ندوة العلماء میں دو روزہ فقہی سیمینار: عصر حاضر کے تقاضوں پر غور و فکر
جانوروں کی مصنوعی افزائش، بیع معدوم اور یسر و تیسیر کے جدید تقاضے زیر بحث
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کا دو روزہ فقہی سیمینار مورخہ ۳۰ نومبر ویکم دسمبر ۲۰۲۴ء بروز سنیچر، اتوار ندوۃ العلماء میں منعقد ہوا، جس میں ملک اور بیرون ملک سے منتخب علماء کرام اور اصحاب افتاء شریک ہوئے۔سیمینار میں تین موضوعات:جانوروں کی مصنوعی افزائش، بیع معدوم اور اس کی جدید شکلیں اور یسر و تیسیر اور عصر حاضر کے تقاضے زیر بحث آئے اور طویل بحث ومباحثہ اور غور وخوض کے بعد بالاتفاق رائے مندرجہ ذیل تجاویز منظور ہوئیں :
تجاویز بابت جانوروں کی مصنوعی افزائش
انسانی آبادی کے پھیلاؤ ، اس کی بڑھتی ضرورتوں اور جدید سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں جانوروں کی مصنوعی افزائش ایک امر واقعہ ہے، چنانچہ آرٹیفیشل لیب اور سائنٹیفک ذرائع سے جانوروں کی مصنوعی افزائش کی جا رہی ہے اور خصوصی انجکشن اور دیگر ایسے مصنوعی ذرائع اختیار کیے جا رہے ہیں جن سے جانوروں کی پیدائش میں خاطر خواہ اضافہ ہو تاکہ مارکیٹ کے مطالبے اور تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
شرکائے سیمینار اس سلسلے میں طے کرتے ہیں کہ:
۱۔جانوروں میں تلقیح یعنی مصنوعی افزائش(Artificial Insemination) کا عمل شرعی اعتبار سے درست ہے ،خواہ یہ عمل جانوروں کی نسل بچانے کے لیے ہو، یا ان کی تعداد بڑھانے اور نفع بخش بنانے کے لیے ہو۔
۲۔جانوروں کی مصنوعی افزائش کے لیے ایسی دواؤں اور انجکشن کا استعمال درست نہیں ہے جو طبی ماہرین کی رائے میں انسانی صحت کے لیے ضرر رساں بنتے ہوں اوراگر جانوروں کی مصنوعی افزائش کے لیے دی جانے والی غذاؤں اور دواؤں سے انسانی صحت کو نقصان نہ پہنچتا ہو تو ان کے استعمال کی اجازت ہے۔
۳۔مرغیوں اور مچھلیوں کی افزائش میں ان کوپاک غذا دینے کا اہتمام کیا جائے، اگر ان کی غذا میں پاک کے ساتھ ناپاک اجزاء بھی شامل ہیں تو ان کی مقدار اتنی نہ ہو جس سے گوشت پر اس کے منفی اثرات ظاہر ہوجائیں۔اگر گوشت میں نجس غذا کے اثرات ظاہر ہوں تو ان کا استعمال نہ کیا جائے ۔
۴۔حفاظتی و جاسوسی اور دیگر جائز مقاصد کے لیے اور اسی طرح اچھی اور خوبصورت نسل کی تیاری کے لیے گھوڑے، کتے یا دیگر جانوروں کی مصنوعی افزائش کرنا اور انہیں انجکشن دے کر ٹریننگ کے مراحل سے گزارنا درست ہے۔
۵۔آپریشن کی مشق اور دیگر طبی مقاصد کے لیے جانوروں کی مصنوعی افزائش، ان کی ٹریننگ اور انہیں میڈیکل پروسیس سے گزارنا شرعاً درست ہے۔
۶۔محض شوق اور فخر و مباہات کے لیے جانوروں کے اندر تغییر خلقت شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔
