
نفرت کا جواب محبت سے دیا جائے
نفرت کی بنیاد پر سیاست: کیا جمہوریت اب فسطائیت کی طرف بڑھ رہی ہے؟
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
سیاسی مفادات کی خاطر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی عالمی پیمانے پر قابل مذمت
انسان فطرتاً محبت کو پسند کرتا ہے اور نفرت سے نفرت کرتا ہے، مگر محبت کا فروغ وقت لیتا ہے، جب کہ نفرت پھیلانا زیادہ آسان اور تیز ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شیطان ہے، جو انسان کے دل و دماغ میں وسوسے، فتنہ اور نفرت کے بیج بوتا ہے۔ شیطان کا نظر نہ آنا ایک لحاظ سے انسان کے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اگر وہ نظر آتا تو انسان کو مسلسل خوف، اضطراب اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہوتا، لیکن اس کے نظر نہ آنے سے انسان اس سے غافل ہو جاتا ہے اور اس کی چالوں کا شکار بنتا ہے۔ شیطان جھوٹ، فریب، بدگمانی اور شکوک کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں دوریاں ڈال کر معاشرتی فساد اور انتشار پیدا کرتا ہے، جس سے تعلقات میں بگاڑ آتا ہے اور سماج تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو آج نفرت پر مبنی فضا ہرچہار جانب پروان چڑھ رہی ہے جس سے پوری دنیا پریشان ہے۔حکومتیں،باشعور افراد ،سنجیدہ طبقات بلکہ ہر شہری ،یہاں تک کہ پورا نظام اس ناسور سے بری طرح پریشان ہے اور غالباً نفرت کے بڑھتے پھیلاؤ ہی کانتیجہ ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے انسداد کا ہر سال 18جون کو عالمی دن بھی منایا جانے لگاہے۔ اس دن دنیا بھر میں نفرت انگیز تقاریر اور ان تقاریر کے نتیجہ میں سماج پر پڑنے والے منفی اثرات پر غور و فکر کیا جاتا ہے، ہزاروں سمینار،مذاکرے،تجزیاتی رپورٹیں اور سروے پیش کیے جاتے ہیں۔بے شمار حل تلاش کیے جاتے ہیں اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں،وقت صلاحیتیں اور وسائل کا بے تحاشا استعمال ہوتا ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ اس دن کے منانے کا مقصد متعصبانہ رویے سے گریز، تمام مذاہب کے احترام کی فضا کو پروان چڑھانا،انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے مطابق ان مسائل کے حل کی ضرورت کو اجاگر کرناہے۔لیکن نتیجہ اس کے برخلاف ہے۔ نفرت انگیز تقاریر اور اس کے منفی اثرات میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا چلاجارہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے امریکہ میں قائم تھنک ٹینک انڈیا ہیٹ لیب (آئی ایچ ایل) نے بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے حوالے سے 10فروری 2025کو ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ گزشتہ سال بھارت میں ہونے والے سخت انتخابی مقابلے کے دوران ناقدین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف جواشتعال انگیز بیانات دیے ہیں اس کی سابق میں مثال نہیں ملتی۔ ناقدین کے مطابق ان بیانات کا مقصد ہندوؤں کو متحرک اور متحد کرنا تھا۔وزیر اعظم مودی نے اپنی ریلیوں میں، مسلمانوں کو گھس پیٹھیا (درانداز) کہا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ملک کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی ۔انڈیا ہیٹ لیب کے تجزیے کے مطابق نفرت انگیز مواد پھیلانے کے لیے فیس بک، یوٹیوب اور ایکس،سب سے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس رہے ہیں ۔آئی ایچ ایل نے کہا ہے کہ انتخابات کے دوران بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کی 266 ‘مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر’ کو یوٹیوب، فیس بک، اورایکس پر بیک وقت پوسٹ کیا گیا۔ یہ تقاریر بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کے آفیشل اکاؤنٹس کے ذریعے بھی شیئر کی گئیں۔
