نفرت کی آگ نہ روکی گئی تو آتش فشاں بن جائے گی
حکومت ، محب وطن شہریوں، مذہبی قائدین اور دانشوروں سے بھائی چارہ قائم کرنے کی اپیل
اندور (دعوت نیوز ڈیسک)
ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادای کا حق۔ یکساں سول کوڈ کے جبری نفاذ سے ملک کا اتحاد متاثر ہوگا
عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے قانون کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ :آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قراردادیں
مسلمانوں کو شریعت پرعمل کرنے ، عورتوں سے انصاف کرنے اور فضول خرچی سے بچنے کی تلقین
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اٹھائیسویں اجلاس عام منعقدہ 3 تا4 جون 2023ء بمقام اندور درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں۔
1۔ یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ ملک میں نفرت کا زہر پھیلایا جا رہا ہے اور اس کو سیاسی لڑائی کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے، یہ اس ملک کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدین، دستور کے مرتبین اور ملک کے اولین معماروں نے اس ملک کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، یہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب، قبائل، زبانوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک کی خدمت کی ہے اور اس کو آگے بڑھانے میں یکساں کردار ادا کیا ہے، اگر یہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ ختم ہو گیا تو ملک کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔ اس لیے یہ اجلاس حکومت سے، محب وطن شہریوں سے، مذہبی قائدین اور دانشوروں سے، قانون دانوں، سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہے کہ وہ نفرت کی اس آگ کو پوری قوت کے ساتھ بجھانے کی کوشش کریں ورنہ یہ آتش فشاں بن جائے گی اور ملک کی تہذیب، اس کی نیک نامی اس کی ترقی اور اس کی اخلاقی وجاہت سب کو جلا کر خاک کر دے گی۔
2۔ قانون انسانی سماج کو مہذب بناتا ہے، ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، مظلوموں کو انصاف فراہم کرتا ہے اور اس کے لیے حصول انصاف کی امید ہوتا ہے، لاقانونیت سماج کو انارکی میں مبتلا کر دیتی ہے، اس لیے حکومت ہو یا عوام، اکثریت ہو یا اقلیت، برسراقتدار گروہ ہو یا حزب مخالف، سرمایہ دار ہو یاغریب و مزدور، سب کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ لیکن اس وقت بدقسمتی سے ملک میں لاقانویت کا ماحول بن رہا ہے، ماب لنچنگ ہو رہی ہے، ملزم پر کیس ثابت ہونے سے پہلے اس کو سزا دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو مکانات دسیوں سال سے بنے ہوئے ہیں، جو حکومت اور انتظامیہ کی نظروں کے سامنے بنے اور جن سے قانونی واجبات بھی وصول کیے جاتے رہے، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ لمحوں میں زمیں بوس کر دیا جاتا ہے۔ احتجاج کا دستوری حق استعمال کرنے والے اور پُر امن طور پر اپنا موقف پیش کرنے والوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے اور جرم ثابت کیے بغیر مدتوں ان کو جیل میں رکھا جاتا ہے، یہ سب لاقانونیت کی بدترین شکلیں ہیں۔ لاقانونیت عوام کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے بہرحال قابل مذمت ہے، اس کو روکنا حکومت کا اور تمام باشندگان ملک کا فریضہ ہے۔
3۔ ملک کے دستور نے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی ہے، یہ اس کا بنیادی حق ہے، اس میں پرسنل لا بھی شامل ہے۔ یہ اجلاس حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرے، پرسنل لا کے ذیل میں مختلف گروہوں کے جو تشخصات ہیں، ان کو ختم کر کے یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ایک غیر دستوری بات ہوگی، یہ اتنے متنوع اور مختلف مذاہب اور تہذیب کے حامل ملک کے لیے نہ موزوں ہے اور نہ ہی مفید، اگر اس کو پارلیمنٹ میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک کا اتحاد متأثر ہوگا، ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے بورڈ کا یہ اجلاس جو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں پر مشتمل ہے، حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ارادہ سے باز آجائے اور ملک کے حقیقی مسائل پر توجہ کرے۔
