مطالعہ سیرت (سیریز۔4)
مہاجر و انصار ایک دوسرےکےبھائی بن گئے، مواخات ، تاریخ عالم کا بے نظیر واقعہ
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
محبت ، امدادباہمی ، دین کی دعوت واقامت کے لیے اجتماعی جدوجہد اور جانثاری کے اسباق
کثرت تعداد یا قلّت تعداد مسلم امّت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایمان و جذبہ شہادت مسلمانوں کی اصل طاقت
مکہ میں اسلام مظلوم اور ستم رسیدہ تھا لیکن مدینہ میں اوس وخزرج نے آگے بڑھکر اسلام کی ہمنوائی کی ،دعوت حق کی پذیرائی کی اوروہ انصار کہلائے، اورجومکہ سے وطن چھوڑ کر آئے تھے مہاجرین کہلائے۔ مکہ میں مہاجرین اور انصارکے علاوہ یہودی بھی رہتے تھے اور انہیں دین اسلام سے عداوت تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ پیغمبر مکہ کی زمین سے نہیں اٹھے گا ، وہ اسلام قبول نہیں کرسکے بلکہ انہیں اسلام سے عداوت تھی ۔ مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہوگئے دونوں کے درمیان مواخات کا رشتہ بھی قائم ہوگیا تھا۔مواخات حضور اکرمؐ نے مہاجرین اور انصارکے درمیان کرائی تھی انصار دل وجان سے مہاجرین کی مدد کے لیے تیار ہو گئے ۔ اگر ہندوستان یا کسی بھی ملک میں لوگ اسلام قبول کریں گے تو وہاں بھی پہلے سے موجود مسلم آبادی کو نومسلموں کی ایسی ہی مدد کرنی پڑے گی جیسے مدینہ میں انصار نے مہاجرین کی کی تھی ۔مسلمانوں کو ہر ملک میں ایسی ہی اجتماعیت قائم کرنی ہوگی جیسی حضور اکرم نے مدینہ میں قائم کی تھی مسلمانوں کو خود کو دعوتی کام سے اسی طرح وابستہ ہونا ہوگا جس طرح مکہ اورمدینہ کے مسلمان دعوت کے کام سے وابستہ تھے ۔یہ بڑ ے افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں میں دعوتی شعور ختم ہوگیا ہے اور وہ اس کام کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے ہیں ۔
مکہ میں اعیان قریش جو ظلم وستم پرتلے بیٹھے تھے انہوں نے مسلمانوں کومدینہ آنے کے بعد بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا ۔انہوں نے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا ،انہیں محسوس ہوا کہ اگر مسلمانوں کا زورتوڑا نہیں گیا تو اسلام کا پرچم پورے عرب میں لہرانے لگے گا ۔مدینہ کے مسلمانوں نے مکہ والوں کی ذہنیت کو بھانپ لیا ۔کوئی بھی نوزائیدہ مسلم مملکت اپنے پڑوسی ملک کے ارادوں کوسمجھ سکتی ہے اور اسے اس کی تیاری کرنی چاہیے۔اللہ کا دین اس دنیامیں غالب ہونے کے لیے آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں اور ہر مسلمان اس دین کا داعی بھی ہے اور سپاہی بھی ہے اور اسے ان دونوں تقاضوں کو اداکرناہے ۔مشرکین مکہ نے اپنے بتوں کی خدائی بچانے کے لیے اور توحیدکی دعوت کومٹانے کے لیے مدینہ پرحملہ آور ہونے کا پروگرا م بنایا۔مکہ والوں کوڈرتھا کہ اسلام کی طاقت کو اگر روکا نہیں گیا تو پورے عرب میں پھیل جائیگا اس لیے اس کی بیخ کنی ضروری ہے ۔انہوں نے مدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابی کے پاس سفارت بھیجی کہ یاتو تم محمد کو قتل کردو یاہم مدینہ پر چڑھائی کریں گے۔ مکہ والوں نے جنگی تیار ی بھی شروع کردی وہ اوباش نوجوانوں کی ٹولیاں بھیجتے جومدینہ کی چراہ گاہوں سے بکریاں اٹھا لے جاتے اور نخلستانوں کوکاٹ دیتے تاکہ مسلمان اس چھیڑ چھاڑ کا جواب دیں اورپھر جنگ شروع ہو جائے۔
