
نبی کریم ﷺ کی قیادت، تاریخِ انسانی کا عظیم ترین ماڈل
رحمت، حکمت اور اخلاق، قیادت کے جوہری اوصاف
عبدالستار فہيم
صلح و عدل کی بنیاد پر امت کا اتحاد ممکن۔ رحمت للعالمین سب کے لیے یکساں
موجودہ دنیا کے لیے سیرتِ نبوی سے رہنمائی میں کئی مسائل کا حل ممکن
قیادت (Leadership) ایک ایسا کلیدی تصور ہے جس نے انسانی تاریخ کے ہر دور میں قوموں اور تہذیبوں کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی فکری، اخلاقی اور سیاسی سمت کا تعین اس کے قائدین کرتے ہیں۔ قیادت کے مختلف ماڈلز، نظریات اور شخصیات کا تاریخِ انسانیت کے مختلف ادوار میں ظہور ہوا، لیکن جب ہم جامع، ہمہ گیر اور آفاقی قیادت کی تلاش کرتے ہیں تو نبی کریم محمد ﷺ کی شخصیت ہر زاویے سے کامل اور بے مثال نظر آتی ہے۔ یہ بات محض مذہبی عقیدت یا جذباتی وابستگی کا اظہار نہیں بلکہ متعدد غیر مسلم مؤرخین اور ماہرینِ قیادت نے بھی اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ محمد ﷺ کی قیادت انسانی تاریخ کی سب سے مؤثر اور ہمہ گیر قیادت ہے۔ مثال کے طور پر مشہور امریکی مصنف مائیکل ہارٹ نے جب اپنی کتاب ’’تاریخ کی سو بااثر ترین شخصیات‘‘ کی فہرست ترتیب دی اور رسولِ اکرم ﷺ کو پہلے نمبر پر رکھا تو اس کی وجہ یہ بتائی کہ:
’’محمد (ﷺ) وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مذہبی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں عظیم ترین کامیابی حاصل کی۔ وہ نہ صرف ایک عظیم روحانی پیشوا تھے بلکہ ایک مؤثر سیاسی، سماجی اور عسکری قائد بھی تھے ‘‘۔
اسی طرح، فرانس کے مشہور شاعر اور مورخ لامارٹین نے نبی کریم ﷺ کے بارے میں کہا:
’’اگر کسی انسان کی عظمت کا معیار اس کا مقصد، محدود وسائل اور حیران کن نتائج ہو تو کون محمد (ﷺ) کا مقابلہ کر سکتا ہے؟‘‘
لیکن ان تمام اعترافات اور تحقیقی نتائج کے باوجود ایک اہم اور بنیادی نکتہ تحقیق طلب ہے کہ اس عظیم قیادت اور رہنمائی کا جوہرِ امتیاز ( Essence ) کیا ہے؟ جس نے آپ کو تمام انسانی قیادتوں سے ممتاز کر دیا، یہ محض کسی تاریخ داں کا سوال نہیں بلکہ طالبِ حق فکرِ انسانی کی تحقیقی جستجو بھی ہے۔
ایک مومنانہ ذہن کی سرگرمی اس سوال کا جو فطری جواب فراہم کر سکتی ہے اور بلحاظِ حقیقت یہ برحق بھی ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی قیادت کسی انسانی نظریہ یا مفاد پر مبنی نہیں بلکہ آپ کی قیادت کا سرچشمہ اللہ کی وحی ہے، جو خالص ربانی ہدایت ہے؛ آپ خدا کے رسول ہیں! لیکن وحی، ربانی ہدایت اور رسالت یہ سب اور بھی عظیم شخصیات کو دستیاب تھیں اور وہ تمام اس قدرِ مشترک کے حامل تھے۔ لہذا آپ کی قیادت کے جوہری امتیاز کی دریافت ہنوز تکمیل طلب ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی قیادت کا جوہر صرف فتوحات یا روحانیت میں نہیں بلکہ انسانیت کی نئی دنیا تعمیر کرنے میں ہے۔ نامور عربی شاعر احمد شوقی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزۂ مسیحائی کے تناظر میں محمد ﷺ کا امتیاز اس طرح بیان کیا تھا کہ :
أَخـوك عيسـى دَعَـا ميْتً، فقـام لهُ
وأَنــت أَحـييتَ أَجيـالاً مِـن الـرِّممِ
’’ آپؑ کے بھائی عیسیٰ نے ایک مردے کو پکارا تو وہ زندہ ہو کر اٹھ کھڑا ہوا
لیکن آپ نے تو صدیوں سے مردہ پڑی ہوئی قوموں کو زندگی عطا کر دی۔‘‘
یہ سچائی ہے کہ آپ کی آمد نے مرجھائی ہوئی انسانیت میں نئی جان ڈال دی بلکہ آپ نے مردہ انسانوں کو ایسے زندہ کیا کہ وہ وروں کے مسیحا بن گئے۔
خود جو نہ تھے راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
لیکن اب بھی یہاں اس رازِ حقیقت سے پردہ نہیں اٹھتا جو آپ کے جوہرِ امتیاز کو آشکار کر دے! آپ نے اپنے ۲۳ سالہ دورِ نبوت میں جہدِ مسلسل اور اعلیٰ ترین مدنی اور عسکری قیادت کا بے نظیر نمونہ پیش کیا۔ ایسے حیرت انگیز معرکوں کی معجزانہ قیادت کی جن کا نتیجہ خونریزی اور ہلاکت نہیں بلکہ زندگی اور شادابی نکلا۔ دنیا حیران ہے کہ وہ کیسا جنگی ساز و سامان اور انوکھا اسلحہ تھا جس نے تباہی و تخریب کے بجائے امن و تعمیر کا کرشمہ انجام دیا!
شاید ایسا ہی شوق اور تجسس تھا جس نے ایک دفعہ حضرت علیؓ کو آپ کے اسلحے کی جانب متوجہ کیا بلکہ سچ تو یہ ہے کی اس ’’جوہرِ نایاب‘‘ کی تلاش اور اس کی قدر شناسی کے لیے جو نگاہِ بصیرت درکار ہے وہ مائیکل ہارٹ اور لا مارٹین جیسے انسان نہیں بلکہ علی المرتضیؓ جیسے اصحابِ شرف و دانش ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
’’جب میں نے رسول اللہ ﷺ کا اسلحہ تلاش کیا تو دیکھا کہ آپؑ کی ایک تلوار پر لکھا تھا:‘‘
اُعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَكْ، وَصِلْ مَنْ قَطَعَكْ، وَأَحْسِنْ إِلَىٰ مَنْ أَسَاءَ إِلَيْكَ، وَقُلِ الْحَقَّ وَلَوْ عَلَى نَفْسِكَ
’’جو تجھ پر ظلم کرے، اسے معاف کر دے۔ جو تجھ سے تعلق توڑے، اس سے رشتہ جوڑ۔ جو تیرے ساتھ برائی کرے، اس کے ساتھ بھلائی کر اور سچ بولو، خواہ وہ تمہارے ہی خلاف کیوں نہ ہو۔‘‘
یہ تلوار پر کُندہ تھا، وہ تلوار جو جنگ کے لیے اٹھائی جاتی تھی، اس پر ان الفاظ کا نقش ہونا، سبحان اللہ!
