مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز انتخابی مہم ؟
یوپی میں مسلم اکثریت والے بوتھس پر پولنگ کے عمل میں رخنہ اندازی
نور اللہ جاوید، کولکاتا
دس سال حکومت کے باوجود عوام کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں۔ مسلم دشمنی پر مبنی انتخابی حکمت عملی پر انحصار
ووٹنگ کے اصل اعداد و شمار جاری کرنے میں پر اسرار تاخیر۔ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کے یکساں نفاذ سے گریز!
وطن عزیز میں پرامن ماحول کے لیے دانشوروں، علماء اور ملی تنظیموں کو طویل مدتی حکمت عملی پر کام کرنے کی ضرورت
لوک سبھا انتخابات اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ 4 جون کو واضح ہوجائے گا کہ عوام نے اگلے پانچ سالوں کے لیے ملک کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں سونپی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ گزشتہ دو مہینوں کے دوران سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں نے جس طریقے سے مہم چلائی، جن ایشوز کو اٹھایا اور جن امور پر بات کی ہے کیا اس کے اثرات لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد زائل ہوجائیں گے اور اقتدار تک پہنچنے والی جماعت کے صرف وعدے اور یقین دہانیاں ہی باقی رہ جائیں گی؟ یہ سوالات اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران ملک کے سب سے طاقتور اور بزعم خویش سب سے مقبول لیڈر وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی جیت یقینی بنانے کے لیے جس طرح کے بیانات دیے ہیں وہ ملک میں کمزور اور بے بس ہوتے ہوئے آئینی اداروں اور زوال پذیر جمہوریت کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار یہ سوالات بھی کرنے لگے ہیں کہ کیا صرف حق رائے دہی کا استعمال کرنے کا نام ہی جمہوریت رہ گیا ہے؟کیوں کہ جمہوریت میں انتخابی عمل کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ جس میں ایک مثالی معاشرے کے بنیادی اقدار یعنی آزادی، مساوات اور سب کے ساتھ انصاف شامل ہیں۔ شہریوں کے حقوق قانون کی حکم رانی، بنیادی حقوق کے آئینی چارٹر، حکومت کا احتساب، ایک آزاد عدلیہ اور میڈیا اور ایک متحرک سول سوسائٹی جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی اور گزشتہ دس سالوں کے دوران وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے اپنی شخصیت کے دو پہلوؤں کو بہت ہی مضبوطی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ایک طرف انہوں نے آزاد مارکیٹ کا حامی، صنعت دوست، معاشی طور پر لبرل، روشن خیال، سرمایہ داروں کا طرف دار اور ترقی پسند لیڈر کے طور پر پوری دنیا میں اپنی شبیہ بنائی ہے اور اس کے لیے انہوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے کٹر ہندتوادی اور انتہا پسند لیڈر کہلانے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ مودی نے اپنی شخصیت کے ان دونوں متضاد پہلووں پر کبھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ان کا وقت اور حالات کے مطابق استعمال کیا اور اس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔
