مسلم دنیا نے کھوئی اپنی ایک با اثر آواز

ابراہیم رئیسی کے بعد محمد مخبر ایران کے عبوری صدر

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

آئین کے مطابق پچاس دنوں کے اندر نئے صدارتی انتخابات
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جو پچھلے دنوں آذربائیجان کے پہاڑی سرحدی علاقے میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئے، مکمل طور پر حکومت کے وفادار تھے، ان کا انتقال ایران کے لیے شدید دھچکا ثابت ہوسکتا ہے۔
ہیلی کاپٹر کے حادثے سے رونما ہونے والی تبدیلیاں ایرانی ریاست کے لیے اہم اثرات مرتب کرسکتی ہیں، جو کہ فی الوقت ملکی چیلنجوں اور علاقائی اور بین الاقوامی محاذ آرائی سے دوچار ہے۔
ابراہیم رئیسی کون تھے؟
1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد سے، ابراہیم رئیسی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک پر عزم حمایتی اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ایک ممتاز حامی کے طور پر کام کیا تھا۔2021 میں صدر بننے سے پہلے، ابراہیم رئیسی سپریم لیڈر کے دائرہ کار میں، عدلیہ کی وزارت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں 2006 سے ماہرین کی اسمبلی میں خدمات انجام دیں، ایک ایسا ادارہ جو سپریم لیڈر کی تقرری اور نگرانی کرتا ہے۔اپنی کم گوئی اور فصاحت کی کمی کے باوجود، خیال کیا جاتا تھا کہ 63 سالہ رئیسی کو 85 سالہ خامنہ ای کی جگہ سپریم لیڈر کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
ایک متنازعہ سیاسی ریکارڈ
مقامی طور پر، ابراہیم رئیسی کی صدارت حکومت کے لیے ایک قانونی بحران اور سماجی چیلنجوں کا سبب تھی۔ انہوں نے متنازعہ طور پر 2021 کے صدارتی انتخابات میں امیدواروں کی جانچ کرنے والی گارڈین کونسل کی جانب سے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو نامنظور کیے جانے کے بعد اب تک کے سب سے کم ووٹ حاصل کرکے فتح حاصل کی تھی۔اپنے قدامت پسند رائے دہندگان کو خوش کرنے کے لیے، انہوں نے اخلاقی پولیس کو دوبارہ متحرک کیا اور معاشرے پر مذہبی پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔ ان کے دور میں ایران کی معیشت کو حکومتی کنٹرول کے تحت لانے کے ساتھ ساتھ امریکی پابندیوں کی وجہ سے نقصان بھی اٹھانا پڑا اور ابھی بھی وہ اس سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے تہران کی جانب سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے حق میں اٹھائی جانے والی آواز بیرون ملک اشتعال انگیزیوں کے جواب میں شدت اختیار کر گئی ہے۔
ابراہیم رئیسی کی صدارت میں گھریلو انتشار کے ساتھ ساتھ ایران کے علاقائی اور بین الاقوامی کردار میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔سپریم لیڈر کے طور پر، خامنہ ای خارجہ پالیسی پر حتمی رائے رکھتے ہیں۔ لیکن رئیسی نے ایک ایسی ریاست کی صدارت کی جس نے اپنے مخالفین، خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف تصادم کا راستہ جاری رکھا۔جس کی وجہ سے ایران مغربی دنیا سے آہستہ آہستہ دور ہوتا چلا گیا۔
رئیسی کی قیادت میں ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے سے گریزاں رہا جس کی وجہ سے اسے بڑھتی ہوئی امریکی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس کے باوجود ایران نے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام میں اضافہ کیا ہے، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ایران آنے سے روکا ہے اور جوہری صلاحیت والی ریاست بن گیا۔
رئیسی نے اپنے پیشرو حسن روحانی کی "مشرق کی طرف دیکھو” کی پالیسی کو بھی جاری رکھا۔ اس مقصد کے لیے انہو نے چین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلقات کو آگے بڑھایا۔بدلے میں بیجنگ نے ایرانی تیل درآمد کرنا شروع کیا اور مارچ 2023 میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک سفارتی معاہدے کی ثالثی کرکے ایران کی مالی اور سفارتی مدد کی۔
رئیسی کی صدارت میں ایران، امریکہ اور مغرب مخالف تنازعات کے اتحادی کے طور پر کام کرتا رہا۔ یوکرین میں استعمال کے لیے روس کو جنگی ڈرون فراہم کرتا رہا اور مشرق وسطیٰ میں مختلف علاقائی گروپوں کو اسلحہ فراہم کرتا رہا۔
