مستقبل کے معلم ،انسان یا روبوٹ

مشینی استادکبھی بھی ایک رحم دل، شفیق اور درد مند انسانی استاد کا نعم البدل نہیں ہو سکتا

خالد پرواز

2027 تک مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ، دنیا میں موجود اساتذہ کی جگہ لے لیں گے۔ یہ چونکا دینے والا بیان تھا برطانیہ کی محقق اور ماہر تعلیم انتھونی سلڈون کا جنہوں نے یہ بیان سپٹمبر 2023کو ایک تعلیمی کانفرنس کے دوران دیا۔ لیکن وہ پہلے ماہر نہیں ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ خود کار مشینیں جو مصنوعی ذہانت سے لیس ہوں دوسرے کاموں کی طرح انسانی اساتذہ کی جگہ لے لیں گی۔
لیکن سوال یہ کہ کیا یہ روبوٹک ٹیچرس حقیقی معنوں میں انسانی اساتذہ کا بدل ہو سکتی ہیں؟
   ٹیری ہیک Terry Heik جو ٹیچ تھاٹ ادارے کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم ایک غیر وراثتی انسانی عمل ہے۔
لیکن اسی دوران مصنوعی ذہانت اور تعلیمی میدان میں استعمال سے متعلق ریسرچ تیزی سے جاری ہے۔ کچھ ممالک میں AI Teachers یا روبوٹک ٹیچرس کا تجربہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں آئی آئی ٹی بامبے کے سنٹرل اسکول میں ایک روبوٹک ٹیچر جن کا نام میڈم شالو رکھا گیا  ہے پڑھانے کا کام بھی کرنا شروع کردیا ہے۔ بنگلور کرناٹکا میں انڈوس انٹرنیشنل اسکول میں Eagle 2.0 نامی روبوٹک ٹیچر بچوں کو پڑھا رہی ہیں۔
    اب یہ سوال اور اہم ہوتا جا رہا ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کے عروج پر انٹرنیٹ،  گوگل اور مصنوعی ذہانت کے دور میں کیا استاد کی ضرورت نہیں رہی؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں نئی ٹیکنولوجی کو اپناتے ہوئے جس طرح اپنے ملازمین کو layoff رخصت کر رہی ہیں کیا یونیورسٹیاں، کالج اور اسکول بھی اساتذہ کو رخصت کریں گے؟ معلومات کے دھماکے حصول علم کی سہولیات فاصلاتی اور آن لائن ایجوکیشن کی گہما گہمی میں کیا ہم اساتذہ کے بغیر بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟ جس طرح تار، ٹیلیفون اور فوٹو کیمرے کا وجود نہیں رہا اسی طرح کیا اساتذہ بھی  تاریخ کا حصہ بن جائیں گے؟
   اس سوال کا جواب ہاں یا نا میں نہیں دیا جا سکتا۔ جب تک تعلیمی نظام، معلومات information کو اکٹھا کرنے اور امتحان میں اگلنے کو ہی تعلیم سمجھتا رہے گا۔ تب تک ایسا ممکن ہے کہ یہ کام  اساتذہ کے بغیر بھی مشینوں کے ذریعے ہو جائے گا۔ لیکن تعلیم کو معلومات کی منتقلی کی بجائے شخصیت سازی کو پیش نظر رکھا جائے تو اساتذہ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ یقینا مشینوں سے انسان نہیں بنائے جاسکتے۔ ان کی اخلاقی تربیت، جذباتی نشونما اور ذہنی ارتقا کے لیے ایک ماہر استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو ان کی نفسیات کو پڑھ کر، ان کی دلچسپیوں کو جان کر ان کی سطح پر اتر کر تعلیم کے زیور سے ان کو آراستہ کرسکے۔ ان کی شخصیت کو نکھار سکے اور خامیوں کو دور کرسکے۔
انسانی شخصیت کوئی سافٹ وئیر سے تعمیر شدہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ میموری کارڈ کی طرح یاداشت کو جمع کرنے کی جگہ ہے بلکہ اس میں بے شمار ذہنی، جسمانی، روحانی، قلبی اور نفسیاتی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ ان کو پہچاننے اور پروان چڑھانے کا کام ایک استاد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
خود انسان کو ترقی کے اس مقام تک پہنچا نے میں اساتذہ کا اہم رول رہا ہے۔ معلوم انسانی تاریخ سے لے کر آج کے جدید دور تک انسان کو عمر کے ہر مرحلے میں ایک فرد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کو سہارا دے، راہ دکھائے، امید جگائے، حوصلہ بڑھائے، جو اس کو خود کی  صلاحیتوں سے واقف کرائے، پروان چڑھائے اور موجود زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔ ایسا فرد ہی استاد کہلاتا ہے۔ کیا یہ تمام کام روبوٹ کرسکتا ہے؟
