مسلم اکثریتی علاقے کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کرنے کے مطالبات

کیا مسلمانوں کے خلاف دائیں بازو کی جماعتیں سازش رچ رہی ہیں؟

نور اللہ جاوید

بنگلہ دیش سے دراندازی اور مسلم شرح پیدائش میں اضافے کے پروپیگنڈے کے ذریعہ شکنجہ کسنے کی کوشش!
مسلم تنظیموں اور اداروں کو تدارک کے لیے بروقت حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں پہلے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا ایک بیان ملک کے تمام قومی و علاقائی اخبارات اور نیوز چینلوں پر چھایا رہا کہ2041تک آسام مسلم اکثریتی صوبہ بن جائے گا۔ بسوا سرما کے اس بیان کو زمینی حقائق اور اعدادو شمار کے تناظر میں جانچے اور تجزیہ کیے بغیر ہی ٹی وی چینلوں پر مسلم مخالف بحثوں کا سلسلہ دراز ہوگیا۔اس کے بعد اسی ہفتے پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس شروع ہونے کے دوسرے دن ہی بنگال بی جے پی کے صدرنے جو مرکز میں وزیر مملکت برائے تعلیم بھی ہیں، وزیر اعظم سے ملاقات کی اور مغربی بنگال کے شمالی اضلاع کو ریاست سے الگ کیے بغیرہی ایک الگ خطہ بناکر شمال مشرقی ریاستوں سے جوڑنے کی درخواست کی۔اس کے بعد جمعرات کو جھارکھنڈ کے گڈا لوک سبھا حلقے سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ نشینت کانت دوبے نے لوک سبھا کے فلور پر دو بڑےاور سنگین دعوے کیے ۔پہلا دعویٰ انہوں نے یہ کیا کہ جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں قبائلیوں کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہےاور ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی تارکین وطن آباد ہورہے ہیں ۔قبائلی خواتین سے شادی کرکے انہیں مسلمان بنایاجارہا ہے۔دوسرا دعویٰ انہوں نے یہ کیا کہ بنگال کے دو اضلاع مرشدآباد اور مالدہ اور بہار کے تین اضلاع کشن گنج ، کٹیہار اورارریہ میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی بنگلہ دیشی درانداز آباد ہورہے ہیں۔ اس سے نہ صرف ڈیموگرافی تبدیل ہورہی ہے بلکہ ملک کی سیکورٹی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔انہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بنگال کے دو اضلاع مرشدآباد ، مالدہ اور بہار کے کشن گنج، کٹیہار اور ارریہ کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے تحت کردیا جائے اور اس کے بعد یہاں این آر سی نافذ کیا جائے۔ دوبے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے سے ہندوؤں کا جبراً انخلا کیا جارہاہے۔دوبے کے اس بیان پر پارلیمنٹ میں ہی ترنمول کانگریس کے سینئر ممبر پارلیمنٹ سوگاتا رائے نے سخت تنقید کی اور کہا کہ پارلیمنٹ کے اس فلور پر اس قدرخطرناک فرقہ وارانہ بیان آج تک کسی نے نہیں دیا ہے۔ترنمول کانگریس کے دیگر ارکان پارلیمنٹ نے بھی اس ایشو کو اٹھایا کہ بنگال کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔مگر آج ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف سیاسی بیانات ہیں اورلوک سبھا انتخابات میں ہزیمت کے تدارک کی کوشش ہے یا پھر بنگال ، آسام اور بہار کے اس خطہ کو جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اس میں آباد مسلمانوں کے خلاف کسی بڑے منصوبے کا آغاز ہے؟آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں پر گہری نظر رکھنے والےبتاتے ہیں کہ سنگھ پریوار اپنے کسی منصوبے کا برملا اظہار کرنے اور اس کی تکمیل کے لیے کوششوں کا آغاز کرنے سے قبل ماحول سازی کرتی ہے اور بیانیہ مرتب کرتی ہے اور اس کے بعد ہی اس منصوبے پر کام کرتی ہے ۔ کہیں نشینت کانت دوبے، ہیمنت بسوا سرما اور سوکانت مجمدار کے یہ بیانات کسی منصوبے کا حصہ تو نہیں ہیں۔المیہ یہ ہے کہ جب بہار کے تین اضلاع کشن گنج ، کٹیہار اور ارریہ کو الگ کرنے کے سوال پر بہار کی حکم راں جماعت جنتادل یو خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔اس اندیشے کا اظہار اس لیے کیا جارہا ہے کہ اس سے قبل ان علاقوں سے متعلق مسلمانوں کی آبادی اور بنگلہ دیش سے دراندازی کے دعوے کیے جاتے تھے مگر اب ایک قدم بڑھ کر ان علاقوں کو مرکزی خطہ قرار دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ملک کی سیکورٹی کے لیے یہ قدم اٹھایا جانا چاہیے۔