۷۔آج کل بلا ضرورت کتوں کو پالنے کا رواج بڑھ رہا ہے،یہ رجحان اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے لہٰذا بلا ضرورت کتوں کو پالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۸۔اسلام میں جانوروں کے بھی حقوق ہیں، ان کے ساتھ رحم دلی اور نرمی اختیار کرنے ،ان کی ضروریات پوری کرنے اور ان کو ظلم سے بچانے کی تاکید کی گئی ہے، لہٰذا جانوروں کی مصنوعی افزائش اور ان کی ٹریننگ وغیرہ کے عمل میں اس بات کا پورا خیال رکھا جائے کہ ان کو بلاضرورت تکلیف نہ دی جائے اور ان کے حقوق کی رعایت رکھی جائے۔
۹-حلال غذاؤں کا اہتمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے خاص طور سے گوشت کے سلسلہ میں اسلام کی واضح ہدایات ہیں ، اس لیے اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ مسلمان حلال جانوروں کی افزائش اور اس سے متعلق معاملات میں سامنے آئیں اور ماہرین سائنس اور دینی علم رکھنے والوں کی مدد سے ایسے ادارے اور ان کا نظام قائم کریں جن میں اسلامی احکام کا پورا لحاظ رکھا جائے، تاکہ اس میدان میں ایسے نفع بخش اور حلال مصنوعات تیار ہوسکیں جو تمام انسانوں کے لیے نفع بخش ثابت ہوں ۔
۱۰-انسانی غذاؤں کا مسئلہ انسانوں کے لیے بہت بنیادی مسئلہ ہے، اس لیے ہم حکومت سے امید کرتے ہیں کہ جانوروں کی مصنوعی افزائش اور غذاؤں کے لیے بہتر قانون سازی کرے اور ایسی شکلوں پر پابندی عائد کرے جو انسانی صحت کے لیے ضرر رساں ہوں، اور اگر ایسے قوانین موجود ہوں تو ان پر سختی سے عمل کرائے ۔
تجاویز
بیع معدوم اور اس کی جدید شکلیں
۱۔ بيع معدوم کے سلسلے میں جمہور فقہاء خصوصاً ائمہ اربعہ کی رائے یہ ہے کہ بیع معدوم شرعاً ناجائز ہے ۔
۲۔عقد کے وقت شئی کے معدوم ہونے کے باوجود بیع سلم اور عقد استصناع دونوں کا جواز متفق علیہ ہے،ان دونوں کو حاجت اور تعامل پائے جانے کی وجہ سے شریعت نے جائز قرار دیا ہے ، لہٰذا دور حاضر کے جو عقود و معاملات ان دونوں کے مماثل ہوں وہ بھی جائز ہوں گے۔
۳۔ بڑے تاجر چھوٹے تاجروں سے سامان فراہم کرنے کا جو معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کے مطابق ایک دوسرے سے سامان حاصل کرکے فراہم کرتے ہیں، اگر معاہدہ کی تمام شقیں اس طرح واضح ہوں کہ کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ نہ ہو اور ہر معاملہ مستقل ہو، ایک دوسرے پر موقوف نہ ہو تو یہ شکل جائز ہے، خصوصاً جب کہ اس طرح کے معاملات کا رواج ہو ۔
۴۔ اگر بلڈر قابل اعتماد ہو اور نقشہ اس طرح بنا کر پیش کرے کہ پوری نوعیت واضح ہو جائے اور نزاع کا اندیشہ نہ ہو تو اس طرح نقشہ پر فلیٹ کی خریداری کا معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے ۔
۵۔ اگر مالک زمین اور بلڈر کے درمیان یہ معاہدہ ہو کہ مالک کو چند فلیٹس یا ان کی قیمت ملے گی اور باقی بلڈر کا ہوگا تو یہ شرعا جائز ہے ۔
۶۔ کمپیوٹرا پلیکیشن اور سافٹ ویئر پروگراموں کا معنوی وجود ہوتا ہے اور وہ فروخت کنندہ کی ملکیت میں بھی ہوتے ہیں، لہٰذا وہ مال متقوم ہیں،اس لیے ان کی بیع شرعا درست ہے۔
۷۔ اگر درختوں میں کچھ پھل آ گئے ہوں اور کچھ متوقع ہوں تو متوقع پھل، موجود پھلوں کے تابع ہوں گے اور دونوں طرح کے پھلوں کی ایک ساتھ بیع جائز ہوگی۔
