بھی کر چکی ہے لیکن 2024-25 کی راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے اعداد و شمار نے پالیسی سازوں اور عام شہریوں دونوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ گزشتہ سال، مجموعی ایف ڈی آئی کے تحت بھارت نے 181 ارب ڈالر جمع کیے، جب کہ خالص ایف ڈی آئی صرف 0.35 ارب ڈالر رہی، جو گزشتہ دہائی کے مقابلے میں کم ترین سطح ہے۔
خالص ایف ڈی آئی کی یہ کم سطح اس وجہ سے رہی کہ کئی غیر ملکی کمپنیوں نے بھارت سے اپنا سرمایہ نکال کر واپس اپنے ملک بھیج دیا ہے۔ ساتھ ہی بھارتی کمپنیوں نے بھی بڑے پیمانے پر دیگر ملکوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں غیر ملکی کمپنیوں نے تقریباً 51 ارب ڈالر واپس اپنے ملکوں کو منتقل کیے، جب کہ بھارتی کمپنیوں کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 75 فیصد اضافہ ہوا اور یہ اب 29.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ نتیجتاً خالص سرمایہ کاری میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
عمومی طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ منتقل کرنا اور بھارتی کمپنیوں کا دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کرنا بھارت جیسی بڑی اور کھلی معیشت کے لیے باعثِ تشویش نہیں ہونا چاہیے۔ چند غیر ملکی کمپنیاں مخصوص وجوہات کی بنا پر سرمایہ نکالتی رہتی ہیں، جب کہ بھارتی کمپنیاں بیرونِ ملک دست یاب مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس مرتبہ بیرونِ ملک جانے والے سرمائے کی مقدار خاصی زیادہ ہے۔
سال 2023-24 میں مجموعی ایف ڈی آئی صرف 71 ارب ڈالر رہی، لیکن اس کے باوجود بھارت کے پاس 10 ارب ڈالر خالص ایف ڈی آئی بچی تھی۔ یاد رہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کا منافع واپس اپنے ملک بھیجنے کا رجحان بدستور جاری ہے اور دوسری طرف بھارتی کمپنیوں کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ وزارتِ مالیات کے تازہ ماہانہ تجزیے میں بھی اس صورت حال پر غور کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2025 میں بھارتی کمپنیوں کی بیرونی سرمایہ کاری تقریباً 12.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی، جب کہ عالمی سطح پر غیر یقینی حالات کا ماحول تھا۔ ایسے میں گھریلو سرمایہ کاری کی رفتار اور رجحان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مسلسل بہتر شرحِ نمو کے لیے بھارت کو وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری درکار ہے، اور ایف ڈی آئی اس میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ساتھ جدید ٹیکنالوجی اور مؤثر ضوابط بھی لاتی ہیں۔ یہ بچت اور سرمایہ کاری کے درمیان فرق کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں، کیونکہ ایف ڈی آئی ایک پائیدار اور مستحکم سرمایہ کاری کی شکل ہے۔
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اس طرح کی سرمایہ کاری کی ساخت کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور پالیسی میں موجود خامیوں کو بر وقت دور کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ صورت حال قابو سے باہر ہو، ہمیں بھارتی اور غیر ملکی کمپنیوں سے مختلف انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ غیر ملکی کمپنیاں بنیادی طور پر بھارتی معیشت کی طلب کو پورا کرنے کے لیے یہاں آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت آج دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے اور پانچویں بڑی معیشت کے طور پر اپنا مقام بنا چکا ہے، تو پھر غیر ملکی کمپنیاں اپنے منافع کو یہیں دوبارہ کیوں نہیں لگا رہیں؟
یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ چند کمپنیاں بھارتی بازار میں اپنی سرگرمیاں محدود کر رہی ہیں کیونکہ انہیں توقعات کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔ تاہم اس سے مسئلے کی تہ تک رسائی نہیں ہوتی اس لیے اس معاملے کی گہرائی سے جانچ ہونی چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کاروباری حالات یا گھریلو طلب میں کمی کے باعث وہ بھارت چھوڑ رہی ہوں؟
اس کے برعکس بھارتی کمپنیوں کی صورت حال مختلف ہے۔ وہ ملک میں سرمایہ کاری کی خواہش رکھتی ہیں مگر بیرونِ ملک بہتر مواقع کی موجودگی کی وجہ سے وہ وہاں بھی سرمایہ لگا رہی ہیں۔
باہر جانے والی ایف ڈی آئی میں حالیہ اضافہ ممکن ہے کہ ایک وقتی رجحان ہو۔ مثلاً سال 2018-19 میں 12 ارب ڈالر اور 2023-24 میں 18 ارب ڈالر کا سرمایہ بیرونِ ملک گیا جو 2024-25 میں بڑھ کر 29.2 ارب ڈالر ہو گیا۔ اس پر سنجیدہ غور و فکر ضروری ہے۔
تاہم اس سب کے باوجود حکومت کو غیر ملکی یا بھارتی کمپنیوں کی جانب سے فنڈز کے تبادلے پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگانی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے مجموعی سرمایہ کاری کا ماحول متاثر ہوتا ہے۔
گزشتہ مالی سال میں بھارت میں نیٹ ایف ڈی آئی کے حجم میں 96 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ 2024-25 میں یہ محض 0.35 ارب ڈالر رہا، جب کہ پچھلے سال یہ 10.13 ارب ڈالر تھا۔ یہ صرف ایک سال کی ریکارڈ گراوٹ نہیں، بلکہ گزشتہ دو دہائیوں میں نیٹ ایف ڈی آئی کی سب سے کم سطح ہے۔
اعداد و شمار کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ اس تیزی سے گراوٹ کے دو بڑے اسباب ہیں: اول، غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے اپنے منافع کو اپنے ملک واپس منتقل کرنا۔ دوم، بھارتی کمپنیوں کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری میں 75 فیصد اضافہ جو اب بڑھ کر 29 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
2024-25 میں مجموعی ایف ڈی آئی کا حجم 81 ارب ڈالر رہا جو پچھلے سال کے مقابلے 14 فیصد زیادہ ہے لیکن بھارتی کمپنیوں کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری اور غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے منافع کی واپسی کی وجہ سے اس گروس ایف ڈی آئی کا خالص فائدہ بہت کم رہا۔
بھارت میں آنے والی ایف ڈی آئی کا تقریباً 60 فیصد حصہ ماریشس، یو اے ای، سنگاپور، نیدرلینڈز اور امریکہ سے آتا ہے، اور انہی پانچ ملکوں میں 2024-25 کے دوران بھارت سے باہر جانے والی ایف ڈی آئی کا بڑا حصہ گیا۔
ملک میں آنے والی کل ایف ڈی آئی زیادہ تر مینوفیکچرنگ، مالیاتی خدمات، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مرکوز رہی، جس کا 60 فیصد انہی شعبوں میں گیا۔ اس کے برعکس بیرونِ ملک جانے والی ایف ڈی آئی کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ مالیاتی خدمات کے شعبے، بالخصوص بینکنگ اور انشورنس میں لگا، جب کہ مینوفیکچرنگ، ہوٹل، ریستوراں یا خوردہ و تھوک تجارت میں اس کا حصہ انتہائی کم رہا۔
اپنے حالیہ ماہانہ بلیٹن میں ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) نے واضح کیا ہے کہ بیرونِ ملک ایف ڈی آئی فی الحال باعثِ تشویش نہیں کیونکہ یہ ایک پختہ اور کھلی مارکیٹ کی علامت ہے جہاں غیر ملکی سرمایہ آسانی سے آ جا سکتا ہے اور یہ بھارتی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
البتہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے اپنی آمدنی کو دوبارہ بھارت میں سرمایہ کاری کی شکل دینے کا رجحان بہت کم رہا ہے، جو گراس ایف ڈی آئی کے ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ یہاں دوبارہ سرمایہ کاری کے خواہش مند نہیں ہیں۔