آر ایس ایس کے منصوبہ سازوں کے حوالے سے یہ بات آچکی ہے کہ بنگال کے مسلم اکثریتی علاقہ مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناج پور، جنوبی دیناج پور ، کوچ بہار، ریاست بہار کے کشن گنج، کٹیہار اور ارریہ اور اس سے متصل آسام کے مسلم اکثریتی اضلاع کو علیحدہ خطہ بنادیا جائے اور اس کو مکمل طور پر مرکزی حکومت کے زیرکنٹرول کردیا جائے۔
اس پورے خطے کو علیحدہ کرنے سے مرکزی حکومت کو کیا حاصل ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ بھارت و بنگلہ دیش کی سرحد کی نگرانی مرکزی فورسیس کرتی ہیں اور مرکزی فورسیس کو سرحدی اضلاع کے پچاس کلومیٹر کے اندر بے شماراختیارات حاصل ہیں۔اس کے باوجود اگر دراندازی ہورہی ہے اس کے لیے بین الاقوامی سرحد پر تعینات مرکزی فورسیس اور ان کے باس یعنی مرکزی وزارت داخلہ جس کا چارج گزشتہ پانچ سالوں سے امیت شاہ کے پاس ہے ذمہ دار ہیں۔یہ سوال اپوزیشن جماعتوں کو پوچھنا چاہیے کہ مرکزی فورسیس سرحدوں پر کیا کررہی ہیں؟ اس ناکامی کے لیے امیت شاہ کو جواب دینا چاہیے مگرمعاملہ مکمل طور پر اس کے برعکس ہے۔ اس کے لیے ممتا بنرجی اور سورین کو مورد الزام ٹھیرایا جارہا ہے۔دراصل بھارت کی بین الاقوامی سرحد کے بارے میں دائیں بازوکی جماعتوں اور اس سے وابستہ لیڈروں کی سوچ و فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کرنے سے قبل ضروری ہے کہ تاریخ کے ایک ورق کو پڑھا جائے۔ تحریک آزادی میں ا ہم کردار ادا کرنے والی شخصیت لالہ لاجپت رائے کا 1924 میں لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’ٹربیون‘ میں شائع مضمون کا یہ اقتباس بہت ہی دلچسپ ہےجسے پڑھنا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’مجھے ہندو مسلم اتحاد کا مسئلہ پریشان کر رہا ہے۔ میں سات کروڑ مسلمانوں سے خوف زدہ نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ اگر ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کے ساتھ افغانستان، وسطی ایشیا، عرب، میسو پوٹیمیا اورترکی کے مسلح جتھے مل گئے تو ان کے خلاف مزاحمت ممکن نہیں ہو گی۔اس کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی، صوبہ سرحد، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال۔ اگر ہندوستان کے کی کسی اور علاقے میں اتنی تعداد یکجا ہو کر ان کا صوبہ بن سکے تو ان کی بھی اسی طرح تشکیل ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیر مسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔‘لالہ لاجپت رائے کی شخصیت کے دیگر پہلو کافی نمایاں ہیں جس میں انہوں نے انگریزوں کے ذریعہ مسلم حکم رانی کے خلاف تاریخی بیانیے کی تردید کرنے کی کوشش کی ۔علامہ اقبالؒ جنہیں تصورپاکستان کا خالق کہا جاتا ہے اور اس کے لیے 1930میں ان کے مشہور زمانہ الٰہ آباد کے خطبہ کے اقتباس کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ لالہ لاجپت رائے ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے تو 1926میں ہی مذہب کی بنیاد پر ریاستوں کے قیام کی تجویز دی تھی۔اس بحث میں الجھے بغیر لالہ لاجپت رائےمذکورہ بالا انٹرویو کے اقتباس کو ذہن نشیں رکھتے ہوئے آر ایس ایس اور دیگر ہندوتنظیموں کی فکر کو سمجھا جا سکتا ہے ۔آزادی کے 76برس بعد بھی ہندتو تنظیمیں اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر دونوں کے طرف کے مسلمان ایک ہوجائیں تو کیا ان کی مزاحمت ہوسکتی ہے؟ چنانچہ وہ اپنے اس خوف بے جا کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مسلسل جھوٹ اور پروپیگنڈوں کا سہارا لے رہی ہے۔غیر قانونی مسلم دراندازی سے متعلق ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔آسام ، بہار اور بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں میں آبادی میں اضافہ اور بنگلہ دیش سے دراندازوں سے متعلق جتنے بھی دعوے کیے جارہے ہیں اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