لوک سبھا انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے قبل وزیر اعظم مودی جس طرح سے اپنی خود اعتمادی ظاہر کر رہے تھے، اس نے یہ تاثر قائم کر دیا تھا کہ بی جے پی تیسری مرتبہ اقتدار پر واپس لوٹ رہی ہے اور سوال یہ تھا کہ اس مرتبہ گزشتہ کی کارکردگی دہرائی جائے گی یا پھر چند سیٹوں کا نقصان ہوگا۔ اس لیے توقع کی جارہی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی اپنی دس سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگیں گے۔ ملک کے سامنے اپنے وژن اور ترقی یافتہ بھارت کے اپنے منصوبے عوام کے سامنے رکھیں گے۔ مگر پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعد وہ اچانک اپنی دوسری شبیہ پر لوٹ گئے۔کانگریس کی پالیسیوں پر تنقید ان کا حق ہے مگر کانگریس کے انتخابی منشور کے بہانے وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے جب انہوں نے فرقہ وارانہ بیان دیا ہو اور مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے، ملک پر بوجھ اور درانداز کہا ہو۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے وہ اس سے بھی زیادہ سخت اور فرقہ وارانہ بیانات دے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس مرتبہ انہوں نے اس طرح کے بیانات دیے ہیں تو اس میں فرق کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک ایسا لیڈر جو خود کو ملک کا سب سے مضبوط اور مقبول لیڈر کے طور پرپیش کرے اور جو خود کو ترقی کی علامت سمجھے وہ لیڈر اگر اپنی دس سالہ کارکردگی، اپنے منصوبے اور اپنے وژن پر ووٹ مانگنے کے بجائے ہندو اور مسلمان کرے اور صریح جھوٹ بولے تو سوالات تو اٹھیں گے ہی۔ مودی کس طرح کا بھارت چاہتے ہیں؟ ایک طرف وہ رام راجیہ بمقابلہ جہاد کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف صریح جھوٹ بول کر رام راجیہ کے نظریہ کو ہی بدنام کرتے ہیں۔ کیوں کہ دنیا نے آج تک نہ رام راجیہ کا عملی نمونہ دیکھا ہے اور نہ ہی اس کی مکمل تھیوری دنیا کے سامنے ہے۔ایسے میں رام راجیہ نافذ کرنے والا لیڈر اگر صریح جھوٹ اور لگا تار بولتا ہے تو شک پیدا ہوتا ہی ہے کہ رام راجیہ میں کیا جھوٹ اور فریب کی بھی گنجائش ہے؟ کیا رام راجیہ کا اصل مقصد صرف انتخاب جیتنا ہی ہے؟ چاہے اس کے لیے بدی اور سازش کا ہی راستہ اختیار کیوں نہ کرنا پڑے؟ کیا وزارت عظمیٰ جیسے عہدہ جلیلہ پر فائز شخص کے لیے اخلاقی قدریں اور سماجی اصول و قواعد ہیں کہ نہیں؟ آخر نریندر مودی کو اس قدر نچلی سطح پر اترنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ ایک طرف وہ مسلسل مسلمانوں پر حملہ آور بھی ہیں تو دوسری طرف وہ اس کے برعکس دعوے بھی کررہے ہیں کہ ’’اگر وہ ہندو- مسلم کی سیاست کریں گے تو عوامی زندگی میں رہنے کے قابل نہیں رہیں گے‘‘۔ وہ اپنے عہد طفلی میں سدبھاونا کے ماحول کی بات بھی کرتے ہیں کہ عید کے موقع پر ان کے گھر کھانا نہیں پکایا جاتا تھا۔ مسلم گھرانوں سے تحفے آتے تھے۔ محرم کے تعزیہ کی احترام کی بات بھی کرتے ہیں مگر اس کے اگلے دن یہ جھوٹا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ کانگریس ملک کے قومی بجٹ کا 15 فیصد حصہ مسلمانوں پر خرچ کرنا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ پسماندہ مسلمانوں کی ترقی اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کے پسماندہ طبقے کو ملنے والے ریزرویشن کو مذہب کی بنیاد پر ملنے والا ریزرویشن قرار دے کر چھین لینے کی بات بھی کرتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ آخر اس تضادِ فکر و نظر کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ صرف انتخابی ہتکھنڈے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور اس طرح کے بیانات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے؟
