نفرت کی ہوا:جھارکھنڈ میں مسلم آبادی میں اضافے کا پروپیگنڈا
اعداد و شمار میں ہیرا پھیری۔ کئی دہائیوں سے آباد شیرشاہ آبادی کمیونیٹی کو بنگلہ دیشی ثابت کرنے کی کوشش!
رانچی دعوت نیوز بیورو
اب جب کہ اگلے چند دنوں میں جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا ہے، بی جے پی اور سنگھ پریوار کی جانب سے پولرائزیشن کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ پروپیگنڈہ کے ذریعے اپنے بیانیے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ان اداروں کا استعمال کیا جا رہا ہے جو کبھی آزاد اور خود مختار ادارے کہلاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے عہدیداروں کی تقرری سیاسی بنیادوں پر ہونے لگی، جس کی وجہ سے سیاسی بنیاد پر چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنے والے افراد سیاسی آقاؤں کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔
چائلڈ کمیشن، اوبی کمیشن، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کمیشن جیسے ادارے اپنی متعلقہ اور مفوضہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے ان دنوں بی جے پی کے ایجنڈے اور اس کے بیانیے کو صحیح ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ پارلیمانی اجلاس میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشیت کانت دوبے نے پارلیمنٹ کے فلور پر دعویٰ کیا کہ جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں قبائلیوں کی آبادی بنگلہ دیشی دراندازوں کی وجہ سے کم ہو رہی ہے۔ قبائلی خواتین سے شادی کر کے ان کی زمین اور جائیداد پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں بی جے پی کے ایک کارکن نے مفاد عامہ کی عرضی دیتے ہوئے اسی طرح کے دعوے کیے تھے۔ عدالت کے نوٹس پر ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت نے الگ الگ موقف اپنایا۔ ایک طرف جھارکھنڈ حکومت نے در اندازی اور قبائلیوں کی زمین پر قبضے جیسے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ چند تنازعات کے واقعات کی بنیاد پر اس نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ دوسری جانب مرکزی حکومت نے اس دعوے کو تسلیم کیا کہ قبائلیوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، مگر اس کی وجہ صرف دراندازی نہیں بلکہ تبدیلی مذہب اور قبائلیوں کی نقل مکانی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
17 ستمبر 2024 کو مرکزی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ ’’مرکزی حکومت کے پاس غیر ملکی شہریوں کی شناخت کرنے اور انہیں بے دخل کرنے کی صلاحیت ہے، مگر اس کے لیے این آر سی نافذ کرنا ضروری ہے۔‘‘ تاہم، تبدیلی مذہب اور قبائلیوں کی نقل مکانی بھی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ پہلے قبائلیوں کی آبادی 44 فیصد تھی جو کم ہو کر 28 فیصد رہ گئی ہے۔
ایک اور اہم دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومت سنتھال ٹینیسی ایکٹ (ایس پی ٹی) پر مکمل طور پر عمل نہیں کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا کہ عطیہ کے نام پر بڑے پیمانے پر قبائلیوں کی زمین کی منتقلی ہوئی ہے اور یہ ریاستی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سنتھال علاقے میں مدرسوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر پاکوڑ اور صاحب گنج اضلاع میں۔
