مطالعہ سیرت (سیریز۔3)

اور مدینہ آفتاب نبوت ؐ کی سنہری کرنوں سے منور ہوگیا۔۔

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

ملت کی حفاظت پیغمبرانہ مشن کو اپنانے ہی میں مضمر
مدینہ جس کا نام یثرب تھا گھر گھر اسلام کی دعوت پہنچ چکی تھی، جو لوگ مسلمان ہوجاتے وہ اپنے قبیلہ میں اسلام کی دعوت دیتے اور لوگ سمجھنے لگے کہ سعادت اور نجات کی راہ اسلام ہی ہے، ایک خداکی عبادت ہی صحیح راستہ ہے، بت پرستی کا راستہ غلط ہے ۔ وہ حق شناس بن گئے، اسلام کے فدائی بن گئے۔ یثرب کے لوگ دوبارہ مکہ آکر حضرت محمد (ﷺ) سے ملے ،قرآن کی آیتیں سنیں اور اس طرح مدینہ میں اسلام کا غلغلہ بلند ہوا، اسلام کا تذکرہ ہرگھر میں ہونے لگا ، لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوتے چلے گئے۔مکہ میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔اسلام کافروغ انہیں سخت نا پسند تھا، مکہ والوں نے اب مشہور کرنا شروع کیا کہ محمد جادوگر ہیں جو ان سے ملتا ہے ان کے جادو کے زیر اثر آجاتا ہے ۔ مکہ کے لوگ ساری کوششیں کرکے تھک گئے لیکن اسلام تھا کہ پھیلتا جارہاتھا۔ بناوٹی خداوں کو لوگ چھوڑتے جارہے تھے، اعیان قریش کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ اب لات کا مستقبل کیاہے ہبل کا مستقبل کیا ہے یہ سوچ کر لوگ پریشان تھے۔ ان کی خدائی اب بظاہر تھوڑے دنوں کی مہمان ہے۔ نصر کے آگے سجدے کرنے والے ختم ہوگئے تب کیا ہوگا، عزی کی چوکھٹ پر کوئی سجدہ کرنے والانہ ملا توکیا ہوگا؟ اندیشہ ہے کہ ان دیوی دیوتاوں کو پرستار نہیں ملے گا، یہ آستانے سجدوں سے محروم ہوجائیں گے ۔ان عبادت خانوں میں خاک اڑے گی۔لوگ حیرت سے دیکھتے تھے مسلمان ستائے جاتے ہیں ظلم کی بھٹی میں ڈالے جاتے سخت سے سخت تکلیف ان کو دی جاتی ہے لیکن جس دین کو ایک بار قبو ل کر لیا، کیا مجال کہ کسی نے اسے چھوڑا ہو ۔ سب نے بتوں کی عبادت ہی نہیں چھوڑی امتیاز رنگ ونسب اور دوسری برائیوں کو بھی چھوڑ دیا، ایک انقلاب آ رہا تھا، حضرت بلا ل حبشی غلام تھے لیکن ابوبکر و عمر کے ساتھ بیٹھتے تھے، صنادید قریش یہ سب دیکھتے تو ان کو غصہ آتا یہ دین کیساہے جو فرق مراتب کو ختم کر دیتا ہے اور محمود وایاز سب کو ایک صف میں کھڑا کر دیتا ہے ۔تمام صحابہ کرام مظالم پر صبرکرتے تھے، سب کو جنت کی بشارتوں پر یقین تھا ۔حضور اکرم راستہ چلتے تو کفار ان راستوں پر کانٹے بچھاتے آپ کعبہ میں نماز پڑھتے تو گردن میں چادر کا پھندا ڈال دیتے اور چادر کو اتنا اینٹھتے کہ سانس لینا دشوار ہوجاتا ۔امن وسلامتی کے دروازے آپ کے اور آپ کے صحابہ کے لیے بند کردیے گئے تھے ،مکہ میں جانوروں کے لیے پناہ تھی لیکن اسلام لانے والوں کے لیے کوئی پناہ نہ تھی۔
   ابھی مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہوئی تھی لیکن مدینہ میں اسلام کا تعارف عام ہو گیا تھا، اب مکہ میں پانی سر سے اونچا ہوگیا تھا، ظلم کی چکی چل رہی تھی، ارباب قریش دارالندوہ میں جمع ہوئے اور سب نے طے کر لیا کہ اس دین کو فنا کرنے کے لیے محمد کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے بعد تھوڑی مدت میں اسلام کے سردار کے قتل ہوجانے کے بعد اس کے ماننے والے خودبخود ختم ہوجائیں گے ،آج دارالندوۃ کی مشاورت بہت تاریخی تھی جیسے ہندوستان میں دھرم سنسد کی مشاورت مسلمانوں کے خلاف تھی۔ سب نے مل کر فیصلہ کرلیا تھا کہ حضرت محمد کا خاتمہ کردینا ہے ۔
