(نور اللہ جاوید)
وزیراعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کا تعصب پھر چھلکا۔ مسلم ماہر تعلیم کے قائم کردہ تعلیمی ادارہ کو بدنام کرنے کی کوشش
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے ایک بار پھر اپنے روایتی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی میگھالیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ گوہاٹی کے حالیہ سیلاب کی ذمہ داری غیر قانونی تعمیرات اور حکومتی ناکامیوں پر ڈالنے کے بجائے، سرما نے میگھالیہ ہی نہیں بلکہ شما ل مشرقی ریاست کے سب سے معیاری تعلیمی ادارے کو نشانہ بنایا ہے، یونیورسٹی کی بنیاد مشہور ماہر تعلیم انجینئر محبوب الحق نے رکھی تھی۔ ان بے بنیاد الزامات اور غیر مصدقہ دعوؤں سے جہاں وزیر اعلیٰ کی بوکھلاہٹ عیاں ہے، وہیں اس الزام تراشی کو ان کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایک اہم تعلیمی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ریاستی حکومت کی متعدد ناکامیوں سے پردہ پوشی کے تناظر میںبلی کا بکرا بنانے کے لیے اس مرتبہ وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے انتہائی معیاری تعلیمی ادارہ USTM کو نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے اس یونیورسٹی کے بانی محبوب الحق پر آسام کے خلاف مبینہ Flood Jihad چھیڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔سرما نے آسام اور میگھالیہ کی سرحد پر واقع یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی میگھالیہ کے تحت زیر تعمیر میڈیکل کالج کو گوہاٹی میں سیلاب کے لیے ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ حالانکہ ہائی کورٹ نے سرما کی حکومت کو سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے عملی قدم اٹھانے کی ہدایت دی تھی کیوں کہ حکومت نے گواہاٹی شہر کے ڈرینیج سسٹم اور کالونیوں میں پانی کے بھرجانے اور ٹریفک نظام کے درہم برہم، غیر قانونی تعمیرات کی صورتحال سے نمٹنے میں اپنی ناکامی کو چھپانےکی کوشش کی ہے۔
علی گڑھ سے تعلیم یافتہ وادی براک کے ضلع کریم گنج کے باشندے بنگالی نژاد آسامی شہری محبوب الحق کے ذریعہ قائم کردہ ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فائونڈیشن کے تحت اس یونیورسٹی کا قیام 13 سال قبل عمل میں آیا تھا۔محبوب الحق خود یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ محبوب الحق کی آسام اور میگھالیہ میں متعدد نمایاں تعلیمی خدمات ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما اپنی ریاست کے ایک شہری کی کامیابیوں کی ستائش کرتے اور انہیں اعزاز سے نوازتے ۔اپنی ریاست کے ایک معزز شہری کی کامیابی کے گن گاتے اور محبوب الحق کی حوصلہ افزائی کرتے لیکن وہ انتہائی شرمناک اور بھونڈے پن سے یونیورسٹی کو نشانہ بنارہے ہیں۔ سرما نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی کیمپس میں ایک نئے میڈیکل کالج کی تعمیر غیر قانونی طور پر پہاڑ اور جنگل کانٹ کر کی جارہی ہے۔ جب کہ یونیورسٹی کی کوئی بھی تعمیر حکومت میگھالیہ کے اصول وضوابط اور منظوری کے بغیر نہیں کی گئی ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ نےسرما کے الزام پر فوری رد عمل دینے کے بجائے انتہائی باوقار اور ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہرایک الزام کا جواب دیا ۔یہی وجہ ہے کہ سرما کے اس الزام کو پذیرائی نہیں ملی تو انہوں نے یونیورسٹی کے خلاف نیا محاذ کھول دیا ۔ یونیورسٹی کے صدر دروازے کے طرز تعمیر پر سوالیہ نشان لگادیا اور کہا کہ یونیورسٹی جانا مکہ جانے جیسا ہے۔ حالانکہ حرم شریف مکہ میں گنبدوں والا کوئی گیٹ پایا ہی نہیں جاتا۔ یونیورسٹی کے چانسلر محبوب الحق باریش ہیں اور کرتا پاجامہ، ٹوپی جیسے شریفانہ لباس میں رہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہمنتا اور ان کی اہلیہ رینیکی بھویاں اس یونیورسٹی میں بطور مہمان آچکے ہیں، مزیدار بات یہ کے ان کے اسٹاف اور طلباء میں اکثریت آسامی شہریوں کی ہے۔ آسام کے پروفیسر جی ڈی شرما یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں جو ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز (AIU) جیسے انتہائی موقر ادارہ کے صدر بھی ہیں۔ ساتھ ہی مختلف یونیورسٹی شعبوں کے سربراہ بھی آسام کے بڑے تعلیمی اداروں سے سابق میں وابستہ رہے ہیں یہاں تک کہ پبلک ریلیشن افسر کے طور پر ڈاکٹر رانی داس سے خدمات لی جارہی ہیں۔ ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے محبوب الحق کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے کام کاج میں نہ تو وہ مذہب کو لاتے ہیں اور نہ ہی سیاست کو۔ حالانکہ وہ اپنی نجی زندگی میں با عمل اور دیندار شخصیت کے مالک ہیں۔ یونیورسٹی کی پی آراو رانی داس نے بتایا کہ یونیورسٹی میگھالیہ اسمبلی کے منظور شدہ قانون کے تحت بنی ہے اور اس کا تمام تعمیری کام حکومت سے باضابطہ منظوری لے کر کیا گیا ہے۔ خود میگھالیہ حکومت نے ان الزام تراشیوں پر ایک بیان جاری کرکے وزیراعلی ہمنتا بسوا سرما سے اپیل کی کہ وہ سیلابی صورتحال اور تعمیرات کے معاملہ میں ’’عملیت پسندی‘‘ کا مظاہرہ کریں تو بہتر ہوگا۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ ایک موقر تعلیمی ادارہ کو نچلی سطح پر اتر کر اس طرح سے بدنام کرنے کی کوشش دراصل وزیر اعلیٰ آسام کی بوکھلاہٹ، اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی اور سیاسی مجبوری ہے۔ خود کو ووٹروں اور اپنی پارٹی کے اندر مسلم مخالف سخت گیر پارٹی لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی ایک بھونڈی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔
ہمنتا بسوا شرما یہ الزام لگاتے ہیں اس یونیوسٹی نے تعلیمی نظام اور آسامی ثقافت کو تباہ کردیا ہے؛ جس وقت یہ الزام لگارہے تھے کہ اس وقت مرکزی وزارت تعلیم کے ذریعہ ملک کی بہترین 200یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں نمایاں رینک دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ نیگ (NAAC) رینکنگ نظام نے بھی اس یونیورسٹی کو اے گٹیگری کا درجہ دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک طرف مرکزی حکومت کے ادارے یو ایس ٹی ایم کو بہترین یونیورسٹی کا درجہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر فائز شخص یونیورسٹی کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہمنتا سرما یہ سب کیوں کررہے ہیں؟ اس کیلئے آسام کے موجودہ سیاسی منظرنامے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ دراصل ہمنتا سرما یو ایس ٹی ایم کو اس لئے نشانہ بنارہے ہیں ان کی اہلیہ ایک یونیورسٹی چلاتی ہیں اور کئی کاروباری اداروں سے سیدھے وابستہ ہیں؛ وہ چاہتے ہیں کہ یوایس ٹی ایم کی بدنامی ہو تاکہ ان کو اس کا فائدہ پہنچے۔کیوں کہ اس وقت شمال مشرقی ریاستوں میں یو ایس ٹی ایم سب سے معیاری اور بڑی نجی یونیورسٹی بن چکی ہے جس کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ یوایس ٹی ایم تعلیمی خدمات کے علاوہ علاقائی سطح پر کئی فلاحی امور کو انجام دیتی ہے۔ یہ یونیورسٹی مکمل طور پر “گرین” یعنی ماحولیات دوست ہے۔
ایک اہم وجہ آسام کے سیاسی حالات بھی ہیں کیوں کہ آسام میں طلباء تنظیمیں اور حزب اختلاف متنازع قانون (شہریت ترمیمی قانون) سی اے اے کے تحت ایک بنگلہ دیشی شہری کو بھارت کی شہریت عطا کئے جانے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ 13 اگست دوپہر تین بج کر اکتالیس منٹ پر مرکزی حکومت نے پیدائشی بنگلہ دیشی دولون داس کو بھارت کی شہریت دینے کا اعلان کیا۔ احتجاجیوں نے مرکز اور آسام کی بی جے پی حکومتوں پر الزام لگایا کہ وہ غیر قانونی غیر ملکیوں کو بھارتی شہری قرار دے کر 1985کے آسام معاہدہ کی روح کے خلاف جارہے ہیں۔ دوسری جانب آسام کے وزیر اعلیٰ ہمینتا سرما جھارکھنڈ میں اعلان کررہے ہیں کہ آسام کے متعدد شہروں میں ہندو اقلیت میں آرہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بنگالی بولنے والوں کی اکثریت ہوجائے گی۔ آسام بی جے پی کے کئی لیڈران بشمول ممبران اسمبلی وزیر اعلیٰ کے رویے سے ناراض چل رہے ہیں جو پارٹی میں اندرونی خلفشار کی علامت ہے۔ پچھلے ہفتہ آر ایس ایس سے طویل وابستگی رکھنے والے سینئر بی جے پی لیڈر اشوک سرما نے استعفیٰ دے کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ نلباڑی اسمبلی حلقہ سے 2016 سے 2021 کے درمیان نمائندگی کرنے والے اشوک سرما کے تینوں بھائی اور دونوں بہنیں آر ایس ایس سے جڑے ہوئے ہیں۔ اشوک سرما نے برسر عام کہا کہ ’’ہمنتا بسوا سرما ہی مسئلہ ہیں‘‘۔ہمنتا بسو شرما جب کانگریس میں تھے اس وقت ہی ان پر بدعنوانی کے داغ لگ گئے تھے ۔ان سے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ بدعنوان سیاست داں ہے ۔وہ اس داغ کو سخت گیر ہندو لیڈر کی شبیہ کے ذریعہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔حالیہ پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعلیٰ ہمنتا سے جگل بندی کے لیے مشہور تاجر اور سیاستداں مولانا بدرالدین اجمل کی شرمناک شکست اور کانگریس پارٹی کے ریاست میں بڑھتے اثرات سے وہ خود کو غیر محفوظ اور کمزور محسوس کرنے لگے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی قیادت میں سیلابی صورتحال سے نمٹنے میں ناکامی کے باعث انہیں عوامی غم و غصہ جھیلنا پڑ رہا ہے۔ یہاں تک کہ آسام بی جے پی لیڈر مرنال سیکیا نے مرکز میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر اور جورہاٹ سے ممبر پارلیمنٹ گورو گگوئی کی کامیابی پر انہیں مبارکباد دی تو وزیر اعلیٰ نے اپنے ہی ممبر اسمبلی کی سرزنش کی۔ واضح ہو کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران درانگ-اوڈالگوری لوک سبھا حلقہ میں انتخابی تشہیر کی ریلی میں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسٹیج سے اپیل بھی کی اور دعویٰ کیا کہ وہ ریاست میں بیس فیصد مسلم ووٹروں کی حمایت سے بی جے پی کو کامیاب بنائیں گے۔ روپاہی ہاٹ اسمبلی حلقہ میں 88فیصد اقلیتی ووٹروں کے ساتھ وزیر اعلیٰ نے ریلیاں کیں اور اسٹیج پر رقص کیا اور نغمے گاتے ہوئے مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش کی تھی۔ دوسری پارٹیوں پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی خوشامد کا دھڑلے سے الزام لگانے والی بی جے پی نے آسام میں مسلمانوں کی خوشامد میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جبکہ پہلے انتخابی مرحلہ میں وزیراعلیٰ بنگالی بولنے والے آسامی مسلمانوں کو ’’میاں‘‘ پکار کر ان کی توہین کرتے رہے اور پارلیمانی تشہیر کے دوران مارچ کے اخیر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’میاں کمیونٹی کی بیٹیاں، خواتین اور نوجوان اس بار بی جے پی کو ووٹ ڈالیں گے‘۔ حالانکہ گزشتہ اکتوبر میں انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی کو اگلے دس برسوں تک ’میاں‘ کمیونٹی کے ووٹوں کی حاجت نہیں ہے۔ وادی برہما پترا کے اضلاع کریم گنج ، ڈھوبری، ناگاوں، درانگ-اوڈالگری اور شہر گوہاٹی کے متعدد علاقوں میں بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کو ’میاں‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ ایک قابل احترام لفظ کو رفتہ رفتہ توہین آمیز لقب میں تبدیل کرنے کا ہنر کوئی بی جے پی سے سیکھ سکتا ہے۔لیکن اپنی ہی ریاست کے ایک قابل احترام شخصیت کے تعلیمی کارناموں کو خاکستر کرنے کی کوشش کس ذہنیت کی عکاسی کہی جا سکتی ہے؟ جب کہ وہ خود مسلم بچوں سے اپیل کر چکے ہیں کہ وہ مدرسہ تعلیم ترک کریں اور کالج، یونیورسٹی کا رخ کریں اور اب جب اعلیٰ اور معیاری تعلیم میں مسلمان ان سے سبقت حاصل کر رہے ہیں تو وہ میدان میں اتر کر سامنا کرنے کی بجائے پیر کھینچ کر اپنا کون سا آلو سیدھا کرنا چاہ رہے ہیں؟
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024