سال بھر انتخابی موڈ میں رہنے والی بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ہی انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ پولرائزیشن اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیز بیانات انتخابی تیاریوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزیر شیوراج سنگھ چوہان نے، جو جھارکھنڈ بی جے پی کے انچارج ہیں، حالیہ دنوں میں اعلان کیا ہے کہ اگر بی جے پی حکومت میں آئی تو جھارکھنڈ میں این آر سی نافذ کرے گی۔ شہریت ترمیمی ایکٹ پر بحث کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ ملک بھر میں این آر سی نافذ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے ملک کی سرحدوں کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے، اس کے باوجود در اندازی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ منی پور میں در اندازی کے سوال پر دو غالب طبقات میتی اور کوکی، کو آپس میں لڑا دیا گیا ہے۔ آسام اور بنگال میں بھی در اندازی کا سوال کافی اہم بنایا جا رہا ہے، اور اب جھارکھنڈ، جس کی سرحدیں بنگلہ دیش سے کافی دور ہیں، وہاں بھی دراندازی کے مسئلے کو انتخابی ایشو بنایا جا رہا ہے۔ لہٰذا کاؤنٹر سوال یہ اٹھایا جانا چاہیے کہ آخر در اندازوں کو سرحد عبور کرنے سے روکنے میں مرکزی ایجنسیاں ناکام کیوں ثابت ہو رہی ہیں؟ دس برسوں میں بھی سرحد کو محفوظ کیوں نہیں بنایا جا سکا؟
بی جے پی کے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے قومی کمیشن برائے شیڈول ٹرائب سامنے آیا ہے۔ دو دن قبل قومی کمیشن برائے شیڈول ٹرائب نے وزارت داخلہ کو 28 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں ’’بنگلہ دیشی دراندازی‘‘ کے مبینہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں، خاص طور پر غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران سنتھال پرگنہ کے علاقے میں آبادیاتی تبدیلیاں بنگلہ دیش سے غیر قانونی تارکین وطن کی مبینہ در اندازی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں وہی باتیں دہرائی گئی ہیںجو گزشتہ مہینے مرکزی وزارت داخلہ نے جھارکھنڈ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہی تھیں۔ تاہم، این سی ایس ٹی کی 28 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’بنگلہ دیشی دراندازوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تعداد بدلتی رہتی ہے اور سرکاری ریکارڈ میں اسے مکمل طور پر نہیں درج کرایا جاتا‘‘
اس سے قبل قومی کمیشن برائے شیڈول ٹرائب کی رکن اور رانچی کی سابق میئر، آشا لکرا نے سنتھال پرگنہ کے چار اضلاع یعنی صاحب گنج، پاکوڑ، گوڈا اور جامتاڑا میں آبادیاتی صورتحال پر ایک رپورٹ 15 ستمبر کو مرکزی وزارت داخلہ کے سامنے پیش کی تھی۔ رپورٹ میں مبینہ طور پر مقامی لوگوں کے دعوے بھی درج کیے گئے ہیں، جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ قبائلیوں کی مقدس سر زمین، جو "جوہر سٹھان” کے نام سے جانی جاتی ہے، اسے مسلم قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس کی مثال ضلع پاکوڑ کے نارائن پور سب ڈویژن میں دی گئی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور مثال ضلع صاحب گنج سے پیش کی گئی ہے۔ این سی ایس ٹی کا دعویٰ ہے کہ ضلع نے تیتاریا گاؤں میں بنگلہ دیشی دراندازوں کے قبرستان کے لیے 28.83 لاکھ روپے کی منظوری دی تھی۔
قومی کمیشن برائے شیڈول ٹرائب کی رپورٹ میں یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا ہے کہ جھارکھنڈ کا ضلع پاکوڑ بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی سرحد کا اشتراک کرتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکوڑ مغربی بنگال کے ضلع سے متصل ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ 2021 کی مردم شماری ہی نہیں ہوئی ہے تو پھر آبادی میں اضافے کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ انگریزی اخبار دی ہندو سے بات چیت کرتے ہوئے قومی کمیشن برائے شیڈول ٹرائب کی رکن آشا لکرا نے یہ اعتراف کیا کہ بنگلہ دیشی دراندازوں سے متعلق دعوے زیادہ تر افسانوی مواد پر مبنی ہیں جو "پڑوسیوں، پنچایت کے اراکین اور گاؤں والوں” کے ساتھ بات چیت سے جمع کیا گیا ہے۔
