مستقبل میں ملازمتیں کس طرح ہوں گی؟

ٹکنالوجی نے ملازمت کا انداز اور فطرت بدل دی

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

مستقبل میں ملازمتیں کس طرح ہوں گی، اندازِ ملازمت کیسا ہو گا؟ یہ سوال بہت حیرت زدہ کر دینے والا اور اہم ہے۔ ماضی میں ملازمت کا ایک خاص انداز ہوا کرتا تھا، لوگ اپنے گھروں کے قریب دفاتر میں یا صنعتی اداروں میں کام کرنا پسند کرتے تھے۔ اگر کسی کی نوکری کہیں دور دراز مقام پر ہوتی تو وہ یہ کوشش کرتا تھا کہ اس کا اپنے مقام کے قریب تبادلہ ہو جائے۔ پھر ایک دور آیا کہ لوگوں کو کسی بڑے شہر میں ملازمتیں ملنے لگیں خاص طور پر جب آئی ٹی کا دور شروع ہوا تو لوگوں کو میٹرو شہروں میں ملازمتیں ملنے لگیں،۔ دیہاتوں کے لوگ بڑے شہروں کا رخ کرنے لگے۔
ملک میں جب سے بین الاقوامی کمپنیوں کے دفاتر کھلنے لگے ہیں، ملازمت کے طور طریقے اور انداز یکسر بدل گئے ہیں، یہ کوویڈ سے پہلے والا دور تھا، اس دور میں "گھر سے کام” کرنے کا چلن ابتدائی مرحلے میں تھا، ملازمین کو یہ موقع کبھی کبھی دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے گھروں سے کام کریں، مگر بالعموم انہیں دفاتر کو جانا پڑتا تھا۔ لیکن کوویڈ کے بعد والا دور بالکل مختلف ہے، اس دور میں ملازمت کا انداز اور بھی بدل گیا ہے، اب ملازمین کو اپنے گھروں سے ہی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ شروع میں تو ملازمین کافی خوش تھے کہ چلو گھر سے ہی کام چل رہا ہے، لیکن یہ خوشی چند دن بعد کافور ہو گئی کیوں کہ گھروں سے کام کرنے میں بھی مسائل پیدا ہونے لگے۔ اس پر الگ سے لکھا جا سکتا ہے لیکن آج صرف ملازمتوں کے ادوار پر گفتگو ہو گی۔
ٹکنالوجی نے ملازمت کے انداز اور اس کی فطرت بدل دی ہے اور اس کے نتائج بھی بڑے مختلف برآمد ہوئے ہیں۔ نوکری کے لفظ سے عام طور ہمارے ذہنوں میں ایک صنعتکار یا ایک کمپنی کا مالک اور اس کے ماتحت بہت سارے ملازمین کا تصور آتا ہے لیکن آج معاملہ الٹ گیا ہے، آج ملازم ایک اور کمپنیاں کئی ہوتی ہیں۔ ملازمت کا یہ ایسا دور ہے جہاں ایک ملازم ایک سے زائد کمپنیوں میں کام کر سکتا ہے، اور یہ ‘ورک فرام ہوم’ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ ‘گھروں سے کام’ کا طریقہ کار کوویڈ سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا لیکن کوویڈ کے بعد یہ بڑی تیزی سے پھیلنے لگا ہے، خاص طور پر آئی ٹی شعبے میں تقریباً نوے فیصد اداروں میں یہی طریقہ کار رائج ہے۔ اب یہ بھی ‘ورک فرام ہوم’ تک ہی نہیں رہا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر "ورک فرم اینی ویر” یعنی کہیں سے بھی کام کیا جا سکتا ہے تک وسعت پا گیا ہے۔ آپ چاہے کہیں بھی ہوں کار میں ہوں، کسی عزیز و اقارب کی شادی میں شریک ہوں یا دوستوں کے ساتھ ہوں غرض آپ کسی بھی جگہ موجود ہوں آپ کا کام چلتا رہتا ہے۔ کئی تو ایسے بھی ہیں جو تجارت بھی کر رہے ہوتے ہیں اور نوکری بھی جاری رہتی ہے۔ امریکہ میں تجارت کر رہے ہیں اور انڈیا میں نوکری چلتی رہتی ہے۔ اس نئے طریقہ کار میں مالک اور ملازم دونوں کو سہولتیں ملیں۔ مالک کے اخراجات جیسے نظم و انصرام، ذرائع حمل و نقل، کرایہ وغیرہ کم ہو گئے، لیکن ملازم کو اس سے یہ نقصان بھی پہنچا ہے کہ اگرچہ وہ کہیں سے بھی کام کرسکتا ہے لیکن اسے ہمہ وقت کام پر حاضر رہنا پڑتا ہے۔ آفس جانے کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ایک مقررہ وقت تک کام ہوتا تھا اور بقیہ وقت میں وہ ذاتی کام یا آرام کر سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں توازن برقرار رہتا تھا۔ ملازم کی سماجی زندگی پر اثر نہیں پڑتا تھا۔ اسے یہ اطمینان ہوتا تھا کہ آٹھ نو گھنٹے کے بعد جو بھی وقت ہے وہ اس کا اپنا ہے جسے وہ کسی بھی جگہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔ ورک فرام ہوم نے ایک طرح سے ملازم کا ذاتی وقت ختم کر دیا ہے۔ کمپنیوں کا استدلال یہ ہے کہ جب ملازمین کو یہ سہولتیں دی جا رہی ہیں اور آنے جانے کا وقت بچ رہا ہے تو انہیں زیادہ وقت کام کرنے میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کمپنی نے یہ سہولتیں دے کر ملازمین کو اپنے جال میں پھانس لیا ہے کہ وہ نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں نہ کہیں اور جا سکتے ہیں۔ یہ ایسی ملازمت ہو گئی ہے جو تھوڑی سی خوشی کے ساتھ بڑی مجبوری بھی بن گئی ہے۔ چنانچہ اب ان کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں ‘ورک فرام ہوم’ نہیں چاہیے، وہ آفسوں میں ہی جا کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چیز جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا تھا وہ ان کے لیے راحت کم مصیبت زیادہ بن گئی۔ اب یہ دور گزشتہ دور سے بھی ایک قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ جو بات گھر سے آفس جا کر کام کرنے سے چلی تھی وہ چند دن بعد گھر سے کام پھر ہر جگہ سے کام اور اب یہ دور آ گیا ہے کہ معاملہ ‘ورک فرم ہوم’ سے ‘ورک فار اینی ون’ تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے ملازمین کو یہ موقع ملا کہ وہ کسی بھی کمپنی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں، مثلا صبح ایک کمپنی کی ملازمت تو شام کسی اور کمپنی کی۔ کئی ملازمین ایک ہی وقت میں دو دو کمپنیوں کا کام کرتے ہیں۔ یہیں سے "مون لائٹنگ” کے تصور کی ابتدا ہوئی۔ اس لفظ کا مختلف ممالک میں الگ الگ معنی میں استعمال کیا جاتاہے، امریکہ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے غریب و ناخواندہ مزدور جو دن بھر کام کرتے تھے انہیں چاندنی راتوں میں تعلیم دی جاتی تھی، چاندنی راتوں میں اس لیے کیوں کہ دیگر راتوں میں اندھیرا ہوتا تھا آنے جانے میں دقتیں پیش آتی تھیں اس لیے انہیں چاندنی راتوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔ اس تعلیم بالغان کے عمل کو "مون لائٹنگ ایجوکیشن” کہا جانے لگا۔ آسٹریلیا میں اس کے معنی الگ ہیں، وہاں چور، مویشیوں کی چوری اندھیری راتوں میں کرتے تھے، چاندنی راتوں میں وہ چوری نہیں کرتے تھے۔ جبکہ آئرلینڈ میں اس کے الگ معنی ہیں، وہاں چور صرف چاندنی راتوں میں ہی چوری کرتے تھے۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ہی وقت میں دو تین کمپنیوں کے ساتھ کام کیا جا سکتا ہے ‘ورک فار اینی ون’۔
لیکن طریقہ کار پر ویپرو، ٹی سی ایس نے بڑا سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور اسے ایک جرم قرار دیا ہے۔ جبکہ ٹیک مہندرا نے اس طریقہ کار پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ سویگی نے تو اپنے ہاں کام کرنے والوں س باضابطہ کہا ہے کہ وہ مون لائٹنگ کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ مرکزی وزیر راجو چندرا شیکھر نے بھی اس بابت مثبت اشارے دیے ہیں۔ ‘ورک فار اینی ون’ یعنی ایک سے زائد کمپنی کا کام کرنے کا ایک نیا خیال پیدا ہوا ہے۔ یقیناً اس سے ملازمین کی آمدنی بڑھی ہے لیکن وہیں اس کا نقصان بھی ہوا ہے، وہ یہ کہ ان کا ذاتی وقت مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح کے ملازمتوں کا ایک اور تصور بھی ہے جس کا نام گیگ اکانومی ہے۔ اس میں مالک اور نوکر کا تصور نہیں پایا جاتا، یہاں باقاعدہ نوکری نہیں ہوتی لیکن آپ کام کرتے ہیں جیسے اوبر اور سویگی وغیرہ، اس میں کام کرنے والے اور مالک کا آپس میں آجر و ماجور کا رشتہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں دونوں کا رشتہ شراکت داری کا ہوتا ہے۔ وہ صبح کسی کے ساتھ کام کر سکتا ہے اور شام میں کسی اور کے ساتھ۔ اس معاملے میں وہ آزاد ہوتا ہے۔ ان کمپنیوں میں وہ نوکر نہیں بلکہ شراکت دار کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ لیکن یہاں بھی بہت سے مسائل ہیں۔ اندازے کے مطابق امریکہ میں چالیس فیصد کام کرنے والے اپنی چالیس فیصد کمائی اسی گیگ معیشت کے ذریعے کرتے ہیں۔
کام کرنے کا ایک اور طریقہ بھی پایا جاتا ہے جسے تخلیقی و پر شوق کام کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی معیشت بن گئی ہے۔ جیسے یوٹیوب و دیگر آن لائن ویڈیوز بنانا وغیرہ۔ کوئی بھی اپنے ہنر کا استعمال کرتے ہوئے ان ذرائع سے کمائی کر سکتا ہے، اس میں کوئی ملازمت یا کسی مالک کا تصور سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایک فرد محض اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ویڈیو بناتا ہے، مثال کے طور پر کسی کے پاس اچھا پکانے کی صلاحیت ہے تو وہ اس کا ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر ڈالتا ہے لوگ اسے دیکھتے ہیں اور اس چیز کو خریدتے ییں،۔ جتنے ناظرین اسے دیکھیں گے اسے اتنے ہی پیسے ملیں گے۔ اس میں نہ وقت کی پابندی ہے نہ ہی کوئی نوکری کا تصور ہے۔
کام کی پانچویں قسم بھی پائی جاتی ہے اور وہ ہے ‘بغیر ملازمت کے کام’ اس کو "مائکرو انٹرپرینرشپ” کہا جاتا ہے۔ اس میں لوگ چھوٹے پیمانے پر اپنا کام شروع کرتے ہیں، وہ کام تو کرنا چاہتے لیکن نوکری کرنا نہیں چاہتے، وہ اپنا فن استعمال کرتے ہوئے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، یہ بھی ایک طرح کی معیشت بن گئی ہے۔
ان سب کاموں کے طریقوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ کیا مستقبل میں نوکری کا تصور باقی رہے گا بھی؟ کیا مستقبل میں ملازمت کا تصور ہی ختم ہو جائے گا؟ آج ملازمتوں میں بے ضابطگی ہوتی جا رہی ہے، مالک اور نوکر کا تصور ختم ہو رہا ہے، ایک جگہ پر دو چار ہزار ملازمین کے کام کرنے کا تصور بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے کام کی پائیداری بھی ختم ہو گئی ہے، اسی کے ساتھ ٹریڈ یونین کی ضرورت بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ ٹکنالوجی کی وجہ سے انداز ملازمت میں بڑی گہری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان سب کا لب لباب یہ ہے کہ اگر کسی فرد کے پاس صلاحیتیں ہوں گی تو وہ جدید ٹکنالوجی سے استفادہ کر کے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرے گا اور ٹکنالوجی سے استفادہ نہیں کرے گا تو اس کا پیچھے رہ جانا یقینی ہے۔
***

 

***

 ٹکنالوجی کی وجہ سے انداز ملازمت میں بڑی گہری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان سب کا لب لباب یہ ہے کہ اگر کسی فرد کے پاس صلاحیتیں ہوں گی تو وہ جدید ٹکنالوجی سے استفادہ کر کے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرے گا اور ٹکنالوجی سے استفادہ نہیں کرے گا تو اس کا پیچھے رہ جانا یقینی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022