مظالم کی روک تھام بمقابلہ حقائق کے خلاف جدوجہد

جمہوری ملک میںہندوتو وادی نظام کے قیام کی کوششیں لمحۂ فکریہ

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

نفرتی ایجنڈوں کو منظم انداز میں پھیلانے والی سازشوں کو بے نقاب کرنا ضروری-کہیں دیر نہ ہو جائے!
دنیا میں عموماً دو طرح کے طبقات ہوتے ہیں۔ ایک اکثریتی تو دوسرا اقلیتی ۔حکومتوں کا طرہ امیتاز اور وجہ مقبولیت اسی میں ہے کہ وہ ملک کے اقلیتی طبقات کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ کس قدر انہیں حقوق فراہم کرتے ہیں،حاصل شدہ حقوق کی حفاظت کرتے ہیں، ان کی ترقی میں کس حد تک معاون ثابت ہوتے ہیں اور اکثریتی طبقات کے منفی اثرات کے سلسلے میں کیا قوانین بناتے اور ان کا نفاذ کرتے ہیں؟ کامیاب حکومتوں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ ملک کے شہریوں کے درمیان طبقاتی کشمکش اور اونچ نیچ کے نظام کے خلاف جدوجہد کریں یعنی انسانوں کے درمیان قائم شدہ تمام قسم کے امتیازات چاہے وہ ذات پات، رنگ و نسل، جنس، و زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی ہوں، ان تمام تعصبات کو جڑ سےختم کرنے کی کوشش کریں۔برخلاف اس کے اقلیتیں اگر ملک میں محفوظ نہیں، ملک کے آئین میں جو حقوق انہیں فراہم کیے گئے ہیں وہ دستیاب نہیں، ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت نہیں اور ترقی کی راہیں مسدود ہو رہی ہیں تو اس صورت میں حکومت کی کارکردگی کسی بھی صورت بہتر نہیں کہلائی جاسکتی ۔دوسری جانب حکومت اکثریتی طبقات کے درمیان امتیازات کو ختم کرنے کے بجائے اسے اگر بڑھا رہی ہے یا ان کے درمیان رنجشیں پیدا کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے یا تعصبات کو وہ باقی اور زندہ رکھ رہی ہے تاکہ وقتاً فوقتاً ملک کے شہریوں کو مختلف حیثیتوں سے تقسیم کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفاد حاصل کرتی رہے تو اس صورت میں وہ قابل تعریف نہیں بلکہ قابل مذمت اور قابل گرفت ہونا چاہیے۔
عصر حاضر میں رائج حکومتوں کا تعلق عموماً یا تو کسی مذہب سے ہے یعنی اہل اقتدار کسی مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں یا کسی نظریہ اور تصور سے ہے۔ اس لحاظ سے آسمانی کتب پر مبنی مذاہب اور دیگر مذاہب، نظریات وتصورات سے تعلق رکھنے والے آج دنیا میں موجود ہیں۔ فیصدکے لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو سب سے زیادہ 31.5 فیصد عیسائی ہیں۔ اس کے بعد 3.2 فیصد مسلمان، 16.3 فیصد ملحد، 15 فیصد ہندو، 7.1 فیصد بدھسٹ، 5.9 فیصد Folk Religionists ،0.8 فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے اور 0.2 فیصد یہودی آباد ہیں۔ یہ آبادیاں کہیں اکثریت میں ہیں تو کہیں اقلیت میں ہیں۔ اس کے باوجود ایک ہی مذہب کے ماننے والے دنیا کے مختلف ملکوں میں مختلف حیثیتوں سے بھی تقسیم ہیں۔ جیسے ہندوستان میں ‘ہندو’۔اگرچہ ہندو مذہب کے ماننے والے دنیا کے نقشہ پر 15 فیصد ہیں اس کے باوجود مختلف کاسٹ، ورَن سسٹم اور نظریات کے تحت یہ تقسیم در تقسیم ہیں۔اسی طرح مسلمان دنیا کے نقشہ پر 23.2 فیصد ہیں لیکن مسالک،افکار و نظریات،مختلف گروہوں،تحریکوں اور میدان سیاست کے مفادکی روشنی میں تقسیم ہیں۔ وہیں یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ عصر حاضر میں مذہبی تعلیمات اپنی اصل کے لحاظ سے صرف اسلام کی صورت میں باقی ہیں۔ برخلاف اس کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی کتابوں میں بے شمار تحریفات اور اختلافات موجود ہیں۔