بی جے پی نے سنتھال پرگنہ میں مسلمانوں کی آبادی سے متعلق تین دعوے کیے ہیں: پہلا دعویٰ یہ ہے کہ دراندازی کی وجہ سے اس علاقے کی آبادیاتی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے، دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور تیسرا دعویٰ یہ ہے کہ قبائلی خواتین سے شادیاں کر کے قبائلیوں کے لیے مختص کردہ زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ان دعوؤں کی تصدیق کسی آزاد ایجنسی کی جانچ کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ آخر سنتھال پرگنہ کو لے کر بی جے پی اس قدر جارحانہ رویہ کیوں اختیار کر رہی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتخاب جیتنے کی حکمت عملی ہے، مگر انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی انتہائی گھٹیا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے جو قبائلیوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانے کی کوشش ہے۔
جہاں تک آبادی میں تبدیلی کی حقیقت کا تعلق ہے تو "جھارکھنڈ جن ادھیکار مہاسبھا (جے جے ایم) اور لوک تنتر بچاؤ ابھیان (ایل بی اے)” کی تحقیقاتی رپورٹ تمام پروپیگنڈوں کی حقیقت کو کھولتی ہے۔ مذکورہ دونوں تنظیموں نے سنتھال پرگنہ میں مقامی سطح پر سروے کیا اور رپورٹ مرتب کی جس میں بی جے پی کے ہر ایک دعوے کی تردید کی گئی۔ فیکٹ فائڈنگ کمیٹی کے ممبروں نے کئی دیہاتوں کا دورہ کیا اور دیہاتیوں، شہری رہائشیوں، طلباء، عوامی نمائندوں وغیرہ سے بات کی کہ آیا کسی کو آج تک ایک بھی بنگلہ دیشی درانداز کے بارے میں کوئی اطلاع ہے۔ سب نے کہا کہ انہیں آج تک ایک بھی بنگلہ دیشی درانداز نہیں ملا۔
پاکوڑ اور صاحب گنج میں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی اکثریت شیر شاہ بادی ہیں، جو کئی دہائیوں سے اس علاقے میں آباد ہیں۔ شیر شاہ بادی مسلمان بنگال، بہار اور جھارکھنڈ میں آباد ہیں، ان میں سے کئی جمعبندی رعیت ہیں اور بہت سے لوگ پچھلی چند دہائیوں میں قریبی اضلاع یا ریاستوں سے آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں۔
جھارکھنڈ کے قبائلی علاقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ریاست جھارکھنڈ کی تشکیل کے بعد سنتھال پرگنہ میں قبائلیوں کی آبادی میں 16 فیصد کمی آئی ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایم پی نشی کانت دوبے نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ سنتھال پرگنہ میں 2000 میں قبائلیوں کی آبادی 36 فیصد تھی اور اب یہ صرف 26 فیصد ہے اور اس کی وجہ بنگلہ دیشی در اندازی ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، 1951 میں سنتھال پرگنہ میں 46.8 فیصد قبائلی، 9.44 فیصد مسلمان، اور 43.5 فیصد ہندو تھے۔ 1991 تک قبائلیوں کی آبادی 31.89 فیصد اور مسلمانوں کی آبادی 18.25 فیصد ہو گئی تھی۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس خطے میں 28.11 فیصد قبائلی، 22.73 فیصد مسلمان اور 49 فیصد ہندو تھے۔
