
نادر زمینی دھاتیں: صنعتی طاقت کا نیا مرکز
چین کی برآمدی پابندیاں، بھارت میں گاڑیوں اور الیکٹرانکس کی صنعت خطرے میں
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بھارت کے پاس 69 لاکھ ٹن ذخائر مگر پیداوار صرف 2,900 ٹن کیوں؟
نیوڈیمیم میگنیٹس کی مانگ 2032 تک 9 گنا بڑھنے کا امکان-لتھیم، یٹریئم، سیریم اور دیگر دھاتیں: دفاع، توانائی اور ای وی کے لیے ناگز
نایاب ارضی عناصر (Rare Earth Elements) کی اہمیت آج کی صنعتی دنیا میں غیر معمولی طور پر بڑھ چکی ہے۔ رئیر ارتھ میگنیٹس، عام آئرن میگنیٹس کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور برقی گاڑیوں سمیت مختلف مشینوں کی موٹروں میں ان کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔ دنیا میں ’’رئیر ارتھ‘‘کہلانے والی 17 مختلف دھاتیں پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ دھاتیں صرف مخصوص علاقوں تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں موجود ہیں، تاہم چین نہ صرف ان کے وسیع ذخائر کا مالک ہے بلکہ وہاں ان کی کان کنی نسبتاً آسان، کم خرچ اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ انداز میں کی جاتی ہے۔
رئیر ارتھ عناصر کو نایاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ایک نہایت پیچیدہ اور مہنگا عمل ہے۔ ان کی پراسیسنگ کے دوران بھاری مقدار میں تیزاب استعمال ہوتا ہے جو ماحولیاتی خطرات کو جنم دیتا ہے۔ فی الحال، رئیر ارتھ کی عالمی سپلائی چین پر چین کی گرفت مضبوط ہے۔ دنیا کی تقریباً 70 فیصد کان کنی اور 90 فیصد پراسیسنگ چین میں ہوتی ہے۔ یہ عناصر ونڈ ٹربائنز، دفاعی آلات، الیکٹرک گاڑیوں اور مختلف صنعتی مشینوں میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
نئی صنعتی دنیا میں ان عناصر کی اہمیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جیسے ہی چین نے رئیر ارتھ عناصر اور میگنیٹس کی برآمدات پر پابندی عائد کی، بھارت میں سوزوکی کمپنی کو اپنی مقبول کار ’’سویفٹ‘‘کی پیداوار وقتی طور پر روکنی پڑی۔ یہی صورت حال دنیا کی کئی دیگر کمپنیوں کو بھی درپیش ہے، جو اس وقت سپلائی میں خلل اور غیر یقینی حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ حالات بھارت کے لیے ایک واضح انتباہ ہیں کہ وہ رئیر ارتھ کے شعبے میں خود انحصاری کی سمت میں فوری اقدامات کرے۔ ہمارے پاس وسائل موجود ہیں؛ ضرورت صرف سیاسی عزم، تکنیکی ترقی اور مؤثر پالیسی سازی کی ہے۔
گزشتہ اپریل کو جب امریکی صدر ٹرمپ نے ’’لبریشن ڈے‘‘کے موقع پر نئے ٹیرف کا اعلان کیا تو اس کے ردعمل میں چین نے سات اقسام کی رئیر ارتھ دھاتوں اور ان سے بننے والے طاقتور میگنیٹس کی برآمد روک دی۔ ان اشیاء کی اہمیت نہ صرف سِول بلکہ دفاعی شعبے میں بھی بہت زیادہ ہے۔ چین کی جانب سے رئیر ارتھ سپلائی کی بحالی میں سستی نے جنیوا معاہدے کو ناکام بنا دیا ہے۔ زیادہ تر رئیر ارتھ میگنیٹس نیوڈیمیم اور پریسیوڈیمیم سے تیار کیے جاتے ہیں جن میں اگر ڈیسپروسیئم اور ٹربیئم شامل کر دیے جائیں تو یہ میگنیٹس غیر معمولی حد تک حرارت برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
