
مشتاق عامر
جانوروں کے حقوق کا دم بھرنے والی تنظیمیں انسانی نسل کشی پر خاموش کیوں ہیں؟
قربانی کے خلاف تین جہتی محاذ: پیٹا، گئو رکشا دل اور مسلم راشٹریہ منچ کا گٹھ جوڑ
ہر سال عید الاضحیٰ شروع ہونے سے پہلے پورے ملک میں ’جانوروں کے حقوق‘ کے لیے چند مخصوص ٹولے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جانوروں کو انسان کی قیمتی جانوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ عناصر پورے سال خواب خرگوش میں پڑے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی عیدا لاضحیٰ کا موقع آتا ہے ان کے اندر کا ’جیو پریم‘ جاگ اٹھتا ہے۔ یہ جانوروں کے حقوق کی باتیں اس طرح کرتے ہیں کہ گویا عید الاضحیٰ تمام جانوروں کو تہہ تیغ کردینے والا تہوار ہے۔ان میں ایسی تنظیمیں بھی شامل ہوتی ہیں جس کی آڑ میں شر پسند عناصر مسلمانوں کے خلاف منافرت کا ماحول گرم کرتےہیں۔ گئو رکشا کے نام پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا کام یوں تو پورا سال جاری رہتا ہے لیکن عید قربان کے نزدیک آتے ہی ان کی شر انگریزی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔اس ٹولے کی پشت پناہی جانوروں کے حقوق کا دم بھرنے والے عناصر کرتے ہیں۔ ان میں نام نہاد مسلمانوں کا وہ ٹولہ بھی شامل ہوتا ہے جو قربانی کا ’متبادل‘ پیش کرتا ہے۔ یہ ٹولہ مسلمانوں سے عید الاضحیٰ کو علامت کے طور پر منانے کی نصیحت کرتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی شبیہ والی چیزوں مثلاً کیک اور پیسٹری وغیرہ کاٹ کر اس ’رسم‘ کو پورا کر لیں۔آخرالذکر ٹولہ آر ایس ایس کی مسلم راشٹریہ منچ کا ہراول دستہ ہے جسے موقع کے اعتبار سے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں تینوں گروہ یعنی جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی نام نہاد تنظیمیں، تشدد پسند گئو رکشا دل اور مسلم راشٹریہ منچ کے نام نہاد مسلمان قربانی کے خلاف ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ بنیادی طور سے دیکھا جائے تو ان عناصر کے مقصد و منشا میں کسی طرح کا کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔
ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ عید الاضحیٰ کے تہوار کو گوشت خوروں کے تہوار کے طور پر پیش کیا جائے۔یہ کوششیں دو سطحوں پر شروع ہوتی ہیں۔ آر ایس ایس کی نگرانی میں بنایا گیا گئو رکشا دل جو ہر سال عید الاضحیٰ سے پہلے قربانی کے جانوروں کی تجارت کرنے والے کاروباریوں کو مقامی پولیس کی مدد سے تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کے جانوروں پر قبضہ کرتا ہے ۔قربانی کے جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور جانور پالنے والے کسانوں سے منڈی تک مال لانے میں غیر قانونی طریقے سے جبراً وصولی کرتا ہے۔ اس کام میں مقامی پولیس گئو رکشا دل کی پوری مدد کرتی ہے ۔یہاں تک کی گئو رکشک کی شکایت پر کاروبار سے جڑے افراد کی گرفتاری عمل میں لاتی ہے۔ یہ سارا ڈرامہ ہر سال عید الاضحیٰ کے شروع ہونے سے پہلے ملک کے بیشتر حصوں خاص طور سے شمالی ہند میں کھیلا جاتا ہے۔ جبکہ عید لاضحیٰ سے پہلے قربانیوں کے جانوروں کو منڈیوں تک لانے اور ان کو فروخت کرنے کا قانونی پرمٹ ان کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کسان اور تاجر تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پورے شمال ہند میں گئو رکشا دل کا ایک متوازی نظام چل رہا ہے جو اس طرح کی پر تشدد کارروائیوں کو انجام دیتا ہے۔ماضی میں اس کی کئی خطر ناک مثالیں موجود ہیں۔مقامی پولیس کا رویہ گئو رکشا دل کی پشت پناہی کا ہوتا ہے۔بلکہ اس کو ریاستی حکومت کی خاموش تائید بھی حاصل ہوتی ہے۔ ریاستی حکومت کی تائید اور پولیس کی پشت پناہی کے ساتھ گئو رکشا دل کو تشدد اور دہشت پھیلانے کی پوری چھوٹ ملی ہوتی ہے۔ چرخی دادری میں اخلاق احمد کے قتل سے شروع ہونے والا تشدد کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ ہم آئے دن اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