مردم شماری کے مطابق 1951 میں جھارکھنڈ میں قبائلیوں کی آبادی 36 فیصد تھی جو 1991 میں کم ہو کر 27.67 فیصد رہ گئی، جبکہ اسی سال مسلمانوں کی آبادی 12.8 فیصد تھی۔ پچھلی مردم شماری (2011) کے مطابق ریاست میں آدیواسیوں کی شرح 26.18 فیصد اور مسلمانوں کی 14.53 فیصد تھی۔ سنتھال پرگنہ میں آدیواسیوں کا تناسب 2001 میں 29.11 فیصد تھا جو 2011 میں 28.11 فیصد ہو گیا۔ لہٰذا بی جے پی کا 16 فیصد اور 10 فیصد کا دعویٰ غلط ہے۔ قبائلیوں کے تناسب میں نمایاں کمی 1951 اور 1991 کے درمیان واقع ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی تین اہم وجوہات ہیں:
اس عرصے کے دوران غیر قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد آس پاس کی ریاستوں سے جھارکھنڈ آئی، خاص طور پر شہروں اور کان کنی و صنعتوں کے علاقوں میں۔ مثال کے طور پر رانچی میں قبائلیوں کا تناسب 1961 میں 53.2 فیصد سے کم ہو کر 1991 میں 43.6 فیصد رہ گیا۔ اسی دوران 1961 میں جھارکھنڈ میں 10.73 لاکھ تارکینِ وطن آئے جبکہ 1971 میں یہ تعداد 14.29 لاکھ ہو گئی جن میں زیادہ تر افراد کا تعلق شمالی بہار اور دیگر قریبی ریاستوں سے تھا۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر افراد بعد میں واپس چلے گئے، لیکن کئی افراد یہاں آباد ہو گئے۔
مقامی افراد کو ملازمتوں میں ترجیح نہ ملنے اور پانچویں شیڈول کی دفعات و قبائلی مخصوص قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے غیر آدیواسی دوسری ریاستوں سے یہاں آ کر آباد ہونے لگے۔ بے گھر ہونے اور روزگار کی کمی کی وجہ سے قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد نے کئی دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کی جس کا براہ راست اثر ان کی آبادی کی شرحِ نمو پر پڑا۔ مرکزی حکومت کی 2017 کی اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق 2001 سے 2011 کے درمیان 15-59 سال کی عمر کے تقریباً 50 لاکھ افراد ریاست سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
1951-1991 کے درمیان قبائلیوں کی آبادی کی سالانہ شرح نمو 1.42 فیصد تھی جبکہ جھارکھنڈ کی مجموعی شرح نمو 2.30 فیصد رہی۔ ناقص غذائیت، ناکافی صحت کے نظام اور معاشی مجبوریوں کے سبب قبائلیوں کی اموات کی شرح دیگر برادریوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
درج فہرست قبائل کمیشن کی رکن اور بی جے پی لیڈر آشا لکرا نے 28 جولائی 2024 کو ایک پریس کانفرنس میں سنتھال پرگنہ علاقے کی دس قبائلی خواتین پنچایت نمائندوں اور ان کے مسلم شوہروں کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست جاری کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ روہنگیا مسلمان اور بنگلہ دیشی درانداز قبائلی خواتین کو پھنسا رہے ہیں۔ تاہم، فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے ان خواتین سے ملاقات کی اور ایسا کوئی کیس نہیں ملا جہاں بنگلہ دیشی مسلمان درانداز ایسی شادیوں میں ملوث پائے گئے ہوں۔ مقامی دیہاتی بھی ایسے کسی معاملے سے لاعلم ہیں۔ ان دس خواتین میں سے چھ نے مقامی مسلمانوں سے شادی کی تھی، جبکہ تین کے شوہر خود آدیواسی ہیں۔ اس علاقے میں قبائلی خواتین کی ہندو اور مسلمان دونوں سے شادیوں کی مثالیں موجود ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنتھال پرگنہ میں قبائلیوں کو درپیش سماجی و اقتصادی مسائل ماضی اور موجودہ دونوں ریاستی حکومتوں کی ناکامیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ حکومت سنتھال پرگنہ اور ریاست کے دیگر علاقوں میں قبائلیوں کے بنیادی مسائل، جیسے کمزور معاشی حالت، غیر قبائلیوں کی جانب سے زمین کی خریداری کے لیے SPTA کی خلاف ورزی اور سرکاری ملازمتوں پر غیر قبائلیوں کا قبضہ کے تئیں بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مزید برآں، دوسری ریاستوں کے لوگ ناکافی غذائیت، ناقص صحت کی دیکھ بھال اور معاشی مشکلات کے باوجود اس علاقے میں آباد ہو رہے ہیں۔