چین نے جن عناصر کی برآمد پر پابندی عائد کی ہے ان میں سیریم بھی شامل ہے جو بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے گائیڈنس سسٹمز میں استعمال ہوتا ہے۔ جنگی طیارہ F-35 میں کئی کلوگرام سیریم درکار ہوتا ہے۔ یٹریئم لیزر ٹیکنالوجی میں جبکہ اسکینڈیم ہلکے طیاروں کے پرزوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ عالمی سطح پر دفاعی کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے، اس کے باوجود رئیر ارتھ عناصر کا مجموعی عالمی استعمال محض پانچ فیصد ہے۔ تاہم بھارت کے لیے یہ عناصر شفاف توانائی، ونڈ ٹربائنز، سیمی کنڈکٹر اور میزائل گائیڈنس جیسے شعبوں میں خود کفالت حاصل کرنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
مالی سال 2023-24 میں بھارت نے تقریباً 2,270 ٹن رئیر ارتھ عناصر درآمد کیے، جن میں سے زیادہ تر چین سے منگوائے گئے حالانکہ بھارت کے پاس عالمی ذخیرے کا تقریباً چھ فیصد حصہ موجود ہے۔ کیرالا میں تھوریم ریت کے ذخائر کے علاوہ راجستھان، اوڈیشہ اور آندھرا پردیش میں بھی ان دھاتوں کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ تاہم ٹیکنالوجی کی کمی اور ناقص حکمت عملی کے باعث ہم عالمی سپلائی کا صرف ایک فیصد ہی فراہم کر پاتے ہیں۔
یہ حقیقت روز بروز نمایاں ہو رہی ہے کہ رئیر ارتھ عناصر کے لیے چین پر انحصار بھارت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، خصوصاً جب دونوں ملکوں کے تعلقات اکثر سرد گرم ہوتے رہتے ہیں۔ اس انحصار سے چین کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت اس شعبے میں خود کفیل بنے، محض ’’اسٹارٹ اپ انڈیا‘‘جیسے نعروں سے کام نہیں چلے گا۔ ہمیں اپنی ٹیکنالوجی کو ترقی دینا ہوگا اور دیگر دوست ممالک میں کان کنی کے امکانات تلاش کرنے ہوں گے۔
خوش آئند پہلو یہ ہے کہ حکومت کو اب اس اسٹریٹیجک خطرے کا شعور ہو چکا ہے — اور اعلیٰ سطح پر اس سمت میں سنجیدگی نظر آنے لگی ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دنیا بھر میں ٹیرف وار چھیڑ دی ہے۔ چین کو سبق سکھانے کے لیے انہوں نے چینی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کر دیے۔ دنیا کے دیگر ممالک نے جن میں بھارت بھی شامل ہے، اس جنگ کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کی ہے لیکن چین نے امریکی دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ہائی ٹیک مصنوعات میں استعمال ہونے والے رئیر ارتھ عناصر (Rare Earth Elements) کی برآمدات محدود کر دیں۔ اس کے رد عمل میں امریکہ نے چینی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے۔
کچھ دن قبل شی جن پنگ اور ٹرمپ کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل بات چیت ہوئی جس کے بعد لندن میں ایک عبوری سمجھوتہ طے پایا جس کے تحت چین پر 55 فیصد اور امریکہ پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے پر اتفاق ہوا۔ دونوں ممالک کو امید ہے کہ اس معاہدے سے تجارتی کشیدگی کم ہوگی اور ان کی سست رفتار معیشتیں بہتری کی جانب گامزن ہوں گی۔
دوسری جانب رئیر ارتھ عناصر پر چین کی اجارہ داری کے باعث بھارت کا مینوفیکچرنگ شعبہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اس تناظر میں مرکزی حکومت نے پبلک سیکٹر اداروں کو ہدایت دی ہے کہ گھریلو ضروریات پوری کرنے اور سپلائی چین کو برقرار رکھنے کے لیے سات اہم رئیر ارتھ دھاتوں (REM) کی مقامی پیداوار پر فوری توجہ دی جائے۔