بڑی حیرت اور تعجب کا مقام ہے! یہ عبارت جنگی ہتھیار پر کندہ تھی مگر اس میں جنگ سے متعلق ایک حرف بھی نہیں بلکہ یہ تو وہ روحانی و اخلاقی پیغام ہے جو اسلام کی اصل پہچان ہے۔ یہ اس عظیم عسکری قائد کی تلوار پر منقش کلمات ہیں جس نے انسانیت کو ’’فتح مبین‘‘ سے آشنا کیا۔ رسولِ اکرم ﷺ کا جوہرِ امتیاز ایک ایسی رحمت ہے جس کی کارفرمائی عام حالت میں ہی نہیں بلکہ جنگ وجدال جیسے سخت و شدید معرکوں میں بھی جاری و ساری رہی اور تا قیامت جاری رہے گی۔ یہ دراصل ایمان کے سب سے مشکل پہلوؤں کی بات ہے یہ سنتِ نبوی کے سب سے چیلنجنگ پہلوؤں کا معاملہ ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ ایک ایسا پیغام لے کر آئے جو اپنے ساتھ بڑے چیلنجز اور اثرات لے کر آیا۔ یہ پیغام محض ایک فکری نظریہ نہیں، بلکہ عملی تقاضوں اور بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔ یہ سچائی کا پیغام ہے اور سچائی کے تقاضے ہوتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنی طرزِ زندگی بدلنی پڑے گی، کچھ احکام کی پابندی کرنی پڑے گی۔ جی ہاں، شریعت کے احکام، عبادات، توحید کا پیغام، رسول اللہ ﷺ کی سنت — وہ جو ظاہری بھی ہیں اور باطنی بھی — یہ سب دین کے حصے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم ان تعلیمات کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارا ایمان آزمایا جاتا ہے۔ اور یہی وہ کلمات تھے جو نبی اکرم ﷺ کی تلوار پر کندہ تھے۔
یہ نقش خود ساختہ نہیں تھا بلکہ اس ہستی کے فرمانِ برحق کا نتیجہ تھا جو رحمت کا خالق ہے، جو رحمت کا مصدرِ مطلق ہے، جس کی ذاتی پہچان ہی رحمت ہے، جو خود الرحمن الرحیم ہے، وہ رب العالمین جس کی رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے، وہ مالکِ حقیقی جس نے رحمت اپنے اوپر لازم کر لی ہے، جو ہر رحمت کا حقیقی سرچشمہ ہے، اسی خدائے رحمان کا فرمان ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
(الأنبياء: 107)
’’اور ہم نے تم کو تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘
جب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان الفاظ کو اپنی زندگی میں کیسے برتا تو دل حیران رہ جاتا ہے:
آپؑ کے ہمدم اور چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کر کے ان کا کلیجہ چبایا گیا لیکن جب مجرم زیرِ دام آیا تو نبی ﷺ نے انصاف و انتقام کے بجائے کمالِ رحمت اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو کٹر جانی دشمنوں تک کو معاف کر دیا — بلکہ انہیں ان کے مناصب پر بھی باقی رکھا تاکہ تالیفِ قلبی ہو اور امت میں اتحاد قائم رہے۔ ذرا سوچیے کہ کیسے نبی ﷺ ان جذبات و احساسات کے داخلی معرکوں سے نبرد آزما ہوئے! کیسے آپ نے ان تمام زخموں، دشمنیوں اور خیانتوں کے باوجود دل کو پاک رکھا؟ کیسے آپ نے غصہ، انتقام، قبائلی برتری، ان سب سے اپنے دل کو بچا لیا!