قریش نے حملہ کا منصوبہ بنایا لیکن جنگ کے لیے ساز وسامان کی ضرورت ہوتی ہے، جنگ عہدحاضرکی ہو یا قدیم زمانہ کی اس کے لیے ہمیشہ سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے،پہلے تیغ وتفنگ سے کام چل جاتا تھا اب جوہری ہتھیار ٹینک اور راکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے ،جنگ کے مصارف کے لیے انہوں نے یہ تدبیر سوچی کہ اس بار مکہ والوں کا تجارتی قافلہ جو سامان تجارت لے کرجائے اور اس سے جو منفعت حاصل ہو وہ جنگ پر خرچ کی جائے اس طرح جنگ کے اخراجات مکہ کی آبادی پر تقسیم ہوجائیں گے۔چنانچہ صنادید قریش نے پرجوش تقریریں کیں لات وہبل کی عزت کا حوالہ دیا اور تجارتی قافلہ کے لیے تمام ساز وسامان اوراسباب مہیا کیے گئے اور قافلہ تجارتی سامان سے لیس ہوکرشام کے لیے روانہ ہوا تاکہ زبردست تجارتی منفعت کے ساتھ یہ قافلہ واپس ہو اور پھر مدینہ پر زور دار حملہ کیا جائے اور دعوت توحید کا خاتمہ کردیا جائے۔ اس نئے رسول اور ان کے صحابہ کا نام ونشان مٹادیاجائے ۔ابھی یہ قافلہ مکہ سے روانہ ہوا تھا کہ یہ افواہ اڑی کہ مدینہ کے مسلمان تجارتی قافہ کو لوٹنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل چکے ہیں۔ پھر کیا تھا مکہ والوں کے دلوں میں آگ لگ گئی وہ جوش جنوں میں یہ طے کربیٹھے کہ ہم مدینہ والوں پر پہلے حملہ کریں گے دوسری طرف مدینہ میں ہلچل تھی اورشور تھا کہ مکہ والے مدینہ پرحملہ کرنے کی تیاری کرر ہے ہیں، چنانچہ آپؐ نے سب کو مشورہ کے لیے جمع کیا مہاجریں نے زور دارتقریریں کیں بعد میں انصار بھی آگے آئے اور انہوں نے اپنی حمایت کایقین دلایا اورکہا کہ ہم موسیؑ کی قوم نہیں ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ اے موسی تم اور تمہارا خدا دونوں جاکر لڑو ہم نہیں لڑیں گے ۔مدینہ سے مسلمانوں کی مختصر فوج شہادت کے جذبہ کو دل میں چھپائے رمضان کی بارہ تاریخ کو روانہ ہوئی۔ راستہ میں جوبہت کمسن تھے
ان کو آپ نے واپس کردیا۔ عمیربن ابی وقاص کمسن تھے لیکن پنجوں کے بل چل رہے تھے تاکہ بلند قامت نظر آئیں اور ان کو واپس نہ کیا جائے ۔آخرت کاعقیدہ اتنا پختہ ہوگیا تھا کہ بچے بھی جنت کے شوق سے سرشارتھے ہر کوئی جان دینے کو اپنی کامیابی سمجھتاتھا ۔اگر یہ شوق شہادت آج پیدا ہوجائے توکافروں کا ٹڈی دل لشکرآج بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اور فسادات کا سلسلہ رک سکتا ہے۔جذبہ جہاد وشہادت دلوں میں پید کرنے کی ضرورت ہے۔
مدینہ سے شام کے راستہ پر یہ اسلامی فوج روانہ ہوئی جس کے پاس سامان جنگ مختصر تھا ٹوٹی ہوئی تلواریں تھیں دوسرے اسلحے بھی کم تھے ،سواریاں بھی کم تھیں تعداد بھی بس تین سو تک تھی جن میں ساٹھ مہاجرین تھے اور باقی انصار تھے یہ مختصر فوج تھی جو اپنے سے بہت زیادہ تعداد سے ٹکرانے چلی تھی ،مشرکین کو اپنی تعداداور سطوت شمشیرپر بھروسہ تھا لیکن ان مجاہدین کو اللہ کی ذات پر اور اس کی مدد بھروسہ تھا ،محمد رسول اللہ ان کے امام اور پیشوا اور امیر لشکر تھے۔منظر یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں جہاد ہے اور فوج کی کمان سید الانبیاء کے ہاتھ میں ہے ۔جارحیت مسلمانوں کی طرف سے نہیں تھی مسلمان تو جارحیت کا مقابلہ کررہے تھے کفار مکہ پوری تیاری کے ساتھ اور بڑے ساز وسامان کے ساتھ مدینہ پرحملہ آور ہوئے تھے مکہ کے لوگ حملہ کرنے آئے تھے مدینہ کے لوگ اپنا دفاع کر رہے تھے۔مدینہ سے تقریبا اسی میل کے فاصلہ پر بدر کے مقام پر دونوں طرف کی فوجوں نے پڑاو ڈالا۔ مکہ کی فوج کو معلوم ہوا کہ تجارتی قافلہ خیر وخوبی کے ساتھ شام جا چکا ہے اور اس کے لیے اب کوئی خطرہ باقی نہیں ہے بہت سے لوگوں کی رائے ہوئی کہ فوج کو مکہ واپس جانا چاہیے کیونکہ جس تجارتی قافلہ کی حفاظت کے یہ فوجی کارروائی کی گئی ہے وہ قافلہ بخیروخوبی شام جا چکاہے مگر ابوجہل نہیں مانا وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے پر اصرار کرتا رہا۔ آخر مسلمانوں سے جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ کا نام جنگ بدر ہے۔صحابہ بھی اس جنگ کے مقام پر پہنچے، تھکے ماندے تھے رات کو سب نے آرام کیا‘ ایک حضور اکرمؐ کی ذات تھی جس کی پیشانی سجدے میں پڑی ہوئی تھی اور یہ بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں گڑگڑا کرکہہ رہا تھا یہ چھوٹی سی مسلمانوں کی جماعت اگرآج شکست کھا گئی تو پھر قیامت تک تیری عبادت نہیں ہو گی اور پتھروں ہی کی پوجا ہوتی رہےگی ۔ یہ دعا بتارہی ہے کہ جنگ کس لیے تھی اور اس کے مقاصد کیا تھے اور مشرکین کیوں حملہ آور ہوئے تھے ۔
جنگ کا آغاز ہوا مہاجرین میں سے چندبہادر میدان کار زارمیں آئے ۔ حضورؐاللہ کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاکر دعامانگ رہے تھے ’’ بار الہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیاہے اسے آج پورا کر، خدایا یہ چند نفوس اگرآج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیری پرستش نہ ہوگی ‘‘ کفر واسلام کا آج یہ پہلا معرکہ تھا مسلمانوں کے پاس سپاہی کم ہیں ،اسلحہ بھی کم ، لیکن اس کے باوجود کافروں کو شکست ہوئی۔ جان باز صحابہ نے باطل کی فوج کو الٹ دیاانہوں نے ثابت کردیاکہ محمدکے غلام تعداد کی کثرت سے نہیں ڈرتے ہیں اورموت کوکھیل سمجھتے ہیں اوردلوں میں شہادت کی تمنا رکھتے ہیں۔ اب ہمیشہ کے لیے جنگ بدر کا یہی پیغام ہے کہ تعداد کی کثرت سے ڈرنے کی بالکل ضرورت نہیں،ٹڈی لشکر سے مرعوب ہونے کی قطعی ضرورت نہیں، دل میں شہادت کا جذبہ البتہ ضروری ہے۔ اس جنگ میں ابو جہل ذلت کے ساتھ مارا گیا۔ وہ وہی تھا جس نے جنگ کی آگ بھڑکائی تھی۔کسی ملک میں دھرم سنسد کے ذریعہ جو لوگ جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں انہیں بھی شکست ہوگی اگر ان کے سامنے ایسے اہل ایمان ہوں جو موت کو گلے لگا نے کے لیے تیارہوں اور دشمنوں کی عددی قوت سے نہیں ڈرتے ہوں۔اور ان کے دلوں میں شہادت کا شوق ہو اور انہوں نے بھی خدائے واحد کی پرستش کی دعوت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہو۔ افسوس ہے کہ خدائے واحد کی پرستش کی دعوت کاکام بیس کروڑ انسانوں میں شاید گنے چنے لوگ ہی انجام دے رہے ہیں۔ جب کہ تمام انبیاکرام اسی عظیم مقصد کے لیے بھیجے گئے تھے ۔جنگ ختم ہوگئی لات وہبل کی پرستش کرنے والے خدائے واحد کے پرستاروں کے سامنے ٹک نہ سکے ۔ابوجہل عتبہ اور شیبہ اورکئی سردار مارے گئے کافروں کی ہمتیں پست ہو گئیں اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمان ثبات وعزم کاکوہ گراں بن کر نکلے اورجنگ میں سرخرو ہوئے ،پیغمبر کی والہانہ اور بیتابانہ دعا اللہ نے قبول فرمائی ۔اعیان قریش کادھرم سنسد دارالندوہ میں منعقد ہو تھا ان میں 14 اعیان قریش نے حضور اکرم (ﷺ)کے قتل کا فیصلہ کیاتھا ان میں سے گیارہ بدر کے میدان میں مارے گئے ۔ستر قیدی بنے جنہیں مسجدنبوی کے ستون سے باندھاگیاتھا۔ دھرم سنسد کے فیصلے کو اللہ تعالی بدل بھی سکتاہے۔ شرط یہ ہے کہ مسلمان امت ہدایت بن جائیں اور خیر امت کے منصب پر کھڑے ہوں۔ ساری مصیبت تو اسی لیے آئی ہے کہ مسلمانوں نے صدیوں سے اپنافرض منصبی اداکرنا چھوڑ دیاہے ۔ایک عالم دین جب مدرسہ سے نکلتا ہے تو ایک اور مدرسہ قائم کرلیتا ہے اور قائم کرنے والوں
