
متنازعہ وقف ترمیمی قانون اور چند بے بنیاد الزامات
وقف: ایک قومی امانت؛ مفادِ عامہ کی سچائی اور غلط فہمیوں کی وضاحت
محمد طلحہٰ سیدی باپا بھٹکلی
اوقاف کے خلاف تیار کردہ قابل اعتراض ترمیمی قانون، آئین ہند کی روح سے متصادم
حال ہی میں بی جے پی حکومت کی جانب سے منظور کردہ متنازعہ وقف ترمیمی قانون 2025 نے ملک بھر کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں ملک گیر سطح پر پرامن احتجاجات جاری ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے نازک موقع پر بعض افراد اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ گمراہ کن بیانیہ عام کیا جا رہا ہے کہ وقف کی جائیدادیں صرف ناجائز قابضین کے فائدے میں آرہی ہیں، ان پر تجارتی عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں، اور یہ صرف کرایے وصول کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔
یہ دعوے نہ صرف حقیقت سے بعید ہیں بلکہ اس قومی امانت کے تقدس اور عوامی فلاح و بہبود کے اس تصور کو بھی مجروح کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر وقف کا عظیم ادارہ قائم کیا گیا تھا۔
یقیناً یہ سچ ہے کہ بعض مقامات پر وقف املاک کے استعمال میں بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اور کہیں کہیں ذاتی مفادات کے لیے ان کا غلط استعمال بھی ہوا ہے مگر یہ پورا سچ نہیں ہے۔ اس بنیاد پر وقف ادارے کی مجموعی افادیت اور اس کے رفاہی کردار کو مشکوک بنانا سراسر نا انصافی ہے۔
قانون سازی کے پردے میں خطرناک سازش
آج یہ سوال مسلمانوں کے ذہنوں میں ڈالا کیا جا رہا ہے کہ "وقف بورڈ آخر ہمارے لیے کرتا ہی کیا ہے؟ ہم کیوں اس معاملے میں دلچسپی لیں؟”
درحقیقت یہ وہی بیانیہ ہے جو سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کی جانب سے منظم طور پر پھیلایا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو وقف کی حفاظت کی تحریک سے الگ رکھا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ قوم کے ذہن میں وقف کی دینی، سماجی اور تعلیمی اہمیت کو کمزور کر کے اسے بے فائدہ اور متنازع ادارہ بنا کر پیش کیا جائے تاکہ حکومت اس پر آسانی سے مکمل کنٹرول حاصل کر سکے۔
بی جے پی حکومت قانون سازی کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتی ہے بلکہ وقف جیسے مقدس ادارے کو خیالی سوالات اور بے بنیاد الزامات کی آڑ میں اس نہج پر لے جانا چاہتی ہے کہ وقف املاک پر غیر قانونی قبضوں کو قانونی جواز دیا جا سکے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وقف وہ املاک ہیں جو مسلمانوں نے صدیوں سے عبادت، تعلیم، علاج اور فلاحِ عامہ جیسے عظیم مقاصد کے لیے رضاکارانہ طور پر وقف کی ہیں۔ ان کا تحفظ صرف مذہبی نہیں بلکہ ایک سماجی، آئینی اور انسانی فریضہ بھی ہے۔
حقیقت یا بہتان؟
یہ درست ہے کہ کچھ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے ہیں اور ایسے عناصر قوم کے ماتھے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا کسی بھی ادارے یا محکمہ کو مکمل طور پر بدعنوانی سے پاک قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر صرف وقف کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اصل مسئلہ ان قابضین سے بازیابی کا ہے نہ کہ پورے وقف نظام کو بدنام کرنے کا۔
سچر کمیٹی کی سفارشات اور وقف
2006 میں جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں تیار کی گئی "سچر کمیٹی رپورٹ” نے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی حالت پر سیر حاصل تجزیہ پیش کیا تھا۔ اسی رپورٹ میں وقف کی جائیدادوں کو مسلمانوں کی معاشی ترقی کا مؤثر ذریعہ قرار دیا گیا اور ان کی شفاف دیکھ بھال اور ترقی کے لیے سفارشات دی گئیں۔
اسی رپورٹ کے بعد وقف پر سنجیدہ گفتگو اور اصلاحات کا آغاز ہوا۔
کرناٹک میں وقف اصلاحات کی کامیاب مثال
کرناٹک وقف بورڈ نے ایک نمایاں قدم اٹھاتے ہوئے وقف اراضی کے لیز کے نظام میں بنیادی تبدیلی کی ہے۔ پہلے یہ زمینیں 90 سال کے لیے غیر منصفانہ شرائط پر لیز پر دی جاتی تھیں جس سے آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔
اب لیز کی مدت 30 سال کر دی گئی ہے اور ہر بار موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق تجدید کی جائے گی۔
تجارتی استعمال پر سالانہ کرایہ 2.5 فیصد اور تعلیمی استعمال پر ایک فیصد مقرر کیا گیا ہے۔
ریاست میں موجود تقریباً 17,000 وقف جائیدادوں میں سے 10,000 کو اس نئے نظام میں شامل کر لیا گیا ہے، جس سے آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