یہ ’’رحمت‘‘ ہی تھی …… ’’ رحمت للعالمین‘‘ کی رحمت! یہ محض ایک جذباتی صفت نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت اصولِ زندگی، نہیں بلکہ روحِ زندگی ہے، جو ذاتی، اجتماعی، قانونی، جنگی اور سیاسی تمام پہلوؤں پر غالب ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: إنما بُعثتُ لأُتمِّمَ مكارمَ الأخلاقِ مجھے صرف اس لیے بھیجا گیا کہ اخلاق کی تکمیل کروں۔
تکمیلِ اخلاق کیا ہے؟
تکمیلِ اخلاق سے مراد ہے اخلاقی خوبیوں کا اعلیٰ ترین درجہ، یعنی انسان کے اندر وہ اوصاف پیدا ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جمالیہ کا پر تَو ہوں۔ یہی مفہوم ہے اس قول ’’تخلّقوا بأخلاقِ الله‘‘ کا یعنی ’’اللہ کے اخلاق کو اپناؤ‘‘ ظاہر ہے کہ بندہ اللہ کی ذات کی مانند نہیں ہو سکتا لیکن وہ اللہ کی صفاتِ رحمت، عفو، حلم، سخاوت، کرم، تواضع وغیرہ کو اپنی زندگی میں مجسم کر سکتا ہے اور یہی ہے تکمیلِ اخلاق۔
تکمیلِ اخلاق، یعنی رحمتِ مجسم۔ آپؑ نے جن اعلٰی اخلاقی خوبیوں کی تکمیل کی وہ سب دراصل رحمتِ الٰہی کے مظاہر ہیں، ایسی رحمت جو تمام حد بندیوں سے آزاد اور تمام وسعتِ عالم پر محیط ہے۔ آپؑ کی رحمت بھری قیادت کے چند عنوانات مندرجہ ذیل ہیں :
• مظلوم کے ساتھ نرمی: یہ عدل و رحم دونوں کا اظہار ہے۔ نرمی مظلوم کے زخموں کا مداوا ہے۔
• ظالم کو نہ صرف معافی بلکہ دشمنی کے بدلے میں دعائے خیر: یہ مقامِ احسان ہے — معاف کرنا اس وقت جب بدلہ لینا ممکن ہو، اللہ تعالیٰ کی صفت ’’عفو‘‘ کا پر تَو ہے اور رحمت کا کرشمہ۔ نبی کریمؐ نے طائف کے واقعے میں دشمنوں کے لیے بد دعا کے بجائے ہدایت و مغفرت کی دعا کی — یہی کامل اخلاق ہے۔
• جاہل پر حلم: برد باری اور برداشت نبی کریمؐ کی سیرت کا نمایاں پہلو ہے۔ جاہل کے رویے پر غصہ نہیں بلکہ شفقت کا برتاؤ تکمیلِ اخلاق کی نشانی ہے۔
• معافی کو ترجیح دینا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى‘‘ (یعنی معاف کرنا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے)
تکمیلِ اخلاق کا مطلب ہے: ’’انسان میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہو جائیں جو اسے اللہ کی رحمت کا آئینہ دار بنا دیں۔‘‘
اور یہی ہے نبی کریم ﷺ کا اصل مشن — انسان کو اخلاق کے اس درجے تک پہنچانا جہاں وہ خالق کے اخلاق یعنی رحمتِ الٰہیہ کا مظہر بن سکے۔
جنگِ اُحد کے وقت نبی ﷺ کا یہ فرمان: ’’اللهم اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون‘‘
یہ ان لوگوں کے لیے کہا گیا جو نبی ﷺ کو قتل کرنے آئے تھے، جنہوں نے آپ کو زخمی کیا، صحابہؓ کو شہید کیا ، مگر آپ کا دل نفرت سے پاک رہا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ آپ ’’رحمت اللعالمین‘‘ کے منصبِ امتیاز پر فائز ہیں۔
اسی لیے آپ کی شخصیت میں نہ قبائلی تعصب ہے نہ اقتدار کا نشہ، نہ بدلہ لینے کی خواہش — بلکہ ایک ہمہ گیر رحمت، جو ہر ظلم اور ہر دشمنی کو حسنِ اخلاق سے مغلوب کر دیتی ہے۔ یہی ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہے جس کی روح رحمت ہے — جس کی پیروی نہ صرف فرد کو راہِ نجات دیتی ہے اور نہ صرف معاشرہ کو انتشار سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ فرد اور معاشرہ دونوں کو ابدی سعادتوں سے ہم کنار کرتی ہے۔