میں ایک شیخ التفسیر بن جاتاہے دوسراشیخ الحدیث اور تیسرا مفتی اعظم اور سب مل کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ دین کی عظیم خدمت انجام دے رے ہیں ۔علماء میں پیغمبرانہ دعوت کے لیے کوئی نہیں اٹھتا ہے ۔پیغمبرانہ دعوت کو چھوڑے ہوئے اتنی صدیاں گزر گئی ہیں کہ اب مسلمانوں کو اپنی کسی کوتاہی کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔علماء کی تعداد سیکڑوں سے کم نہیں اور ان میں شاید ہی کوئی ہوگا جوکفر وشرک کے ماحو ل میں دین توحیدکی صدا بلند کرے اور لسان قوم میں قوم کو اسلام کی دعوت دے۔مسلمانوں کاذہن مزاج سوچنے کا اندازسب بدل گیاہے ،اب ان کواپنی غلطی بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔مدارس کایہ پورا نظام بھی خدمت دین کے زمرہ میں آتاہے لیکن بس یہ خدمت دین ہے ، وہ دعوت دین کا کام نہیں ہے جس کا پرچم لے کر انبیاء کرام اٹھے تھے۔ مجددالف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی سے لے کر ما بعدکی صدیوں تک جتنے مصلحین گزرے ہیں ان سب نے حفاظت دین کا فریضہ انجام دیا ہے۔ان کا کام لائق شکر ہے لیکن انہوں نے دعوت دین کاوہ فریضہ انجام نہیں دیا ہے جو انبیاء کرام انجام دیتے تھے ۔اس لیے اللہ کی وہ مدد بھی نازل نہیں ہو سکتی ہے جو غزوہ بدر میں نازل ہوئی تھی ۔ وہ مدد بھی نہیں نازل ہوسکتی ہے جومکہ کے مسلمانوں کو مدینہ کے اقتدارکی شکل میں ملی تھی ۔انبیاء جو بات کہتے تھے اور آخری رسول جو بات کہتے تھے دنیاوالوں کو وہ بات بتانا ضروری ہے اوروہ بات یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور موجودہ دنیا قیامت تک کی زندگی کا ایک امتحانی وقفہ ہے اس دنیامیں اپنی عمرپوری کرنے کے بعد انسان اس ابدی زندگی میں داخل ہوجاتاہے جہاں اس کے لیے یاتو جنت ہے یا جہنم ہے جس نے ایک اللہ کی اطاعت کی ہوگی اس کے لیے جنت ہے اور جس نے غیر الہ کی عبادت اور اطاعت کی ہوگی اس کے لیے جہنم ہے۔
ہندوستان میں مسلمان عزت وشوکت چاہتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں تو ان کو ہندوستان میں وہ کام کرنا پڑے گا جومکہ کی زندگی میں کیاگیا۔یعنی دعوت کا کاکام، اور اگر یہ کام نہیں کیاگیا توانہیں نہ دارالعلوم دیوبند بچاسکے گا نہ تبلیغی جماعت نہ کوئی اورمدرسہ اورنہ کوئی اور جماعت اور تنظیم۔ مسلمان پانچ مرتبہ مسجدوں سے اذانیں سنتے ہیں اذان کے کلمات سے ان کا دعوتی ذہن نہیں بنتاہے انہوں نے سمجھا کہ یہ صرف مسجد میں نماز کا اعلان ہے ۔حالانکہ اگر یہ صرف نماز کا اعلان ہوتا تو ’’حی علی الصلاۃ ‘‘کہنا کافی تھا اشہد ان لا الہ الا اللہ اور اشہد ان محمدرسول اللہ کے تکرارکی ضرورت نہ تھی ۔حکم ہے جب اذان ہو تو خاموش ہوجاو اور اذان کے الفاظ کو دہراو ، کسی نے اس حکم کی مصلحت پر غور نہیں کیا۔ (جاری)
***
پیغمبرانہ دعوت کو چھوڑے ہوئے اتنی صدیاں گزر گئی ہیں کہ اب مسلمانوں کو اپنی کسی کوتاہی کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔علماء کی تعداد سیکڑوں سے کم نہیں اور ان میں شاید ہی کوئی ہوگا جوکفر وشرک کے ماحو ل میں دین توحیدکی صدا بلند کرے اور لسان قوم میں قوم کو اسلام کی دعوت دے۔مسلمانوں کاذہن مزاج سوچنے کا اندازسب بدل گیاہے ،اب ان کواپنی غلطی بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔مدارس کایہ پورا نظام بھی خدمت دین کے زمرہ میں آتاہے لیکن بس یہ خدمت دین ہے ، وہ دعوت دین کا کام نہیں ہے جس کا پرچم لے کر انبیاء کرام اٹھے تھے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023