مسلم نوجوان اموشنل الحاد كی زد میں

نئی نسل میں دین سے لاتعلقی ایک بہت بڑا مرض ۔بروقت تدارک ضروری

ڈاكٹر امل زكریا

ہر سمجھدار مسلمان بیک وقت ایک معلم و مربی بھی بنے تاکہ نوجوان نسل کی حفاظت ہو
جدید دور میں اموشنل الحاد ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے، جو امت كے قیمتی سرمایہ یعنی نسلِ نو کو ٹارگیٹ کر رہا ہے ۔نسل نو وہ پودا ہے جس کو ہم خونِ جگر اور سالوں کی محنت سے سینچتے اور سنوارتے ہیں اور جس کو گردش زمانہ کے رنگ میں رنگ جانے سے بچانے كے لیےہر وقت کوشاں رہتے ہیں ۔اموشنل الحاد وہ بھیانک خطرہ ہے جو انسان کو توحید کی فطرت سے دور اور خالق کائنات کے شعور سے عاری کردیتا ہے ۔یہ خطرہ انسان کے سکون و چین کو غارت کردیتا ہے اور اس کے اردگرد موجود ہر طرح کے بصری (Visual) سمعی (auditory)جذباتی (emotionally)اور ذہنی mentally) وسائل کا استعمال کرکے ان پر حاوی ہونے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ لاشعوری طور پر نسل نو کو اس طرف دھکیل رہے ہیں۔حیران مت ہوئیے !مقام افسوس یہ ہے کہ ہم خود اپنی اولاد کو اموشنل الحاد کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ آئیے اموشنل الحاد کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اموشنل الحاد اللہ اور دینکو نہ ماننے کا نام ہے ۔روحانی، اخلاقی اور فلسفیانہ اقدار کے فقدان اور لادینیت اختیار کرنے کا نام ہے ۔یہ عقلی، فلسفیاتی، منطقی اور علمی الحاد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے وجود اور الوہیت کے تصور کو سرے سے ختم کرنے کا نام ہے ۔اس کا تعلق کسی عقلی دلیل پر نہیں بلکہ چند جذباتی اور انفعالی خیالات سے ہے۔عرب کی نسل نوخیز اور نوجوان نسل میں اموشنل الحاد پھیلنے کے مختلف اسباب ہیں :
پہلا سبب:
پہلا سبب تو یہ ہے کہ اس میں بہت سے سماجی،تہذیبی اور سیاسی عوامل کارفرما ہیں ۔ جیسے معاشرہ، ثقافت اور ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقیاں، ڈیموکریسی، اقتصادی اور سیاسی انقلابات،اخلاقی اور جنسی آزادی،حالات کا دباؤ،خودی کا فقدان،فکری ضعف،علم کی کمی وغیرہ۔ یہ تمام عوامل مہلک ہیں جو ان نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنا رہے ہیں ۔
پھر اس کے بعد اسباب و عوامل کا ایک سلسلہ ہے جو نوجوانوں کو اموشنل الحاد کی طرف لے جاتا ہے ۔جیسے مشکلات زندگی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان وغیرہ ۔جس کی وجہ سے ان کے اندر نہ تو حالات کو برداشت کرنے کی سکت ہے اور نہ ہی اس پر قابو پانے کی طاقت۔
ان اسباب و وجوہات کی بنا پر ایک انسان کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ میرے وجود کا مقصد کیا ہے ؟ اگر اللہ تعالیٰ موجود ہے۔وہ عدل و انصاف سے کام لیتا ہے اور اس کی رحمت کے دروازے بہت وسیع ہیں تو دنیا میں ظلم و جور کیوں ہورہا ہے ؟اس طرح اس کا نفس الجھن اور بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے خوف کھانے لگتا ہے۔بالآخر اس کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کر بیٹھتا ہے ۔
دوسرا سبب:
دوسرا سبب ، درست تنقیدی مزاج کا فقدان ہے جو کہ شاید دور جدید میں پہلے سبب کے مقابلے میں زیادہ غالب ہے ۔ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی مخصوص نظریہ کے حامل افراد کی خامیوں کا ذمہ دار اس نظریہ کو قرار دیتے ہیں ۔