4 -عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کا قانون خود پارلیمنٹ کا منظور شدہ کردہ قانون ہے، اس کو قائم رکھنا حکومت کا فریضہ ہے اور اسی میں ملک کا مفاد بھی ہے؛ ورنہ پورے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی شروع ہو جائے گی جو ملک کی بہت بڑی بدبختی ہوگی۔ اس وقت گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ سے متعلق نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹ کے جو متواتر فیصلے آرہے ہیں اس نے مسلمانوں میں تشویش پیدا کردی ہے۔ 1991 ایکٹ کی موجودگی کے باوجود قدیم مسجدوں پر یلغار شروع ہوچکی ہے۔ بورڈ کا یہ اجلاس یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ مساجد اللہ کے گھر ہیں، اسلام کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ناجائز طریقہ سے حاصل کی گئی زمین پر مسجد تعمیر نہیں کی جاسکتی، اس لیے یہ الزام انتہائی بے بنیاد اور لچر ہے کہ بعض مساجد کسی دوسرے کی عبادت گاہ پر تعمیر کی گئیں۔ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس حقیقت پر مہر لگا دی ہے۔ لہذا بور ڈ کا یہ اجلاس حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ 1991 ایکٹ کو سختی سے نافذ کرے، اسی میں ملک کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔
5۔ ملک کی جمہوریت کو پرکھنے کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ ملک کی اقلیتیں کتنی محفوظ و مامون ہیں اور ان کے حقوق کو کتنا تحفظ حاصل ہے؟ افسوس کہ مسلمان تو یہاں فرقہ پرست عناصر کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں حکومت کی دیکھ کر بھی اَن دیکھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اور اب ملک کی دوسری اقلیتیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں، جس کی بدترین مثال اس وقت منی پور میں عیسائی اقلیت کی جانوں ومالوں پر حملے اور ان کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ شرپسندوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے، ملک کی سیکولر قدروں کی حفاظت کرے اور عالمی سطح پر بھارت کے چہرے کو داغ دار ہونے سے بچائے۔
6۔ اوقاف دینی وانسانی مقاصد کے لیے مسلمانوں کی جانب سے دی جانے والی املاک ہیں، جن کو شرعاََ وقانوناََ ان کے مقررہ مقاصد ہی پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ حکومت یا عوام کی طرف سے وقف کی جائیداد پر قابض ہو جانا یہ کھلے طور پر غصب ہے، خواہ یہ کسی مسلمان کی طرف سے ہو یا غیر مسلم کی طرف سے، ملک کے کسی شہری کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے، بہر حال یہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔ اس لیے بورڈ اوقاف کے سلسلہ میں حکومت کے بعض نمائندوں کی طرف سے جاری کیے جانے والے ان بیانات پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتا ہے جس میں مسلمانوں کو ان کے اوقاف سے محروم کرنے کے جذبہ کا اظہار ہوتا ہے اور حکومت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی قدم سے باز رہے نیز مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقافی جائیدادوں کی حفاظت کے لیے مقامی طور پر بھرپور کوشش کریں، افتادہ اراضی کی احاطہ بندی کرائیں، اوقاف کو ان کے مقررہ مقاصد نیز جہاں ضرورت ہے، وہاں ملت کے نونہالوں کے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
7۔ مدارس ایسے تعلیمی ادارے ہیں، جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور پڑھنے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ انسانوں سے محبت اور مخلوق کی خدمت کرنے والے افراد ہیں۔ یہ ادارے آزادی کے بعد ہی سے قائم ہیں، یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے سنسکرت کی تعلیم کے لیے پاٹھ شالے قائم کیے گئے تھے اور جو اب بھی موجود ہیں۔ مگر افسوس کہ ملک کے مشرقی علاقوں میں مدارس کو بند کرنے اور ان کی املاک کو تباہ کرنے کی حکومتی سطح سے کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سرکاری دہشت گردی کی بدترین شکل ہے۔ اسی طرح بلا کسی تحقیق اور خود حکومت کے ریکارڈ کے برخلاف مدارس کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔ بورڈ اس طرز عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