7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے، خامنہ ای اور رئیسی کی قیادت میں ایران نے اپنے علاقائی اتحادیوں کو اسرائیل اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال کرنے کے درمیان ایک نازک توازن برقرار رکھا اور دونوں ممالک کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کیا، جو روایتی طور پر اس کے دشمن رہے ہیں۔ اگرچہ رئیسی خارجہ پالیسی کے لیے براہ راست ذمہ دار نہیں رہے، لیکن حکومت کی جانب سے خود کو قائم بین الاقوامی نظام سے مزید دور کرنے اور مغرب کے مخالف ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوششوں میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا ۔
صدرات میں تبدیلی کے معنی
رئیسی سپریم لیڈر خامنہ ای کے ایک طویل عرصے سے وفادار، حکومت کے اندرونی معاملات پر گرفت رکھنے اور حل کرنے والے اور ان کے ممکنہ جا نشین تھے۔ان کے جانے کے بعد نتیجہ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کو استوار کرنا اور روایتی مخالفین کے خلاف حسابی تصادم کو آگے بڑھانے کی شکل میں سامنے آسکتا ہے۔
رئیسی اور ہندوستان-ایران کے تعلقات
ابراہیم رئیسی اور ان کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان ایران کی چابہار بندرگاہ پر ہندوستان کی کچھ بڑی سرمایہ کاری کے اختتام کی کلید تھے، جو پاکستان میں چین کی مالی امداد سے چلنے والی گوادر بندرگاہ سے صرف 200 کلومیٹر دور واقع ہے جو وسطی ایشیا کے راستے روس کے ساتھ ہندوستان کے رابطے کے عزائم حاصل کرنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔وزیر خارجہ ہند ڈاکٹر ایس جے شنکر نے اس سال جنوری میں چابہار پورٹ ڈیل اور شمال-جنوبی کوریڈور پر پیشرفت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایران کا دورہ کیا تھا۔
ایران، انٹرنیشنل نارتھ-ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) کے مرکز میں ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی، جہاز رانی کے وزیر سربانند سونووال نے دونوں ممالک کے لیے ایک اہم جیو اکنامک پیش رفت میں اگلے دس سالوں کے لیے چابہار بندرگاہ کو چلانے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔نئی دہلی برکس (برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ) میں شامل ہونے کے لیے تہران کا کلیدی حامی رہا ہے، یہ پیشرفت ستمبر 2023 میں جنوبی افریقہ برکس سربراہی اجلاس کے دوران ہوئی۔اس سے پہلے نئی دلی کی گلیاروں میں، تہران کی نئی دلی کی قیادت میں وائس آف دی گلوبل ساؤتھ سمٹ کے لیے حمایت کا بڑے پیمانے پر اعتراف کیا گیا تھا۔ایرانی مفادات کے خلاف واشنگٹن کی مسلسل کوششوں کے باوجود، یہ ہندوستان ہی تھا جس نے 2018 میں اپنے ثابت قدم سفارتی سرمائے کے ذریعے چابہار بندرگاہ سے متعلق سرمایہ کاری کے لیے امریکہ سے چھوٹ حاصل کی۔ تہران نئی دلی کی جیو اکنامک اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور یہی صحیح پہچان ہے جس نے رئیسی کے اقتدار کے دوران دونوں ممالک کو قریب کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے تعزیتی پیغام میں رئیسی کے "ہندوستان-ایران دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں شراکت” کی جانب اشارہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں رئیسی کی قیادت میں کیا پیش رفت حاصل کی ہے۔
تاہم، ان کی وفات کے بعد بھی ان کے ناقدین، خاص طور سے مغربی ناقدین، انہیں ایک سخت گیر شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس نے عوامی اختلاف رائے کو بالجبر رد کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حادثہ واقعی ایک میکانکی ناکامی تھی یا تخریب کاری یا کسی بڑی سازش کا حصہ؟ مزید برآں، ابراہیم رئیسی اور امیر عبداللہیان کو سیکیورٹی ایجنسیوں نے ایک ہی ساتھ چالیس سالہ پرانے ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کی اجازت کیسے دے دی؟ کیا یہ واقعی ایک سازش تھی یا اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ یہ صرف وقت ہی بتاسکے گا۔ ان کی ہلاکت کے بعد ایران میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں کہ شاید ان کی جگہ آیت اللہ خامنہ ای کے صاحبزادے مجتبیٰ خامنہ ای کو ایران کا نیا صدر اور خامنہ ای کا جانشین مقرر کیا جاسکتا ہے جو کہ اس پورے واقعے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔تاہم ایرانی حکومت نے اس حادثے کو سازش قرار دینے میں احتیاط سے کام لیا ہے اور اپنے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کی شمولیت کو بھی خارج از امکان قرار دیا ہے، جو کہ سیاسی سطح پر ایک بڑا اور دور رس اثر رکھنے والا بیان قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

