مطالعہ سیرت (سیریز۔ 2)

انقلاب بذریعہ دعوت

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

اورمدینہ کی زمین اسلام کے لیے ہموار ہوتی چلی گئی۔۔
مکہ کے لوگ جب انکار کی ضد پر قائم رہے اور رسول اللہ پر ایمان نہیں لائے اور مسلسل جھٹلاتے رہے تو آپؐ نے پھر طائف جانے کے بارے میں سوچا کہ شاید وہاں سعید روحیں  ہوں جو ایمان لے آئیں اور مکہ کے لوگوں کے انکار کی کوئی تلافی ہوجائے۔ یہ سوچ کر آپ نے پھر طائف کا قصد کرلیا، طائف کی بستی مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر تھی۔ آپ پیدل چل کر طائف پہنچے اور وہاں کے سب سے بڑے رئیس عبد یالیل پر اسلام پیش کیا، توحید کی دعوت دی بت پرستی سے منع کیا یعنی وہ کام کیا جو آپ کی امت اس زمانہ میں کہیں بھی انجام نہیں دیتی ہے اور مشرکین کے درمیان رہ کر مشرکین کو توحید کی دعوت نہیں دیتی ہے اور اس دعوت کا خیال تک اسے نہیں آتا ہے۔ انتہائی شیرین لہجہ میں آپ نے دعوت دی برائیوں سے باز رہنے کی تاکید کی مگر طائف کے لوگ مکہ والوں سے کم حق ناشناس نہ تھے۔ انہوں نے اپنے غلاموں کو اکسایا جنہوں نے آپ پر پتھر پھینکے یہاں تک کہ آپ کو لہولہان کردیا، زخم اتنے تھے کہ آپ کئی بار گر پڑے، پاوں لہو لہان ہوگئے۔ اس طرح سے دین کی دعوت تو ہمارے ملک میں کسی نے نہیں دی۔ ہمارے ملک میں سیرت پر کتابیں لکھی گئیں لیکن سیرت پر عمل کرنے والے علماء پیدا نہیں ہوئے ۔حضرت محمد (ﷺ) طائف سے واپس ہوئے۔ پاوں زخموں سے چور تھے گرد وغبار نے زخموں کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ بنا دیا تھا۔ آپ زخموں سے چور مکہ پہنچے۔ مکہ والے بہت خوش تھے کہ محمد کے ساتھ طائف والوں نے یہ سلوک کیا ۔
  ان تمام مخالفتوں اور عداوتوں کے باوجود اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد روز افزوں تھی، جو لوگ اسلام قبول کرتے دین پر سختی کے ساتھ قائم رہتے وہ ہر طرح کی ایذا رسانی سہتے لیکن دین سے پلٹتے نہیں تھے۔ اپنے دین پر قائم رہتے تھے۔ مکہ والے تعجب کرتے تھے نہ جانے اس دین میں کیا خاص بات ہے جو ایک بار قبول کرلیتا ہے وہ پھر اسے کسی حال میں نہیں چھوڑتا ہے۔
  اعیان قریش نے حضرت محمد (ﷺ) اور آپ کے ہاتھ پر ایمان لانے والوں کے مقاطعہ کا فیصلہ کیا اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو شعب بن ابی طالب میں محصور کر دیا۔ آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا سوشل بائیکاٹ کردیا گیا، یہ طے کر دیا گیا کہ بنو ہاشم سے کوئی شادی بیاہ نہیں کرے گا نہ ان کے ساتھ خرید وفروخت ہوگی اور نہ اس خاندان والوں کے ساتھ لین دین ہوگی، مقاطعہ ہوگا۔ چنانچہ بنو ہاشم دانے دانے کے محتاج ہوگئے ،درخت کے پتے چبانے پرمجبور ہوگئے۔ کوئی چمڑا مل گیا تو اسے پانی میں ابال کر اور نرم کرکے کھالیا۔ اہل مکہ کی سخت نگرانی تھی کہ کوئی کھانے پینے کی چیز نہ پہنچائے ۔