تجاویز
یسر و تیسیر اور عصر حاضر کے تقاضے
قرآن کريم کی متعدد آیات اور احادیث میں یہ بات صاف طور پر بتائی گئی ہے کہ اللہ نے دین اسلام کو آسان اور سہل بنایا ہے، وہ اپنے بندوں کے لیے یسر و آسانی پسند کرتا ہے، عسر اور تنگی کو پسند نہیں کرتا، اسی لیے اللہ نے دین کے احکام میں تنگی نہیں رکھی ہے اور نہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ دین میں تنگی اور سختی پیدا کریں، اس نے اپنے رسول انسانوں کے لیے رحیم وشفیق بنا کر بھیجا اور اسلامی شریعت کے ذریعہ سختی اور تنگی کو ختم کیا ہے۔ خود نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ اختیار کے موقع پر آسان کو اختیار فرمایا اور صحابہ کرام کو آسانی اور سہولت اختیار کرنے اور تنگی اور سختی سے دور رہنے کا حکم فرمایا اور امت کے اندر بھی یسر و سہولت کو عام کرنے کی تاکید فرمائی اور اسی روش کو اپنی بعثت کا مقصد اور امت کے لیے مطلوبہ عمل قرار دیا ہے۔
موجودہ وقت میں زندگی کے مختلف میدانوں میں طرح طرح کی دشواریاں اور پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں، معیشت و کاروبار سے لے کر معاشرتی معاملات، قومی اور بین الاقوامی تعلقات اور عبادات کے ابواب میں شرعی احکام پر عمل کے وقت یہ دشواریاں سامنے آتی ہیں۔ ایسے مواقع پر ضرورت پیش آتی ہے کہ شریعت کے یسر کا پہلو سامنے آئے،اسلامی احکام پر عمل کرنا آسان و قابل عمل بنے اور لوگوں میں اسلامی احکام پر عمل آوری کی رغبت میں اضافہ ہو۔
اس تناظر میں مجلس تحقیقات شرعیہ کے فقہی سیمینار میں اس اصولی موضوع پر غور کیا گیا اور درج ذیل تجاویز طے کی گئیں:
۱۔عموم بلوی اور دیگر عارضی احوال کی بنا پر احکام کی ادائیگی میں پیش آنے والی ایسی مشقت جس سے دینی یا دنیوی مقاصد و مصالح شریعت فوت ہوتے ہوں،خواہ وہ مشقت انفرادی ہو یا اجتماعی، اس میں تخفیف کا نام تیسیر ہے۔
۲۔شریعت نے جن اسباب کی بنا پر احکام میں تیسیر کی اجازت دی ہے وہ مرض، سفر، اکراہ، جنون،جہل، نسیان اور عموم بلوی وغیرہ ہیں۔
۳۔ تیسیر کے لیے درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:
الف: تیسیر کسی نص یا اصل شرعی سے متصادم نہ ہو۔
ب: پیش آنے والی مشقت یقینی یا واقعی ہو، موہوم نہ ہو۔
ج: مشقت عادۃ ناقابل برداشت ہو۔
د: تیسیر کسی خواہش نفس یا ناجائز مقصد کے حصول کے لیے نہ ہو۔
ھ: تیسیر پر عمل کے نتیجے میں اس سے بڑی کوئی دینی مصلحت فوت نہ ہوتی ہو۔
۴-بوقت ضرورت دوسرے مسلک کے قول پر فتوی دینے اور عمل کرنے کی گنجائش ہے بشرطیکہ اس قول کو اس مسلک کی تمام بنیادی شرائط کے ساتھ اختیار کیا جائے۔
۵- اگر کسی مبتلی بہ کو کسی امر میں ایسی تنگی وحرج اور دشواری پیش آئے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا تو ایسی صورت میں اس کے لیے جائز ہوگا کہ وہ ائمہ اربعہ کے مذاہب میں سے کسی دوسرے امام کے قول کو اختیار کرے جس میں حرج ومشقت نہ ہو، البتہ اس صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ از خود فیصلہ نہ کرے بلکہ وہ ان ارباب علم وذکر اور اصحاب فتوی سے رجوع کرے جو دین کا گہرا علم رکھتے ہوں اور ورع وتقویٰ کی صفت سے متصف ہوں ۔
