مسلم دشمنی اعصاب پر سوار! گنگا کی آلودگی نظرانداز؟

اکھاڑا پریشد کا کمبھ میلے میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کا فیصلہ

اکھلیش ترپاٹھی

گنگا کی صفائی کے مسئلہ پر بدستور خاموشی
آل انڈیا اکھاڑا پریشد 2025 کے مگھ کمبھ میلے میں مسلمانوں کے داخلے اور ان کی تجارتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پریشد اس اقدام کی تائید کے لیے سنتوں، سادھوؤں اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے۔
اتر پردیش حکومت 2025 کے مگھ کمبھ میلے کے کامیاب انعقاد کے لیے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ انتظامات کی مؤثر نگرانی کے لیے خصوصی ضلع مجسٹریٹ (ڈی ایم) اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔ حفاظتی انتظامات کو مزید مضبوط اور طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے، جبکہ میلے کے لیے علیحدہ بستی بھی تعمیر کی جا رہی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب آل انڈیا اکھاڑا پریشد کی جانب سے مسلمانوں کے داخلے اور ان کی تجارتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ اکھاڑا پریشد کے دو روزہ اجلاس میں کیا گیا، جس میں پریشد کے تیرہ وابستہ اکھاڑوں کے سادھوؤں نے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو میلے میں داخل ہونے اور تجارتی سرگرمیوں میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔ سادھوؤں کی شناخت کی تصدیق کے لیے شناختی کارڈ کے اجرا کا بھی مطالبہ کیا گیا، کیونکہ ماضی میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جب مسلمانوں نے خود کو سادھو ظاہر کیا تھا۔ اس پس منظر میں پریشد نے داخلے کے مقامات پر سخت نگرانی اور شناختی ثبوت کے بغیر کسی کو داخلے کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔
پریشد نے مزید مطالبہ کیا ہے کہ اتر پردیش حکومت میلے میں شامل ہونے والے سنتوں اور سادھوؤں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی انتظامات کو مزید مضبوط کرے تاکہ اتنے بڑے مذہبی اجتماع کی حفاظت میں کوئی کمی نہ رہے۔
یہ مطالبہ دراصل کانوڑ یاترا کے دوران ایک واقعے کے باعث پیدا ہوا، جب یہ الزام لگایا گیا کہ مسلمانوں کے زیر انتظام ہوٹلوں اور دھابوں نے ہندو عقیدت مندوں کو طے شدہ سبزی خور کھانوں کے بجائے غیر سبزی خور کھانے فراہم کیے تھے۔ اکھاڑا پریشد کا موقف ہے کہ اس واقعے سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے، اسی لیے مسلمانوں کو میلے سے دور رکھنے اور ان کی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہ پابندی مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے اور ان کے معاشی اثر کو کمزور کرنے کی کوشش محسوس ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ یہ کوئی حقیقی مسئلہ حل کرنے کا قدم ہو۔ قوی امکان ہے کہ اس میں حکم راں بی جے پی کا کردار ہے، کیونکہ اکھاڑا پریشد کے سادھوؤں نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کی۔ ریاستی حکومت کا اس فیصلے پر اثر واضح ہے۔
اس کے جواب میں آل انڈیا مسلم جماعت کے قومی صدر مولانا مفتی شہاب الدین رضوی بریلوی نے اتر پردیش حکومت سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میلہ اتحاد، امن اور مذہبی ہم آہنگی کا موقع ہے اور اکھاڑا پریشد کا فیصلہ مسلمانوں کو شرکت سے روک کر سماجی تقسیم کو مزید گہرا کرے گا۔ مولانا رضوی نے متنبہ کیا کہ اس قسم کے اقدامات فرقہ واریت کو فروغ دے سکتے ہیں اور ملک کے سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
مولانا نے مزید کہا "اکھاڑا پریشد کا فیصلہ فرقہ واریت کو فروغ دے رہا ہے اور اس طرح کے اقدامات صرف معاشرتی تفریق پیدا کرتے ہیں۔ میں ریاستی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس فیصلے کو منسوخ کرے اور ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے میں ملوث ہیں۔”
دوسری طرف، اکھاڑا پریشد کے اس فیصلے کو شنکر آچاریہ اویمکتیشورانند سرسوتی کی حمایت حاصل ہے، جنہوں نے وارانسی میں کہا کہ جیسے مکہ اور مدینہ میں ہندوؤں کا داخلہ ممنوع ہے، ویسے ہی مسلمانوں کو بھی کمبھ میلے میں شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا "مکہ اور مدینہ مسلم مقدس مقامات ہیں اور ہندوؤں کا وہاں جانا ممنوع ہے۔ اسی طرح کمبھ ہمارا مذہبی تہوار ہے، اس میں مسلمانوں کا کوئی کام نہیں۔”
شنکر آچاریہ کی حمایت سے اکھاڑا پریشد کے موقف کو تقویت ملتی ہے، لیکن ان کا کمبھ میلے اور مکہ کے موازنہ کرنا مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ مکہ اور مدینہ ایک غیر ملکی ملک میں واقع ہیں، جبکہ بھارتی حکومت کا اختیار بھارت کے اندرونی معاملات پر ہے۔ مزید برآں، بھارت کی طویل تاریخ میں ہندو اور مسلمان ساتھ رہتے، ایک دوسرے کے تہوار مناتے اور خوشیاں بانٹتے رہے ہیں۔
اکھاڑا پریشد ایک نئی اور تقسیم کرنے والی روایت قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے۔ یہ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مناسب، کیونکہ یہ قوم کے اتحاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور کمبھ میلے کی صدیوں پرانی روحِ شمولیت کو بگاڑ سکتا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024