صحابہ کرام پر کئی کئی وقت کے فاقے ہوتے تھے۔ پھول جیسے بچے  بھوک کی تاب نہ لاکر روتے لیکن کھانے کا ایک دانہ نصیب نہیں ہوتا ۔ قریش خوش ہوتے کہ محمد اور ان کے ساتھی اس سزا کی تاب نہ لا سکیں گے اور توحید کی دعوت سے روگرداں ہو جائیں گے، آخر کب تک ان سختیوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ دو چار دن نہیں پورے تین سال اس عالم میں گزر گئے۔ بے کسی اور کسمپرسی کی زندگی۔ زندگی جیل خانہ سے بد تر۔ جیل میں تو کھانے پینے کو مل جاتا ہے، یہاں فقر وفاقہ۔ ایمان کی سخت آزمائش ۔ابو طالب کا بڑھاپا تھا۔ غموں نے ان کو نڈھال کردیا تھا،ابو طالب بیمار پڑے اور پھر گزرگئے۔ دنیا میں حضرت محمد (ﷺ) کا جو ایک ظاہری سہارا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ قریش کے اعیان اور بھی خوش ہوئے اور کہا ابو طالب کا ہم لوگ کچھ خیال کرتے تھے، اب یہ سہارا بھی ختم ہوا اب جتنا چاہئیں گے ہم ستم کریں گے اب کسی رو رعایت کی ضرورت نہیں۔اب ظلم وستم کھل کر ہوگا اور بے محابا ہوگا بے روک ٹوک ہوگا۔صحابہ کرام اور ان کے بچے بھوک سے پریشان تھے، دین اسلام  کے لیے قربانی سخت تھی اور صحابہ کرام یہ قربانی دے رہے تھے ۔ابو طالب کا غم ابھی تازہ تھا کہ حضرت خدیجہ چند دن بیمار رہ کر داغ فراق دے گئیں۔ غموں کے دو پہاڑ یکے بعد دیگرے آپ پر گر پڑے آپ غم سے نڈھال تھے ایک طرف نبوت کا بارگراں دوسری طرف غموں کا سیل رواں، تیسری طرف مخالفت کا طوفاں۔آپ کی زندگی میں یہ زمانہ شدید الم وحزن کا زمانہ تھا، کہیں سے خوشی اور شادمانی کا سامان نہیں، دشمنوں کی جانب سے رنجش اورپھر حالات کا رنج وغم ۔ سکون و آرام سے کوسوں دوری ۔سرپرست کا انتقال صرف دکھ اور رنج۔
مکہ میں زندگی گزارنا اب مشکل ہو گیا تھا صبح وشام مسلمان تعذیب کا نشانہ بن  رہے تھے راستہ چلتے ان کو زدو کوب کیا جاتا انہیں ذلیل کیا جاتا۔ اس کا تھوڑا بہت اندازہ ہندستان کے کمزور بے دست وپا مسلمانوں نے  2022 میں کیا جن سے پرسنل لا چھین لیا گیا جن سے مسجدیں چھین لی گئیں جن کی اذانوں پر بابندی لگادی گئی۔لیکن مکہ میں تعذیب اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اللہ کے حکم سے حضرت محمدؐ نے اپنے صحابہ سے کہا تم میں سے جس سے ہوسکے وہ حبش چلا جائے  اس ہجرت سے وہاں اسے آرام ملے گا۔حبش کا بادشاہ نجاشی بہت شریف انسان ہے تم لوگوں کووہاں راحت ملے گی ۔آپ کا اشارہ پا کر صحابہ کرام کی ایک تعداد آمادہ ہجرت ہوگئی اور کچھ مسلمان حبشہ پہنچ گئے ۔انہوں نے دین کی خاطر اپنے گھربار کو اپنے وطن کو چھوڑ دیا لیکن مکہ کے کافر اور دشمنان دین  نے وہاں بھی ان مہاجروں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا وہ وہاں بھی پہنچ گئے اور ہجرت کرنے والوں کو ان کے حوالہ کرنے کی بادشاہ سے سفارش کی ۔