
مسلم پرسنل لا بورڈ کا وقف ترمیمی بل کی منظوری کے خلاف ملک گیر احتجاج کا انتباہ
تمام انصاف پسند شہریوں سے مسلمانوں کے آئینی حقوق کی جدوجہد میں شامل ہونے کی اپیل
نئی دلی: ( دعوت نیوز ڈیسک)
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وقف ترمیمی بل کی سخت مخالفت کی اور اعلان کیا کہ اگر یہ بل منظور کیا گیا تو وہ اس کے خلاف ایک مکمل قانونی و آئینی جنگ چھیڑ دے گا۔جمعرات کو پریس کلب آف انڈیا میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے زور دے کر کہا کہ وقف کا معاملہ ہندو مسلم تنازعہ نہیں بلکہ حکومت کے ہاتھوں مسلمانوں کے آئینی حقوق کے سلب کیے جانے کی جنگ ہے۔ انہوں نے تمام انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے اس جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے آئندہ کے لائحہ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت بل کو واپس نہیں لیتی تو وہ ملک گیر مہم کا آغاز کریں گے اور ہر ممکن قانونی و آئینی راستہ اختیار کریں گے۔ ڈاکٹر الیاس نے متنبہ کیا کہ مسلمانوں کی وقف املاک کے معاملے میں جو نظیر قائم کی جا رہی ہے، وہ مستقبل میں ہندو، سکھ اور عیسائی برادریوں کی مذہبی املاک پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مسلمان دیگر مذاہب اور برادریوں کے ساتھ مل کر وقف کے حقوق کا دفاع کریں گے۔
مولانا رحمانی نے واضح کیا کہ وقف ایک آئینی حق ہے جو بھارتی آئین میں مذہبی ادارے قائم کرنے اور اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار جب زمین وقف کر دی جاتی ہے تو وہ اللہ کی ملکیت بن جاتی ہے اور کسی فرد کو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس میں تبدیلی کا اختیار نہیں ہوتا۔ انہوں نے وقف ترمیمی بل کو مذہبی امتیاز پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی کہ یہ وقف املاک کے نظم و نسق میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کی شرط عائد کرتا ہے جبکہ دیگر مذاہب کو ان کی مذہبی املاک کے انتظام کے مکمل حقوق حاصل ہیں۔
بورڈ کے صدر نے بل کی ان شقوں پر شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا جن کے تحت حکومت کے نامزد کردہ افراد اور غیر مسلم اراکین کو وقف املاک کے نظم و نسق میں شامل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت کے اس دعوے کی مذمت کی کہ کوئی بھی جائیداد وقف قرار دی جا سکتی ہے، اسے ایک غلط بیانی قرار دیتے ہوئے عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے تمام انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے آئینی حقوق کی اس جدوجہد میں شامل ہوں۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ملک معتصم خان نے بھی وقف ترمیمی بل پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کو فوری طور پر واپس لے کیونکہ یہ مبہم اور نقصان دہ ہے۔ خان نے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کی رپورٹ کو بھی ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اپوزیشن کے اعتراضات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اس بل کے پیچھے چھپے ہوئے ایجنڈے کو سمجھیں اور انصاف کے اس مشن کی حمایت کریں۔
انہوں نے حکومت کے اس دعوے کو بھی بے بنیاد قرار دیا کہ وقف نظام میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے یہ بل لایا جا رہا ہے کیونکہ 1913 سے ہی وقف املاک میں بدعنوانی کی روک تھام کے قوانین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو نئے بل لانے کے بجائے پہلے سے موجود قوانین کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔
جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ان کی تنظیم وقف قوانین میں ترمیم کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئین ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے اور ان حقوق میں مداخلت ایک گمراہ کن کوشش ہے۔ مدنی نے کہا کہ مولانا آزاد اور جواہر لال نہرو جیسے رہنما سیکولرازم کے بڑے حامی تھے لیکن موجودہ حکومت اسے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بل کے خلاف جنگ صرف مذہبی حقوق کا دفاع نہیں بلکہ آئینی آزادیوں کا عملی مظاہرہ ہے۔
معروف رہنما عبیداللہ خان اعظمی نے کہا کہ یہ مسئلہ ہندو مسلم تنازعہ نہیں بلکہ آئینی حقوق کا معاملہ ہے، حکومت نے ان ترامیم کو نافذ کرنے سے قبل مسلم کمیونٹی سے مشاورت نہیں کی جو کہ ان کے آئینی تحفظات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تنظیم ملک میں کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے کام کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وقف کے حقوق کی جدوجہد تمام برادریوں کی مذہبی آزادی کے دفاع کے لیے ہو۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحمٰن مجددی نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی یہ کارروائیاں ہندو مسلم اتحاد کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انہوں نے حکومت پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی مہم چلانے کا الزام لگایا اور اتراکھنڈ میں نافذ کیے گئے یکساں سول کوڈ اور وقف بل کو اس کی نمایاں مثالیں قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات کسی مخصوص برادری کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہیں۔
مولانا مجددی نے حکومت کے نعرے "سب کا ساتھ، سب کا وکاس” پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ صرف چند مخصوص لوگوں تک محدود ہے، جس سے ایک گہری ناانصافی کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے مذاہب اور ثقافتوں کا احترام کرے اور ملک کی ترقی اور اتحاد کے پیش نظر مذہبی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند، جمعیت علمائے ہند اور دیگر مسلم تنظیمیں وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں متحد ہیں۔ ان تنظیموں نے اعلان کیا کہ اگر یہ بل منظور کیا گیا تو وہ قانونی چارہ جوئی کریں گی اور تمام شہریوں سے اپیل کریں گی کہ وہ آئینی حقوق کے دفاع اور ملک میں کسی بھی قسم کی تفریق کو روکنے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025