چین کی جانب سے عائد پابندیوں کے نتیجے میں بھارت کی آٹوموٹیو اور الیکٹرانکس صنعت غیر یقینی حالات سے دوچار ہے اور ان شعبوں کی پیداوار و فراہمی متاثر ہو رہی ہے۔ 2024 میں چین نے عالمی سطح پر 70 فیصد اور امریکہ نے 11.5 فیصد رئیر ارتھ عناصر کی پیداوار کی ہے۔ میانمار نے تقریباً 31,000 میٹرک ٹن پیدا کیے جو عالمی پیداوار کا 8 فیصد ہے، اگرچہ وہاں کے ذخائر کے بارے میں یقینی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
بھارت نے 2024 میں اپنے دستیاب 69 لاکھ ٹن ذخائر میں سے صرف 2,900 ٹن رئیر ارتھ عناصر کی کانکنی کی ہے۔ REM کی بھارت میں درآمد 2020 میں 474 ٹن تھی، جو 2025 میں دگنی ہو کر 1,064 ٹن تک پہنچ گئی۔ 2023 میں ان درآمدات میں چین کا حصہ 92 فیصد تھا جو 2025 میں کم ہو کر 62 فیصد رہ گیا ہے جس کی وجہ ہانگ کانگ اور جاپان کی شراکت میں اضافہ ہے۔ کاربونک اور نان کاربونک مرکبات پر مشتمل REM کی درآمد 2020 میں 1,375 ٹن تھی جو 2025 میں کم ہو کر 786 ٹن رہ گئی ہے۔ تاہم ان میں چین کی شراکت 2020 میں 31.56 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 71.82 فیصد ہو چکی ہے۔
رئیر ارتھ عناصر اور لیتھیم جیسے اہم معدنیات کی طلب بھارت میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ نہ صرف جدید مینوفیکچرنگ بلکہ شفاف توانائی کے اہداف کے لیے بھی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی آئندہ 2 سے 9 جولائی کے دوران پانچ ممالک کے اسٹریٹجک دورے پر روانہ ہوں گے۔ اس دوران وہ برازیل میں ہونے والی برکس (BRICS) سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے، جہاں عالمی معیشت اور ترقی پذیر ممالک کے مابین تعاون پر تبادلہ خیال ہوگا۔ علاوہ ازیں، وہ گھانا، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، ارجنٹینا اور نامیبیا کا بھی دورہ کریں گے۔
ارجنٹینا کا دورہ بھارت کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، بالخصوص اہم معدنیات کی درآمد کے تناظر میں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ارجنٹینا، چلی اور بولیویا ’’لیتھیم مثلث‘‘(Lithium Triangle) کہلاتے ہیں، جہاں دنیا کے سب سے بڑے لیتھیم ذخائر پائے جاتے ہیں۔ بھارت ان تینوں ممالک کے ساتھ لیتھیم کی کانکنی اور تعاون پر فعال مذاکرات کر رہا ہے۔ ایک سینئر افسر کے مطابق بھارت پیرو اور بولیویا کے ساتھ بھی ممکنہ کانکنی منصوبوں پر بات چیت کر رہا ہے تاکہ اپنی بدلتی توانائی ضروریات، ماحولیاتی اہداف اور جدید صنعتی ترقی کے لیے درکار منرلز حاصل کیے جا سکیں۔
ارجنٹینا کے پاس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا شیل گیس اور چوتھا سب سے بڑا شیل تیل کا ذخیرہ ہے، جب کہ اس کے روایتی تیل و گیس ذخائر بھی وسیع ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر ارجنٹینا مستقبل میں بھارت کا ایک اہم توانائی اور معدنی شراکت دار بن سکتا ہے۔