چند دن پہلے 2 اکتوبر 2024 یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) کی رپورٹ شائع ہوئی۔ رپورٹ میں بھارت میں مذہبی آزادی کو کیسے ختم کیا جا رہا ہے اس پر گفتگو کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے قوم پرست امتیازی پالیسیوں کو تقویت دی، نفرت انگیز بیان بازیوں کو جار ی رکھا اور فرقہ وارانہ تشدد کو حل کرنے میں ناکام رہی جس نے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں اور آدیواسیوں کو متاثر کیا۔ مسلسل UAPA کے نفاذ، فارن کنٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ (FCRA) شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) تبدیلی مذہب اور گائے کے ذبیحہ مخالف قوانین کے نتیجے میں مذہبی اقلیتوں اور ان کی طرف سے وکالت کرنے والوں کی من مانی حراست، نگرانی اور نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں اہم واقعات مع تاریخ بیان کیے گئے ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح حکومت نے غیر ہندو مذہبی شناخت کو کمزور کرنے اور ہندو شناخت کو مستحکم کرنے کے سلسلے میں اقدامات کیے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والی نیوز میڈیا اور غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) دونوں کو ایف سی آر اے کے ضوابط کے تحت سخت نگرانی کا نشانہ بنایا گیا۔ ساتھ ہی نیوز کلک کے صحافیوں کے دفاتر اور گھروں اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی ہے۔ جون 2023 میں منی پور کے فسادات میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران 500 سے زیادہ گرجا گھر،دو عبادت گاہیں تباہ اور 70,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔ حالات کے پس نظر میں کس طرح وزیر داخلہ امیت شاہ کو اقوام متحدہ (یو این) کی وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بننا پڑا، اس کا بھی تذکرہ ہے۔اس کے علاوہ تبدیلی مذہب کے قوانین کے نفاذ کا تذکرہ کیا گیا اور کہا گیا کہ
اگرچہ ہندوستان آئین کی روشنی میں ایک غیر مذہبی یعنی سیکولر ملک ہے لیکن یہ قوانین دراصل مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے۔ اسی تبدیلی مذہب کی آڑ میں چھتیس گڑھ میں مبینہ طور پر آدیواسیوں کو عیسائی بنانے کے الزام میں 13 پادریوں کو گرفتار کیا گیا۔ اترپردیش میں 2023 کے بعد سے 855 سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لیا گیا اور بین المذاہب شادیوں کو ‘لو جہاد’ کا نام دیا گیا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکاری دورے کے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم مودی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اپنی حکومت کے سلوک کے بارے میں سوال کا جوا ب دینے میں ناکام رہے۔ ستمبر 2023 میں صدربائیڈن G-20 اجلاس کے لیے بھارت گئے، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر وزیر اعظم مودی کے ساتھ نجی ملاقاتوں میں انسانی حقوق کے مسائل کو اٹھایا۔ USCIRF کی حالیہ رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری ہے۔ آئین میں جو حقوق اقلیتوں کو حاصل ہیں ان کے نفاذ میں بڑی کمزوریاں ہیں جب کہ بی جے پی کی حکومت ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ مذہبی آزادی کی منظم، مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے لیے ہندوستان کو "خاص تشویش والے ممالک” کے زمرے میں رکھے۔ واضح رہے کہ محکمہ خارجہ نے ابھی تک ان سفارشات کو قبول کرنے سے گریز کیا ہے لیکن امریکی کمیشن کی یہ رپورٹ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح 2024 کے دوران ہندو تنظیموں کے گروہوں نے ہجومی تشدد میں لوگوں کو مارا پیٹا اور قتل کیا، مذہبی رہنماؤں کو من مانی طور پر گرفتار کیا، گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا۔ یہ واقعات خاص طور پر مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ہندوستان کی سابقہ منموہن سنگھ حکومت سے لے کر موجودہ حکومت تک، سبھی نے اپنے اندرونی معاملات میں "مداخلت” کا حوالہ دیتے ہوئے اس کمیشن کے اراکین کو بھارت کا دورہ کرنے سے روکنے کے لیے ویزا دینے سے مسلسل انکار کیا۔ دوسری جانب ہندوستان نے بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے متعصب اور سیاسی ایجنڈے پر مبنی قرار دیا اور کمیشن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امریکہ کے اندر انسانی حقوق کے مسائل پر توجہ مرکوز کرے۔
