! مصحف کی بے حرمتی ناقابل قبول

سویڈن میں ہی مصحف کو نذرآتش کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟

اسٹاک ہوم (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈسیک )

اسلام اور اہل اسلام کے نزدیک قرآن کی کیا حیثیت ہے اور وہ کس درجہ اس سے محبت کرتے ہیں یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے لیکن وقتاً فوقتاً دشمنان اسلام ہمیشہ یہ سازشیں کرتے رہتے ہیں کہ اس مقدس کتاب کو جلا کر اہل اسلام کے جذبات سے کھیلا جائے چنانچہ پچھلے دنوں بھی یہی ہوا جب سویڈن میں ایک عراقی نژاد شخص کی جانب سے عیدالاضحی کے روز سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے مصحف قرآنی کے ایک نسخے کو نذر آتش کردیا جس کے بعد سے دنیا بھر کی مسلم حکومتوں نے اس مذموم فعل کی مذمت کی اور بعض ممالک نے اپنے سفیروں کو سویڈن سے واپس بلانے کا بھی فیصلہ کیا۔
ذرائع کے مطابق مصحف کو نذر آتش کرنے والا عراقی نژاد شخص سلوان مومیکا پانچ سال قبل تارکِ وطن کے طور پر سویڈن آیا تھا، اس نے امریکی چینل سی این این کو بتایا تھا کہ اس کے پاس سویڈن کی شہریت ہے۔ یہ شخص ملحد ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس نے کہا کہ قرآن کی تعلیمات مغربی معاشرے میں جمہوریت، انصاف، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے اصولوں سے متصادم ہیں لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے چنانچہ اس نے عید الاضحی کے موقع پر اپنے شیطانی منصوبے کو انجام دیا۔
واضح رہے کہ سویڈن میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہاں اس سے پہلے بھی کئی بار مصحف کو نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ رواں سال جنوری میں، ’سٹرام کرس‘ نامی ایک بنیاد پرست دائیں بازو کے گروپ کی جانب سے بھی ایک احتجاجی مظاہرے میں مصحف قرآنی کو نذر آتش کیا گیا تھا۔ یہ گروپ امیگریشن مخالف اور اسلام مخالف کے طور پر جانا جاتا ہے، اس تنظیم کی قیادت راسموس پالوڈن نامی شخص کرتا ہے۔ جب سٹرام کرس پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن کو نذر آتش کیا تھا تب اس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیے گئے تھے۔ اسی طرح 2020 میں بھی مسلمانوں کے اس مقدس مصحف کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر اس طرح کے واقعات سویڈن میں کیوں پیش آتے ہیں اور ان کا حل کیا ہوسکتا ہے؟
اس کا جواب جاننے کے لیے تاریخ کا طائرانہ جائزہ ضروری ہے۔
سویڈن کے معرض وجود میں آنے کے بعد جیسے جیسے سویڈش سلطنت پھیلتی گئی، اس کے مذہبی خیالات بھی پھیلتے گئے۔ اگرچہ ابتدا میں سویڈن میں کیتھولک آبادی زیادہ تھی لیکن یہ ملک سولہویں صدی میں لوتھرن پروٹسٹنٹ ملک بن گیا۔ جس کے بعد سنہ 1665 میں سویڈن نے اس مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب کیتھولک مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کو ’حقیقی عیسائیت‘ کے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سویڈن میں سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ لبرل جذبہ بھی پیدا ہوا اور فی الحال ملک سیکولر قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ سویڈش اسلامک اسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے، نتیجے میں یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار نہ صرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے بلکہ حقیقت میں یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی یہ بات صاف نظر آتی ہے۔
صحافی تسنیم خلیل ایک عرصے سے سویڈن میں مقیم ہیں اور سویڈش معاشرے سے ان کی شناسائی کافی گہری ہے، ان کا خیال ہے کہ ان واقعات کے پیچھے سیاست کار فرما ہے اور یہ کہ پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے عروج کی جھلک سویڈن میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’یہی وجہ ہے کہ ہم اس نوعیت کے زیادہ سے زیادہ واقعات یہاں دیکھتے ہیں جیسا کہ مصحف کو نذر آتش کرنا وغیرہ۔‘
یاد رہے کہ مسلمان سویڈن کی آبادی کا بہت بڑا حصہ نہیں ہیں لیکن دوسری جانب انہیں مذہبی بنیادوں پر اشتعال دلوانا آسان ہے، اور ذرا سی اشتعال انگیزی پر پوری مسلم دنیا کی جانب سے ردعمل سامنے آتا ہے اور سویڈن میں موجود انتہائی دائیں بازو کی قوتیں ایک منصوبہ بند طریقے سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وسیع تر سویڈش معاشرے کے مسلمانوں کے تئیں رویوں کو تبدیل کیا جا سکے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں چند محققین نے فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن میں اسلاموفوبیا پر تحقیق کی ہے۔اس گروپ سے منسلک ایک محقق عبدالقادر این جی کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سویڈن کا رویہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔ سنہ 2014 کے ایک سروے سے پتا چلا کہ پینتیس فیصد جواب دہندگان کے خیال میں اسلام یورپی طرز زندگی کے لیے خطرہ ہے۔ سنہ 2016 میں ایک اور سروے میں پایا گیا کہ پینتیس فیصد سویڈش مسلمانوں کا ہی مسلمانوں کے بارے میں منفی نظریہ ہے جبکہ ستاون فیصد کا خیال ہے کہ سویڈن آنے والے مہاجرین سویڈن کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور یہ بیانیہ بنیاد پرست دائیں بازو کی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں۔