تعلیمی ادارے: قوم کا روشن مستقبل
یہ بات صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دارالعلوم دیوبند یا ندوۃ العلماء تک محدود نہیں ہے بلکہ ان درجنوں چھوٹے بڑے اداروں پر بھی صادق آتی ہے جو وقف کی زمینوں پر قائم ہو کر ہزاروں غریب و متوسط طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔مسلم یتیم خانہ، بنگلور، ایک تاریخی اور مثالی ادارہ ہے، جہاں سیکڑوں یتیم بچے اور بچیاں ہر سال رہائش، تعلیم اور تربیت سے مستفید ہو رہے ہیں۔
انجمنِ اسلام کی خدمات
انجمنِ اسلام، ہبلی، دھارواڑ، بیلگام اور گدگ میں درجنوں تعلیمی ادارے چلا رہی ہے۔یہ ادارے پرائمری اسکولوں سے لے کر پوسٹ گریجویٹ کالج، نرسنگ، پیرا میڈیکل، پولی ٹیکنک اور یہاں تک کہ آئی آئی ٹی سطح کے کورسز بھی چلا رہے ہیں۔ ہر سال ہزاروں طلبہ بغیر کسی مذہبی امتیاز کے، ان اداروں سے تعلیم حاصل کر کے ملک و ملت کی خدمت کر رہے ہیں۔
خواجہ بندہ نواز ٹرسٹ اور الامین ایجوکیشن سوسائٹی درخشاں مثالیں
خواجہ بندہ نواز ایجوکیشنل ٹرسٹ (گلبرگہ) اور الامین ایجوکیشن سوسائٹی (بنگلور) وقف زمین پر قائم دو ایسے ادارے ہیں جو ریاست ہی نہیں، پورے ملک میں تعلیمی خدمات کے حوالے سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ خواجہ بندہ نواز ٹرسٹ میں میڈیکل، ڈینٹل اور انجینئرنگ کالجز کامیابی سے چل رہے ہیں۔
الامین ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت اسکول، ڈگری کالج، لاء کالج، انجینئرنگ اور مینجمنٹ انسٹیٹیوٹس شامل ہیں، جہاں جدید سہولیات، تجربہ کار اساتذہ اور کم فیس کا نظام ایسے ہزاروں طلبہ کے لیے امید کی کرن ہے جو محدود وسائل رکھتے ہیں۔
ہاسٹلز: دیہی طلبہ کے لیے سہارا
بنگلور، داونگیرے، میسور اور گلبرگہ جیسے شہروں میں وقف زمین پر مسلم ہاسٹلز قائم ہیں جہاں دیہی علاقوں سے آنے والے طلبہ قیام کر کے اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہیں۔ ان ہاسٹلوں نے طلباء کو کرایے کے بوجھ سے نجات دے کر تعلیمی سفر کو آسان بنا دیا ہے۔
طبی خدمات: وقف کا انسانی چہرہ
الشّفاء ہسپتال (کوئنز روڈ) اور HBS اسپتال (شیواجی نگر) جیسے ادارے وقف زمین پر قائم ہیں جہاں روزانہ ہزاروں مریضوں کو کم لاگت میں باوقار طبی سہولیات میسر ہیں۔ رائچور اور ہاسپیٹ جیسے علاقوں میں وقف زمین پر قائم سپر اسپیشلٹی ہسپتال مقامی آبادی کو ان کے دروازے پر معیاری علاج فراہم کر رہے ہیں۔ ریاست بھر کی کئی مساجد کے ساتھ چھوٹے کلینک بھی کام کر رہے ہیں، جو خاص طور پر خواتین، مزدوروں اور ضعیف افراد کے لیے نہایت مفید ہیں۔
یتیم خانے: بے سہاروں کا سہارا
بنگلور، گلبرگہ، میسور اور رائچور جیسے شہروں میں وقف زمینوں پر قائم یتیم خانے بچوں کو رہائش، تعلیم، خوراک اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ یہ ادارے بے سہاروں کے لیے تحفظ کا ایک مضبوط سہارا ہیں۔
دکانیں اور روزگار کے مواقع
مساجد و درگاہوں کے قرب و جوار میں ہزاروں دکانیں وقف زمین پر قائم ہیں، جو نہ صرف روزگار کا ذریعہ ہیں بلکہ ان مذہبی اداروں کی آمدنی میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔ یہ چھوٹے کاروباری یونٹس غریب و متوسط طبقے کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مستقبل کی سمت: ترقی، تحفظ اور بازیابی
اب وقت آ چکا ہے کہ وقف کی غیر استعمال شدہ زمینوں کو تعلیمی، طبی اور رہائشی منصوبوں میں استعمال کیا جائے اور ناجائز قابضین سے ان زمینوں کو بازیاب کر کے ان کا درست مصرف یقینی بنایا جائے۔
ہر ہندوستانی کی ذمہ داری
وقف کے خلاف مرتب کیا گیا متنازعہ قانون صرف مسلمانوں کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کے دستور یعنی آئین ہند سے وابستہ معاملہ ہے۔ ہر ہندوستانی چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ وقف کے نظام کی افادیت کو سمجھے، اس کی حفاظت کرے اور ان قوانین کی مخالفت کرے جو اسے کمزور کرنے کے لیے لائے جا رہے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہاں صرف چند نمایاں اداروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم کرناٹک میں وقف کے تحت جاری تمام فلاحی، تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں کا مکمل جائزہ لینا چاہیں تو ایک تفصیلی دستاویز درکار ہوگی۔
یہ مختصر مضمون محض ان غلط فہمیوں اور گمراہ کن باتوں کی تردید کے لیے ہے جو وقف کے خلاف دانستہ طور پر پھیلائی جا رہی ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025