آر ایس ایس کی مختلف ذیلی تنظیمیں جو مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں، انہی تنظیموں میں ایک ’’سیمانتا چیتنا منچ‘‘ نامی ایک ادارہ ہے۔اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ بین الاقوامی سرحد بھارت کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔2021میں شائع ہونے والی میری تصنیف کردہ کتاب’’بنگال کے مسلمان‘‘ میں صفحہ 88پر میں نے بنگال میں اس تنظیم کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ تنظیم بی ایس ایف کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں کی نگرانی کرتی ہے اور خفیہ رپورٹ پہنچاتی ہے۔اس کےعلاوہ یہ تنظیم کوشش کرتی ہے کہ سرحدی علاقے میں آبادہندو اپنی زمینوں اور جائیدادوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت نہ کریں ۔’’سیمانتا چیتنا منچ‘‘کے ایک ممبر کے حوالے سے اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ’’ہماری سرگرمیوں میں سے ایک اہم سرگرمی مسلمانوں کو زمین کی منتقلی روکنا ہے۔کیوں کہ بہت سے ہندو خاندان خاص طور پر عمر رسیدہ جوڑے جن کے بچے کولکاتا اور دیگر شہروں میں آباد ہوچکے ہیں وہ اپنی جائیداد مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں ۔ہم نے ایسے جوڑے تک پہنچنے کا پروگرام بنایا ہے۔ہم انہیں بتاتے ہیں کہ اگر ہرایک ہندو سرحدی علاقہ چھوڑ دے گا تو یہ پورا علاقے مسلمانوں کے زیر کنٹرول ہوجائےگا۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے آئین میں اس کی گنجائش ہے کہ مرکزی حکومت ریاستوں کو اعتماد لیے بغیر ریاست کی ہیئت و شکل تبدیل کرکے اس کے کچھ علاقے کو اپنے کنٹرول میں کرلے؟ظاہر ہے کہ یہ مکمل طور پر قانونی بحث ہے ۔جموں و کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔حکومت نے ڈرامائی انداز میں پہلے ریاستی اسمبلی کوتحلیل کردیا ، اس کے بعداچانک پارلیمنٹ میں اکثریت کی بدولت جموں و کشمیر کی تقسیم کردی گئی ۔آرٹیکل 370کو منسوخ کردیا گیاہے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں طویل سماعت کے بعد جو فیصلہ دیا اس کے بعد یہ اندیشہ بڑھ گیا ہے کہ مرکز میں برسراقتدار جماعت اپنی عددی قوت کے بدولت کسی بھی ریاست کی ہیئت اور شکل کو تبدیل کرسکتی ہے ۔تاہم یہ صورت حال ملک کے وفاقی ڈھانچہ اور آرٹیکل 3کے روح کے خلاف ہے۔چنانچہ گزشتہ سال جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اس وقت ملک کےکئی نامور وکلانے اس فیصلے کے قانونی سقم کی نشاندہی کی تھی۔ اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ہوجاتا ہے تو اس کے مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب
ہوں گے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ مہم جاری ہے اس کے تدارک کے لیے مسلم تنظیمیں اور جماعتیں کیا کررہی ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماضی میں بنگلہ دیش سے دراندازی ہوئی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان دراندازوں میں مسلمانوں کی کیا تعدادہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی بنگلہ دیش سے دراندازی ہورہی ہے ۔انگریزی ویب سائٹ وائر اینڈ اور ’’دی ہندو ‘‘میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت چھوڑ کر بنگلہ دیش میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی تعداد میں گزشتہ چار سالوں میں دوگنی ہوگئی ہے۔بارڈر سیکورٹی فورسیس (BSF) اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB)کی رپورٹ کے مطابق 14 دسمبر 2020 تک، بی ایس ایف نے 3,173غیر قانونی تارکین وطن کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ بنگلہ دیش کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری طرف اسی عرصے میں 1,115افراد کو سیکورٹی فورسز نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ غیر قانونی طریقوں سے ہندوستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ماضی میں ذمہ دار عہدوں پر فائز رہنے والے وزراء بڑے دعوے کرتے رہے ہیں ۔