چنانچہ نسل نو دین کے علم برداروں اور دین کے دعویداروں کے ان نقائص اور کمزوریوں کو جو بشری تقاضوں کی وجہ سے در آتی ہیں ،جیسے کہ کمزوری ،ظلم ،جہالت ، شہوت ،کسل مندی وغیرہ کو نفس دین کی طرف منسوب کرتے ہیں یا دوسری وہ غلطیاں جوخود مذہب میں تطبیق یا نصوص کی تاویل کرنے میں فتور سے کام لیں اور دین دار لوگ اس کی نسبت نفس دین کی طرف کرکے اس کا ذمہ دار خود دین کو ٹھہرا دیتے ہیں۔اسی طرح ان لغزشوں کو بھی دین کی طرف منسوب کرتے ہیں جن کا تعلق دین کی عملی تطبیقات یا نصوص کی تاویلات سے ہے ۔یہ نوجوان دین کو غلط تنقید کا نشانہ بنا کر رفتہ رفتہ اللہ کے وجود کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔
پھر خدانخواستہ اگر یہ دین دار ان کے والد میں سے کوئی ایک ہیں تو پھر نسل نو کے غلط تاثر میں مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس طرح ان کی اولاد ہمیشہ والدین کی دینی گرفت کو توڑنا چاہتی ہے۔ اس قید کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس سے خلاصی چاہتی ہے۔
تیسرا سبب:
تیسرا سبب شرعی حقوق و فرائض کی ادائیگی کی اہلیت کا نہ ہونا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نقوش، روحانی فرائض کی انجام دہی یا حالات سے ہم آہنگی پر ان کی تربیت نہیں کی گئی ہے۔ اسی لیے وہ ان احکام و قوانین کو اپنی ذاتی آزادی پر پابندی سمجھتے ہیں اور اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔چنانچہ وہ وجودِ باری کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن احکام شرعیہ کا انکار کرکے اضطراب و بے چینی میں پڑجاتے ہیں ۔ پھر یہی عقلی تضاد استدلالی راستے کے بجائے ان کو جذباتیت کی راہ سے الحاد تک لے جاتا ہے ۔امام غزالی نے مختصر اور جامع عبارت میں بڑی اچھی وضاحت کی ہے کہ’’ فاسق معمولی شک کی بنا پر دین سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے پھر یہ شبہ اس کے اور اس کی لذتوں کے درمیان کی رکاوٹوں کو ختم کردیتا ہے۔ فاسق ذہنی شکوک وشبہات کے ازالہ کے بجائے ان کو غنیمت سمجھ کر فائدہ اٹھاتا ہے اور دین کی راہ میں لاحق ہونے والی مشکلات و مصائب سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے ۔یعنی دین سے بے ربط اور لذتوں میں انہماک کی وجہ سے کمزور ایمان والوں میں شکوک و شبہات زیادہ پیدا ہونے لگتے ہیں تاکہ وہ فطرت کی آواز پر لبیک کہنے اور دینی آزمائشوں سے خود کو بچا سکیں ۔
چوتھا سبب :
چوتھا سبب مغربی مادیت سے متاثر ہونا ہے۔آج کے نوجوانوں کے دل میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ مغرب سائنسی اور تہذیبی ترقی کا گہوارہ ، وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے مذہب کو علم سے الگ کر کے خالق کے تصور کو پس پشت ڈال دیا ہے۔اور ہم مسلمان ہونے کی وجہ سے کم علمی ، تہذیبی زوال اور ثقافتی بگاڑ کے دلدل میں پھنسے رہے ۔
درحقیقت یہ ایک اموشنل دلیل ہے جس کو کوئی بھی تنقیدی ذہن رد نہیں کرسکتا ۔ میڈیا پلیٹ فارمس، سوشل میڈیا، اور انٹرنیٹ کی مدد کے ذریعے نونہالوں اور نوجوانوں میں مؤثر طریقے سے الحادی خیالات کو پھیلانے میں خاصی توجہ دی گئی ہے۔
انٹرنیٹ اور الحاد کی ترویج:
مختلف طریقوں سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مدد سے نوجوانوں میں الحادی افکار کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ ذیل میں چند پلیٹ فارمس کا ذکر کیا جاتا ہے:
-1 ویب سائٹس، پیجز اور سوشل میڈیا پر مختلف گروپس تشکیل دینا اور ایسے مواد کے ساتھ ان کو تقویت دینا جو علمی افکار سے بالاتر ہوکر الحاد کا مطالبہ کرتا ہے، نیز ان خیالات کے بارے میں بحث و مباحثہ اور اوپن ڈسکیشن کے لیے پلیٹ فارم تیار کرنا۔
-2 مختلف ویب سائٹس پر تعلیمی کورسز، علمی لیکچرز، مختلف فورمس اور کانفرنسوں کی فراہمی اور نوجوانوں کے لیے مفت شرکت کا موقع فراہم کرنا۔