ابو جہل کا مشورہ تھا کہ کہ تمام قبیلوں کے جوان محمد کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور جس وقت حضرت محمد صبح کی نمازکے لیے نکلیں سب قبیلہ کے لوگ حملہ آور ہوں اور ان کاخاتمہ کردیں۔ اس طرح محمد کا خون تمام قبائل پر بٹ جائے گا اور بنوہاشم تمام قبیلوں سے انتقام نہیں لے سکیں گے ۔ابو جہل کی بات مانی گئی لوگوں نے ایک رات آپ کے گھر کو گھیرا، ہاتھوں میں برہنہ تلواریں، سب شمشیر بکف لیکن فانوس بن کے جس کی حفاظت خدا کرے اسے کون نقصان پہنچا سکتاہے۔ لوگوں کی نظر میں حضرت محمد صرف انسان تھے، انہیں نہیں معلوم کہ وہ اللہ کے نبی تھے اور اللہ ان کا محافظ تھا اور جب اللہ محافظ ہو تو دنیا کی تما م طاقتیں مل کر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ملت کے قائدین کو بھی یہی ایمان ملت کے افراد میں پیدا کرنا چاہیے اور اسی کے ساتھ ایمان پر استقامت۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو کافروں و مشرکوں کی سازشوں سے باخبرکردیا تھا، حضرت محمد (ﷺ) نے حضرت علی سے کہا تم میرے بستر پر سوجاو ،حضور اکرم کو یقین تھا کہ اللہ محافظ ہے، حضرت علی کو بھی یقین تھا کہ جب رسول اللہ بستر پر سونے کا حکم دے رہے ہیں تو کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ،حضور اکرم نے لوگوں کی امانت واپس کرنے کے لیے حضرت علی کو روکا تھا، جب ہجرت کا ارادہ تھا تو لوگوں کی امانتوں کا واپس کرنا ضروری تھا ۔یہ کام آپ نے حضرت علی کے سپردکیا ۔یہ بھی حضرت علی کی اطاعت اور انقیاد کا کمال تھا کہ موت کے بستر پر لیٹنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ یہ بستر تو اس لیے تھا کہ اس پر لیٹنے والے کو صبح کے وقت خون میں نہلا دیا جائے۔ حضرت علی اس بستر پر لیٹے اور آرام سے سو گئے، کوئی دوسرا ہوتا تو اسے خوف واضطراب سے
نیند نہیں آتی۔ یہاں وہ سکون تھا جو صرف ایمان کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
  یہ سارا قصہ سیرت کیا ہے اور اتنی شدت سے سرداران قریش آپ کی مخالفت میں کیوں اتر گئے تھے،اس کو سمجھنا ضروری ہے ۔انسان جب اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو چاند سورج زمین آسمان کو دیکھتا ہے، وہ اس دنیا کو سمجھنا چاہتا ہے، جب اس کو کوئی بنانے والا نظر نہیں آتا ہے تو چاند سورج کو خدا بنا لیتا ہے، اپنے اپنے قبیلوں کے اہم برگزیدہ شخصیتوں کے بت تراش لیتا ہے اور آہستہ آہستہ ان کو خدائی کا درجہ دینے لگتا ہے پھر یہ شرک آہستہ آہستہ رگ وپے میں سرایت کرجاتا ہے۔ اور جب اللہ انسانوں کی رہبری کے لیے پیغمبر بھیجتا ہے تو پیغمبر کی بات کہ اللہ ایک ہے اور وہ نظر نہیں آتا ہے انسانوں کے سمجھ میں نہیں آتی۔ سب لوگ پیغمبر کے مخالف بن جاتے ہیں اور اپنے معبودوں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔اسی لیے ہر دور میں دنیا والوں نے اپنے اپنے زمانہ کے پیغمبروں کی مخالفت کی تھی اور اب مکہ والے حضرت محمد (ﷺ) کی مخالفت پر تل گئے تھے اور آپ کے قتل کا ارادہ کربیٹھے تھے۔ اگر اللہ نے آپ کی حفاظت نہیں فرمائی ہوتی تو آپ کی زندگی کا خاتمہ ہوچکا ہوتا ۔لیکن اللہ کو اپنے دین کو دنیا میں پھیلانا تھا اور ہمیشہ کے لیے اس دین کو محفوظ کرنا تھا اس لیے اس نے اپنے نبی کو بچالیا۔ تمام کفار مکہ بے نیل ومرام واپس ہو گئے۔ آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے گھر سے نکل گئے اور کوئی آنکھ بھی آپ کو نہیں دیکھ سکی۔ اگر کوئی مسلمان پیغمبرانہ مشن کو لے کر کھڑا ہوگا تو وہ تمام سازشوں سے محفوظ رہے گا۔ اللہ تعالی حفاظت فرمائے گا۔ ہندوستان میں ملت کے قائدین کو یہ ایمان رگ وپے میں اتار لینا چاہیے کہ ملت کی حفاظت پیغمبرانہ مشن کے اندر ہے ۔مسلمانوں نے اس نسخہ کو آج تک آزمایا نہیں ہے ۔وہ صرف مسجدوں میں امامت کو اور مدرسوں میں مدرسی کو دین کی خدمت سمجھتے رہے ۔ مسلمان سیرت پر کتابیں لکھیں گے سیرت پر کتابیں پڑھیں گے لیکن ان کا دین کی دعوت کا ذہن نہیں بنے گا مسلمانوں کے درمیان تقریر کر کے مطمئن ہوجائیں گے کہ دعوت کا کام ہو گیا۔کوئی سوچتا نہیں کہ اللہ تعالی نے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجے۔ ہر پیغمبر نے اپنے اپنے زمانہ میں ایک ہی پیغام دیا، اللہ کی عبادت کا پیغام، بتوں کی عبادت چھوڑنے کا پیغام۔ ہر زمانہ میں پیغمبر آئے اور جب یہ انتظام ہوگیا کہ کہ اللہ کی کتاب میں اب تحریف نہیں ہوسکے گی ،جب یہ انتظام ہوگیا کہ آخری پیغمبر کی تعلیمات ہمیشہ باقی رہیں گی اور جب دنیا کے ایک حصہ میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی تاکہ قرآن وحدیث میں تغیر وتبدل نہ ہوسکے، حکومتوں کے فانوس میں دین اسلام کا چراغ جلتا رہے تب مسلمانوں نے پیغمبروں کے ذریعہ خدائی ہدایت کو پھیلانے کا جو مشن تھا اس سے منہ موڑ لیا، دعوت کے کام سے دست بردار ہوگئے۔ جو کام خیر امت کی حیثیت سے ان کے سپرد کیا گیا تھا اس سے انہوں نے منہ موڑ لیا۔صحیح معنی میں اب وہ خیر امت کے لقب کے سزاوار نہیں رہے۔ قریش کے دھرم سنسد میں زبردست سازشیں جاری تھیں۔ اللہ تعالی نے حضور اکرم کی حفاظت فرمائی کیونکہ دین کو ابھی دنیا میں پھیلانے کا کام باقی تھا، قریش کے لوگوں نے دھرم سنسد منعقد کیا تھا اور اس دھرم سنسد میں آپ کے قتل کا فیصلہ کیا تھا۔ قریش کے لوگ ناکام ہو گئے، اگر آج مسلمان اس فریضہ کو ادا کریں جو خیر امت ہونے کی وجہ سے ان پرعائد ہوتا ہے تو اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے گا۔ حضور اکرم رات کے باقی رہتے ہوئے ہجرت کے ارادہ سے گھر سے نکلے۔ جن کے دلوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے اللہ نے ان کی آنکھوں پر بھی پردے ڈال دیے، کوئی کافر آپ کا سایہ بھی نہیں دیکھ سکا، آپ اپنے گھر سے نکل کر حضرت ابوبکر کے گھر پہنچے ہجرت کا ارادہ ظاہر کیا اور ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ حضرت ابو بکر فورا گھر بار وطن چھوڑنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ کیسے تیار نہیں ہوتے آپ وفادار جو تھے، اب یار غار بھی ہوگئے۔ دونوں نے غار ثور میں پناہ لی ۔اب مکہ چھوٹ گیا، آپ نے مکہ کے درو دیوار پر حسرت کی نظر ڈالی اور کہا خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں۔ مکہ کے دربو دیوار گھر اور بازار اور راستے اور درخت بھی غم واندوہ کے عالم میں آپ سے لپٹ کر پوچھتے تھے ۔
