
متنازعہ وَقف قانون کے خلاف کرناٹک کی سب سے بڑی عوامی ریلی
80 ہزار سے زائد افراد کی شرکت۔ کالے قانون کے خلاف اظہار برہمی
اڈیار، کرناٹکا (دعوت نیوز بیورو)
اڈیار (جنوبی کینرا) یہ صرف ایک احتجاجی ریلی نہیں تھی بلکہ ایک قومی شعور کا ابھار تھا۔ کرناٹکا کے ضلع جنوبی کینرا کے اڈیار۔کننور میدان میں جب لاکھوں قدم ایک نصب العین کی جانب اٹھے تو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔
80 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل یہ عظیم الشان ریلی نہ صرف وَقف ترمیمی بل 2025 کے خلاف عوامی غصے کی علامت بنی بلکہ اس نے جمہوری بھارت کے موجودہ حالات پر ایک سوالیہ نشان بھی لگا دیا۔
شاہراہوں پر انسانوں کا ریلا تھا، جھنڈے، بینرز اور پوسٹرز صرف احتجاج کی علامت نہیں تھے بلکہ ایک اجتماعی شعور کا اظہار بنے ہوئے تھے۔ “وقف ہماری جان، ہمارا ایمان”، “آئین بچاؤ، وقف بچاؤ”، “ہماری زمین، ہمارا حق” جیسے نعرے فضا میں گونج رہے تھے اور واضح پیغام دیا جا رہا تھا کہ عوام اپنے حقوق پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔
یہ احتجاج کسی ایک جماعت، مسلک یا طبقے کا نہیں تھا بلکہ ریلی میں مختلف مکاتبِ فکر، دینی و سماجی تنظیموں کے قائدین، تاجر، وکلا، سابق پولیس افسران، طلبہ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کرناٹک علما یونین کے جنرل سکریٹری استاد الفیضی تودارو نے کہا:
"یہ صرف مسلمانوں کی جنگ نہیں بلکہ یہ آئین کے تحفظ اور جمہوریت کے استحکام کی لڑائی ہے۔”
اسی طرح سابق ریاستی وقف بورڈ کے صدر مولانا شافعی سعدی نے کہا:
"آج ہمیں پھر اسی اتحاد کی ضرورت ہے جو 1986 کے شاہ بانو کیس کے وقت دیکھنے کو ملا تھا۔”
عبدالناصر لکیسٹر، صدر ضلع وقف مشاورتی کمیٹی نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا:
"ہم نے کبھی کسی کے حقوق نہیں چھینے۔ ہم صرف اپنے اس حق کے لیے کھڑے ہیں جو ہمارے آبا و اجداد نے دین و ملت کے لیے وقف کیا تھا۔”
عبداللہ آزحیل داری، جنرل سکریٹری کرناٹک مسلم یونین نے اس ریلی کو عوامی بیداری کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا:
"جو قوتیں ہمیں پچھاڑنے کا خواب دیکھ رہی ہیں، وہ یاد رکھیں کہ ہم دبتے نہیں بلکہ ابھرتے ہیں۔ آج کی یہ ریلی اسی ابھار کی علامت ہے۔”
انتظامی طور پر یہ ریلی مثالی تھی۔ نظم و ضبط کی نگرانی دو ہزار سے زائد رضاکاروں نے کی جنہوں نے پینے کے پانی کی تقسیم، صفائی اور عوام کی رہنمائی کا فرض خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ شہر میں اگرچہ ٹریفک سست روی کا شکار رہی اور موبائل نیٹ ورک متاثر ہوا، لیکن احتجاج مکمل طور پر پُرامن اور مہذب انداز میں انجام پایا۔
ریلی کا اختتامی پیغام بہت واضح تھا:
"یہ احتجاج کسی قوم یا مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ان پالیسیوں کے خلاف ہے جو آئینی اقدار کو کچل کر مخصوص مفادات کی تکمیل چاہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت عوام کی پکار سنے گی یا آمریت کی روش اختیار کرے گی؟ یہی جمہوری بھارت کا اصل امتحان ہے۔”
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025