کیرالہ ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کو POCSO ایکٹ کی دفعات سے مستثنیٰ نہیں رکھا گیا ہے

نئی دہلی، نومبر 20: کیرالہ ہائی کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں کے درمیان شادی کو جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ، یا POCSO ایکٹ کی دفعات سے مستثنیٰ نہیں رکھا گیا ہے۔

بیچو کورین تھامس کی سنگل بنچ نے یہ فیصلہ ایک 31 سالہ مسلمان شخص کی جانب سے دائر ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران سنایا جس پر ایک 16 سالہ نوجوان لڑکی کو اغوا اور اس کے ساتھ زیادتی کا الزام ہے۔ وہ لڑکی اسی شخص کی بیوی ہے۔ لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق پہلی معلوماتی رپورٹ ایک صحت مرکز کے ڈاکٹر کی طرف سے موصول ہونے والی اطلاع پر اس شخص کے خلاف درج کی گئی تھی جہاں وہ لڑکی حمل کے چیک اپ کے لیے گئی تھی۔

الزام ہے کہ اس شخص نے لڑکی کو مغربی بنگال سے اغوا کیا تھا اور اس کے ساتھ بار بار جنسی زیادتی کی تھی۔

اپنی ضمانت کی درخواست میں اس شخص نے کہا کہ اس نے قانونی طور پر اسلامی قانون کی دفعات کے تحت اس لڑکی سے شادی کی تھی۔ مسلم پرسنل لاء کے مطابق جو لڑکیاں بلوغت کو پہنچ چکی ہوں ان کی شادی کو قانونی سمجھا جاتا ہے۔

تاہم کیرالہ ہائی کورٹ نے کہا کہ POCSO ایکٹ کا ارادہ شادی کی آڑ میں بھی کسی بچے کے ساتھ جسمانی تعلقات پر پابندی لگانا ہے۔

تھامس نے کہا ’’بچوں کی شادی کی ممانعت ایکٹ، 2006 کے نافذ ہونے کے بعد یہ قابل اعتراض ہے کہ آیا مذکورہ پرسنل لاء شادیوں سے متعلق خصوصی قانون پر غالب ہو گا۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ’’POCSO ایکٹ ایک خاص قانون ہے جو خاص طور پر بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ بچے کے خلاف ہر نوعیت کے جنسی استحصال کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ نکاح کو قانون کی پابندی سے خارج نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

تازہ ترین فیصلہ کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے 31 اکتوبر کو اسی طرح کا ایک حکم جاری کیے جانے کے چند ہفتوں بعد آیا ہے۔ ہائی کورٹ نے ایک حاملہ نابالغ مسلم لڑکی کی شادی کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ مذہب کا پرسنل لاء یہاں کالعدم ہے، کیوں کہ یہ POCSO ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