-8 بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانوں کو متوجہ کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کا مطلب اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے حوالہ کر دینا ہے۔ اس لیے بحیثیت مسلمان ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم شریعت کے قانون پر عمل کریں، عورتوں کے ساتھ انصاف، بزرگوں کے ساتھ حُسن سلوک، شادی بیان میں فضول خرچی سے پرہیز اور سادگی کا لحاظ رکھیں، اپنے معاملات کو اپنے قاضیوں، مذہبی رہنماؤں کے سامنے رکھ کر اپنے تنازعات حل کریں، شریعت نے جن باتوں کو حرام اور گناہ قرار دیا ہے، ان سے بچیں، چاہے قانون میں اس کی ممانعت نہ ہو، جیسے نشہ، نکاح کے بغیر مردو عورت کا جسمانی تعلق، سود، ہم جنسی، شوہر یا بیوی سے بے جا طریقہ پر پیسہ وصول کرنا، طلاق کے بعد بھی بیوی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا، یہ ساری باتیں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں اور نہ ہی ملک کا قانون ہمیں اس پر مجبور کرتا ہے، چاہے قانون کسی خلاف شریعت بات کی اجازت دیتا ہو اور اس میں کسی شخص کا کتنا ہی فائدہ کیوں نہ ہو لیکن ایک مسلمان کے لیے ایسا کرنا ہرگز بھی جائز نہیں ہے۔
9۔ بورڈ عام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نکاح کے لیے بورڈ کے مرتب کیے ہوئے نکاح نامہ کا استعمال کریں، جس میں زوجین کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جس میں عاقدین کے لیے اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے باہمی نزاعات کو حل کرنے کے لیے دارالقضاء یا محکمۂ شرعیہ کو ثالث بنائیں۔ اگر سماج اس نکاح نامہ سے فائدہ اٹھائے اور اس میں شامل ثالثی پر عاقدین دستخط کر دیں تو اس سے بڑا فائدہ ہوگا، طلاق کے واقعات کم ہوں گے، عورتوں کے حقوق کی حفاظت ہوگی، اگر ان کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہوجائے تو آسانی کے ساتھ کم خرچ میں ان کے اختلافات دور ہو سکیں گے۔ بورڈ کی جانب سے آسان اور مسنون نکاح مہم جاری ہے اور بحمدللہ اس کے بہت اہم اور مفید اثرات سامنے آرہے ہیں۔ بورڈ کا یہ اجلاس مسلمانان ہند سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس مہم میں بھرپور حصہ لیں۔ یہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے اور ہمارا شرعی و اخلاقی فریضہ بھی۔
10۔ مذہب اور عقیدہ کا تعلق انسان کے یقین اور ضمیر سے ہے، کسی مذہب کو اختیار کرنے کا حق ایک فطری حق ہے، اسی بنا پر ہمارے دستور میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے اور ہر شخص کو کسی مذہب کو اختیار کرنے یا اس کی تبلیغ کی آزادی دی گئی ہے، البتہ اس کے لیے زور و زبردستی اور مالی تحریص ایک نامناسب بات ہے؛ لیکن حالیہ برسوں میں ملک کی مختلف ریاستوں میں ایسے قوانین لائے گئے اور مزید ریاستوں میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا مقصد ملک کے شہریوں کو سرے سے اس اہم حق سے محروم کرنا ہے، یہ بات کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جو لوگ اپنی مرضی سے ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنا چاہتے ہوں یا پُر امن طریقہ پر قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہوں، ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ پیدا کی جائے۔
-11 مسلم پرسنل بورڈ کا یہ اجلاس ہم جنسوں کے مابین شادی کو قانونی جواز دیے جانے کی ہر کوشش کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور اسے ملک و انسانیت کے لیے انتہائی مضر، مہلک اور نقصان دہ سمجھتا ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ مغربی ممالک میں ہم جنسی کی شادی اور LGBT کی جو بے حیا اور فحش تحریک چل پڑی ہے اس کے منحوس اثرات اب ہمارے ملک پر بھی پڑنے لگے ہیں حالانکہ اس تحریک نے ان ممالک کے خاندانی نظام میں شدید بحران پیدا کر دیا ہے۔
ہمارا ملک ایک مذہبی ملک ہے اور ہر مذہب نے ان غیر فطری اور غیر اخلاقی تعلقات کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ اس مسئلہ پر اسلام کا نقطہ نظر بہت صاف اور واضح ہے۔ اسلام اسے غیر فطری، غیر اخلاقی اور حرام سمجھتا ہے نیز اسے افزائش نسل کے فطری عمل کا مخالف اور خاندانی نظام کو متزلزل کرنے والا فعل سمجھتا ہے۔ بورڈ ملک کے تمام مذہبی رہنماوں، سماجی مصلحین، سماجی کارکنوں، دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کو آواز دیتا ہے کہ وہ اس رجحان کی سختی سے مخالفت کریں اور اسے کسی بھی قیمت پر قانونی جواز حاصل نہ ہونے دیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023