دوسری طرف یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ امریکہ میں سنہ 2021 میں ہندتوا کے موضوع پر منعقد ہونے والی ایک ورچوئل کانفرنس تنازعات کا شکار ہونے کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ کانفرنس کے انعقاد کی حمایت اور اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کے درمیان ‘ڈس مینلِنگ گلوبل ہندتوا’ نامی اس کانفرنس میں ہندتوا کو نفرت سے متاثر ایک نظریہ قرار دیا گیا تھا اور اس پر سوالات اٹھائے تھے۔بی بی سی رپورٹ کے مطابق کانفرنس کے منتظمین کا کہنا تھاکہ مخالفت کرنے والوں نے ان کیآواز کو دبانے اور پینل میں شامل افراد کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ وہیں کانفرنس کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس سیاسی مفادات پر مبنی تھی اور اس کا مقصد عالمی سطح پر انڈیا اور ہندوازم کا تاثر خراب کرنا تھا۔کانفرنس کے خلاف احتجاج کی وجہ بتاتے ہوئے ایچ اے ایف کی بانی سہاگ شکلانے بتایا ‘ہمیں ہندوؤں کے تاثر کی فکر نہیں ہے۔ یہ کارکن دہائیوں سے ہندوؤں کے خلاف اپنا نفرت انگیز ایجنڈا چلا رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ جب ہندوؤں کو سر عام بے عزت کیا جائے گا اور انہیں ظالم بتایا جائے گا تو اس کے ہندو طلبا اور اساتذہ پر کیا اثرات پڑیں گے’۔ ادھر کانفرنس کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہمیں خدشہ تھا کہ اس کانفرنس کی کچھ مخالفت ہو گی۔ ہمارے پینل کے بہت سے لوگوں کو دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے۔ انہیں ٹوئٹر، فون اور ای میل پر دھمکیاں دی گئی، ان کے ساتھ گندی زبان استعمال کی گئی۔ خاص طور پر خواتین کو بہت گندے اور دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے۔ کانفرنس میں شریک کچھ ماہرین تعلیم نے دھمکیوں کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔ پروفیسر گیان پرکاش کہتے ہیں کہ ‘ہم ہندوازم اور ہندتوا کو ایک نہیں سمجھتے یہ دونوں مختلف ہیں۔ ہندتوا ایک سیاسی تحریک ہے جبکہ ہندو ازم اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہندتوا کے حامی گزشتہ کچھ برسوں سے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہندتوا ہی ہندو مذہب ہے’۔ وہ مزید کہتے ہیں ‘ہندتوا انڈیا کے مسلمانوں، دلتوں اور خواتین کے خلاف ہے۔ ہم ہندتوا پر تنقید کر رہے ہیں انڈیا پر نہیں۔ علم رکھنے والے ہندتوا کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عام لوگ نہیں جانتے۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ عام لوگوں کو بھی اس نظریہ کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ ہندتوا اب یورپ اور امریکہ میں بھی پاؤں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہمیں یہاں بھی لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے’۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر آپ چند دن پہلے شائع ہونے والی اس خبر کو بھی دیکھیے کہ ہندوستانی حکومت نے ہندتوا نظریہ پرستوں کے مظالم کی رپورٹنگ کرنے والی ڈیٹا ویب سائٹ ‘ہندتوا واچ’ کو بلاک کردیا اور اب ان کا ایکس اکاؤنٹ بھی بند کر دیا۔ الجزیرہ نیوز کے مطابق ہندوستان میں میڈیا سنسرشپ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ مودی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو دستاویز کرنے والی ویب سائٹ اور اکاؤنٹ کوبلاک کر دیا ہے۔ اقلیتی اور پسماندہ برادریوں پر مظالم کی رپورٹنگ کے لیے امریکہ سے ہینڈل ہونے والی آزاد تحقیقی ڈیٹا ویب سائٹ ہندتوا واچ کی ویب سائٹ کو بلاک کرنا "کشمیر میں میڈیاکی مکمل تباہی” کا ہتھکنڈا ہے۔ ہندتوا واچ کے ساتھ ہی حکومت نے نفرت انگیز تقاریر کی رپورٹنگ کرنے والی ویب سائٹ ‘انڈیا ہیٹ لیب’ کو بھی بلاک کر دیا ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے متنازعہ آئی ٹی ایکٹ کے تحت ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے نوٹس جاری کی ہے۔ ستمبر 2023 میں ہندتوا واچ اور انڈیا ہیٹ لیب نے مشترکہ طور پر مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز تقریر پر ایک رپورٹ شائع کی، رپورٹ میں مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز تقریر کے 255 سے زیادہ دستاویزی واقعات کا تجزیہ کیا گیا، جن میں 80 فیصد واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں رونما ہوئے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت دراصل آمرانہ حکومت ہے جو کسی بھی طرح کے آزادانہ نقطہ نظر کو طاقت سے خاموش کرادیتی ہے۔
حالات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے کہ اسلام انسانوں کو جو حقوق فراہم کرتا ہے وہ کیا ہیں اور کس طرح انسانوں کے درمیان مختلف امتیازات کو ختم کرتا ہے۔ اسلام تمام شہریوں کو حقِ حفاظت فراہم کرتا ہے۔ حق حفاظت ہر قسم کے بيرونى اور اندرونى ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوتا ہے تاکہ ہر شخص اپنے مذہب پر مکمل عمل کر سکے اور پر امن طریقے سے زندگی بسر کی جائے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کے تحفظ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: "بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسا تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں مقرر کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے” (بخاری) لہٰذا کسی بھی انسان کو نا حق قتل کرنا، اس کا مال لوٹنا، اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا دوسروں پر حرام ہے۔ حضرت ابو بکرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو نا حق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا” (نسائی) ایک دفعہ گورنر مصر حضرت عمروؓ بن العاص کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو نا حق سزا دی۔ خلیفہ وقت امیر المومنین حضرت عمرؓ کے پاس جب اس کی شکایت گئی تو انہوں نے سر عام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلاب فرانس کی جدو جہد میں روحِ رواں بنا۔ آپ نے گورنر مصر حضرت عمروؓ بن العاص کے بیٹے سے فرمایا: "تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤوں نے انہیں آزاد جنا تھا؟”(کنز العمال) اسلام نے تمام شہریوں کو عزت اور تکریم ہی فراہم نہیں کی بلکہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا فریضہ بھی سونپا ہے۔ برخلاف اس کے مسلمانوں کو سخت وعید سنائی ہے اور اس فریضہ کو مذہبی امور سے وابستہ کرتے ہوئے دنیا اور آخرت میں کامیابی و ناکامی سے جوڑ دیا ہے۔
گفتگو کے اس پورے پس منظر میں جب ہم دنیا کے موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ظلم چہار جانب اپنی انتہا پر پہنچ رہا ہے۔ انسانوں کے درمیان نفرتیں باقاعدہ اور منظم و منصوبہ بند انداز میں پھیلائی جارہی ہیں تاکہ انسانوں کو تقسیم کیا جانا آسان ہو۔ساتھ ہی مقاصد کے حصول کے لیے زبان پر تالے ڈالنے اور حقائق کو چھپانےکی کوششیں جاری ہیں۔ آج ایک جانب آزادی کے نعرے کے پس پشت غلامی کا طوق ڈالنے کی سعی و جہد جاری ہےتو وہیں اپنے حریف کو کچلنے کا بدترین لائحہ عمل اور نفاذ کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان مظالم کی باقاعدہ رپورٹیں بھی شائع کی جاتی ہیں، ان پر سیمنار اور مذاکرے بھی ہوتے ہیں لیکن جب معاملہ ذاتی ہوتا ہے تو نہ مظلوم کا ساتھ دیا جاتا ہے نہ ہی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ معاملات یکسر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ برخلاف اس کے اسلام نے مسلمانوں کو حق پر قائم رہنے، باطل کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے اور عدل وقسط کے قیام کی سعی وجہد کی جانب توجہ دلائی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا ہمہ وقت یہی طرز عمل ہونا چاہیے اور یہی گفتگو اور سعی وجہد کا مرکز و محور بھی ہونا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024