رئیر ارتھ منرلز کی محدود فراہمی، بھارت میں ای وی (الیکٹرک وہیکل) مینوفیکچرنگ کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔ صنعت سے وابستہ ذرائع کے مطابق معروف کمپنیاں جیسے سایم اور الکیمہ نے چین سے ان دھاتوں کی فراہمی کے لیے اجازت طلب کی ہے، لیکن تاحال انہیں منظوری نہیں ملی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب چین نے 4 اپریل 2025 سے رئیر ارتھ میگنیٹس کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جاپان اور ویتنام جیسے ممالک بھی ایسی ہی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
پرائمس پارٹنرز کے نائب صدر نکھل ڈھاکہ کے مطابق بھارت میں زیادہ تر ای وی مینوفیکچررز کے پاس رئیر ارتھ میگنیٹس کا اسٹاک صرف پانچ سے سات ہفتوں کا ہے۔ اگر اس دوران سپلائی بحال نہ ہوئی تو پیداوار میں شدید رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بجاج آٹو نے جولائی کے آغاز میں ایسی صورتحال پر پہلے ہی خبردار کیا تھا۔
الیکٹرک گاڑیوں کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر دو پہیہ ای وی کی مانگ میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ صنعتی تجزیوں کے مطابق، صرف نیوڈیمیم آئرن بورن میگنیٹس کی کھپت 2022 میں 1,700 ٹن تھی، جس کی مالیت 1,255 کروڑ روپے تھی۔ اندازہ ہے کہ 2032 تک اس کی کھپت بڑھ کر 15,400 ٹن اور مالیت 1,567 کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔
رئیر ارتھ عناصر کے ذخائر کے لحاظ سے بھارت دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، تاہم وہ ان کی پراسیسنگ کے لیے درکار ٹیکنالوجی کی کمی کے سبب ہم ان ذخائر سے مکمل استفادہ نہیں کر پا رہا ہے۔ بھارت کی سرکاری کمپنی IREL (India Rare Earths Ltd) سالانہ محض 1,500 ٹن نیوڈیمیم اور پریسیوڈیمیم پیدا کرتی ہے۔
رئیر ارتھ، بالخصوص نیوڈیمیم آئرن بورن میگنیٹس، اپنی زبردست مقناطیسی قوت اور کم وزن کے باعث ای وی موٹروں کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ایک دو پہیہ ای وی میں اوسطاً 600 گرام نیوڈیمیم میگنیٹ استعمال ہوتا ہے جو الیکٹرک موٹر، پاور الیکٹرانکس، بیٹری کولنگ، اسمبلی ماڈیولز اور سنسرز جیسے اہم سسٹمز میں استعمال ہوتا ہے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر رئیر ارتھ میگنیٹس کی سپلائی میں مزید خلل پیدا ہوا تو ای وی کی پیداوار شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ متبادل ذرائع پر انحصار سے لاگت میں اضافہ، ڈیلیوری میں تاخیر اور مارکیٹ میں قلت پیدا ہونے کا امکان ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں بلکہ صارفین کی طلب میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے — خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت کی ای وی مارکیٹ تیزی سے وسعت پا رہی ہے۔
***
اگرچہ بھارت کے پاس نایاب دھاتوں کے وافر ذخائر موجود ہیں، مگر ٹیکنالوجی، پالیسی اور پروسیسنگ کی صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی ضروریات کے لیے اب بھی چین پر انحصار کر رہا ہے۔ سپلائی کی غیر یقینی صورتِ حال کے پیشِ نظر، حکومت ہند نے مقامی پیداوار بڑھانے، برآمدی متبادل تلاش کرنے اور برازیل، ارجنٹینا، بولیویا جیسے منرل سے مالا مال ممالک سے شراکت داری کے لیے سفارتی اقدامات تیز کر دیے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025