اس طرح کی سوچ و فکر رکھنے والے دانشوروں کی ایک طویل قطار ہے جو مودی کے جھوٹ اور مسلمانوں پر حملے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو انتخابی حکمت عملی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔سیاسی سائنٹسٹ ہلال احمد جو سی ایس ڈی ایس میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ دراصل انتخابات کے پہلے مرحلے میں بی جے پی اور مودی ہندتو کے نام پر ووٹروں کو متحد کرنے اور ہندو کے سوال پر اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس کو بدنام کرنے کی حکمت عملی پر کام کرنے کے بعد اب وہ ایسے ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں ہندتو نظریہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ اس لپے انہوں نے حالیہ اپنے ٹی وی انٹرویوز میں ہندو مسلم تعلقات پر کھل کر بات کی ہے۔ سماجی و فلاحی اسکیموں کا ذکر کرکے سماجی ہم آہنگی کی طرف لوٹنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کا ووٹر اس قدر نابالغ اور فکر و نظر سے عاری ہے کہ وہ متضاد دعوؤں پر یقین کرلے گا؟ کیا انتخابی جلسوں میں کیے گئے نفرت انگریز تقاریر اور بی جے پی کے دیگر لیڈر جن میں امیت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور آسام کے وزیر ہیمنت بسوا سرما تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بول رہے ہیں اس کے باوجود مودی کے حالیہ انٹرویو کی وجہ سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ مودی اصل سوچ ’’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘‘ میں مضمر ہے؟ کئی دانشوروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مودی نے اٹل بہار ی واجپئی کے شائننگ انڈیا کے حشر سے سبق لیتے ہوئے طویل انتخابی عمل میں وقت اور ضرورت کے لحاظ سے انتخابی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے۔ چوں کہ پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعد یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ ووٹروں میں جوش و خروش کا فقدان ہے۔گزشتہ دو انتخابات کی طرح مودی کے حق میں ووٹرس کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں۔ رام مندر کا ایشو کام نہیں کر رہا ہے۔ تو بی جے پی کے حکمت عملی ترتیب دینے والوں نے مودی کی فلاح و بہبود کی اسکیموں اور ضمانتوں کو اجاگر کرنے کے بجائے کانگریس کے انتخابی منشور کے نام پر، مسلمانوں کی خوشنودی کے نام پر ہندو ووٹروں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ کانگریس مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے مثبت کارروائی کے فریم ورک کی تشکیل نو کرے گی۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور انٹرویوز میں سماجی ہم آہنگی کے دعوے
پہلے مرحلے کی مہم کے بعد سے اب تک مسلمانوں سے متعلق مودی نے جو دعوے کیے ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی سچائی نہیں ہے۔ انہوں نے مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے الزامات لگائے ہیں اور پسماندہ، دلت اور قبائلیوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے حقوق چھین کر مسلمانوں کو دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔انہوں نے دوسرا دعویٰ مسلمانوں کی آبادی سے متعلق کیا اور اشاروں میں کہا ہے کہ کانگریس ملک کی دولت زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کو دینا چاہتی ہے۔ اپنے اس دعوے کی تصدیق کے لیے انتخابی مہم کے دوران ہی وزیر اعظم کے اقتصادی و مشاورتی کونسل کی جانب سے ایک مطالعہ جاری کیا گیا کہ گزشتہ 70 سالوں میں ہندوؤں کی آبادی میں 8 فیصد کی گراوٹ آئی ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی میں 43 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ تیسرا دعویٰ انہوں نے یہ کیا کہ کانگریس بجٹ کا 15 فیصد مسلمانوں پر خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ مسلمان اس ملک کے شہری ہیں، دوسری حقیقت یہ ہے کہ خود حکومت کی رپورٹیں اور مطالعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی اقتصادی، سماجی اور معاشرتی صورت حال بہتر نہیں ہے اس لیے اگر کوئی سیاسی جماعت اس ملک کی ایک بڑی آبادی کی فلاح و بہبود اور قومی دھارے مںی شامل کرنے کی بات کرتی ہے تو یہ کوئی غیر آئینی قدم نہیں ہے بلکہ حکم رانوں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ملک کے تمام طبقات کے لیے یکساں مواقع پیدا کریں، مگر پروپیگنڈہ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول کا اثر ہے کہ ملک کی سیکولر جماعتوں کے انتخابی منشور سے مسلمان کا ذکر تک غائب ہوگیا ہے۔تین سال قبل حیدرآباد میں بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے بی جے پی لیڈروں کو پسماندہ مسلمانوں تک پہنچنے کی ہدایت دی اور ان تین سالوں میں کئی مواقع پر وزیر اعظم مودی نے پسماندہ مسلمانوں کا ذکر بھی کیا اور بی جے پی کے مسلم حامی دانشوروں نے انگریزی اخبارات میں اس سے متعلق بڑے بڑے دعوے کیے۔ ایک مضبوط تاثر یہ پیدا کیا گیا کہ بی جے پی اپنی انتخابی حمایت کو بڑھانے کے لیے بالخصوص بہار اور اتر پردیش میں پسماندہ آؤٹ ریچ کا استعمال کرے گی۔ مگر بی جے پی کے سنکلپ پتر جس کو مودی کی گارنٹی کا نام دیا گیا ہے اس میں بھی مسلم کمیونٹیز کے کسی بھی حوالے سے بچنے کی کوشش کی گئی۔
اگر انٹرویوز میں صرف سوالات کیے جائیں اور کراس سوالات نہیں کیے جائیں تو پھر یہ انٹرویو نہیں بلکہ پیڈ نیوز کی طرح پیڈ اور منصوبہ بند کہلائے گا ہے۔ گودی میڈیا، جانب دار اور مودی حامی میڈیا کے داغ والے صحافیوں نے حالیہ دنوں میں جو انٹرویوز کیے ہیں ان میں اپنے اس داغ کو مٹانے کی کوشش کی اور کچھ ایسے سوالات کیے جس سے مودی پریشان ہوئے یا پھر اس کی اداکاری کی مگر انہوں نے جو جواب دیا اس پر کراس سوالات لازمی تھے۔ ایک صحافی نے ملک میں عدم مساوات میں اضافے پر سوال کیا تو مودی نے جو جوابات دیے وہ نہ صرف مضحکہ خیز تھے بلکہ ان کی نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر چند لوگوں کے پاس دولت کا ارتکاز ہو رہا ہے تو انہیں بھی غریب بنا دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز شخص سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے سوال پر انہوں نے جو جواب دیا وہ نہ صرف غیر سائنسی سوچ کا عکاس ہے بلکہ ان کی اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے کہ انہیں یقین ہو گیا ہے کہ وہ جو کچھ بولیں گے ملک کے عوام کے پاس یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ امبانی کی ملکیت والے نیوز چینل کی مسلم خاتون صحافی جو مودی بھکت اور راشٹروادی ہونے کا اظہار کرتی رہتی ہیں، انہوں نے مودی کے حالیہ بیانات کے حوالے سوالات پوچھے۔ اس لحاظ سے یہ اہم انٹرویوز کہے جا سکتے ہیں مگر مودی نے جس طرح سے جوابات دیے اور جو قصے اور کہانیاں سنائے اس پر کراس سوالات تو لازمی تھے۔ چنانچہ جب مودی نے کہا کہ اگر وہ سیاست کے لیے ہندو اور مسلمان کریں گے تو عوامی زندگی میں رہنے کے لائق نہیں رہیں گے تو پھر یہ سوال کیوں نہیں کیا گیا کہ انہوں نے زیادہ بچے پیدا کرنے والا اور در انداز کس کو کہا ہے؟ اگر اس ملک میں مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزویشن مل رہے ہیں تو پھر گجرات میں مسلمانوں کی چند پسماندہ برادریوں کو جو ریزرویشن حاصل ہے وہ کیا ہے؟ مسلمانوں پر بجٹ کا 15 فیصد کب خرچ کیا گیا ہے؟ مودی نے جب اپنے عہد طفولیت کے سدبھاونا ماحول کا ذکر کیا اس وقت ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ آج سدبھاونا ماحول کیوں ختم ہوگیا ہے؟ اس کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ آج مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول کیوں ہے؟ گجرات میں مسلمانوں کی الگ بستیاں کیوں بسادی گئی ہیں؟ جب مودی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ کانگریس اور اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی اور ان کی مسلم مخالف شبیہ بنا دی ہے تو یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے اپنے خلاف پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے؟ گزشتہ دس سالوں میں اس کے لیے کیا کیا اقدامات کیے گئے؟ ظاہر ہے کہ ان سوالات کے ان کے پاس کوئی جوابات نہیں ہے سوائے اس کہ انہوں نے تین طلاق کا خاتمہ کیا اور حج کوٹے میں اضافہ کیا۔
مودی کے بیانات اچھے اشارے نہیں ہیں
سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی کی مشترکہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس ملک کے بیشتر شہریوں خاص طور پر ہندوؤں کا یقین ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا نہیں ہے۔ اسی طرح PEW کے سروے جو Religion in Indhai : Telerance and segregation کے عنوان سے کیا گیا ہے وہ زیادہ دلچسپ ہے۔ اس تحقیق کے مطابق تقریباً 80 فیصد جواب دہندگان کا دعویٰ ہے کہ اسلام سمیت دیگر ہندوستانی مذاہب کا احترام ان کے مذہبی عقائد کا ایک لازمی پہلو ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2014 کے بعد ملک کے متوسط طبقے کے ڈرائنگ روم میں ہونے والے تذکروں میں چونکا دینے والی تبدیلیاں آئی ہیں۔ تعلیم یافتہ، غیر جانبدار نوجوان غیر معذرت خواہانہ لہجے میں تسلیم کرنے لگے ہیں کہ دراصل بھاجپا ہی ہے جو نریندر مودی کی قیادت میں مسلمانوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ نچلے متوسط طبقے کے ہندو جواب دہندگان، خاص طور پر شمالی ریاستوں میں بھی ایسا ہی دعویٰ کرتے ہیں۔مودی کے حامی نوجوان یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ مکمل پوری طرح سے خوش نہیں ہیں، خاص طور پر سماجی و اقتصادی میدان میں۔ پھر بھی انہیں اطمینان ہے کہ مسلمانوں کو بی جے پی کی حکومت نے مناسب طریقے سے "سنبھالا” ہوا ہے۔ دراصل گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کو ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔مودی نے اس انتخاب میں بھی اسی حکمت عملی کو اختیار کیا ہے ۔وہ مسلمانوں کو بڑےخطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ چنانچہ سیاسی فلسفہ نگار تسلیم کرتے ہیں کہ’’اکثریت پسندی‘‘ اور ڈیماگوگس (یہ ایک سیاسی اصطلاح ہے اس کے مطابق ایک سیاسی رہنما جو عقلی دلائل کے بغیر اور پریس کی ہیرا پھیری کی مدد سے عام لوگوں کی خواہشات اور تعصبات کی مدد سے حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے) آزادی کے لیے بڑے خطرات سمجھے جاتے ہیں ۔
25 نومبر 1948 کو آئین ساز اسمبلی میں بابا صاحب امبیڈکر نے سیاسی فلسفیوں کے حوالے جن خدشات کا اظہار کیا تھا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو دہرایا جائے اور موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھا جائے ۔امبیڈکر نے فلسفی جان اسٹورٹ مل کے الفاظ رقم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’شہریوں کو اپنی آزادی کسی عظیم آدمی کے قدموں پر نہیں رکھنا چاہیے، یا اس پر ایسی طاقتوں پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے جو اسے ان کے اداروں کو تباہ کرنے والا بنائیں۔ ان عظیم انسانوں کے شکر گزار ہونے میں کوئی حرج نہیں جنہوں نے زندگی بھر ملک کی خدمت کی ہے لیکن شکر گزاری کی بھی حد ہونی چاہیے۔ امبیڈکر نے آئرش محب وطن ڈینیئل اوکونل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی بھی انسان اپنی عزت کی قیمت پر شکرگزار نہیں ہو سکتا… اور کوئی بھی قوم اپنی آزادی کی قیمت پر شکر گزار نہیں ہوسکتی‘‘ دراصل امبیڈکر نے یہ انتباہ بھارت کے سماجی اور معاشرتی پس منظر میں دیا ہے جہاں اندھ بھکتی اور فلمی ہیرو کی بھی پوجا کی جاتی ہے۔ چنانچہ امبیڈکر بار بار یاد دلاتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک مذہب میں بھکتی روح کی نجات کا راستہ ہو سکتا ہے۔ لیکن سیاست میں بھکتی یا ہیرو کی پوجا انحطاط اور بالآخر آمریت کی طرف یقینی راستہ ہے۔ چنانچہ ہم نے گزشتہ دہائی کے دوران سول سوسائٹی کے کارکنوں، صحافیوں، یونیورسٹی کے طلباء اور اختلاف کرنے والوں کی قید کا مشاہدہ کیا ہے۔ اب وہ دور ختم ہوگئے جب آمر قتل عام کرتے تھے، آدھی رات میں بغاوت کی جاتی تھی۔ آج کا آمر آہستہ آہستہ جمہوری اداروں کو کمزور کرتا ہے۔ طاقت اور حکومت کے درمیان توازن قائم کرنے والے ادارے کھوکھلے ہوجاتے ہیں ۔سول سوسائٹی غیر فعال، آزاد میڈیا کا بتدریج ختم ہونا، دھمکیاں دینے اور مالیاتی ریگولیٹری اداروں کے استعمال کے ذریعے اپوزیشن کا کمزور ہونا، عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں اور طاقت کا مسلسل ارتکاز ایگزیکٹو میں۔ یہ سب جمہوریت کے خاتمے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
چیک اینڈ بیلنس کرنے والے ادارے کس قدر کمزور ہوگئے ہیں اس کا اندازہ انتخابات کی نگرانی کے لیے قائم آزاد پینل (آئی پی ایم ای) 2024 نے، انتخابات کے اپنے ساتویں ہفتے کی نگرانی رپورٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کے لیڈروں کے ذریعہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوششوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) ووٹنگ کے اصل اعداد و شمار جاری کرنے میں ناکامی سمیت ضابطہ اخلاق کو نافذ اور قوانین پر عمل کرانے میں ناکام رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی مذہبی پولرائزیشن کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔بی جے پی کے دیگر لیڈر بھی مسلسل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہے ہیں مگر الیکشن کمیشن کی طرف سے اس کی جانچ نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ، گجرات، اتر پردیش اور ملک کے کئی حصوں میں رائے دہندگان کے حق رائے دہی کو دبانا ہندوستان میں ہونے والے 18ویں عام انتخابات کا ایک چونکا دینے والا پہلو ہے۔اس طرح کی رپورٹ پینل نے اپنی پانچویں اور چھٹی رپورٹ میں بھی نشاندہی کی ہے۔آئی پی ایم آئی ای کے پانچویں ہفتہ وار بلیٹن میں ای سی آئی پر زور دیا گیا تھا کہ وہ فرقہ وارانہ زبان اور مذہبی تصاویر کے استعمال پر پابندی عائد کرے جس کا مقصد ہندو ووٹ کے استحکام کو ہوا دینا ہے۔تاہم الیکشن کمیشن نے اپنے ہی اس حکم پر عمل نہیں کیا جس میں اس نے کہا تھا کہ ووٹ مانگنے کے لیے مذہب اور ذات کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ووٹروں کی ہندومت کے ساتھ شناخت اور مسلمانوں جذبات، ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی صریح بے توقیری ایک تشویشناک پیش رفت ہے، کہ یہ راستہ مکمل طور پر آمریت کی طرف جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف آئین اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک کا ہر ایک شہری پرامن ماحول بنانے میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے۔ جبکہ دوسری طرف اتر پردیش کے کچھ حلقوں بشمول رام پور، مرادآباد، نگینہ اور مظفر نگر سے خبریں موصول ہوئیں کہ مسلم ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جارہا ہے۔ مسلم اکثریتی والے بوتھوں پر پولنگ کے عمل میں رخنہ ڈالا جارہا ہے۔اگر جمہوریت میں ووٹنگ کا عمل ایک اہم کلیدی عنصر ہے تو پھر سورت، اندور، کھجوری، گاندھی نگر اور بنارس میں امیدواروں کو روکنے کی کوشش اور اب ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کو کس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