بادشاہ  نجاشی نے دربار لگوایا اور دیار عرب سے آنے والے قریشیون کا بیان سنا جنہوں نے الزام لگایا کہ یہ دین محمدی کے ماننے والے حضرت عیسی کو برا بھلا کہتے ہیں۔شاہ حبش نجاشی عیسائی تھا اس نے مسلمانوں کے وفد سے دریافت کیا  اور حقیقت جاننے کی کوشش کی ،صحابہ کرام کی طرف سے حضرت جعفر طیار ترجمانی کے لیے تیار ہوئے اور انہوں نے ایک دل پذیر تقریر کی اور قرآن کی ان آیات کی تلاوت کی جن میں حضرت عیسیؑ کا ذکر تھا۔ حبش کے بادشاہ  کے دل میں قرآن کی آیتیں اتر گئیں ۔مدد کے جب آسمانی فیصلے ہوتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔انہونی باتیں وقوع پذیر ہوتی ہیں ہندوستان میں ابھی آسمانی مدد نہیں اتر رہی ہے مکہ میں دعوت کا حق ادا کردیا گیا تھا۔ ہندوستان میں دعوت کے کام کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ یہاں مسلمان صرف حقوق کی لڑائی لڑتے رہے ہیں۔ انبیائی دعوت یہاں کھڑی نہیں ہوئی  یہاں کے علما صرف مسلمانوں کو خطاب کرتے رہے ہیں ۔ الغرض حبش کے بادشاہ نجاشی کا دل قرآن کی آیتوں سے متاثر ہوگیا اور اس نے کہا  یہ کلام اور انجیل ایک ہی چراغ کا پرتو ہیں ۔
  مکہ والوں کی حبشہ کی مہم ناکام ہوگئی، یہ کوشش کہ ہجرت کرنے والوں کو لوٹادیا جائے نجاشی کے انکار سے نا مراد ہوگئی، لیکن مکہ میں ظلم کی چکی چلتی رہی ، اسلام قبول کرنے والوں کو ستایا جاتا رہا ،اب اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے ہجرت کا دوسرا انتظام کیا۔ جب مکہ والوں نے دعوت کو ٹھکرایا تو مدینہ اس دعوت کو آغوش قبولیت میں لینے کے لیے تیار ہوگیا ۔ابتدا اس طرح ہوئی کہ طفیل دوسی مکہ آئے ان کو مکہ والوں نے ڈرایا اور کہاکہ مکہ میں طواف کرنا لیکن محمد کی بات نہ سننا کیونکہ وہ  ایک جاددگرہے جو اس کی باتیں سن لیتاہے اس کی باتوں سے متاثر ہوجاتا ہے۔
طفیل دوسی نے احتیاط بہت کی لیکن ایک بار انہوں نے قرآن سن ہی لیا۔ حضرت محمد (ﷺ) خانہ کعبہ میں تلاو ت فرمارہے تھے۔ طفیل دوسی آپ کے ساتھ ان کے گھرتک آئے اور اطمنان سے اللہ کا کلام سنا، اس کے گرویدہ ہوگئے اور مسلمان ہو گئے اور اس گرویدگی کے عالم میں مدینہ واپس ہوئے اس طرح اسلام کی دعوت خدائی انتظام کے تحت پہلے مرحلہ میں مدینہ تک پہنچ گئی۔ہم نے کبھی سوچا قرآن جب دلوں پر اتنا اثر انداز ہوتا ہے تو ہم قرآن کیوں نہیں پڑھتے اس کا ترجمہ کیوں نہیں پڑھتے۔ اللہ رے قرآن سے دوری کتاب الہی سے مہجوری۔
اب بعثت نبوی کا گیارہواں سال تھا۔ حج کی چہل پہل کا زمانہ تھا مکہ میں آنے  والوں کی قطار تھی کفار مکہ کی رکاوٹوں کے باوجود آپ مکہ آنے والوں میں دین حق کی دعوت میں منہمک تھے۔ مکہ آنے والوں سے ملاقاتیں کرنا اور دین توحید کا پیغام پہنچانا یہ آپ کی دن رات کی مشغولیت تھی لوگ آپ کے منور چہرہ سے اور خدا کا کلا م سن کر متاثر  ہوتے اس طرح اس دین کا پیغام پھیل رہا تھا اور لوگوں میں اسلام کی اشاعت ہو رہی تھی۔ مدینہ کا نام یثرب تھا وہاں کے لوگ بھی بت پرستی میں مبتلا تھے۔ آپؐ بت پرستی سے ان کو روکتے تھے اور خدائے واحدکی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ اس طرح  مدینہ میں اس دین کی دعوت پہنچ گئی تھی۔ ہمارے ملک میں یہ دعوت نہیں پہنچی اس لیے کہ ہم نے اس ملک میں صرف حکومت کی اور اس کی بعد حقوق کی لڑائی لڑتے رہے۔ مکہ کے لوگوں میں دعوت کے چرچے تھے ہر گھر میں یہ دین گفتگو کا موضوع تھا۔ لوگ کہتے کہ ہم ایک زمانہ سے ایک پیغمبر کے آنے کا تذکرہ سنتے آئے ہیں مکہ میں وہ نبی مبعوث ہوگیا ہے  جو کہتا ہے کہ عبادت کے لائق بس ایک اللہ کی ذات ہے، پتھر کے بتوں کی پوجا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ دین بہت سی اخلاقی ہدایات بھی دیتا ہے۔ الغرض ہرگھر میں اس نئے دین کا چرچا تھا ۔ابتدا مدینہ میں جس کا نام یثرب تھا چھ افراد کے اسلام قبول کرنے سے ہوئی  یہ چھ افراد حضور اکرم سے عقبہ نام کے مقام پر ملے تھے یہ مقام مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر تھا۔ یہ حضرات آپ سے ملے  اور پھرخود بدل گئے ان کی دنیا بدل گئی اور پھر انہوں نے مدینہ میں دین اسلام کا اور دین اسلام کے پیغمبر کا تعارف کرانا شروع کیا۔ خود ان کی زندگیوں میں انقلاب آگیا تھا، بت پرستی ان سے چھوٹ گئی تھی۔ وہ موحد بن گئے تھے ایک اللہ کو ماننے والے اسی کے آگے سر جھکانے والے ، پھر ان چھ  افراد کے ذریعہ دین اسلام کا تعارف گھر گھر پھیل گیا تھا ۔چنانچہ اگلے سال سن  ۱۲ ہجری میں  مدینہ سے بارہ آدمیوں کا ایک  وفد آپ سے ملاقات کے لیے مکہ روانہ ہوا اور عقبہ کے مقام پر رات کے وقت آپ سے ملاقات کی۔ یہ سب آپ کی دلکش شخصیت سے آپ کے نورانی چہرہ سے
اور نورانی الفاظ سے، روحانیت کی خوشبو سے  قرآن کی آیتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، ان کی زندگیوں میں انقلاب آگیا جو خود راہ پر نہ تھے وہ دوسروں کے رہنما بن گئے۔ ہر برائی سے دور اور ہر نیکی کا پیکر، مختصر ملاقات نے کایا پلٹ دی۔ اب ان کے نزدیک بت پرستی ایک لعنت تھی اور توحید سب سے بڑی نعمت۔ قرآن کی آیتیں ان کے حق میں انقلاب ثابت ہوئیں۔ چند دن مکہ میں قیام کرنے کے بعد جب یہ لوگ مدینہ جانے لگے تو حضور اکرم (ﷺ) نے حضرت مصعب بن عمیر کو تعلیم وتربیت کی غرض سے ان کے ساتھ کردیا ۔حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ پر بہت سے مشرکین یثرب نے اسلام قبول کیا ۔ اسلام کی دعوت پھیلتی جارہی تھے اور مدینہ کو اپنے آغوش میں لے رہی تھی ۔اسلام قبول کرنے والوں میں سعد بن معاذ تھے اور اسید بن حضیر تھے۔ یہ دونوں قبیلوں کے سردار تھے۔ یثرب میں زیادہ تر لوگوں نے اسلام کا دلنشیں پیغام سن کر اور قرآن کے حرف شیرین  اور سامعہ نواز تلاوت کو سن کر اسلام قبول کیا۔ یہ واقعات ہندوستان میں بھی دہرائے جاسکتے تھے اگر تمام شہروں میں اور بستیوں میں سیرت کے جلسے منعقد کیے جاتے اور غیر مسلموں کو ان جلسوں میں شرکت کی دعوت دی جاتی اور اور کوئی اچھا قاری ان جلسوں میں قرآن کی تلاوت کرتا اور اس کا ترجمہ سناتا لیکن ہندوستان میں سیرت کی کتابیں اردو میں لکھی گئیں لیکن وہ کام نہیں کیا گیا جو مدینہ میں انجام پایا تھا اور اس سے پہلے مکہ والوں کے سامنے پیش کیا گیاتھا۔ یہ اس لیے کہ ہندوستان کے علماء اور مصلحین دعوتی ذہن نہیں رکھتے تھے اور مسجدوں میں مسلمانوں کے سامنے تقریریں کرنے کو انہوں نے دعوت سمجھ لیا تھا اور یہ اسی کا خمیازہ ہے جو انہیں بھگتنا پڑرہا ہے اور اب ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔دھرم سنسد میں مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی جاتی ہے اور حکومت اور اس کی ایجنسیاں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں اور درپردہ ساتھ دیتی ہیں۔ مسلمان زیادہ سے زیادہ ’’ڈیموکریسی ان کرایسس‘‘ پر ویبینار منعقد کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے قائدین کو اب تک سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ہندوستان کی تاریخ میں انہوں نے کیا غلطی کی ہے۔انہوں نے سیکڑوں دینی مدرسے قائم کیے لیکن ایک مدرسہ بھی ایسا قائم نہیں کیا جہاں سے پڑھ کر لوگ  برادران وطن کو لسان قوم میں خطاب کرتے  اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے۔مسلمان علماء آج تک اپنی غلطی نہیں سمجھ سکے ہیں۔ مسلمانوں کی غلطی یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنے علماء کو حق وباطل کا معیار سمجھ لیا ہے۔ مسلمان بھی یہ نہیں سمجھ سکے کہ ان کے علماء نے کیا غلطی کی ہے۔ انہوں نے علماء کو معیار بنالیا ہے سیرت طیبہ کو معیار نہیں بنایا۔ اس کے باوجود کہ علماء کا کام سیرت کے طریق سے ہٹا ہوا ہے توحیدکی دعوت دینے والا کوئی نہیں ہے بت پرستی سے روکنے والا کوئی نہیں ہے
حالانکہ پیغمبر کے کام کا ارتکاز اسی پر ہوتاتھا۔علماء سیرت پر کتابیں لکھتے ہیں لیکن وہ کام نہیں کرتے ہیں جو پیغمبر نے کیا تھا۔مسلمانوں کی ہلاکت اور بربادی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبروں کاطریقہ چھوڑ دیا ہے۔ نہ عوام یہ کام انجام دیتے ہیں نہ علماء ہی یہ کام کرتے ہیں ۔ (جاری)
***

 

***

 مسلمانوں کی غلطی یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنے علماء کو حق وباطل کا معیار سمجھ لیا ہے  مسلمان بھی یہ نہیں سمجھ سکے کہ ان کے علماء نے کیا غلطی کی ہے انہوں نے علماء کو معیار بنالیا ہے سیرت طیبہ کو معیار نہیں بنایا ۔ اس کے باوجود کہ علماء کا کام سیرت کے طریق سے ہٹا ہوا ہے توحید کی دعوت دینے والا کوئی نہیں ہے بت پرستی سے روکنے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ پیغمبر کے کام کا ارتکاز اسی پر ہوتا تھا ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023