یوپی اے دور میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور سری پرکاش جیسوال نے 2004 میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ہندوستان میں بارہ ملین غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن ہیں۔ تاہم انہوں نے بعد میں مغربی بنگال اور آسام کی ریاستی حکومتوں کے اعتراضات کی وجہ سے اپنا بیان واپس لے لیا، جہاں اس نے دعویٰ کیا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی اکثریت رہائش پذیر ہیں۔2016 میں، کرن رجیجوجو نے اس وقت وزیر مملکت برائے امور داخلہ تھے، پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ دستیاب معلومات کے مطابق، بنگلہ دیش کے تقریباً بیس ملین غیر قانونی تارکین وطن بھارت میں ہیں۔مگر انہوں نے کسی ذرائع اور سروے کا حوالہ نہیں دیا ۔بعد میں مرکزی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے پاس بھارت میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کے بارے میں درست اعداد و شمار کا فقدان ہے۔ پیو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ میں بھی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ہجرت اور مذہبی تبدیلی کا ہندوستان میں مذہبی آبادی پر بہت کم اثر پڑا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، بنگلہ دیش کی سرحد پر ہندوستان میں غیر قانونی تارکین وطن میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا ہے جو کہ ہندوستان کے سرحدی گشت کے سخت نظام اور بڑے پیمانے پر غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے موجود مضبوط طریقہ کار کا ثبوت ہے ۔اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل اضلاع میں ہندوؤں کا کوئی اخراج ہورہا ہے اور نہ اس سے متعلق کوئی دستاویز حکومت کے پاس ہے۔
آبادی میں اضافے کی حقیقت!
ہفت روزہ دعوت کے مختلف شماروں میں ہم مسلمانوں کی آبادی سے متعلق حقائق سے آگاہ کرچکے ہیں۔ جہاں تک بہار، بنگال اور آسام کے مسلم اکثریتی علاقے میں آبادی میں اضافے کا تعلق ہے، ان علاقوں میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا ہے۔2001 اور 2011 کے درمیان مغربی بنگال میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر مسلم امیگریشن ہوا ہوتا تو آبادی میں اضافے کی شرح دونوں برادریوں میں کم نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہوتا ۔مغربی بنگال میں1981 کے بعد سےہی ملک کے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں آبادی میں اضافہ کی شرح کم ہے۔ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بنگال نے بخوبی آبادی پر کنٹرول کی طرف قدم بڑھایا ہے۔اگر بنگال کے سرحدی اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 2001 اور 2011 کے درمیان ہندوؤں کی شرح نمو میں 6.75فیصد کمی واقع ہوئی، جب کہ مسلمانوں میں شرح نمو میں4 .27فیصد کمی آئی ہے۔یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش سے متصل اضلاع میں دونوں برادریوں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی آئی ہے۔ یہ اعداد و شمار مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاع میں مسلم دراندازی کے دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔غیر سرحدی اضلاع میں بھی، مغربی بنگال میں ہندو اور مسلم دونوں آبادیوں میں 2001 اور 2011 کے درمیان آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی آئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مسلم امیگریشن نمایاں ہوتا تو اس طرح کی کمی ممکن نہیں تھی۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، مغربی بنگال میں تقریباً 2.2ملین افراد نے بتایا کہ ان کی جائے پیدائش موجودہ بنگلہ دیش میں ہے۔ ان میں سے نصف کا تعلق دو اضلاع ندیا اور شمالی 24 پرگنہ سے ہے۔ یہ افراد مختلف اوقات میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آئے تھے اور اب انہیں بھارت کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے۔ان میں سےاکثریت متوا اور نماسودرا سے تعلق رکھنے والے ہے۔ بنگلہ دیش ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق، رنگ پور، راج شاہی، اور کھلنا ڈویژن، جو کہ مغربی بنگال سے متصل ہیں وہاں بھی آبادی کی شرح میں کمی آئی پے۔ لہٰذا یہ تصور کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش زیادہ ہے، تجرباتی حمایت کا فقدان ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ براہ راست تعصب کا نتیجہ ہے۔ دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق کافی شواہد ہیں کہ جن اضلاع میں مسلمانوں کی شرح نمو ریاستی اوسط سے زیادہ تھی، وہاں ہندوؤں کی شرح نمو بھی ریاستی اوسط سے زیادہ رہی ۔ ظاہر ہے کہ اگر بنگلہ دیش سے سرحدی اضلاع میں کافی نقل مکانی ہوئی ہوتی تو مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ہندوؤں سے زیادہ ہوتی۔
قبائلیوں کی تعداد کم کیوں ہورہی ہے؟
پارلیمنٹ میں دوسرا سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ جھار کھنڈ میں قبائلیوں کی آبادی کم ہورہی ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیشی درانداز یہاں آباد ہورہے ہیں ۔ بی جے پی لیڈر کا یہ دعویٰ کہ جھارکھنڈ میں آدیواسیوں کی آبادی میں کمی کے لیے مسلمان بنگلہ دیشی تارکین وطن ذمہ دار ہیں، بے بنیاد اور گمراہ کن ہے۔ آبادی میں اصل کمی بیروزگاری کی بلند شرح، غربت اور کان کنی کی سرگرمیوں کی وجہ سےبڑے پیمانے اس علاقے میں نقل مکانی ہوئی ہے۔سنتھل پرگنہ کانگریس اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے حکم راں اتحاد کے گڑھ کے طور پر اہم سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ خطہ ان سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت کے لیے مشہور ہے۔جھارکھنڈ وسائل سے بھری ہوئی سرزمین ہے۔ تاہم، کارپوریٹ پولیٹیکل لابی اور گٹھ جوڑ وسائل کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہاں کے مقامی لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔کان کنی کی وجہ سے نقل مکانی ایک اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے معدنیات سے مالا مال ریاست سے نقل مکانی ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اور مصنف گلیڈسن ڈنگ ڈونگ نے اپنی کتاب ’’وکاس کی قبرگاہ‘‘ (ترقی کا قبرستان) میں لکھا ہے کہ جھارکھنڈ میں 1951 اور 1995 کے درمیان پندرہ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے -ان میں 80-90 فیصد آدیواسی اور مقامی افراد تھے۔ کمیونٹیزاکنامک سروے آف انڈیا کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ جھارکھنڈ، نقل مکانی کی وجہ سے 2001 اور 2011 کے درمیان کام کرنے کی عمر کی آبادی کے تقریباً پانچ ملین افراد سے محروم ہوگیا ہے۔ ریاست میں بہت زیادہ غربت اور بے روزگاری ہے، اس کے علاوہ، بڑھتی ہوئی کان کنی اور دیگر صنعتی سرگرمیوں نے قبائلی آبادی کی روزی روٹی اور زندگیوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، ان میں سے اکثریت تاریخی طور پر زندہ رہنے کے لیے جنگلات اور قدرتی وسائل پر منحصر تھے۔ یہ پیش رفت قبائلی آبادی کے لیے تقریباً موت کا خطرہ بنی ہوئی ہے۔جھارکھنڈ میں بے روزگاری کی شرح مئی 2020 میں حیرت انگیز طور پر59.2تک پہنچ گئی۔ جھارکھنڈ میں شرح پیدائش 1.6بچے فی ماں ہے۔2021 میں جاری نیتی آیوگ کی کثیر جہتی غربت انڈیکس (MPI) رپورٹ کے مطابق، جھارکھنڈ کو غربت کے مسئلے کا سامنا ہے، جہاں کی42.2فیصدآبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔2001میں جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی آبادی13.08فیصد تھی۔ 2011 میں، یہ14.53تھا۔
