مسلمان بھارت میں فیکٹر ہیں ایکٹر نہیں

امت کو اتحاد کے ساتھ رہ کر انسانیت کی خدمت کرنی چاہئے :مولانا بلال حسنی

عرفان الٰہی ندوی

ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم مولانا بلال حسنی ندوی کی ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت
مولانا بلال حسنی ندوی نے پچھلے دنوں ہفت روزہ دعوت سے ملک و ملت، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور دیگر دینی اداروں سے متعلق مسائل پر تفصیلی گفتگو کی۔ دوران گفتگو انہوں نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور بابری مسجد کے بدلے میں مجوزہ دھنی پور میں بنائی جانے والی مسجد کے بارے میں کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تو مسلمانوں کے حق میں ہوا تھا جس میں اس نے صاف طور پر کہا تھا کہ بابری مسجد مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔مسجد کو توڑنا خود بھی ایک مجرمانہ فعل تھا لیکن چونکہ مسلمان عدالت کا حکم ماننے کا وعدہ کر چکے تھے اس لیے ہم نے مان لیا لیکن مسجد کا بدل کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ دھنی پور میں جو مجوزہ مسجد کی جگہ ملی ہے اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ مسجد کا کوئی بدل ہو ہی نہیں سکتا جنہوں نے مسجد کے بدلے میں جگہ لی ہے وہ جانیں ہم اس میں کیا کہیں گے۔ ہم تو بابری مسجد کو اللہ کا گھر سمجھتے ہیں۔
مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے سے متعلق ایک سوال پر مولانانے کہا کہ تحریک ندوہ کا اولین مقصد ہی یہی تھا کہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا جائے اور انہیں منہج وسط یعنی درمیانی راستہ اختیار کرنے کی تلقین کی جائے۔ ندوہ نے دین میں تحریف یا من مانی کی اجازت کبھی نہیں دی ہاں معمولی چیزوں اور فروعات میں اختلاف کی گنجائش رکھتے ہوئے توسیع کی دعوت دی ہے اور اس کے فائدے بھی سامنے آرہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کام مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے ہو رہا ہے اور ندوہ علی میاں کے زمانے سے ہی اس کام میں شامل ہے۔ ندوہ میں مسلکی عصبیت کو کبھی جگہ نہیں دی گئی۔ چاروں مسالک کے علاوہ اہل حدیث سے وابستہ افراد بھی ندوہ میں شامل ہیں خواہ وہ ندوہ میں پڑھنے والے ہوں یا پڑھانے والے ہوں۔ ہم یہی دعوت دیتے ہیں کہ آپ جو کچھ بھی رہیں لیکن دین اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے۔ نبی ﷺ کا جو طریقہ اور سنت رہی ہے اسی پر مسلمان چلتے رہیں۔
ندوہ کی پہچان دو چیزوں سے رہی ہے ایک تو تفقہ فی الدین اور دوسری ہر فرد تک دین کی بات پہنچانے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ اسی لیے طلبہ میں تحقیق کا ذوق پیدا کرنے کے لیے ندوہ میں تخصص کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں کچھ نقصان ضرور ہوا لیکن الحمدللہ اب ساری چیزیں بہتر انداز میں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ ندوہ سے نکلنے والے طلبہ نے الگ الگ میدانوں میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ جہاں تک اکیڈمک مہارت کی بات ہے اس پر مختلف انداز سے محنت ہورہی ہے۔ شعبہ تحقیقات شریعہ نے دو سال کے عرصے میں تقریبا 15 کتابیں شائع کی ہیں۔ تدریب علمی کا شعبہ الگ سے قائم کیا گیا ہے جس میں تقریبا دو ہزار مقالے شائع کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔ انگریزی کا شعبہ بھی قائم کیا جا چکا ہے جس میں طلبہ کو انگریزی بولنے کے ساتھ انگریزی لکھنے کی بھی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ طلبا میں تحقیقی اور تصنیفی ذوق پیدا کرنے پر بھی کام چل رہا ہے۔
ندوہ کے طلبا دیگر تعلیمی اداروں میں جانے اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ بہت سے طلبا یہاں سے جرمنی اور دیگر ممالک میں جا کر تحقیقات کر رہے ہیں لیکن لوگوں کو اس کی واقفیت نہیں ہے۔ ہمارا اصل مقصد طلبا میں تحقیقی ذوق پیدا کرنا ہے یونیورسٹی بھیجنا نہیں ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی ہوں یا مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی، ان کا علمی ذوق کسی یونیورسٹی میں جا کر نہیں بنا اسی ادارے سے علمی اور فکری ذوق پیدا ہوا۔ پھر بھی ہم طلبا کو یونیورسٹی جانے سے منع نہیں کرتے۔ ہم کسی دیگر یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے سے الحاق کے داعی نہیں ہیں۔ جس کا دل چاہے ہمیں تسلیم کرے یا نہ کرے حالانکہ زیادہ تر اداروں نے ہماری اسناد کوتسلیم کیا ہے۔