-3 انٹرنیٹ پر ایسا علمی مواد فراہم کرنا جو الحاد کی طرف بڑھاتا ہو، جیسے نیٹ پر دستیاب کتابیں، مقالے اور ویڈیوز وغیرہ۔
-4 نئے پیچز ،گروپس اور ویب سائٹس کو فروغ دینے کے لیے مختلف اشتہارات کااستعمال ، جو الحاد اور اور ملحدانہ فکر کی طرف لے جاتے ہیں۔
-5 ان نوجوانوں کو مدد اور تقویت فراہم کرنا جو الحاد سے دامن گیر ہوتے جارہے ہیں، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور تعاون کرنے کا موقع فراہم کرنا اور ان کو شہرت یافتہ بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کرنا۔
تحفظ کے ذرائع:
یہاں پر اب سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنی اولاد کو اموشنل الحاد کے گڑھے میں گرنے سے بچاسکتے ہیں؟
بچوں کو الحاد سے بچانے کے لیے مضبوط دینی حمیت ایک اہم ذریعہ ہے۔ذیل میں کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں جو بچوں کے فکری استحکام میں معاون ثابت ہوں گے ۔
-1 دین اور حالات سے ہم آہنگی ،فکری استحکام اور جذبات کو مستحکم بنانے کی طرف توجہ دینا جس سے وہ مصائب و آلام کا مقابلہ کرسکیں اور فکری چیلنجز سے نمٹنا ان کے لیے آسان ہو۔
-2 جسمانی ایکٹویٹیز کی حوصلہ افزائی کرتے رہنا، جو بچوں کے مزاج اور دماغی حالت کی بہتری میں معاون ثابت ہوتا ہے اور ان کے فکری استحکام کو مزید بہتر بناتا ہے ۔
-3 بچوں کی سوچ کو مثبت بنانا، نفع بخش چیزوں پر توجہ دلانے کی ترغیب دینا، مثبت افکار اور نیک فالی پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہنا ۔
-4 خود اعتمادی کی افزائش ،چھوٹے چھوٹے مقاصد کو پورا کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا ، ان کی جد و جہد کی تعریف کرنا اور ان کے انجام دیے ہوئے تمام کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنا ۔
-5 باہمی تعاون ،خاندانی مذاکرہ کا اہتمام کرنا ،معاشرے میں مل جل کر کام کرنا۔
اسی طرح دینی حمیت کو مستحکم کرنے کے اور بھی کئی اہم طریقے ہیں۔
-1 بچوں کو ان دینی اقدار اور عقائد کی تعلیم دینا ،جو ان کو دین سے قریب کرتے ہیں ،ان کے تعلق کو اللہ کے ساتھ مضبوط و مستحکم کرنا نیز اچھی اور بری تقدیر پر ان کا ایمان پختہ کرنا۔
-2 روحانی اور اخلاقی پہلو پر توجہ دینا ،نماز، دینی قرآت اور مختلف عبادتی سرگرمیوں میں شرکت کرنے پر حوصلہ افزائی کرنا ۔
-3 اموشنل مدد فراہم کرنا ،ان کے مسائل اور خدشات کو سننا ، جذبات کو سمجھنا اور مناسب دینی مشورے اور رہنمائی فراہم کرنا۔
-4 مناسب تعلیمی ذرائع جیسے کتابیں، نغمے اور مذہبی فلمیں فراہم کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ مذہبی اقدار اور عقائد کے مطابق ہوں۔
-5 سچائی ،دیانتداری ،رواداری ، رحم دلی اور دینی اخلاق کا تحفظ کرنا اور ان اخلاقیات کو ان کی روزمرہ کی زندگی میں نافذ کرنے کی ہمت افزائی کرنا۔
-6 بچوں کو مختلف دینی امور کے بارے میں تحقیق اور استفسار کرنے کی تعلیم دینا نیز حکمت اور تنقیدی مزاج کا قائل بنانا۔
ہمیں ایک معلم، مربی اور دین کا پیکر کامل بننے کی ضرورت ہے تاکہ اجتماعی اور انفرادی سطح پر بچوں کی حفاظت کے لیے ان کے ارد گرد ایک مضبوط فکری قلعہ بنائیں، جو ان کے ذہنوں کو گمراہ کن خیالات سے بچا سکے۔یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
ترجمہ :روید خان فلاحی،علی گڑھ
***

 

***

 ہمیں ایک معلم، مربی اور دین کا پیکر کامل بننے کی ضرورت ہے تاکہ اجتماعی اور انفرادی سطح پر بچوں کی حفاظت کے لیے ان کے ارد گرد ایک مضبوط فکری قلعہ بنائیں، جو ان کے ذہنوں کو گمراہ کن خیالات سے بچا سکے۔یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024