قیادت کی وہ تمام بنیادی صفات جو دنیا بھر کے ماہرینِ قیادت اور مفکرین کے نزدیک ہر عظیم قائد میں ہونی ضروری سمجھی جاتی ہیں نبی کریم ﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھیں، بلکہ ان کا کامل مظہر بھی آپ ہی کی شخصیت تھی۔
ایک سچا رہنما فرسودہ نظام کو نہیں دہراتا، بلکہ وہ ایک نیا وژن، نئی راہ، نیا تصور لے کر آتا ہے۔ نبی کریم ﷺ ایک جزوی تبدیلی نہیں لائے، آپ نے تو مکمل طور پر ایک نیا اخلاقی، فکری، قانونی ، معاشی اور سماجی نظام پیش کیا۔ ایک ایسی دنیا کی تعمیر کی بنیاد رکھی جو اُس وقت کے ماحول سے بالکل مختلف تھی۔
آپ کی قیادت حکمت، دور اندیشی اور حوصلہ افزائی پر مبنی رہنمائی اور مؤثر سمت فراہم کرتی تھی۔ اس کی ایک مثال صلح حدیبیہ ہے، جس میں دور اندیشی اور حکمت نے عارضی مایوسی کو مستقبل کی کامیابی میں بدلا۔ روس کے مشہور فلسفی لیو ٹالسٹائی کہتے ہیں کہ قرآن کی شریعت تمام دنیا میں پھیلنے کا پورا امکان رکھتی ہے کیونکہ وہ عقل، حکمت، اور فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ انگلینڈ کے معروف مصنف ایچ جی ویلز نے اسلام کی تعلیمات کو انسانیت، شرافت اور نرمی کا نمونہ قرار دیا ہے۔
ایک واضح اور عظیم مقصد
قیادت کا مطلب ہے ایک بلند ہدف اور واضح مشن۔ رسول اللہ ﷺ کا مشن رحمتِ الٰہی کی تکمیل کا مشن تھا کہ انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے؛ شرک، ظلم، جہالت اور تقسیم سے نکال کر توحید، عدل، علم اور وحدت کی طرف۔ آپ نے سب سے پہلے عربوں کو متحد کیا، پھر پوری انسانیت کو ایک پیغامِ رحمت کے تحت جمع کرنے کی بنیاد رکھی۔
تھامس کارلائل لکھتا ہے: ’’کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ایک فرد واحد نے متحارب قبائل کو متحد کر کے دنیا کی مہذب ترین قوم بنا دیا، صرف بیس سالوں میں؟ وہ ایک خاموش مقدس وجود تھے مگر دنیا کے لیے روشنی کا مینار بن گئے۔‘‘
حنین کا معرکہ: رحمتِ عالم کا قائدانہ مظہر
سیرتِ طیبہ کے نمایاں واقعات میں سے ایک واقعہ مشہور غزوۂ حنین ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جسے معروف ماہرِ قیادت جان ایڈیر (John Adair) نے متعدد مفادات رکھنے والے فریقوں کے درمیان دیانتدارانہ قیادت کا ایک شاندار نمونہ قرار دیا ہے۔ حنین ایک نہایت کٹھن اور پُر آزمائش موقع تھا جس میں رسولِ اکرم ﷺ نے غیر معمولی بصیرت، حکمتِ عملی اور قیادت کے تقریباً تمام اوصاف کا عملی مظاہرہ فرمایا۔ حق تو یہ ہے کہ قیادت کا کمال اور اصل جوہر آزمائشوں ہی میں ظاہر ہوتا ہے اور سچا قائد وہ ہوتا ہے جو اندھیروں میں روشنی اور آزمائشوں میں سکون و راحت کا ذریعہ بن جائے اور حنین کی شدت میں، نبی ﷺ نے ثابت کیا کہ آپ قیادت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں۔