اے تماشہ گاہ عالم روئے تو
تو کہاں بہر تماشہ می روی
 راستہ دشوار اور سنگلاخ تھا، رات کی تاریکی ہر سو چھائی ہوئی تھی، اس میں کم وبیش پانچ میل کا سفر غار ثور تک۔ رات کے وقت چوٹ کھاتے ،پیروں کو زخمی کرتے آبلہ پائی کے مرحلوں سے گزر کر مدینہ کے مسافر غار ثور تک پہنچے تاکہ یہاں سے مدینہ کا سفر شروع کیا جائے۔ آفتاب نبوت مکہ میں طلوع ہوا تھا اب اس کی کرنیں مدینہ کے در و بام پر پڑنے والی تھیں۔ اب مدینہ کو یہ سعادت ملنے والی تھی کہ یہاں سے ہدایت کی روشنی ساری دنیا میں پہنچے ۔ملک فتح ہوں، ابلیس کے لشکروں کی شکست ہو ، اللہ کی ہدایت ایک خالق کی عبادت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جائے لیکن مدینہ کے سفرکی پہلی منزل غار ثور تھی۔ حضرت ابوبکر نے اس غار کے تمام سوراخوں کو اپنے کپڑے پھاڑ کر بند کیا تاکہ کیڑے مکوڑے سانپ بچھو کا خطرہ نہ رہے، لیکن مکہ کے انسان نما سانپ بچھو تعاقب کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے لیکن اندر داخل نہیں ہوسکے۔ اللہ کی طرف سے حفاظت کا انتظام تھا۔ مکہ والوں نے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا ۔سراقہ بن جعشم نے انعام کی لالچ میں تعاقب کیا لیکن دوبار گھوڑے کے دو پیر زمین میں دھنس گئے سراقہ نے فال دیکھا تو نفی میں نکلا۔ سراقہ کو نبوت کا یقین ہوگیا ۔حضور اکرم نے کہا سراقہ میں تمہارے ہاتھ میں شاہ ایران کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔ یہ پیغمبر کی معجزانہ پیشین گوئی تھی جو حضرت عمر کے زمانہ میں پوری ہوئی۔ پیغمبر کے لیے ارض وسما کی قبر میں مستقبل کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ سراقہ نے حضور اکرم سے امان نامہ لکھوایا اور پھر وہ مکہ واپس ہوا۔ وہ خاسر و ناکام واپس نہیں ہوا اسے ایمان کی دولت مل گئی تھی، سو اونٹوں سے زیادہ بڑی دولت ۔اب ہجرت کرنے والوں کا قافلہ مدینہ پہنچ گیا ۔
 مدینہ سے پہلے قبا ایک مقام ہے، مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے قبا میں مسجد کی تعمیر فرمائی۔ حضرت علی بھی قبا پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے مکہ سے مدینہ کا فاصلہ پیدل چل کر طے کیا تھا۔مسجد کی تعمیر علامت ہے مقصد حیات کی اور وہ ہے خدا کی عبادت۔ مسجد کی تعمیر علامت ہے مقصد نبوت کی ۔اللہ کی عبادت کا پیغام دنیا میں پھیلانا اور بتوں اور جھوٹے خداوں کی پوجا نہ کرنا اور ان کی عبادت سے دنیا والوں کو روکنا ۔مسجد اس مقصد زندگی کی علامت ہے ۔ زبان نبوت نے علمائے امت کو انبیاء کا وارث قرار دیا ہے لیکن ان وارثین انبیاء نے سب کام کیے صرف یہی ایک کام نہیں کیا۔ علماء ہزاروں کی تعداد میں رہے، انہوں نے مسجد اور مدرسے تو بنوائے لیکن اللہ کے بندوں کو اللہ کے سامنے سر جھکانے کے لیے نہیں بلایا۔ ہزاروں مورتیوں کی پوجا ہوتی رہی مسلمان پوجا کا تماشا دیکھتے تھے انہیں اس منصب ہدایت کا خیال بھی نہیں آیا۔ وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ اس کام کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پیغمبر کے لیے حالات بالکل سازگار تھے اسی لیے انہوں نے دعوت کا کام نجام دیا؟ انبیائی کام مسلمانوں کی زندگی سے نکل گیا ۔مسلمان اپنے نام تو انبیاء اور صحابہ کے نام پر رکھتے ہیں لیکن انبیاء اور صحابہ کے مشن کا ان کو خیال تک نہیں آتا۔ ان مدرسوں میں جو بچے پڑھ لکھ کر عالم بن جاتے ہیں وہ دین کی خدمت کا حوصلہ اگر رکھتے ہیں تو کسی مدرسہ میں استاد بن جاتے ہیں۔ شیخ الحدیث بن جاتے ہیں مفتی بن جاتے ہیں لیکن انہیں خیال نہیں آتا کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد ان کاموں سے پورا نہیں ہو رہا ہے ۔
مدینہ والوں کو بیتابی سے حضور اکرم کی آمد کا انتظار تھا۔ انہوں نے دیدہ ودل فرش راہ کر دیے تھے۔ بچیاں انتظار کی راہوں میں’’طلع البدر علینا‘‘ کا ترانہ گارہی تھیں۔ ان کی پرشوق نگاہوں میں دل کا اضطراب جھلک رہا تھا۔ مدینہ کے کچھ لوگوں نے مکہ آ کر دیدار کا شرف حاصل کرلیا تھا لیکن بڑی اکثریت شربت دیدار سے محروم تھی۔ انتظار کی ساعت اب ختم ہونے کو آئی، آپ کی سواری باد بہاری دور سے نظر آئی ،کوکبہ نبوی کا جلوہ دکھائی دینے لگا۔ مدینہ کے لوگ سر اٹھا اٹھا کر ایک نگاہ شوق ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آج مدینہ کے عوام و خواص کی عزت افزائی کا دن تھا، کلاہ گوشہ دہقان بآفتاب رسید ۔
حضور اکرم (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو پہلا کام یہ کیا کہ مسجد تعمیر کی ۔مدینہ سے پہلے قبا میں پڑاو ڈالا تو وہاں بھی سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کا کام کیا ۔در اصل یہ پوری کائنات کی تخلیق خدا کی عبادت کے لیے ہوئی ہے اور خود انسان کے وجود کا مقصد یہی ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون جب انسان کے وجود کا مقصد عبادت ہے تب پیغمبر کسی جگہ نزول اجلال کرے گا تو وہ اپنے گھر سے پہلے مسجد تعمیر کرے گا۔ یہی وہ مقصد زندگی ہے جس کی طرف دعوت دینے کو مسلمانوں نے فراموش کردیا ہے۔ مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں وہاں یہ کام نہیں کرتے جہاں وہ اکثریت میں ہیں وہاں بھی وہ یہ کام نہیں کرتے۔ جہاں ان کی حکومتیں ہیں وہاں بھی وہ یہ کام نہیں کرتے۔ کہیں پر بھی وہ اس فریضہ کو ادا نہیں کرتے جس کے لیے انہیں خیر امت کا خطاب دیا گیا تھا۔ مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام کے ساتھ حضور اکرم (ﷺ) نے حصہ لیا صحابہ آپ کو روکتے تھے لیکن آپ سب کے ساتھ مزدوروں کی طرح کام کرتے تھے۔ عزت اور بزرگی کا سب سے قیمتی تاج اللہ تعالی نے جس کے سر پر رکھا تھا وہ اپنے سر پر پتھر ڈھو رہا تھا۔
(جاری)
***

 

***

 حضور اکرم (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو پہلا کام یہ کیا کہ مسجد تعمیر کی ۔مدینہ سے پہلے قبا میں پڑاو ڈالا تو وہاں بھی سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کا کام کیا ۔در اصل یہ پوری کائنات کی تخلیق خدا کی عبادت کے لیے ہوئی ہے اور خود انسان کے وجود کا مقصد یہی ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون جب انسان کے وجود کا مقصد عبادت ہے تب پیغمبر کسی جگہ نزول اجلال کرے گا تو وہ اپنے گھر سے پہلے مسجد تعمیر کرے گا۔ یہی وہ مقصد زندگی ہے جس کی طرف دعوت دینے کو مسلمانوں نے فراموش کردیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023