دوسرا گروہ بظاہر زیادہ مہذب اور چالاک ہے۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے میں ’جانوروں کے حقوق‘ کا دم بھرتا ہے۔ان میں سب سے اہم ہے People for the Ethical Treatment of Animals(PETA) پیٹا کا قیام جنوری 2000 کو ممبئی میں عمل میں آیا تھا ۔اس تنظیم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور، بیورو کریٹس، سیلیبرٹیز، سِول سوسائٹی اور سماج کے سرکردہ افراد شامل ہیں۔ پیٹا ایک ایسی تنظیم ہے جس کی سرگرمیاں بظاہر نام نہاد اشرافیہ تک محدود ہے لیکن اس کے اثرات سماج کے اندر تک نفوذ کر گئے ہیں۔ تنظیم کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا میں جانوروں کا تحفظ کیا جائے اور سبزی خوری کو فروغ دیا جائے۔ تنظیم فرضی بیانیہ قائم کرنے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ PETA گزشتہ پچیس برسوں سے جانوروں کے نام نہاد حقوق گوشت خوری کی مخالفت اور چمڑے کی صنعت کے خلاف اپنی ملک گیر مہم چلائے ہوئے ہے۔PETA کی مہم عوامی اور سیاسی سطح پر کافی اثر انداز ہوئی ہے۔ کانپور کی چمڑے کی صنعت کو بند کروانے میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔
اس وقت پیٹا شمالی ہند کو فوکس کرتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پیٹا نے اپنی ویب سائٹ پر جانوروں پر ہونے والے ’مظالم ‘ کی یہ دردناک منظر کشی کی ہے :
’’دنیا بھر کے ممالک میں ہر روز جانور اپنی جان بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہیں انسانوں کی تفریح کے لیے غلام بنایا جاتا ہے، مارا پیٹا جاتا ہے اور زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔ انہیں سائنسی تجربے کے نام پر جلا دیا جاتا ہے۔ اندھا کر دیا جاتا ہے۔ زہر دیا جاتا ہے۔ زندہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ انہیں بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں۔ گلا گھونٹا جاتا ہے۔ زندہ کھال اتاری جاتی ہے۔ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ جانوروں کے ساتھ انسانوں کے ہاتھوں ہونے والا یہ ظلم دل دہلا دینے والا، گھناؤنا اور غصہ دلانے والا ہے‘‘
انسانی جانیں تمام جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔انسانی جانوں کی حرمت تمام ذی روح پر مقدم ہے لیکن PETA کو بے گناہ انسانوں کے قتل پر کوئی افسوس نہیں اور نہ ہی انسانی نسل کشی پر اس کو غصہ آتا ہے۔ یہ جانوروں کو انسانوں سے بہتر سمجھتی ہے۔ جانوروں کے حقوق پر آنسو بہانے والی یہ تنظیم انسانی حقوق کی پامالی، قتل و غارت گری اور نسل کشی پر مکمل خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ اگر آج کے حالات پر غور کیا جائے تو پوری دنیا میں مظلوم انسانوں کی حالت جانوروں سے کہیں بدتر ہے۔ آج کا مظلوم انسان پوری دنیا میں اپنی جان، اپنی عزت اور اپنی شناخت بچانے کی جدو جہد کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ جانوروں سے زیادہ برا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔آج بھی انسانوں کو جنسی اور معاشی طور پر غلام بنایا جاتا ہے۔ان کو غیر قانونی طور پر سخت ترین اذیت ناک قید خانوں میں رکھا جاتا ہے ۔خفیہ جیلوں میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ان کو اپاہج بنا دیا جاتا ہے۔ ان کے ناخن اور کھالیں ادھیڑی جاتی ہیں۔ان کو اذیت دینے کے لیے ناقابل تصور طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ڈیٹینشن سنٹروں میں جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ بے وطن اور بے گھر بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے ہاتھ پیر باندھ کر سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جو جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔لیکن جانوروں کے حقوق کا دم بھرنے والی تنظیموں اور افراد کا دل نہیں پسیجتا۔ PETA والوں کو انسانیت سوزی میں نہ تو کوئی ظلم نظر آتا ہے اور نہ ہی ان کے اندر کی انسانیت جاگتی ہے۔انہیں غزہ کی نسل کشی نظر نہیں آتی۔ ہزاروں معصوم بچوں کی لاشیں نظر نہیں آتیں۔ انہیں صرف جانوروں سے پیار ہے۔یہ لوگ انسانی دائرہ اقدار سے باہر نکل چکے ہیں۔ انہیں افریقہ میں بھوک سے مرتے ہوئے لوگ نظر نہیں آتے۔ انہیں میانمار میں روہنگیا قتل عام دکھائی نہیں دیتا۔ انہیں اپنے ملک میں ہونے والی ماب لنچنگ، مذہبی منافرت، دلتوں، اقلیتوں اور آدیواسیوں پر ہونے والے مظالم پر نہ کوئی افسوس ہے اور نہ کوئی احتجاج۔ ان کو تو صرف گلی کوچوں میں آوارہ پھرنے والے کتوں، بلیوں، گدھوں و گھوڑوں کے حقوق پر ریلیاں نکالنے، ان پر آنسو بہانے اور لگژری ہوٹلوں میں سیمینار کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ پیٹا جانوروں کے حقوق کی آڑ میں انسانی جانوں کی حرمت کی نفی کر رہا ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں میں ایسی بے حسی پیدا کر رہا ہے جس سے انسانی جانوں کے مقابلے میں جانوروں کی جان زیادہ اہم بن جائے۔ PETA دراصل ایک خاموش گئو رکشا دل کی طرح ہے اس کی سرگرمیوں میں بھی انسانیت مخالف جارحیت پوشیدہ ہے۔اس کا انداز بظاہر اتنا مہذب اور بے ضرر ہوتا ہے کہ عام لوگوں کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہوتا ۔اس کی مخصوص جارحیت عام طور سے قانون کے دائرے میں ہوتی ہے اور یہ بھی گئو رکشا دل کی طرح پولیس سے مدد لیتا ہے۔پیٹا نے حالیہ چند دنوں میں جانوروں کے خلاف معاملات میں ملوث ہونے والے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ یہاں چند واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔اس تنظیم کی غیر انسانی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے کارکن جانوروں پر ’ظلم‘ کرنے والے افراد کے خلاف پولیس کارروائی سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف تنظیم کے افراد پولیس کی مدد سے ایف آئی آر درج کراتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پیٹا نے لوگوں کے خلاف جو ایف آئی درج کرائی ہے ان میں مئی کے پہلے ہفتے میں کولکاتا کے بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ پر ایک لاوارث اور لاغر گھوڑی کی موت کا واقعہ ہے۔ پیٹا نے اس معاملے میں گھوڑی کے مالک کے خلاف میدان پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ گھوڑی شدید کمزوری اور پانی کی کمی کا شکار تھی اور پیچھے کے پاؤں ہلانے یا کھڑے ہونے سے قاصر تھی۔ ویٹرنری ڈاکٹر کے مطابق اسے ریڑھ کی ہڈی پر کسی بھاری چیز کے وار سے چوٹ پہنچی تھی۔ ہنگامی علاج کے باوجود گھوڑی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔ اسی طرح ہاپوڑ کے رگھو بیر گنج میں ایک گلی کے کتے کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے پر PETA کے کارکنوں نے ہاپوڑ پولیس تھانے میں تین افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
یہ واقعہ 25 اپریل کو راگھوبیر گنج، ہاپور میں پیش آیا۔ تین افراد کے خلاف BNS 2023 کی دفعہ 325 اور جانوروں پر ظلم کی روک تھام ایکٹ 1960 کی دفعات 3 اور 11(1) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ BNS کی دفعہ 325 کسی جانور کو زخمی کرنے یا مارنے کو قابلِ سزا جرم قرار دیتی ہے، جس کی سزا پانچ سال قید، جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے۔ PCA ایکٹ کی دفعہ 11 (1) غیر ضروری اذیت یا تکلیف دینے کو جرم مانتی ہے۔
ایک کتے کی موت پر بی این ایس کی سنگین دفعات کے تحت تین افراد خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔ لیکن کسی مسلمان کی ماب لنچنگ میں شامل ہونے والوں کے خلاف پیٹا اس طرح کی مستعدی نہیں دکھاتا۔اس طرح کی بہت سے واقعات ہیں جس میں پیٹا نے جانورں پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ہے ۔