مکّہ کی پُرامن فتح کے بعد، کچھ قریبی قبائل نے نو خیز مسلم معاشرے کی ترقی و کامیابی پر غصّے کا اظہار کیا۔ خاص طور پر بنو ہوازن نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے ارادے سے جنگ کی راہ اختیار کی۔ میدانِ جنگ طائف کے قریب وادیِ حنین تھی، جہاں تقریباً 12,000 مسلمان سپاہی 4,000 دشمنوں سے نبرد آزما ہوئے۔ اس بار، بدر کے برخلاف مسلمان تعداد میں کثیر اور عسکری لحاظ سے غالب تھے جس کی وجہ سے کچھ لوگوں میں خود اعتمادی حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ یہ جنگ آسان ہوگی لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے میدان میں پڑاؤ ڈالا، دشمن نے غیر متوقع طور پر حملہ کر دیا۔ اس اچانک یلغار نے مسلمانوں کو منتشر کر دیا اور کئی سپاہی میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے، یہاں تک کہ رسولِ خدا ﷺ تنہا دشمن کے سامنے ڈٹے رہے، جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ثابت قدم رفقاء نے پکارا کہ لوگ پلٹ آئیں اور رسولِ خدا کے ساتھ ڈٹ جائیں۔ پھر مسلمان دوبارہ منظم ہوئے، قابو پایا اور بالآخر بنو ہوازن کو شکست دی۔ اس موقع پر جو لوگ پیچھے ہٹے تھے ان کے لیے سورۃ التوبہ میں سبق دیا گیا کہ ہمیں تیاری بھی کرنی چاہیے اور اللہ پر توکل بھی رکھنا چاہیے۔ محض دنیاوی اسباب اور عددی برتری کو کامیابی کی ضمانت نہ سمجھا جائے بلکہ غیبی مدد کے لیے اللہ سے رجوع کیا جائے کیونکہ کامیابی صرف اسی کے اختیار میں ہے۔ البتہ یہ مدد صرف انہی کو نصیب ہوتی ہے جو دیانت دار، صالح، اور ’’امین‘‘ ہوں۔
رسولِ اکرم ﷺ کی عظیم قیادت اس وقت مزید نمایاں ہو گئی جب انہوں نے نہایت پیچیدہ حالات میں مختلف فریقوں اور ان کے جذبات کی عمدہ رہنمائی فرمائی۔ ایک مثال یہ ہے کہ قیدیوں میں آپ کی رضاعی بہن، شیما بنتِ حلیمہ بھی تھیں۔ پہلے تو کسی نے ان کے دعوے پر یقین نہ کیا، لیکن انہوں نے نبی ﷺ سے ملنے کی درخواست کی۔ جب وہ حاضر ہوئیں اور پہچان کے لیے اپنا بازو دکھایا جہاں بچپن میں نبی ﷺ نے دانتوں کا نشان چھوڑا تھا۔ نبی ﷺ نے انہیں پہچان کر نہایت محبت سے استقبال فرمایا، اپنی چادر بچھائی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر دیر تک باتیں کیں۔ یہ ایک شاندار مثال ہے کہ جنگ جیسے سخت ماحول میں بھی آپ نے شفقت، صبر اور جذباتی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا۔
ایک اور اہم لمحہ وہ تھا جب شکست خوردہ بنو ہوازن نے رہائی کی درخواست کی۔ اگرچہ نبی ﷺ کے لیے یہ رعایت دینا آسان نہ تھا کیونکہ مالِ غنیمت اور قیدی مجاہدین کا حق تھے۔ مگر آپ نے ’’دو طرفہ کامیابی کی حکمتِ عملی‘‘ (Win-Win Strategy) اختیار کی۔ آپ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان سے کھلے عام حسنِ سلوک و احسان کی اپیل کی اور فرمایا کہ جو چاہے اپنی رضا و رغبت سے اپنے حق سے دستبردار ہو جائے۔ نبی ﷺ کی جانب سے عزت و شرف کی یہ پیشکش اتنی بڑی تھی کہ اکثر صحابہ نے اس کا خیر مقدم کیا اور اپنے حقوق چھوڑ دیے، یوں نبی ﷺ ان قیدیوں کو آزاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کچھ کو آپ نے اونٹ اور بکریاں دے کر راضی کیا۔ یہ فہم و فراست، عدل اور دیانت کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے۔
