
متنازعہ وقف قوانین کے خلاف مرشدآباد میں ہنگامہ آرائی کے پیچھے کون ہے؟
جب احتجاج متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھا تو پھر مظاہرین کا غصہ ریاستی حکومت، بنگال پولیس، ترنمول کانگریس کے ممبرانِ اسمبلی اور ممبرانِ پارلیمنٹ پر کیوں نکالا گیا؟ ان پر حملے کیوں کیے گئے؟
(دعوت نیوز بیورو)
کلکتہ ہائی کورٹ کی ہدایت کے بعد ضلع مرشدآباد کے جنگی پور سب ڈویژن اور شمشیر گنج تھانہ علاقے میں بڑی تعداد میں مرکزی فورسز اور مغربی بنگال پولیس کے سینئر افسران نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اتوار کے روز علاقے میں حالات پرامن رہے۔اس ہنگامہ آرائی میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں دو کا تعلق اکثریتی طبقے سے ہے اور یہ دونوں باپ بیٹے تھے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان کی موت کیسے ہوئی؛ مختلف قیاس آرائیاں گردش میں ہیں۔پولیس فائرنگ میں ایک مظاہرہ کرنے والے نوجوان کی موت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس احتجاج کا اعلان کسی بڑی مسلم تنظیم نے نہیں کیا تھا بلکہ یہ احتجاج مکمل طور پر مقامی نوجوانوں کی اپیل پر کیا گیا تھا۔
مرشدآباد میں پیش آئے حالیہ پرتشدد واقعات نے نہ صرف انتظامیہ کی چوکسی پر سوال اٹھائے ہیں بلکہ احتجاج کی اپیل کرنے والی مسلم تنظیموں کی نیت اور حکمتِ عملی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔پہلا اہم سوال یہ ہے کہ جب متنازع وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج دراصل مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھا تو پھر مظاہرین کا غصہ ریاستی حکومت، بنگال پولیس، ترنمول کانگریس کے ممبرانِ اسمبلی اور ممبرانِ پارلیمنٹ پر کیوں نکالا گیا؟ ان پر حملے کیوں کیے گئے؟
دوسرا اور نہایت اہم سوال یہ ہے کہ جب پہلے دن ہی حالات کشیدہ ہو گئے تھے، تو انتظامیہ حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ احتجاج دوسرے اور تیسرے دن بھی جاری رہا، اور اس دوران خاطر خواہ سیکورٹی انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟ اگر پہلے دن نیشنل ہائی وے کو بند کیے جانے کے سبب ہنگامہ آرائی ہوئی تھی، تو بعد کے دنوں میں بھی مظاہرین کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئی؟یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب احتجاج مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف تھا، تو ریاستی پولیس کے ساتھ تصادم اور ترنمول کے رہنماؤں پر حملے کی نوبت کیوں آئی؟ کیا یہ غصہ منظم انداز میں ریاستی حکومت کے خلاف موڑا گیا؟
مرشدآباد چونکہ ایک مسلم اکثریتی ضلع ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 70 فیصد سے زائد ہے اور جو سرحدی حساسیت کا حامل بھی ہے، ایسے میں اگر مظاہرے ہو رہے تھے تو پولیس اور انتظامیہ نے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے؟ کیوں بڑی تعداد میں فورسز تعینات نہیں کی گئیں؟بی جے پی لیڈران مرشدآباد کے ان واقعات پر شدید اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، حالانکہ رام نومی اور ہنومان جینتی کے موقع پر ریاست میں ہندتوا تنظیموں نے کھلے عام اسلحہ کی نمائش کی، اشتعال انگیز نعرے لگائے اور سڑکوں کی بندش کی، تب پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ لیکن وقف قوانین کے خلاف احتجاج میں چند گھنٹوں کے لیے ہائی وے جام ہوا تو فوری لاٹھی چارج کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا احتجاج کو پرامن طریقے سے ختم کرانے کی کوشش نہیں کی جا سکتی تھی؟ کیا افہام و تفہیم کی گنجائش موجود نہیں تھی؟
ترنمول کانگریس کے رہنما اور ریاستی وزیر مولانا صدیق اللہ چودھری، نیز رکن اسمبلی ہمایوں کبیر نے بھی پولیس کے رویے پر سوال اٹھائے ہیں۔ مولانا صدیق اللہ چودھری نے واضح طور پر کہا کہ اگر پولیس لاٹھی چارج نہ کرتی تو حالات نہیں بگڑتے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران تین افراد کی موت ہو چکی ہے، جن میں دو کا تعلق اکثریتی طبقے سے بتایا جا رہا ہے، جو باپ بیٹے تھے۔ تیسرے شخص کی موت پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ہونے کی اطلاع ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب جلوس جنگی پور کے علاقے دھولیا سے گزر رہا تھا تو کچھ نقاب پوش افراد اس میں شامل ہو گئے اور اشتعال انگیزی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں حالات بگڑ گئے اور بعض مقامات پر دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔سوال یہ ہے کہ یہ نقاب پوش افراد کون تھے؟ پولیس کی ابتدائی رپورٹ میں بھی کچھ ’باہر سے آئے عناصر‘ کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر مقامی نوجوانوں کو اشتعال دلا کر ہائی وے بند کروا دیا۔ کیا ان چہروں کی شناخت ہو پائے گی؟