لہٰذا مودی اور بی جے پی لیڈروں کی نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں اضافے کو محض ایک مذموم تقسیم پسندانہ انتخابی حکمت عملی قرار دینے کے بجائے تاریخ کی روشنی اور بھارت کی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ آخر مودی اتنی آسانی سے جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔ بلا شبہ مودی اور بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ نفرت انگیز بیانات اور مسلمانوں کو معتوب کرنے سے بنیاد پرست ہندو ووٹروں کی بنیادی حمایت مضبوط ہو جائے گی۔ سماجی کارکن اور سابق آئی اے ایس آفیسر ہرش مندر کہتے ہیں کہ ’’2024 کی موسم گرما کی انتخابی مہم میں مودی کی سخت نفرت انگیز تقاریر کی مکمل درآمد کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مسلمانوں سے نفرت، ہندتو کے منصوبے میں اتنی ہی مرکزی اہمیت کی حامل ہے جتنی یہودیوں سے نفرت نازی منصوبے میں اہمیت کا حامل تھی۔ آر ایس ایس وزیر اعظم نریندر مودی کی نظریاتی لاڈسٹار ہے، جس پارٹی کی وہ قیادت کرتے ہیں اور اس کے ہندوتو کیڈر کی فوج ہے۔ اسلامو فوبیا سنگھ کی سب سے بڑی نظریاتی حرکت ہے۔ ہرش مندر یاد دلاتے ہیں کہ ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے پولش نژاد یہودی آبے فاکس مین نے کہا تھا کہ نسل کشی کا آغاز نفرت انگیز بیانات سے ہوتا ہے۔ نسل کشی کے شروع ہونے سے قبل اس کی بنیاد نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے رکھی جاتی ہے۔ جیسے جیسے نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، ویسے ویسے نسل کشی کے امکانات میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر نفرت انگیز تقاریر کے منصوبے کی قیادت ایک مضبوط لیڈر کرتا ہے تو اس کے امکانات مزید تیز ہو جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔مسلم قیادت اور تنظیموں کا مجموعی رویہ یہ رہا ہے کہ کسی بھی صورت میں مودی اور بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے ۔یقیناً بی جے پی کے تیسری مرتبہ اقتدار میں نہ آنے کی صورت میں حالات میں کچھ تو تبدیلی آئے گی مگر گزشتہ دو ہائیوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیز ماحول اور ہندو نوجوانوں میں جو غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں اس کا ازالہ کسی کے اقتدار میں آنے اور نہ آنے سے ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مسلم دانشوروں، علمائے کرام اور ملی تنظیموں کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
***
الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک کا ہر ایک شہری پرامن ماحول بنانے میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے۔ جبکہ دوسری طرف اتر پردیش کے کچھ حلقوں بشمول رام پور، مرادآباد، نگینہ اور مظفر نگر سے خبریں موصول ہوئیں کہ مسلم ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جارہا ہے۔ مسلم اکثریتی والے بوتھوں پر پولنگ کے عمل میں رخنہ ڈالا جارہا ہے۔اگر جمہوریت میں ووٹنگ کا عمل ایک اہم کلیدی عنصر ہے تو پھر سورت، اندور، کھجوری، گاندھی نگر اور بنارس میں امیدواروں کو روکنے کی کوشش اور اب ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کو کس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024