ندوہ میں دینی اور سماجی علوم میں تطبیق پیدا کرنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک بات یاد رکھیے کہ ہمارے ادارے کا مقصد نائبین رسول پیدا کرنا ہے کوئی صحافی یا انگریزی داں پیدا کرنا نہیں ہے۔ ہمارا مقصد ایک ایسا عالم دین پیدا کرنا ہے جو دوسرے شعبوں میں بھی اپنی پہچان بنا سکے۔ قرآن و حدیث میں سارے سماجی علوم موجود ہیں۔ صرف ان میں تطبیق دینے کی کمی ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریک ندوہ دینی نصاب تعلیم میں تبدیلی کی داعی رہی ہے کیونکہ تبدیلی ایک اچھی چیز ہے لیکن ہمیشہ ضروری نہیں ہوتی۔ تبدیلی نصاب کے لیے کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو ضرورت کے مطابق تبدیلی کی سفارش کریں گی۔ جزوی تبدیلیاں درکار ہیں اور وہ ہو بھی رہی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت بچوں کی توجہ سوشل میڈیا اور دیگر لغویات سے بچا کر انہیں تعلیم اور تحقیق کی جانب راغب کرنا ہے۔ موبائل فونوں نے طلبا کو نہ تو علم کا رکھا ہے اور نہ دین کا۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرنا چاہیے، لیکن اس کے فائدے کم ہیں اور نقصانات زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔ کئی ندوی فضلاء ہیں جو اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں حالانکہ ہمارا کوئی ذاتی چینل نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ کام کر رہے ہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ خیر کو اتنا عام کر دیں کہ اس کی وجہ سے شر مکمل ختم ہو جائے یا کم از کم دب جائے۔ یہی مناسب طریقہ ہے۔
لاک ڈاؤن کے بعد کئی مدارس کو مالی دشواریاں پیش آئیں اور دیگر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور سرکاری مدارس کی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ان موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا بلال حسنی نے کہا کہ بڑے اداروں کو شروعات میں دشواریاں تو ہوئیں لیکن الحمدللہ تمام اساتذہ کو وقت پر تنخواہیں دی گئیں اور دیگر کام بھی چلتے رہے تاہم سرکاری سطح پر مدرسوں کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان پر ملت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مدرسوں کی جانچ کے سلسلے میں ایک ٹیم ندوہ بھی آئی تھی لیکن الحمدللہ وہ مطمئن ہو کر گئی۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ مدرسوں کو اپنا داخلی اور خارجی نظام مضبوط کرنا چاہیے خاص طور پر قانونی پہلوؤں پر توجہ دینا چاہیے۔ اگر اندر مضبوطی ہوگی تو باہر والے کچھ بگاڑ نہیں سکتے ورنہ بڑے خطرات کا اندیشہ رہتا ہے۔
مولانا بلال حسنی نے تحریک پیام انسانیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں لوگوں کے درمیان آپس میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اسے دور کرنے پر کام کرنا چاہیے۔ خاص طور پر برادران وطن میں تحریک انسانیت پر مولانا علی میاں کے زمانے سے ہی کام ہو رہا ہے، اسے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ زمین پر رہنے والے سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسی انسانی رشتے ناطے کو مضبوط بنانا لازمی ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں کہا کہ جو لوگ دونوں قوموں کو آپس میں لڑانے کی بات کرتے ہیں اور ٹکراؤ بڑھانے والے بیانات دیتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ملک کو کدھر لے جانا چاہتے ہیں؟ کیا اس سے صرف ایک کمیونٹی کا نقصان ہوگا یا پورے ملک کا نقصان ہوگا؟ امن و شانتی سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے اور قوم خوشحال بن سکتی ہے۔
مولانا بلال ندوی نے فلسطین کے مسئلے پر عالم عرب کی خاموشی پر کہا کہ ان کا رویہ انتہائی نامناسب ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ سب سو رہے ہیں۔ سب غافل ہیں۔ جبکہ اس معاملے میں سب کو آگے آنا چاہیے تھا۔ ہمارے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں ہے ہم تو صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ہم نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی اسی طرح ہمارے یہاں سے شائع ہونے والے عربی زبان کے رسالے اور مجلے مسلسل عربوں کو خبر دار کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے دین پر قائم رہنے کی تلقین بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اہل فلسطین کی مدد فرمائے ۔آمین
***

 

***

 دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نئے ناظم اعلیٰ مولانا بلال حسنی ندوی نے موجودہ حالات پر ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو ڈر یا مایوسی کی بات نہیں کرنا چاہیے بلکہ لفظ مایوسی کو اپنی ڈکشنری سے ہی نکال کر پھینک دینا چاہیے کیونکہ مسلمان اس دنیا میں ڈرنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ دنیوی خوف کو ختم کر کے اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے وجود میں لائے گئے ہیں اور اللہ نے مسلمانوں کو ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے کے لیے پیدا کیا ہے لیکن اگر مسلمان دین کو ہی چھوڑ دیں گے تو زندگی بھر وہ ڈرتے رہیں گے۔ اس بات کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے کہ مسلمان قیامت تک اس دنیا سے ختم نہیں ہو سکتے۔ دنیا کئی بار اس کی کوشش کر چکی ہے اور ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ اسی لیے ملکی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمان اس ملک میں بھی ایک فیکٹر کی حیثیت رکھتے ہیں ایکٹر نہیں ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024