بی جے پی کی ہندو قوم پرستانہ بیان بازی نے ملک کے 22 کروڑ سے زائد مسلمانوں میں ان کے مستقبل کے حوالے سے شدید بےچینی پیدا کی ہے۔آئی ایچ ایل کی رپورٹ کے مطابق "2023 میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز بیانات کے 668 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جو 2024 میں بڑھ کے1165تک پہنچ گئے یعنی ان میں 74.4 فیصد کا اضافہ ہواہے”۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ چوں کہ 2024 عام انتخابات کا سال تھا اس لیے اس نے نفرت انگیز بیانات کے رجحانات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا”۔تحقیق کے مطابق 98.5 فیصد نفرت انگیز تقاریر مسلمانوں کے خلاف کی گئیں اور ان میں سے دو تہائی سے زائد بیانات ان ریاستوں میں دیے گئے جہاں بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔
اس رپورٹ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں نفرت کی بنیاد پر حکومتیں تشکیل دی جارہی ہیں، ووٹ حاصل کرنے اور تقسیم کرنے کی کوشش میں نفرت کومزید فروغ دیا جار ہا ہے ۔باالفاظ دیگر جمہوریت، اب نفرت کے فروغ کا ذریعہ بن رہی ہے ۔اور پھر دھیرے دھیرے یہی نفرت پر مبنی جمہوریت آمریت یا فسطائیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فسطائیت کے فروغ کا ذریعہ بھی جمہوریت ہے تو آپ کے خیال میں یہ بات کس حد تک درست کہلائے گی؟اس کا جواب بھی آپ ہی کو دینا ہے۔لیکن اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اسے صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لیے اُن ممالک کا آج بھی اور کل جو گزر گیا، اس میں بھی دیکھا جانا چاہیے کہ فسطائیت کے آغاز،فروغ اور استحکام میں کون سا نظام مددگار رہا ہے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔اس کے باوجود عوام کی رائے پرمبنی حکومت سازی حددرجہ اہمیت کی حامل ہے۔ پس معاملہ یہ ہے کہ عوام کے ذریعہ حکومت سازی کرتے ہوئے ایماندارانہ رویہ اختیار کیا جائے۔یعنی ان تمام امور سے پرہیز کیا جائے جنہیں اختیار کرنے کے نتیجہ میں فساد فی الارض رونما ہوتا ہو، عوام بدحالی و پریشانی میں مبتلا ہوں اور ملک کی سالمیت اور ترقی کی راہیں بھی خطرہ میں پڑتی نظر آتی ہو۔
مسائل کے حل کے لیے ان لوگوں کو اپنے شب و روز کے اعمال ،رویہ اور طرز زندگی میں تبدیلی لانی ہوگی جو نفرت کی فضا میں سب سے زیادہ متاثر ہیں۔سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو کسی بھی ملک کی اقلیتیں،خصوصاًمسلمان،جن کے خلاف حکومتیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والےسماجی،ثقافتی ،تعلیمی اور سیاسی ایکٹوسٹ اور ان کی سرگرمیاں،جس میں راست طور پر وہ اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہیں،اور ان کی انفرادی ،اجتماعتی اورگروہی شناخت کو منفی رنگ دینے میں مصروف رہتی ہیں،ایسے افراد سے روابط اگرچہ مشکل سہی، استوار کرنے ہوں گے۔نیز، جہاں روابط موجود ہیں انہیں مستحکم کرنا ہوگا اور جن غلط فہمیوں میں وہ شعوری و لاشعوری طور پر مبتلا ہیں،ان کو دورکرنے کی کوشش کرنا ہو گا۔دوسری جانب جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اور نفرت کا ماحول پروان چڑھایا جارہا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کی کیا بنیادیں کیا ہیں اس کو بھی سمجھنا ہو گا۔ نیز جن بنیادوں پر نفرت پھیلائی جارہی ہے،اس میں کس حد تک سچائی ہے ،کتنا جھوٹ ہےیہ بھی معلوم کرنا ہو گا۔ نفرت کو پھیلانے میں عموماًدو قسم کے لوگ سرگرم نظر آتے ہیں،ایک وہ جو نفرت کا بیج بوتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان حالات میں اگر نفرت کے بیج بونے والوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان کی غلط فہمیوں اور برے ارادوں کو مثبت طرز عمل سے تبدیل کیاجائے تو عین ممکن ہے کہ نفرت کی فضا تبدیل ہو گی۔یہ کام اگرچہ بہت مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔حوصلہ رکھنے والوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے نبیؐ، یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ۔ ورنہ اگر کہیں تم تُند خواور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے، ان کے قصور معاف کر دو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو”(اٰل عمران:159) لہذا اسی رویہ اور طرز عمل کو مسلمانوں کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔اور اللہ تعالیٰ کے اِس وعدہ پر یقین رکھنا چاہیےکہ”اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں ، اور وہ تمہیں چھوڑ دے ، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہے؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے”( اٰل عمران:160)۔
وہیں اللہ کے رسول کے اس ارشاد گرامی میں بھی ہمارے لیے بہترین رہنمائی ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اس کا جوتا اچھا ہو، تو آپؐ نے فرمایا:اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے،تکبر حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے”(صحیح مسلم: 91)۔اس حدیث کو دیکھیے اور ہندوستان میں زمیندارنہ نظام اور اس کی خرابیوں کو محسوس کیجیے،جس کے اثرات کہیں نہ کہیں آج بھی معاشرے میں موجود ہیں۔ساتھ ہی ہندوستان میں جو ذات پات کا سسٹم رائج ہے،اس میں مختلف درجات کے لوگوں کے ساتھ سابقہ اور موجودہ ریوّں کو باریک بینی سے دیکھنےاورسمجھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی واضح ہدایات کے باوجود ہم کس غفلت میں مبتلا ہیں۔ساتھ ہی ہندوستان میں ذات پات پر مبنی معاشی نظام قائم کیا گیا اور اس کی بنیاد پر لوگوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے اس میں ہمارا خیال ہے کہ اس میں کیا مسلمان نفرت کے اس ماحول سے متاثرہ افراد تک اپنے قولی اور عملی زندگی میں کوئی بہتر کردار اداکرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ان حالات میں جہاں ایک جانب شیاطین کی کارستانیوں کو سمجھنا ہے،وہیں شیاطین سے دھوکہ کھانے والے انسانوں سے بہتر روابط پیدا کرنا اور انہیں ان کےرب کا راستہ بتانا ہے،نفرت کی دیواروں کو ڈھا کر محبت کا محل تعمیر کرنا ہے۔ انہی کوششوں کے نتیجہ میں اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ انسان نفرت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا اور وہ جب اپنے رب کے سامنے حاضر ہوگا تو وہ کامیاب لوگوں میں شمار کیا جائے گا۔لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں، مایوس ہوئے بغیر خیرکے کاموں کی جانب پیش رفت کی جانی چاہیے۔
[email protected]
***
***
آئی ایچ ایل کی رپورٹ کے مطابق "2023 میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے نفرت انگیز بیانات کے 668 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جو 2024 میں بڑھ کے1165تک پہنچ گئے یعنی ان میں 74.4 فیصد کا اضافہ ہواہے”۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ چوں کہ 2024 عام انتخابات کا سال تھا اس لیے اس نے نفرت انگیز بیانات کے رجحانات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا”۔تحقیق کے مطابق 98.5 فیصد نفرت انگیز تقاریر مسلمانوں کے خلاف کی گئیں اور ان میں سے دو تہائی سے زائد بیانات ان ریاستوں میں دیے گئے جہاں بی جے پی یا اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025