!مظفر نگر کا نام لکشمی نگر کر دینے کا فیصلہ

تجویز کو ضلع پنچایت کی منظوری

اکھیلیش ترپاٹھی

لکھنؤ: اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کو لکشمی نگر کے نام سے موسوم کرنے کی راہ ہموار ہو چکی ہے، کیونکہ ضلع پنچایت نے اس بابت ایک تجویز کو منظوری دے کر ریاستی حکومت کی بارگاہ میں حتمی توثیق کے لیے ارسال کر دیا ہے۔ اسی طرح فیروز آباد ضلع پریشد نے بھی ریاستی حکومت کو ایک تجویز بھیجی ہے، جس میں ضلع کا نام چندرا نگر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔
اتر پردیش میں وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں برسرِ اقتدار بی جے پی کی حکومت پر اکثر و بیشتر اس بات کا الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ ہندو انتہا پسند عناصر کی خوشنودی کے لیے ایسی پالیسیاں اپنا رہی ہے جو مخصوص نظریاتی رجحانات کو تقویت دیتی ہیں۔ ریاستی حکومت کا عقیدہ ہے کہ ان شہروں اور بستیوں کے نام جو مسلمانوں کی شناخت سے وابستہ ہیں، بدل کر ہندو نام رکھے جائیں تو ہندو رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوگی۔ مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس قسم کے مذہبی مسائل کو ہوا دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرے۔
مظفر نگر کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی اسی پالیسی کا ایک مظہر ہے، جس کے ذریعے توجہ کو حقیقی مسائل سے ہٹا کر نوجوانوں کو مذہبی سیاست میں الجھایا جا رہا ہے جبکہ ان کے لیے روزگار اور اقتصادی ترقی جیسے ضروری امور کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔
ضلع کا نام بدلنے کی یہ تجویز 29 مارچ 2025 کو منعقدہ ضلع پنچایت کے اجلاس میں منظور کی گئی۔ اس اجلاس کی صدارت ضلع پنچایت صدر ڈاکٹر ویرپال نروال نے کی جبکہ اس میں یو پی کے وزیر انیل کمار اور رکنِ پارلیمنٹ چندن سنگھ چوہان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے دوران اضافی چیف آفیسر یوگیش کمار نے اس تجویز کو پیش کیا، جس پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ اس موقع پر ضلع پنچایت کے رکن منوج راجپوت نے مظفر نگر کا نام لکشمی نگر رکھنے کی تجویز دی، ان کا استدلال تھا کہ اس سے علاقے کی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ اجلاس کے بیشتر اراکین نے اس تجویز کی حمایت کی، تاہم رکنِ پنچایت یونس چودھری نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملات پر فیصلہ سازی تمام طبقات کی رضامندی سے ہونی چاہیے لیکن اس کے باوجود یہ تجویز منظور کر لی گئی اور اب اسے ریاستی حکومت کے حتمی فیصلے کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔
مظفر نگر کا نام بدلنے کی یہ کوشش کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہے، جو بی جے پی کے مجموعی ایجنڈے سے ہم آہنگ ہے۔ اس سے قبل بی جے پی کے رکنِ قانون ساز کونسل موہت بینیوال نے اس مسئلے کو کونسل میں اٹھایا تھا اور وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کر کے اس پر جلد از جلد عمل درآمد کی درخواست کی تھی۔ علاوہ ازیں، متعدد ہندو تنظیمیں بھی احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اس مطالبے کو شدّت سے دوہرا چکی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے محض مذہبی محرکات نہیں بلکہ سیاسی عوامل بھی کار فرما ہیں کیونکہ مظفر نگر اور اس کے مضافاتی حلقے کیرانہ میں لوک سبھا انتخابات کے دوران سماج وادی پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی، جب کہ بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ نام کی تبدیلی درحقیقت اسی سیاسی نقصان کا ردِ عمل ہے، جس کا مقصد اس خطے میں بی جے پی کے ووٹ بینک کو مستحکم کرنا ہے۔
یہ معاملہ مظفر نگر تک محدود نہیں رہا بلکہ قریبی ضلع میرٹھ میں بھی اس پر بحث چھڑ چکی ہے، جہاں بی جے پی کے میئر ہری کانت اہلووالیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان تمام مقامات کے نام تبدیل کریں گے جو مغل شہنشاہ اورنگ زیب سے منسوب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے نام جدید ہندوستان میں کوئی معنویت نہیں رکھتے اور انہیں قومی ہیروز کے ناموں سے بدل دینا چاہیے۔
مظفر نگر کا نام تبدیل کرنے کی یہ کوشش بی جے پی کی شناختی سیاست (Identity Politics) کے رجحان کو مزید تقویت دیتی ہے، جس میں مذہبی علامات کو اقتصادی ترقی، روزگار اور دیگر حقیقی مسائل پر ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم، ان اقدامات کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ آنے والے انتخابات میں یہ واضح ہوگا کہ آیا یہ حکمت عملی بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ بی جے پی کی حکومت اس سے قبل بھی فیض آباد کا نام بدل کر ایودھیا، الٰہ آباد کا نام پریاگ راج، مغل سرائے کا نام پنڈت دین دیال اپادھیائے نگر، فیض آباد جنکشن ریلوے اسٹیشن کا نام ایودھیا چھاؤنی ریلوے اسٹیشن، الٰہ آباد جنکشن ریلوے اسٹیشن کا نام پریاگ راج جنکشن اور مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کا نام دین دیال اُپادھیائے ریلوے اسٹیشن رکھ چکی ہے۔
(بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025