گوہاٹی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر عبدالمنان نے اپنی کتاب ’’Infiltration :Genesis of Assam Moment‘‘ میں آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر حکومتی رپورٹوں کو سامنے رکھ کر ہی تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش زیادہ ہے۔اس کی بڑی وجہ مسلمانوں کی غربت ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ جن علاقوں میں غربت زیادہ ہے ان علاقوں میں شرح پیدائش زیادہ ہے ۔وہ آسام کے دو اضلاع دھوبری اور جورہاٹ کی مثال پیش کرتے ہیں۔جورہاٹ میں لٹریسی شرح ستر فیصد زائد ہے کہ وہاں شرح پیدائش کم ہے جب کہ دھوبری میں محض پچپن فیصد شرح خواندگی ہے۔ وہاں شرح پیدائش زیادہ ہے۔پروفیسر عبدالمنان یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ آسام کے شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب میں تو مسلمانوں سے زائد شرح پیدائش ہے۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آسام کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بنیادی سہولتیں اسکول ، کالج اور طبی مراکز بہت کم ہیں ۔
آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کا فتنہ نوآبادیاتی دور کاتخلیق کردہ ہے۔1931میں آسام میں مردم شماری انگریز سپرنٹنڈنٹ ایس سی ملن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ زیادہ تر مسلمان مشرقی بنگال کے اضلاع سے آئے ہیں اس کی وجہ سے یہاں کی ڈیموگرافی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انگریز منتظمین نے دریائے برہم پتر کے کنارے زرخیز علاقے میں کاشت کاری کے لیے مسلمانوں کو آباد کیا تھا۔ پروفیسر عبدالمنان نے ہندوستان میں بنگلہ دیشی تارکین وطن کی بڑی آبادی پر الزام لگانے والے ان مبالغہ آمیز اعدادوشمار کی اصل وجہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1994 میں سنہا رپورٹ آئی جس میں کہا گیا تھا کہ آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کی آبادی چار کروڑ تھی۔ پروفیسر عبدالمنان نے رپورٹ کی سچائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آسام کی پوری آبادی 3.4کروڑافراد پر مشتمل تھی ۔پروفیسر عبدالمنان کہتے ہیں کہ جن اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے وہاں ایک منظم مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ سال کی عمر کے افراد کی نمایاں موجودگی ہے، یعنی بچوں میں اضافہ ہوا ہے جو آبادی میں فطری اضافے کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ مزید ان کا کہنا ہے کہ آبادی میں یہ اضافہ غربت اور اس کے نتیجے میں مسلم کمیونٹی میں کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، جنوبی سلمارہ میں مسلمانوں کی 24 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے، جن کی عمریں ایک سے چھ سال تک ہیں۔این آرسی کے پورے عمل نے بھی ثابت کردیا کہ آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کیا ہے۔ پروفیسر عبدالمنان کہتے ہیں کہ اگر این آر سی کا عمل تعصب اور ریاستی حراست سے پاک ماحول میں ہوتا تو شاید این آرسی کے باہر رہ جانے والوں میں چند ہزار مسلمان ہی ہوتے
***

 

***

 یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات کے بعد مسلمانوں کی آبادی کو لے کر جو پروپیگنڈہ بہار، جھارکھنڈ ، بنگال اور آسام میں شروع کیا گیا ہے وہ صرف وقتی سیاسی فائدے کے لیے نہیں ہے بلکہ کسی بڑے منصوبے کے لیے ہے جس کے لیے حالات سازگار کیے جارہے ہیں ۔وہ منصوبے کیا ہیں اس سے متعلق کوئی حتمی بات ہمارے سامنے نہیں آئی ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی صحیح ہے کہ جھوٹ کے کوئی پاوں نہیں ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سچائی سب سے بڑی طاقت ہے ۔مگر اس کی جیت اسی وقت ہوتی ہے کہ جب آپ سچائی کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی سے متعلق بالخصوص بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل علاقوں سے متعلق جو جھوٹ گڑھے جارہے ہیں اس کا پردہ چاک کرنے اور اصل دستاویز پیش کرنے کے لیے ملّی تنظیمیں کیا کررہی ہیں؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024