
مسلم ممالک میں اتحاد کے امکانات: حقیقت یا خواب؟
اگر اب بھی مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو اگلا ہدف کوئی بھی ہو سکتا ہے
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد مسلم ممالک نے یہ محسوس کیا کہ اسرائیل کا حملہ اب کسی بھی مسلم ملک پر ہو سکتا ہے۔ قطر ایسا ملک ہے جو امن کی کوششوں میں حصہ لیتا ہے اور ملکوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان کے مذاکرات ہوں یا اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاملات ہوں، قطر ایک مثبت رول ادا کرنے والا ملک رہا ہے۔ ایسے صلح جُو ملک پر حملہ کرنا بالکل خلافِ توقع تھا۔اب مشرق وسطیٰ کے سارے ممالک یہ محسوس کر رہے ہیں کہ برسوں امریکہ سے وفا داری نبھانے کے باوجود اسرائیل، امریکہ کی اندھی تائید کے ساتھ کسی بھی ملک پر حملہ کرسکتا ہے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود اسرائیلی عوام کی اکثریت ابھی بھی نتن یاہو کی حامی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بھی اسرائیل میں شدت پسندوں کی اکثریت ہے۔ یہودیوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ وہ نسلی طور پر سب سے برتر ہیں اس لیے وہ کسی بھی ملک پر حملہ کرنا، اس پر قبضہ کرنا اور اس طرح دنیا کو کنٹرول کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ گریٹر اسرائیل کا ناپاک مقصد یہودیوں کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں رہا۔ اسی ظالمانہ سوچ کے ساتھ اسرائیل جنگی کارروائیوں میں مسلسل مصروف رہا ہے۔ اگر سارے فلسطینی ارضِ فلسطین کو خالی کرکے جلا وطنی پر راضی بھی ہو جائیں تب بھی اسرائیل پڑوسی ممالک کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنے پر راضی نہیں رہے گا بلکہ وہ ان پر قبضہ کرنے کے لیے جنگی محاذ کو ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ وہ نسلی برتری کی گندی سوچ کے ساتھ کبھی اپنی جغرافیائی حدود پر قانع نہیں رہ سکتا۔ یہ اہلِ غزہ کی عظیم قربانیاں ہیں کہ تمام عرب ممالک کی جانب سے لڑتے ہوئے وہ تنہا صہیونیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اکیلے ہی تمام عرب ممالک کی جانب سے ڈھال بن کر ان کو امن فراہم کر رہے تھے۔اب اسرائیل کو یقین ہو چکا ہے کہ اہلِ غزہ بھوک اور پیاس کی زیادہ دن تک تاب نہیں لا سکیں گے اور آہستہ آہستہ لقمہ اجل بنتے چلے جائیں گے۔ لیکن اس کو یہ فکر بھی ستا رہی ہے کہ ابھی بھی حماس میں دم خم باقی ہے۔اس لیے اس نے قطر پر حملہ کیا ہے جہاں حماس کی باقی ماندہ قیادت موجود ہے۔اب تو وہ مصر اور سعودی عرب کو بھی دھمکی دے رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ عرب ملکوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔اب مسلم ملکوں کو یقین ہوگیا ہے کہ یہ صہیونی ملک گریٹر اسرائیل بنانے کے منصوبے سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے۔ ان کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ غرہ کے بعد اب ان کی باری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک اب محسوس کر رہے ہیں کہ اتحاد کے بغیر ان کا وجود خطرے میں ہے۔اسرائیل ترقی یافتہ اور پر رونق شہروں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے جہاں دنیا کی سب سے عالی شان عمارتوں اور بھاری انفراسٹرکچر کو تعمیر کیا گیا ہے۔ غزہ اور یمن کو مزید تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کی ٹوٹی ہوئی عمارتوں کو مزید تباہ کرنا بے مقصد ہوگا۔ اس لیے اب اس کی نظر عرب ریاستوں کے ترقی یافتہ پر رونق شہروں پر ہے جن کو تیل کی ساری دولت خرچ کر کے پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں بنایا گیا ہے۔ یہ خوبصورت شہر اب عرب حکم رانوں کی سب سے بڑی کمزوری بن چکے ہیں۔ اب ان کو احساس ہو رہا ہے کہ حماس، یمن اور ایران کی مزاحمت کتنی اہم تھی۔کاش یہ عرب ممالک بہت پہلے ان خطرات کا ادراک کرکے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لیتے۔ لیکن افسوس کہ لاکھوں فلسطینیوں کے گھر اجڑنے اور ہزاروں بچوں، مرد و خواتین کے خون کے بہنے کے بعد بھی اتحادِ امت کے آثار پیدا نہیں ہوئے ہیں۔لیکن جب اسرائیل نے، اپنے گریٹر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنے کے جنون میں مبتلا ہو کر ایک عرب ملک پر حملہ کیا تو عرب ممالک کو شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ آج نہیں تو کل ان کی باری آنے والی ہے۔اس واقعہ کے بعد اتحاد کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں جو بہت خوش آئند ہے۔ آج امتِ مسلمہ کا اتحاد کتنا اہم ہے اور اس سلسلے میں مسلم ممالک کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اس پر چند گزارشات پیش کی جارہی ہیں۔
امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت اور اہمیت قرآن کا اہم موضوع ہے۔ اسلامی تاریخ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب بھی مسلم ممالک میں دعوت و جہاد فی سبیل اللہ کی اسپرٹ ختم ہوئی تو مسلمان فکری اور عسکری میدانوں میں کمزور ہوتے چلے گئے۔چنانچہ اسی کے نتیجے میں عباسی خلافت بھی ختم ہوئی، اسی طرح خلافتِ عثمانیہ بھی زوال پذیر ہوئی، اسپین میں سقوطِ غرناطہ ہوا اور مغل سلطنت بھی زمین بوس ہوئی۔آج اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کا دائرہ ایک امن پسند ملک قطر تک پھیل گیا ہے تو یہ صرف ایک مسلم ملک کا نہیں بلکہ پوری امت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس وقت حالات کا سب سے بڑا تقاضا یہی ہے کہ مسلم ممالک اتحاد کی طرف سنجیدگی سے قدم بڑھائیں۔ایسا نہ ہو کہ ایک ملک اسرائیل سے نبرد آزما ہو تو دوسرا ملک اس کو تیل اور گیس سپلائی کر رہا ہو؟ قرآن ہماری ہدایت کے لیے کافی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں کے اندر اگر اتحاد نہ ہو تو ان کی ہوا اکھڑ جائے گی (سورۃ الانفال :۴۶) قرآن اتحادِ امت کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلم عوام فکری محاذ پر اسلام کے علم بردار بنیں اور مسلم حکم راں عسکری میدان میں سائنس وٹکنالوجی کو حاصل کرکے اپنے اپنے ملکوں کو مضبوط بنائیں (سورۃ الانفال :۶۰) افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بھی ایسا عالمی ادارہ موجود نہیں ہے جو مسلم ممالک کے مابین فوجی،معاشی،سماجی اور سیاسی اشتراک کا ذریعہ بنے اور وہ اس ادارہ کے ساتھ سنجیدگی و مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے رہیں۔OICمیں ستاون مسلم ممالک شامل ہیں لیکن ان میں اتحادِ فکر و عمل کا فقدان ہے جس کی وجہ سے یہ ادارہ دنیا میں بے اثر بن گیا ہے۔
قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا(سورۃ آل عمران :۱۰۳) اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ یہ آیت اتحاد کا صریح اور واضح حکم دیتی ہے۔ اللہ کی رسی سے مراد قرآن ہے اور وہ مقصد ہے جس کو قرآن امت کا مقصدِ وجود قرار دیتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت امت جہاں دینی محاذ پر افتراق کا شکار ہے وہیں سیاسی محاذ پر بھی ان کے درمیان تعاون واشتراک کا فقدان ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ(سورۃ الانعام:۱۵۹) ’’جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہ گروہ بن گئے، ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں‘‘ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ دینی محاذ پر گروہ بندی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔اسی طرح خود غرضی کی بنیاد پر حکم رانوں کا اپنی عوام سے بے نیاز ہو کر حکم رانی کرنا اور اپنے سیاسی مفادات کی بنیاد پر الگ الگ حکمتِ عملی کو اختیار کر کے اتحادِ عمل سے گریز کرنا بھی اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ ہے۔اگر ہر حکم راں یہ سوچے کہ حملہ میری حدود سے باہر کیا گیا ہے اس لیے مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو یہ خود غرضانہ سوچ ایک دن سب کے لیے تباہی کا باعث ہوگی۔ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بہترین مثال کے ذریعے سمجھایا کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے۔ ’’مومن آپس میں محبت، رحم، اور ہمدردی میں ایک جسم کی مانند ہیں‘‘ مزید آپؐ نے فرمایا ’’مومن، مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے‘‘۔ جس طرح افراد کے درمیان آپسی ہمدردی ایمان لازمی مظہر ہے اسی طرح اسلامی ریاستوں کے مابین بھی اتحاد و اشتراک لازمی ہے۔ایک ملک کے مسلمانوں پر اگر حملہ کیا جائے تو سارے مسلم حکم راں اس کو محسوس کریں اور مشترکہ طور پر مقابلہ کریں۔ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ امت ایک جسم کی طرح ہے، اس کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ آج غزہ، یمن، لبنان اور قطر پر جو حملے ہوئے ہیں ان کو سارے عالمِ اسلام پر حملہ تصور کیا جائے۔سیرت نبوی سے جو عملی مثال ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ مدینے میں رسول اللہ ﷺ نے تمام قبائل سے معاہدہ کیا تھا کہ مدینہ پر جب بیرونی حملہ ہو تو سب مل کر اس کا دفاع کریں گے جب کہ ان طبقات کے درمیان پہلے سے اختلافات تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اختلافات کے باوجود اشتراکِ عمل ہو سکتا ہے تو ایک امت کے اندر اتحادِ عمل کیوں نہیں ہو سکتا؟
موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی (OIC) کو فعال اور متحدہ بلاک کی صورت میں کھڑا کیا جائے اور مسلم ممالک کے درمیان متحدہ دفاعی معاہدہ کیا جائے جیسا کہ نیٹو ممالک کے درمیان ہے۔فلسطین، یمن، لبنان اور اب قطر کی حمایت کو صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ثابت کیا جائے۔تیل اور دیگر وسائل کو بطور اسٹریٹیجک ہتھیار استعمال کیا جائے جیسا کہ 1973 میں کیا گیا تھا۔اسلامی مالیاتی ادارے ایک دوسرے کو سہارا دیں اور سرمایہ اسرائیل یا اس کے حامی ممالک میں منتقل نہ ہو۔اسلامی فوجی اتحاد (جس کا اعلان سعودی عرب نے کیا تھا) کو صرف دہشت گردی کے خلاف ہی نہیں بلکہ جارحیت کا شکار مسلم ممالک کے دفاع کے لیے استعمال کیا جائے۔مشترکہ مشقیں، انٹلیجنس کا تبادلہ اور ٹیکنالوجی کا اشتراک بڑھایا جائے۔اسرائیل کی نسلی برتری کے جھوٹے بیانیے کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جائے۔مسلم دنیا کے قربانی دینے والے گروہوں کو دہشت گرد کہنے کے بجائے مقاومت ومزاحمت کار کے طور پر پیش کیا جائے۔
اسرائیل کی حکمت عملی کو سامنے رکھنا چاہیے۔اس کی حکمتِ عملی عربوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر بٹے ہوئے عرب ممالک پر آسانی سے حملہ کرنا ہے۔امن کا نقاب پہن کر جارحیت کو جائز بنانا ہے اور مسلم ممالک کو اندرونی خانہ جنگی میں الجھانا ہے۔لیکن یہودیوں کی کمزوری کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ۱۴۵۰ سال قبل ہی بتا دیا تھا جو آج بھی ظاہر ہے۔ لَن يَضُرُّوكُمْ إِلاَّ أَذًى وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الأَدُبَارَ ثُمَّ لاَ يُنصَرُونَ (سورۃ آل عمران :۱۱۱)’’یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستا سکتے ہیں اگر یہ تم سے لڑیں گے تو مقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے، پھر ایسے بے بس ہوں گے کہ کہیں سے اِن کو مدد نہ ملے گی‘‘۔ اس آیت میں یہودی قوم کی نفسیات کو بتلایا گیا ہے کہ ان کو جان بہت پیاری ہوتی ہے اور وہ سامنے سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔اہلِ غزہ پر وہ بمباری تو کرسکتے ہیں لیکن زمینی جنگ میں مٹھی بھر مجاہدین سے لڑ نہیں سکتے۔اسی وجہ سے حماس ابھی تک ان پر بھاری ہے۔وہ اپنی زمینی فوج کی ناکامی کا بدلہ معصوم شہریوں کو بھوک وپیاس میں مبتلا رکھ کر ان پر بمباری کرکے اور ان کو گولیوں سے نشانہ بناکر لے رہے ہیں۔ اسرائیل مسلمانوں کے جذبۂ شہادت کے آگے پہلے بھی ناکام رہا ہے، آج بھی ناکام ہے اور آئندہ بھی ناکام رہے گا۔اگر تمام مسلم ممالک مل کر ایک ساتھ اسرائیل کے خلاف محاذ آرا ہو جاتے تو اسرائیل کی دہشت گردی اور بربریت کا خاتمہ بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔ایسے وقت میں جبکہ قطر جیسے آزاد صلح جُو عرب ملک پر اسرائیل نے حملہ کر دیا ہے، اگر مشرقِ وسطیٰ کے مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو پھر شاید یہ کبھی متحد نہ ہو سکیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر مسلم ملک میں علماء، حکم راں، میڈیا اور عوام یک سو ہو کر سوچیں۔علماء امت کے اتحاد پر زور دیں، فرقہ واریت کی نفی کریں۔حکومتیں مشترکہ پالیسی، فوجی اتحاد، معاشی پابندیوں اور سفارتی دباؤ کو اختیار کریں۔عوام سوشل میڈیا پر آواز بلند کریں، مظلوموں کی مدد کریں اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔اور میڈیا سے منسلک لوگ حقائق کو سامنے لائیں اور مغربی بیانیوں کا توڑ کریں۔امتِ مسلمہ اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ فلسطین، قطر، یمن، لبنان اور دیگر مسلم علاقوں پر اسرائیلی جارحیت صرف ان ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت کا امتحان ہے۔ مسلمانوں کے اندر اتحاد کی اہمیت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اگر اب بھی مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو اگلا ہدف کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
***
***
امتِ مسلمہ اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ فلسطین، قطر، یمن، لبنان اور دیگر مسلم علاقوں پر اسرائیلی جارحیت صرف ان ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت کا امتحان ہے۔ مسلمانوں کے اندر اتحاد کی اہمیت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ اگر اب بھی مسلم ممالک متحد نہ ہوئے تو اگلا ہدف کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 ستمبر تا 04 اکتوبر 2025