۶- اگر کوئی مسئلہ عموم بلوی کی وجہ سے اجتماعی ہو گیا ہو یا ایسا مسئلہ ہو جو حالات اور زمانہ کی تبدیلی یا نئے عرف کی وجہ سے پیدا ہوا ہو، خاص طور پر لوگوں کے معاملات،مثلا: تجارت، صنعت و حرفت اور تجار، صنعت کار اور اہل پیشہ کی عادات سے متعلق ہو ،خصوصاً بین الاقوامی معاملات میں، تو ایسی صورت میں علماء راسخین اور اصحاب تقوی فقہائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مشکلات اور پیچیدہ مسائل کا حل شریعت کے مقاصد اور قواعد کلیہ کی روشنی میں نئے حالات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ تلاش کریں اور اس کے لیے ائمہ ہدی میں سے کسی ایک کے قول سے دوسرے کے قول کی طرف درج ذیل شرطوں کے ساتھ عدول کرسکتے ہیں:
الف: دوسرا قول شاذ نہ ہو ۔
ب: نص سے ٹکراتا نہ ہو ۔
ج: دیگر مجامع فقہیہ کی آراء سے ہم آہنگ ہو۔
سیمینار میں شرکت کرنے والی اہم شخصیتوں میں مولانا عتیق احمد بستوی (لکھنؤ) مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی (لکھنؤ) مولانا محمد زکریا سنبھلی ندوی (لکھنؤ) مولانا اختیار امام عادل قاسمی (سمستی پور) مولانا رحمت اللہ میر قاسمی (کشمیر) ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی (نئی دہلی) مفتی نذیر احمد (کشمیر) مولانا قاضی سید مشتاق علی ندوی (بھوپال) مولانا فضل الرحیم مجددی (جے پور) مفتی احمد دیولہ (گجرات) مفتی جنید عالم ندوی قاسمی (پٹنہ) مفتی ثناء الہدی قاسمی (پٹنہ) مولانا محمد مصطفی عبدالقدوس ندوی (گجرات) مولانا بدر احمد مجیبی ندوی (پٹنہ) مفتی جمیل احمد نذیری (مبارک پور) مولانا خورشید احمد اعظمی (اعظم گڑھ)، مفتی حبیب اللہ قاسمی (اعظم گڑھ) مفتی راشد حسین ندوی (رائے بریلی) ڈاکٹر محمد شاہجہاں ندوی (کٹولی) مفتی ذاکر نعمانی (جے پور) ڈاکٹر فہیم اختر ندوی (حیدرآباد) مفتی مظاہر حسین عماد قاسمی (کیرالا) مولانا عبید اللہ ابوبکر ندوی (کنڈلور) مولانا صفدر زبیر ندوی (نئی دہلی) مولانا عثمان بستوی (جونپور) مولانا ذہیر احمد قاسمی (کانپور) مفتی اقبال احمد قاسمی (کانپور) مفتی عبد الرشید قاسمی (کانپور) مولانا خورشید انور اعظمی (بنارس) مولانا جنید احمد قاسمی (مونگیر) مولانا عبید اللہ ندوی (گجرات) مولانا ابرار خان ندوی (جئے پور) مفتی اشرف قاسمی (اجین) مولانا محمد مقصود فرقانی (رامپور) مولانا عاشق صدیقی ندوی (پھلت) مفتی عمر عابدین مدنی (حیدرآباد) مولانا محمد ظفر عالم ندوی (لکھنؤ) مفتی محمد زید مظاہری ندوی (لکھنؤ) مولانا محمد مستقیم ندوی (لکھنؤ) مولانا رحمت اللہ ندوی (لکھنؤ) مفتی مسعود حسن حسنی ندوی (لکھنؤ) مولانا محمد نصر اللہ ندوی (لکھنؤ) مولانا منور سلطان ندوی (لکھنؤ) اور ڈاکٹر محمد علی ندوی (لکھنؤ) شامل ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024