ایک لحاظ سے یہ بات خوش آئند ضرور ہے کہ بھارتی صنعت کار مختلف ملکوں میں سرمایہ کاری کرکے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بھی کئی بھارتی کمپنیوں کی غیر ملکی کمپنیوں میں شراکت داری اور بیرونی سرمایہ کاری کی خبریں سامنے آ چکی ہیں، جیسے ڈاکٹر ریڈی لیابس، سن فارما، انفوسس، وِپرو، ٹاٹا اسٹیل، ایئرٹیل اور ایچ ای جی وغیرہ ۔
اب تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارتی صنعت کار گھریلو سرمایہ کاری کے معاملے میں زیادہ جوش و خروش نہیں دکھا رہے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر وہ بھارت میں سرمایہ کاری سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟ اگر کاروباری ماحول میں دشواریاں ہیں یا بازار کی اصلاحات کی کمی اور روز مرہ کی رکاوٹیں حائل ہیں تو ان مشکلات کا فوری حل تلاش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ملک میں ایف ڈی آئی کا رجحان گزشتہ پانچ سال سے مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ جب تک سرمایہ کاری نہیں بڑھے گی معیشت میں مضبوطی نہیں آ سکتی۔ کم کھپت کا اثر براہِ راست بازار پر پڑتا ہے۔
2024-25 میں بھارت میں مجموعی ایف ڈی آئی 81 ارب ڈالر رہی، مگر خالص ایف ڈی آئی محض 0.35 ارب ڈالر پر آ گئی۔ یہ 96 فیصد کی خوف ناک گراوٹ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ تین سے چار سالوں میں ملک میں کام کرنے والی کئی کمپنیاں، جیسے سیمنٹ اور آٹو سیکٹر سے وابستہ ادارے گھریلو حالات کے باعث اپنا کاروبار سمیٹ چکی ہیں۔ نتیجتاً، نیٹ ایف ڈی آئی منفی رجحان کی طرف جا رہی ہے۔
بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز، مثلاً بجاج گروپ اور ایشین پینٹس کے مالکین نے برملا کہا ہے کہ ملک میں مڈل کلاس طبقہ سکڑ رہا ہے۔ سیمنٹ اور دیگر کمپنیاں یا تو بند ہو گئی ہیں یا مقامی لوگوں کو فروخت کر دی گئی ہیں؛ کچھ نے اڈانی گروپ کو بیچ دیا ہے۔
اگرچہ حکومت گراس ایف ڈی آئی کے اچھے اعداد و شمار کو نمایاں کر رہی ہے، مگر نیٹ ایف ڈی آئی کی مسلسل گراوٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت، یہی اعداد و شمار اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ اگر 80 ارب ڈالر بھارت آئے اور ان میں سے 60 سے 70 ارب ڈالر واپس باہر چلے گئے تو نیٹ ایف ڈی آئی محض 10 سے 20 ارب ڈالر رہ جاتی ہے۔
چین کا گراس ایف ڈی آئی 145 ارب ڈالر کے آس پاس ہے، جب کہ ہمارے رہنما اور چند ذرائع ابلاغ مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں کہ چین سے بڑی کمپنیاں نکل کر بھارت میں سرمایہ لگائیں گی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کمپنیاں چین سے نکل کر ویتنام یا میکسیکو کا رخ کر رہی ہیں جہاں کاروباری ماحول اور منافع بخش امکانات بہتر ہیں۔
معاشی تجزیہ نگار روچی شرما کے مطابق بھارت میں غیر ملکی سرمایہ نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کو بھارتی ایجنسیوں—خصوصاً انکم ٹیکس (آئی ٹی) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) پر اعتماد نہیں رہا۔
اس کے علاوہ ملک میں نفرت کا بڑھتا ہوا ماحول بھی ایک رکاوٹ ہے۔ دنیا بھر میں معاشی ترقی کی "بلیٹ ٹرین” صرف اسی وقت دوڑ سکتی ہے جب ملکی فضا پُرامن اور اعتماد سے بھرپور ہو۔
***
تشویش ناک امر یہ ہے کہ ایف ڈی آئی کا رجحان گزشتہ پانچ سالوں سے مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ کئی کمپنیاں، خصوصاً آٹو اور سیمنٹ سیکٹر سے وابستہ، بھارت میں کاروبار سمیٹ چکی ہیں۔ بڑی کمپنیوں کے مالکین کا کہنا ہے کہ مڈل کلاس طبقہ سکڑ رہا ہے، جو کہ معیشت کی بنیاد ہوتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جون تا 05 جولائی 2025