تاہم، ایک گروہ باقی رہ گیا — انصار میں سے چند قریبی صحابہ جنہیں نہ مالِ غنیمت ملا اور نہ کوئی نمایاں مقام۔ جب نبی ﷺ کو ان کی خفگی کا علم ہوا تو انہوں نے اسے نظر انداز نہیں کیا جیسا کہ عموماً قائدین کرتے ہیں، بلکہ آپ خود ان کے پاس گئے، ان کے جذبات کو جانا اور ان سے دریافت فرمایا کہ وہ کیوں نا خوش ہیں۔ ابتدا میں وہ جھجکتے رہے لیکن پھر اپنے دل کی بات کہہ دی کہ انہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں مگر ان کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ یہی وہ موقع تھا جب نبی ﷺ کی فراست اور بصیرت کا اعلی نمونہ ظاہر ہوا۔ حضور ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپؑ نے تمام انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے گروہ انصار! کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم پہلے گمراہ تھے میں نے تمہیں کفر و شرک کی بھول بھلیوں سے نکال کر طریقِ حق پر لایا اور جنت کا مستحق بنایا، تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے میں نے تم میں اتفاق پیدا کیا، تم مفلس تھے تم کو تونگر کیا، تم قبائل عرب میں حقارت کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے میں نے تمہیں عزت دلائی؟‘‘
رسول کریم ﷺ کے ہر ارشاد پر انصار بے ساختہ کہتے جاتے تھے۔ ’’بے شک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا احسان بہت بڑا ہے۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’اب تم بھی اپنے احسانات بیان کرو۔‘‘
انصار نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم کیا عرض کریں؟
حضور ﷺ نے فرمایا۔ نہیں! تم کہو تجھے اپنے گھر سے نکالا گیا ہم نے اپنے گھر میں پناہ دی، تیرا کوئی مدد گار نہیں تھا ہم نے تیری مدد کی، تو محتاج تھا ہم نے تجھے غنی کیا، ساری دنیا نے تجھے جھٹلایا ہم نے تیری صداقت کی دل و جان سے گواہی دی۔ تم یہ جواب دیتے جاؤ گے اور میں کہتا جاؤں گا کہ ہاں! تم سچ کہتے ہو …لیکن اے گروہ انصار! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ دوسرے لوگ تو اونٹ، بکریاں اور مال و دولت اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم محمد کو لے کر اپنے گھر لے جاؤ۔
رسول کریم ﷺ کے یہ ارشادات سن کر انصار کے قلب و جگر کے ٹکڑے اڑ گئے۔ روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ بے اختیار پکار اٹھے۔ ہم کو صرف محمد رسول اللہ درکار ہیں۔
پھر حضور ﷺ نے فرمایا۔ انصار میرے ہیں اور میں انصار کا ہوں۔ اے اللہ! انصار اور انصار کے لڑکوں پر رحم فرما۔ پھر فرمایا قریش کو اس لیے زیادہ مال دیا گیا ہے کہ ان کی تالیف قلب ہو جائے کیونکہ وہ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا حق زیادہ ہے۔’’ پھر انصار نبی رحمت کے ساتھ مدینہ منورہ واپس لوٹنے لگے تو فرطِ مسرت سے ان کے قدم زمین پر ٹکتے نہ تھے‘‘
اس طرح نبی اکرم ﷺ نے اس ایک واقعے میں قیادت کی تمام بنیادی صفات کو بروئے کار لایا اور نہایت نازک چیلنجز کو دیانت داری، حکمت اور شفقت سے حل فرمایا۔
