مسلم تنظیموں نے ادے پور میں ہوئے وحشیانہ قتل کی مذمت کی
نئی دہلی، جون 29: مسلم سماجی، مذہبی اور سیاسی تنظیموں نے راجستھان کے سیاحتی شہر ادے پور میں دو مسلم نوجوانوں کی طرف سے ایک درزی کا سر قلم کرنے کی سخت اور غیر مشروط مذمت کی ہے۔ درزی کی شناخت کنہیا لال کے طور پر ہوئی ہے۔
ملزمان نے درزی کا سر قلم کر دیا کیوں کہ اس نے مبینہ طور پر توہین رسالت کے معاملے میں بی جے پی کی سابق ترجمان نپور شرما کی حمایت میں ایک پوسٹ شیئر کی تھی۔
جماعت اسلامی ہند (JIH) نے، جو ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی سماجی و مذہبی تنظیم ہے، اس قتل کو ’’وحشیانہ‘‘ قرار دیا۔
جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ’’اسلام میں اس طرح کے تشدد کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
جے آئی ایچ کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے مطالبہ کیا کہ درزی کے قتل کے قصورواروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
انھوںے حکومت سے اپیل کی کہ ’شرپسندوں کو ملک میں بدامنی پھیلانے کے لیے اس واقعے کا فائدہ اٹھانے سے روکا جائے۔‘‘
پروفیسر سلیم نے مشورہ دیا کہ حکومت کو ہر قیمت پر امن و امان برقرار رکھنا چاہیے۔
انھوں نے نشان دہی کی کہ ’’کچھ سیاسی رہنماؤں کے جاری کردہ بیانات ان کی ناپختگی اور ووٹ بینک کی سیاست کھیلنے کے ان کے بدصورت ارادے کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ’’ادے پور کا واقعہ لوگوں میں قانون کو ہاتھ میں لینے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے‘‘، پروفیسر سلیم نے کہا کہ ’’یہ رجحان ہمارے معاشرے کے لیے خطرناک ہے‘‘ اور اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں کا عدلیہ اور پولیس پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، اگر ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔
انھوں نے مزید کہا ’’بدقسمتی سے ہمارے ملک کا سیاسی ماحول جارحیت اور نفرت کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور ہمدردی اور رواداری کو کم کر رہا ہے۔‘‘
انھوں نے ملک کے تمام امن اور انصاف پسند شہریوں پر زور دیا کہ وہ ہاتھ ملا کر نفرت اور تشدد کے خلاف لڑیں۔
وہیں پیغمبر اسلام (ﷺ) کے نام پر قتل کی مذمت کرتے ہوئے جمعیت علمائے ہند کے ایک دھڑے کے صدر سید ارشد مدنی نے کہا کہ جس طرح ہم نے کئی جگہوں پر ماب لنچنگ کی مخالفت کی، اسی طرح ہم اس عمل کو بھی غیر انسانی فعل سمجھتے ہیں۔ یہ امن و امان کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جمعیت ہمیشہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے کے خلاف ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ ’’ادے پور کا واقعہ انتہائی افسوسناک، غیر اسلامی اور غیر انسانی فعل ہے۔‘‘
مولانا مدنی نے، جو اس وقت ورلڈ مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ملیشیا میں ہیں، کہا کہ توہین آمیز تبصرے برے ہیں لیکن امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے تحمل اور صبر کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔
انھوں نے مذہبی شخصیت یا کسی عقیدے کی مذہبی علامتوں کی توہین کرنے یا اس مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی سختی سے مخالفت کی۔
تاہم انھوں نے کہا کہ ملک کے طاقتور لوگوں کی خاموشی اور پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا تبصروں میں ملوث افراد کو گرفتار نہ کرنا وہ وجوہات ہیں جنھوں نے پوری دنیا میں ملک کی شناخت کو نقصان پہنچایا ہے اور امن و امان کو خراب کیا ہے۔
مولانا مدنی نے نبی کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو فوری گرفتار کرکے قانون کے مطابق سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جرأت نہ کرے۔
ادے پور واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ملزمین کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا جائے۔
وہیں سماجی اور سیاسی کارکن ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ ادے پور کے بہیمانہ قتل کو مہذب معاشرے میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’سر تن سے جدا‘‘ جیسا ماورائے عدالت قتل انتہائی اشتعال انگیز غیر انسانی سفاکیت ہے۔ انھوں نے فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔
دریں اثنا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو اسلامی قانون اور نہ ہی ملک کا آئینی قانون کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا ہے۔ بورڈ نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ تشدد سے گریز کریں۔
اس گھناؤنے جرم کی مذمت کرتے ہوئے دہلی کی ایک این جی او IMPAR (انڈین مسلمز فار پروگریس اینڈ ریفارم) کے ایم جے خان نے کہا کہ مذہب کے نام پر درزی کے وحشیانہ قتل میں ملوث افراد کو رواداری اور عفو و درگزر کا درس دینے والے اسلام کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمدردی اور عفو و درگزر کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
لکھنؤ کے شیعہ رہنما سید کلب جواد نقوی نے قصورواروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسلام قتل کی اجازت نہیں دیتا۔