بی جے پی کا یہ دعویٰ کہ قبائلیوں کی زمین پر مسلمان قبضہ کر رہے ہیں، اس وقت کی حقیقت سے متصادم ہے، کیونکہ رگھو ویرداس کی قیادت میں بی جے پی کی سابقہ حکومت نے اڈانی پاور پلانٹ پروجیکٹ کے لیے آدیواسیوں کی زمین زبردستی حاصل کی تھی۔ انہوں نے جھارکھنڈ کو نقصان پہنچا کر اڈانی کو فائدہ دینے کے لیے ریاست کی توانائی کی پالیسی میں تبدیلی کی اور سنتھال پرگنہ کو اندھیرے میں رکھ کر بنگلہ دیش کو بجلی فراہم کی۔ بی جے پی صرف غلط اعداد و شمار پیش کر کے مذہبی فرقہ واریت اور پولرائزیشن پیدا کرنا چاہتی ہے۔
ایک طرف بی جے پی قبائلیوں کی آبادی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے تو دوسری طرف جھارکھنڈ حکومت کی طرف سے پاس کردہ سرنا کوڈ، پسماندہ طبقات کے لیے 27 فیصد ریزرویشن اور کھٹیان پر مبنی ڈومیسائل پالیسی پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ ان کو روکنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ مودی حکومت ذات پات کی مردم شماری سے بھی گریز کر رہی ہے جس سے برادریوں اور مختلف ذاتوں کی موجودہ صورتحال واضح ہو سکتی ہے۔
1951 سے 1991 کے دوران قبائلی آبادی میں کمی کی تین بڑی وجوہات ہیں:
1- غیر قبائلیوں کی آمد: اس عرصے کے دوران غیر قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد آس پاس کی ریاستوں سے جھارکھنڈ میں آئی، خاص طور پر شہروں اور کان کنی کے علاقوں میں۔ مثال کے طور پر رانچی میں قبائلیوں کا تناسب 1961 میں 53.2 فیصد سے کم ہو کر 1991 میں 43.6 فیصد رہ گیا۔ اس وقت دوسری ریاستوں سے 10.73 لاکھ تارکین وطن 1961 میں جھارکھنڈ آئے اور 14.29 لاکھ مہاجرین 1971 میں آئے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی بہار اور دیگر قریبی ریاستوں سے تھا۔ اگرچہ ان میں سے اکثر کام کے بعد واپس چلے گئے لیکن بہت سے لوگ یہاں آباد بھی ہوئے۔
2- قبائلیوں کی نقل مکانی: ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو ترجیح نہ ملنے اور پانچویں شیڈول کی دفعات اور قبائلی مخصوص قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دوسری ریاستوں سے غیر آدیواسی یہاں آباد ہونے لگے۔ بے گھر ہونے اور روزگار کی کمی کی وجہ سے قبائلی کئی دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، جس کا براہ راست اثر ان کی آبادی میں اضافے کی شرح پر پڑتا ہے۔ مرکزی حکومت کی 2017 کی اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق ریاست سے 15-59 سال کی عمر کے تقریباً 50 لاکھ افراد نے 2001 سے 2011 کے درمیان نقل مکانی کی۔
3- ناکافی غذائیت اور صحت کا نظام: ناکافی غذائیت، ناکافی صحت کے نظام اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے قبائلیوں کی اموات کی شرح دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ 1951-91 کے درمیان قبائلیوں کی آبادی کی سالانہ شرح نمو 1.42 تھی، جبکہ جھارکھنڈ کی شرح نمو مجموعی طور پر 2.30 تھی۔ دراصل یہ تمام وجوہات مل کر ہی قبائلی آبادی میں کمی کا باعث بنی ہیں۔
***
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، 1951 میں سنتھال پرگنہ میں 46.8 فیصد قبائلی، 9.44 فیصد مسلمان، اور 43.5 فیصد ہندو تھے۔ 1991 تک قبائلیوں کی آبادی 31.89 فیصد اور مسلمانوں کی آبادی 18.25 فیصد ہو گئی تھی۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس خطے میں 28.11 فیصد قبائلی، 22.73 فیصد مسلمان اور 49 فیصد ہندو تھے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024