نئی دہلی، فروری 8: خبر رساں ادارے ریوٹرز کے مطابق آج صبح ہزاروں افراد میانمار کے ینگون شہر کی سڑکوں پر نکل آئے اورگذشتہ ہفتے ملک میں فوجی بغاوت اور ملک کی منتخب رہنما آنگ سان سوچی کی نظربندی کے خلاف احتجاج کیا۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد ہفتے کے آخر سے ہی اس بغاوت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے، جب فوج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی معطل کردی اور ملک بھر میں انٹرنیٹ قریب قریب بند کردیا۔ ریوٹرز کے مطابق اتوار کے روز ینگون کے کونے کونے سے بہت بڑا ہجوم جمع ہوگیا اور شہر کے قلب میں واقع سلی پاگوڈا کی طرف بڑھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ینگون میں مظاہرین نے نعرے بازی کرتے ہوئے احتجاج کیا اور آنگ سان سوچی کی پارٹی کے جھنڈے بھی لہرائے۔ ملک کے دوسرے شہروں سے بھی بڑے مظاہروں کی اطلاع ملی ہے۔
خبر رساں ادارے ریوٹرز کے مطابق مظاہرے بڑے پیمانے پر پر امن رہے ہیں، لیکن جنوب مشرقی قصبے میوادی میں فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔
یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت میں ملک کی فوج نے دھوکہ دہی کے غیر یقینی الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے نئی منتخب حکومت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ بغاوت کورونا وائرس پھیلنے کے باوجود نومبر کے انتخابات میں تاخیر میں حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