مرشدآباد ایک مسلم اکثریتی ضلع ہے جو سرحد کے قریب واقع ہونے کے سبب انتہائی حساس مانا جاتا ہے۔ سرحد سے پچاس کلومیٹر کے دائرے میں بی ایس ایف کو کارروائی کی اجازت حاصل ہے اور عام زندگی میں ان کی مداخلت ایک معمول بن چکی ہے۔ دوسری جانب، حالیہ برسوں میں اس علاقے میں ہندتوا تنظیموں کی سرگرمیوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مالدہ اور مرشدآباد میں آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم سرگرم ہے جو سرحدی علاقوں میں ہندوؤں کو زمین خریدنے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی سرگرمیاں باہمی اعتماد اور سماجی ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، اور یہی ٹوٹتا ہوا اعتماد حالیہ احتجاج کے دوران بھی نمایاں طور پر دکھائی دیا۔
ہنگامہ خیز علاقوں سے کچھ گھرانوں نے نقل مکانی کی ہے اور پڑوسی ضلع مالدہ میں پناہ لی ہے۔ پولیس ان خاندانوں کو جلد از جلد ان کے گھروں میں واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن بی جے پی کی جانب سے سوشل میڈیا پر جو تصاویر شائع کی گئیں اور پارٹی لیڈروں نے جو اشتعال انگیز بیانات دیے، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی ریاست میں امن و امان کے قیام کی خواہاں نہیں ہے۔ اس کا واضح مقصد ہےبھی مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔
کلکتہ پولیس نے واضح طور پر کہا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے مرشدآباد میں ہنگامہ آرائی سے متعلق جو تصاویر شائع کی گئی ہیں وہ جعلی ہیں اور ان کا مرشدآباد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بی جے پی نے اس طرح کی حرکت کی ہو۔ اس سے قبل بھی بشیر ہاٹ اور دیگر فسادات کے دوران جعلی تصاویر پھیلائی جا چکی ہیں۔
مرشدآباد کے کئی مقامی رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے باہری عناصر ملوث ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ان باہری عناصر کی شناخت آخر کیوں نہیں کی جا رہی؟ کیا یہ لاپروائی ہے یا دانستہ چشم پوشی؟
مرشدآباد میں احتجاج کا بے قابو ہو جانا اور ہنگامہ آرائی کا پھیل جانا مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے لیے ایک سنجیدہ سبق ہے۔ احتجاج کی کال دینا جتنا آسان ہے، اسے پرامن اور منظم انداز میں اختتام تک پہنچانا اتنا ہی مشکل۔ محض بھیڑ جمع کر لینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ ضروری ہے کہ قیادت نہ صرف باصلاحیت بلکہ منظم اور مستحکم بھی ہو، تاکہ عوامی جذبے کو سنبھالا جا سکے اور مقصد حاصل ہونے کے بعد ہجوم پرامن طریقے سے منتشر ہو۔
مالدہ اور مرشدآباد میں حالیہ برسوں میں متعدد ایسے احتجاج دیکھے گئے ہیں جو بے قابو ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کی تہہ تک پہنچنے کے لیے میں نے مرشدآباد اور مالدہ کے کئی سینئر افراد سے گفتگو کی۔ ان علاقوں کو ملک کے سب سے پسماندہ اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں یہاں ایک نئی نسل ابھری ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور ترقی کی خواہش رکھتی ہے۔ لیکن بدعنوانی، ملازمتوں کی کمی اور بے روزگاری نے ان نوجوانوں کو مایوسی کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ یہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے آباؤ اجداد کی طرح رکشہ چلانا یا مزدوری کرنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آسانی سے پروپیگنڈے اور اشتعال انگیزی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جب قیادت کمزور ہو، منزل دھندلی ہو اور سماج مایوسی میں ڈوبا ہو تو تعلیم یافتہ نوجوان اپنے جذبات کا رخ سڑکوں کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ مرشدآباد کا واقعہ صرف ایک احتجاج نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے سماج کی مایوسی، قیادت کی کمزوری اور سیاسی جماعتوں کے عزائم کا عکس صاف دیکھ سکتے ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025