مسلم قیادت کے سوال پر ملی رہنماؤں کا رویہ

عمر خالد کی ضمانت پر سورا بھاسکر نے عدالت کو دکھایا آئینہ متنازعہ مہنت کی دیدہ دلیری پر یوپی پولیس کی خاموشی، چہ معنی دارد؟

محمد ارشد ادیب

فیکٹ چیکر محمد زبیر پر اور دیگر مسلمان مقدمات کے جال میں بہار میں اوقاف کے قبرستان میں مدفون نشانات مٹاکر پر سرکاری ہاسٹل بنانے کی کوشش
کانپور میں اسرائیل اور مودی کے نام پر ٹھگی- جوان بنے رہنے کے چکر میں کروڑوں کا نقصان
شمالی بھارت میں ان دنوں ایک قوم پرست ماڈرن مولانا کا انٹرویو موضوع بحث بنا ہواہے۔ دارالحکومت دلی میں قیام پذیر مولانا نے جنوبی ہند سے آنے والے آل انڈیا مسلم مجلس کے رہنما پر تقسیم کی سیاست کرنے کا الزام لگا کر مسترد کر دیا۔مولانا اپنی تنظیم کو ملی اور مذہبی تنظیم بتاتے ہیں لیکن سیاست میں بھی پورا دخل رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی قیادت کسے کرنا چاہیے اور کسے سیاست سے دور رہنا چاہیے یہ بھی وہی طے کرتے ہیں۔ ان کے اس انٹرویو پر ملی تنظیموں کے ساتھ عام مسلمانوں میں بھی بے چینی پیدا ہو گئی کیونکہ انہوں نے خود کو سچا قوم پرست لیڈر ثابت کرنے کے لیے مرکزی حکومت کے متنازعہ منصوبے این آر سی کی بھی حمایت کر دی۔ یاد رہے کہ این آر سی کے خلاف پورے ملک کے مسلمان انصاف پسند قوتوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ دلی کے شاہین باغ میں خواتین نے طویل ترین دھرنا دیا تھا جس کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنائی دی تھی۔ اسی دھرنے میں مسلم نوجوانوں کی نئی قیادت ابھرتی ہوئی دکھائی دی جو آج سلاخوں کے پیچھے ہے۔ اب مولانا موصوف اپنے ہی بیان میں پھنستے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
جے این یو کے کچھ نوجوانوں نے یونائیٹیڈ انگیسٹ ہیٹ کے بینر تلے سماجی نا برابری، نا انصافی اور مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد جیسے بنیادی مسائل اٹھائے لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ ان نوجوانوں کو دلی فسادات کے دوران مختلف الزامات لگا کر جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ انہیں چار سال سے ضمانت بھی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج کئی بار یہ اصول واضح کر چکے ہیں کہ ضمانت ہر ملزم کا حق ہے جیل استثنیٰ ہے لیکن چار سال سے زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزار چکے عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر، گلفشاں اور دیگر ملزمین کو ضمانت کے بجائے تاریخ پر تاریخ مل رہی ہے۔ عمر خالد کو دلی ہائی کورٹ سے پھر 25 نومبر کی نئی تاریخ ملی ہے۔ اب تو قانونی ماہرین بھی ماننے لگے ہیں کہ بیل از رول صرف بڑے اور مالدار لوگوں کے لیے ہے۔ سماجی کارکن اور فلم اداکارہ سورا بھاسکر نے ایک سیمینار میں اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج میں آزاد گھوم رہی ہوں تو صرف اس وجہ سے کہ میں اعلیٰ ذات کے ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئی ہوں۔انہوں نے عدالتی نظام کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ چار سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ میری شادی بھی ہو چکی ہے اور میں ایک بیٹی کی ماں بھی بن چکی ہوں لیکن جے این یو کے میرے ساتھی ابھی تک جیل میں بند ہیں ضمانت تو دور ان کے کیس کا ٹرائل بھی شروع نہیں ہوا ہے” سورا بھاسکر کے اس بیان میں مسلمانوں کے ملی رہنماؤں کو بھی اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جو نوجوان قوم و ملت کی رہنمائی کرنے کے قابل بن سکتے تھے وہ آج سلاخوں کے پیچھے کیوں ہیں؟ کیا ہمارے ملی رہنماؤں نے ان کی رہائی اور انصاف کے لیے کوئی مہم چلائی ہے یا صرف اپنی ذاتی مفادات کے لیے آپس میں ہی دست وگریباں ہیں؟
شمال کو جنوب سے سبق سیکھنے کی ضرورت
جنوب کے مقابلے میں شمالی بھارت میں مسلمانوں کی زیادہ آبادی ہے۔ ملی تنظیموں اور اداروں میں بھی ان کا بول بالا ہے لیکن عام مسلمانوں سے بات کی جائے تو عام طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ شمال کے مقابلے میں جنوب کے مسلمان زیادہ خوشحال اور امن و چین میں ہیں۔ مسلم مجلس کے ایڈووکیٹ وصی احمد نے ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جنوب میں کئی سیاسی پارٹیاں مسلم قیادت میں کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں۔ آبادی کم ہونے کے باوجود انہیں سیاسی اقتدار میں بھی حصہ داری حاصل ہے۔ دوسری جانب شمال میں کئی کوششوں کے باوجود مسلم قیادت سیاسی حصہ داری حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق شمال کے مسلمانوں کو جنوب کے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے خاص طور سے شمالی بھارت کے ملی رہنماؤں کو جو مسلکی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں انہیں تمام مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم تنظیمیں آپسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر قوم و ملت کی رہنمائی کریں۔ بھارت کے مسلمان بھی ان دنوں چو طرفہ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ کہیں انہیں ماب لینچنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کہیں ان کے معاشی بائیکاٹ کی اپیلیں ہو رہی ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو غیر مجاز بتا کر مسمار کیا جا رہا ہے۔ ان کے لباس اور خوراک کو نشانہ بنا کر نفرت کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو سیاسی طور پر اچھوت بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