تعلیم وہ عمل ہے جس میں دماغ کے ساتھ ساتھ قلب کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ ایسے روبوٹ جو خود قلب نہیں رکھتے وہ انسانی قلب کی تربیت کیسے کر پائیں گے۔ وہ ان جذبات کو بچوں میں کیسے پیدا کریں گے جن کا تعلق قلب سے ہے۔ محبت، ہمدردی، رحم اور قربانی کے جذبات ایک انسانی استاد ہی سکھا سکتا ہے۔ آج بچوں میں ان اوصاف حمیدہ soft skill کو پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ انسانی تعلقات، اتحاد و یکجہتی جیسی سماجی اوصاف social skill کی بھی معاشرے کمی پائی جاتی ہے۔ سماج میں رہنے والا اور ان اوصاف سے متصف ایک استاد ہی بچوں میں یہ صلاحیتیں پیدا کرسکتا ہے۔ معلم بچوں کا رول ماڈل ہوتا ہے جس کو دیکھ کر بچے اس کو  فالو کرتے ہیں، لیکن ایک مشین بچوں کا رول ماڈل نہیں بن سکتی۔ اللہ نے بھی کسی فرشتے کو نبی نہیں بنایا اور نہ ہی فرشتوں کے ذریعے انسانوں کی تربیت کی۔ انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے انسان ہی کو نبی بنایا اور وہ تعلیم تربیت اور تزکیہ کی عظیم ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔
یہ کام کہ انسان کو انسان بنایا جائے ان کو کامیاب زندگی گزارنے کے قابل بنانا اب اساتذہ کی ذمہ داری ہے لیکن اساتذہ خود یہ سمجھنے لگ جائیں کہ ان کی ذمہ داری معلومات کو منتقل کرنا اور نصاب کو مکمل کرنا ہے تو وہ خود اپنے غیر ضروری ہونے کی سند پر مہر لگاتے ہیں، اور اگر اساتذہ موجودہ ترقی اور وسائل سے بے پرواہ ہو کر خود کو update نہیں کرتے تو وہ بھی اپنے وجود کو ادارے پر بوجھ بنا کررکھیں گے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اساتذہ جدید ضروریات سے واقف ہوں، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں، خوب مطالعہ کریں اپنی معلومات کو وسیع کریں۔ بچوں کے نفسیات اور سماج میں ہونے والی تبدیلیوں سے واقف ہوں۔ نئی ٹکنالوجی کو سیکھیں۔ بچوں کو انٹرنیٹ، یوٹوب اور مصنوعی ذہانت کے حوالے کر نے کی بجائے ان چیزوں کو تعلیم کا وسیلہ بناکر ان کی مدد سے تعلیم کے عمل کو دلچسپ بنائیں۔ 
معلم کا اور ایک کام جو روبوٹ معلم نہیں کر سکتا وہ ہے معاشرے میں تبدیلی۔ استاد نہ صرف اسکول کا بلکہ محلے اور گاؤں کا ایک معزز فرد ہوتا ہے لوگ اس کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے اس کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر استاد اسکول کے ساتھ بچوں کے والدین اور ان کے گھر اور محلے کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو اس سے معاشرے میں تبدیلی آتی ہے۔
اس طرح ایک روبوٹ استاد کبھی بھی ایک رحم دل، شفیق اور درد مند انسانی استاد کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اب وجود کا  مقابلہ بھی شروع ہوچکا ہے انسانی استاد کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔

 

***

 معلم کا اور ایک کام جو روبوٹ معلم نہیں کر سکتا وہ ہے معاشرے میں تبدیلی۔ استاد نہ صرف اسکول کا بلکہ محلے اور گاؤں کا ایک معزز فرد ہوتا ہے لوگ اس کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے اس کی باتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر استاد اسکول کے ساتھ بچوں کے والدین اور ان کے گھر اور محلے کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو اس سے معاشرے میں تبدیلی آتی ہے۔ اس طرح ایک روبوٹ استاد کبھی بھی ایک رحم دل، شفیق اور درد مند انسانی استاد کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اب وجود کا  مقابلہ بھی شروع ہوچکا ہے انسانی استاد کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023