رحمۃٌ للعالمین کی مثالی قیادت
رسول اکرم ﷺ کی قیادت کو جو چیز تمام انسانی قیادتوں سے ممتاز اور اعلیٰ بناتی ہے، وہ آپ کا ’’رحمۃٌ للعالمین‘‘ ہونا ہے۔ آپ کی قیادت صرف سیاسی تدبیر، عسکری حکمت عملی یا سماجی اصلاح و تنظیم تک محدود نہ تھی—بلکہ اس کی بنیاد الٰہی رحمت، وجودی شفقت اور ہمہ گیر خیرخواہی پر قائم تھی۔ یہی وہ صفت ہے جو آپ کو دنیا کے تمام مصلحین اور رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے۔ آپ کی قیادت میں ہر فیصلہ، ہر اقدام، اور ہر ردّعمل سراپا رحمت، حلم، درگزر اور خیر پر مبنی تھا—چاہے وہ دشمن کے مقابلے کا موقع ہو یا اقتدار کے عروج کا لمحہ۔ آپ کا اندازِ قیادت انسانی فطرت کی گہرائیوں کو سمجھنے، اس کی کمزوریوں کو سہارا دینے اور اسے اعلیٰ اقدار کی طرف اٹھانے کا کامل نمونہ ہے۔
آپ کی قیادت صرف ایک قوم، نسل یا زمانے کے لیے نہیں تھی بلکہ پوری انسانیت بلکہ تمام عالمین کے لیے باعثِ رحمت تھی۔ یہ وہ اخلاقی اور روحانی کمال ہے جو انسانی تاریخ میں کسی اور رہنما کو نصیب نہیں ہوا۔
دائمی ماڈل (Legacy) — ایک زندہ، قابلِ پیروی ورثہ: نبی ﷺ کی قیادت کا دوسرا عظیم امتیاز یہ ہے کہ آپ نے اپنے بعد کسی شخص، نسل، زبان یا خطے کو قیادت کی اجارہ داری نہیں دی بلکہ ایک جامع، ہمہ گیر، اور ابدی ماڈل چھوڑا۔ یہی آپ کی میراث (Legacy) ہے۔ یہ ماڈل سب کے لیے ہے، ہر دور کے لیے موزوں ہے؛ روحانی، سماجی، فکری اور عملی سطح پر مکمل ہے؛ صرف نظریہ نہیں بلکہ زندہ طرزِ عمل ہے۔ یہی وہ زندہ ورثہ ہے جسے ہر فرد، ہر معاشرہ، ہر نسل اور ہر تہذیب اپنا سکتا ہے اور اس کے ذریعے رحمت کے چراغ دنیا کے ہر گوشے میں روشن کیے جا سکتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی قیادت تاریخ کی سب سے عظیم قیادت اس لیے ہے کہ وہ الٰہی رحمت کے عالمگیر اظہار اور دائمی انسانی رہنمائی کا واحد نمونہ ہے۔ یہ اسوۂ رحمۃ العالمین آج بھی زندہ ہے، قابلِ تقلید ہے اور انسانیت کے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔
نبی کریم ﷺ کا اصل تعارف ’’رحمت للعالمین‘‘ ہے ، یہ محض لقب یا منصب نہیں، بلکہ منصوبۂ تخلیقِ انسانی کا مرتبۂ کمال پر پہنچا ہوا اخلاقی و تمدنی مشن ہے۔ ہر مسلمان کا نصب العین اسی رحمت کا ترجمان یعنی "سفیرِ رحمت” بن کر دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی نیابت کرنا ہے۔ فرد کی أخروی نجات اور دنیا میں نظامِ رحمت کا قیام ، امت مسلمہ کا مقصدِ وجود اور نصب العین ہے۔
***
***
نبی کریم ﷺ کا اصل تعارف ’’رحمت للعالمین‘‘ ہے ، یہ محض لقب یا منصب نہیں، بلکہ منصوبۂ تخلیقِ انسانی کا مرتبۂ کمال پر پہنچا ہوا اخلاقی و تمدنی مشن ہے۔ ہر مسلمان کا نصب العین اسی رحمت کا ترجمان یعنی "سفیرِ رحمت” بن کر دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی نیابت کرنا ہے۔ فرد کی أخروی نجات اور دنیا میں نظامِ رحمت کا قیام ، امت مسلمہ کا مقصدِ وجود اور نصب العین ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025