کوئی ان کے حق میں تو دور ان کے خلاف ہونے والی ناانصافی پر منہ کھولنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی مسلم لیڈر ان کے حق کی بات کرتا ہے تو اسے بھڑکاؤ بھائی جان کہنا یا اس کی سیاست کو بانٹنے والی بتانا اس کی تضحیک و تحقیر ہے۔ وصی احمد ایڈووکیٹ کے مطابق کسی بھی جماعت یا تنظیم سے طریق کار پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی قیادت یا مقصد کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
یو پی کے یوگی راج میں جنوں کا نام خرد رکھ دیا کے مصداق انصاف کے پیمانے الٹے ہو گئے ہیں۔ ڈاسنا کے متنازعہ مہنت کی نفرت انگیز بیان بازی پر اسے گرفتار کرنے کی بجائے صرف حراست میں لے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یتی نرسنگھانند نے چھوٹتے ہی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر زور دار حملہ بولا اور انہیں راون سے بھی برا بتا دیا جبکہ ہندو مذہب میں راون کو برائی کی علامت مانا جاتا ہے اور پورے شمالی بھارت میں دسہرے کے موقع پر اس کے پتلے جلائے جاتے ہیں۔ یتی نرسنگھانند نے پیغمبر اسلام کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پتلے جلانے کی بات کہی تھی جس سے مسلمانوں میں ہیجان برپا ہو گیا۔ یو پی سمیت مختلف ریاستوں میں اس متنازعہ مہنت کے خلاف معاملے درج ہو چکے ہیں۔ یو پی کے وزیر اعلیٰ کا ایک بیان بھی آیا ہے کہ کسی بھی مذہب یا عقیدہ کے ماننے والی عظیم ہستیوں یا دیوی دیوتاؤں کی بے حرمتی ناقابل قبول ہے لیکن احتجاج کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یوگی کے اس بیان کے بعد نرسنگھانند کا متنازعہ ویڈیو شیئر کرنے والے فیکٹ چیکر محمد زبیر پر مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ ان پر مسلمانوں کو بھڑکانے کا الزام لگانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ احتجاج کرنے والے درجنوں مسلمانوں پر بھی کیس درج ہوئے ہیں لیکن متنازعہ پجاری جس نے براہ راست وزیر اعلی کو چیلنج کیا ہے، پولیس اس کی اس دیدہ دلیری پر خاموش ہے۔ سیاسی مبصرین بھی حیران ہیں کہ آخر یو پی پولیس کے ہاتھ کس نے باندھ رکھے ہیں کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کو دھمکی دینے کے باوجود اسے گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہے؟
بہار میں قبرستان بھی محفوظ نہیں!
مرکزی حکومت نے جب سے وقف ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا ہے ملک کے مختلف حصوں سے وقف اراضی کی شکایتیں سامنے آرہی ہیں۔ یو پی حکومت وقف بورڈ کے علاوہ محکمہ مال گزاری سے مسجد مدرسہ قبرستان اور کربلا کے دستاویزی ریکارڈ چیک کروا رہی ہے۔ اسی دوران بہار کے ضلع مدھوبنی کے پھول پراس مقام پر ایک قدیم قبرستان کو اسکول کا ہاسٹل بنانے کے لیے ہموار کیا جا رہا ہے۔ مقامی باشندوں نے الزام لگایا ہے کہ اس قبرستان میں دفن لاشوں کے واقعات جے سی بی سے کھود کر نکال لیے گئی اور قبروں میں تازہ مٹی بھر دی گئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق جے ڈی یو حکومت کی ایک وزیر اس زمین پر اسکول کا ہاسٹل بنوانا چاہتی ہیں اس کے لیے قبرستان کے نشانات مٹائے جا رہے ہیں۔ وقف اراضی پر سرکاری اور غیر سرکاری قبضے کی خبریں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اوقاف کی حفاظت کے نام پر ترمیمی بل پیش کرنے والے حکم راں محاذ کے اتحادی زمین کے اس قدر بھوکے ہیں کہ انہیں انسانی لاشوں کے باقیات مٹانے میں بھی کوئی عار نہیں رہا۔
اسرائیل اور مودی کے نام پر جوان بنانے کی ٹھگی
یو پی کے شہر کانپور سے ٹھگی کا ایک دلچسپ معاملہ سامنے آیا ہے۔ راجیو دوبے اور اس کی بیوی رشمی نے کانپور کے لوگوں کو ہمیشہ جوان بنائے رکھنے کا لالچ دیکر ایک ایسی مشین بیچ دی جو ان کے بقول اسرائیل میں تیار کی گئی تھی۔ مشین خریدنے والوں کے مطابق ان سے کہا گیا کہ وزیر اعظم مودی اسی مشین سے تھیراپی لے کر جوان بنے ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ اس جوڑے کے جھانسے میں آگئے اور مشین فروخت کرنے والی نیٹ ورکنگ کمپنی میں کروڑوں روپے لگا بیٹھے۔ مشین کی ڈلیوری ملنے پر اصلیت سامنے آئی تو سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔ شاید اسی کو کہتے ہیں لالچ بری بلا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024