جانوروں کے بھی حقوق ہیں لیکن وہ انسانی جانوں کی قیمت پر نہیں۔ جس سماج میں جانور انسانوں پر مقدم ہو جائیں ایسے سماج میں انسانی قدروں کے زوال کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔جس سماج میں جانوروں کی جان انسانی جان سے بڑی ہو جائے، اس سماج میں انسانی جانوں کی اہمیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔اس کا مظاہرہ ہمیں ہر سال عید الاضحیٰ کے دوران دیکھنےکو ملتا ہے۔ ’جانوروں کے حقوق‘ کے نام نہاد علم بردار اپنی اپنی کمین گاہوں سے باہر نکل پڑتے ہیں۔ان میں بھانت بھانت کے لوگ ہوتے ہیں۔بھانت بھانت کی آوازیں ہوتی ہیں۔لیکن ان سب کا مقصد ایک ہوتا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو سنت ابراہیمی سے کس طرح منحرف کیا جائے۔ قربانی کے تعلق سے نئی نسل میں کس طرح کے شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں۔ اس میں وہ گروہ کافی سرگرم ہوتا ہے جو خود کو روشن خیال کہتا ہے۔ یہ گروہ سال بھر تو پورے شوق سے گوشت خوری کرتا ہے لیکن عیدالاضحیٰ کے قریب آتے ہی ان کا ’جانور پریم‘ امڈ پڑتا ہے۔ ان میں بیشتر کا تعلق آر ایس ایس کے بغل بچہ مسلم راشٹریہ منچ سے ہوتا ہے۔ یہ ٹولہ قربانی کے عقیدے کو فرسودہ قرار دیتا ہے۔ ان کا ڈرامہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اگرچہ اس ٹولے کو ابھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے تاہم نئی نسل میں قربانی جیسے عظیم فریضے کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش لگاتار کی جا رہی ہے۔ یہ گروہ ہر سال عید الاضحیٰ کے قریب اچانک سرگرم ہوتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ابن الوقت مسلمانوں کا یہ طائفہ اسلام کی ہر اس چیز پر معترض ہوتا ہے جس کا تعلق اسلام کے عقیدے،نصوص، اصولیات، حمیت اور غیرت سے ہوتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں تقریباً 75 فیصد لوگ گوشت خور ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (NFHS) کے مطابق، 57.3 فیصد مرد اور 45.1 فیصد خواتین ہفتے میں کم از کم ایک بار گوشت ضرور کھاتے ہیں۔
یہاں کچھ مزید اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں:
مردوں میں گوشت خوری کی شرح 57.3: فیصد
خواتین میں گوشت خوری کی شرح 45.1: فیصد
سروے کے مطابق 83: فیصد مرد گوشت خور ہیں۔
ریاستی سطح پر: ناگالینڈ میں تقریباً 99.8 فیصد لوگ گوشت کھاتے ہیں۔
لیکن بات جب گوشت خوری کی آتی ہے تو نزلہ مسلمانوں پر گرتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ عید الاضحیٰ کی قربانی کے فرائض ادا کرکے مسلمان کوئی جرم کر رہے ہوں ۔ مسلمانوں کے تہوار کو اس طرح کرمنلائز کر کے ایک طرح سے ان کے اندر خوف اور احساس جرم پیدا کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اپنی دینی روایت اور مذہبی شناخت سے دور ہوتے چلے جائیں یا اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں عید لاضحیٰ جیسے تہوار منانے میں ان کو شرم اور خوف کا احساس پیدا ہو۔ عیدالاضحیٰ سنت ابرہیمی ہے جو صدیوں سے ادا کی جا رہی ہے لہٰذا ایثار اور رضائے الہیٰ کی علامت یہ روایت قیامت تک جاری رہے گی۔
(مضمون نگار سے رابطہ :[email protected])
***
پیٹا کا قیام جنوری 2000کو ممبئی میں عمل میں آیا تھا ۔اس تنظیم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور، بیورو کریٹس، سیلیبرٹیز، سِول سوسائٹی اور سماج کے سرکردہ افراد شامل ہیں۔ پیٹا ایک ایسی تنظیم ہے جس کی سرگرمیاں بظاہر نام نہاد اشرافیہ تک محدود ہے لیکن اس کے اثرات سماج کے اندر تک نفوذ کر گئے ہیں۔ تنظیم کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا میں جانوروں کا تحفظ کیا جائے اور سبزی خوری کو فروغ دیا جائے۔ تنظیم فرضی بیانیہ قائم کرنے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ PETA گزشتہ پچیس برسوں سے جانوروں کے نام نہاد حقوق گوشت خوری کی مخالفت اور چمڑے کی صنعت کے خلاف اپنی ملک گیر مہم چلائے ہوئے ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025