جوڈی صفین برکلے پولیٹیکل ریویو میں اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ اسلاموفوبیا نہ صرف سویڈن میں بلکہ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔ ’خاص طور پر شام اور عراق جیسے ممالک کے مسلمان جو اپنے ہی ملکوں میں جنگی جرائم اور مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ’زینو فوبیا‘ یا غیر ملکیوں کے خوف کو مختلف ممالک میں مضبوط قوم پرست رویوں سے جوڑا گیا ہے۔ لوگ اب اپنی ثقافتی شناخت، ذریعہ معاش اور یہاں تک کہ سلامتی کے کھو جانے کے خوف سے ’دوسروں‘ کی مدد کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ سویڈن میں بھی ایسا ہی ہے۔‘
سویڈن میں کچھ لبرل مبصرین بھی اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے احتجاج کو نفرت کی کارروائیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ وہ ایک مخصوص نسلی گروہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو سویڈن کے قانون کے مطابق ممنوع ہے۔
دوسری طرف سویڈن کے اندر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب پر تنقید، چاہے وہ اس کے ماننے والوں کے لیے ناگوار ہی کیوں نہ ہو، اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سویڈن میں توہین مذہب کے قانون کو واپس لانے کے لیے دباؤ کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔ سیکولر سویڈن میں کئی دہائیوں پہلے اس قانون کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیٹو کی رکنیت کے لیے سویڈن کی امیدوں کو چھ ماہ کے دوران اسٹاک ہوم میں دوسری بار قرآن نذر آتش کرنے کے بعد ایک اور دھچکا لگے گا۔ اور یہ واقعہ جس وقت پیش آیا اس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سویڈن اور فن لینڈ نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد فوجی غیر جانبداری کی اپنی دیرینہ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے گزشتہ سال نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔
رکنیت کے لیے نیٹو کے تمام رکن ممالک کی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن ترکی اور ہنگری نے ابھی تک سویڈن کی درخواست کی حمایت نہیں کی ہے۔ ترکی کیا یردوان حکومت بارہا سویڈن کی حکومت پر کالعدم باغی گروہوں، کردستان ورکرز پارٹی اور دیگر ترک اپوزیشن گروپوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ انقرہ حکومت انہیں دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے۔
دریں اثنا ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے پیر کے روز اشارہ دیا تھا کہ ان کا ملک ابھی تک نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی منظوری دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسٹاک ہوم کو اپنا ’ہوم ورک‘ ختم کرنے کے لیے مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹاک ہوم میں ہماری مقدس کتاب پر ہونے والے ’گھناؤنے حملے‘ نے ہم سب کو مشتعل کر دیا ہے، دو ارب مسلمانوں کے جذبات کی بے حرمتی کو کسی بنیادی انسانی قدر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا، سوچ یا اظہار کی آزادی تو ایک طرف۔‘
حالیہ معاملے کا مزید جائزہ لیں تو ذرائع کے مطابق پتہ چلتا ہے کہ عراقی نژاد سلوان مومیکا نے یونہی اچانک قرآن کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا بلکہ اس نے اس ضمن میں کافی عرصہ قبل سویڈش حکام سے مسجد کے سامنے مظاہرہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ پولیس کی جانب سے اجازت نہ دینے پر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور تین ماہ تک کیس چلتا رہا اور بالآخر عدالت نے اسے ایسا کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ سویڈن کے آئین کے مطابق احتجاج انسان کا حق بنیادی حق ہے۔
اس واقعے کے بعد سویڈن میں آزادی اظہار رائے کی حدود کے بارے میں زبردست بحث شروع ہو چکی ہے۔ سویڈن کی پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ان لوگوں کی جانب سے احتجاج کے لیے نئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو نہ صرف قرآن بلکہ تورات اور بائبل کو بھی جلانا چاہتے ہیں جو واقعی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔(بشکریہ : بی بی سی )
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023