***

 حسین امیر عبداللہیان کون تھے؟
حسین امیر عبداللہیان ایران کے وزیر خارجہ تھے، جو ملک کے نیم فوجی پاسداران انقلاب کے قریبی و سخت گیر حامی تھے اور مغرب کا سامنا کرتے ہوئے ملک کے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کی نگرانی بھی کررہے تھے۔
امیر عبداللہیان نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد تہران کی حکومت کے سخت گیر رویے کی حمایت کی تھی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکہ کو معاہدے سے الگ کر دیا تھا۔ انہوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حامی صدر ابراہیم رئیسی کے ماتحت خدمات انجام دیں اور ان کی پالیسیوں پر عمل کیا۔
ساتھ ہی امیر عبداللہیان نے 2023 میں علاقائی حریف سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات تک پہنچنے کی کوششوں میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ یہ اقدام اسرائیل اور حماس کی جنگ کے بعد شروع ہونے والی کشیدگی کا شکار ہوگیا۔
امیر عبداللہیان نے 2011 سے 2013 تک علی اکبر صالحی کے ماتحت وزارت خارجہ میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ماتحت رہے۔ جنہوں نے اعتدال پسند صدر حسن روحانی کی انتظامیہ کے تحت طے پانے والے جوہری معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
لیکن ظریف اور امیر عبداللہیان کے درمیان ایران کی خارجہ پالیسی میں اندرونی اختلافات کی وجہ سے آپسی اختلاف ہوگیا تھا۔ ظریف نے انہیں عمان میں سفیر کی پیشکش کی، جو کہ سلطنت کے طویل عرصے سے ایران اور مغرب کے درمیان بات چیت کرنے والے کے طور پر خدمات انجام دینے کی وجہ سے ایک اہم عہدہ ہے، لیکن امیر عبداللہیان نے انکار کر دیا۔ چنانچہ وہ 2021 میں اپنے انتخاب کے ساتھ رئیسی کی قیادت میں وزیر خارجہ بن گئے۔ انہوں نے ایرانی حکومت کے موقف کی حمایت کی اور 2022 میں ہونے والے بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہروں کی مذمت کی۔
اسرائیل-حماس جنگ کے دوران، انہوں نے غیر ملکی حکام اور حماس کے رہنماؤں سے ملاقاتیں جاری رکھیں۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کی دھمکی بھی دی اور اپریل میں اسرائیل پر حملے کی تعریف بھی کی۔ انہوں نے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی پاکستان کے ساتھ فضائی حملوں کے مختصر تبادلے پر ایران کے ردعمل کی بھی نگرانی کی اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ سفارت کاری پر کام بھی کیا، جن کے ساتھ ماضی میں ایران کے تعلقات کشیدہ رہے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024