ممتا حکومت کو انتقامی سیاست مہنگی پڑسکتی ہے ۔۔۔

بنگال وقف بورڈ کے چیرمین اور ممبر کے خلاف کارروائی چہ معنی دارد؟

شبانہ جاوید، کولکاتا

وقف املاک کے لوٹ کھسوٹ پر ممتا بنرجی کا سی بی آئی انکوائری کرائے جانے کا وعدہ بےسود!
مغربی بنگال وقف بورڈ ہمیشہ سے ہی سرخیوں میں رہا ہے۔ لیفٹ کے دور اقتدار سے ہی وقف املاک پر غیر قانونی قبضے کا سوال اٹھایا جاتا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت انہوں نے مغربی بنگال کے وقف املاک کی سی بی آئی انکوائری کرانے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ کے اس فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا گیا تھا اور امید ظاہر کی گئی تھی کہ وقف املاک کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث کئی سیاسی لیڈروں کو سی بی آئی انکوائری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بنگال میں ممتا بنرجی کو تیسری بار اقتدار کی کرسی ملنے کے باوجود اب تک وقف املاک کی سی بی آئی انکوائری کے وعدے کو پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔ اگرچہ کہ بورڈ کی جانب سے ایسی کمیٹی ضرور بنائی گئی جو وقف املاک کے تحفظ کی نگرانی کرسکے لیکن یہ کمیٹی بھی وقف املاک کا تحفظ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ جبکہ پہلی بار وقف بورڈ نے لوک عدالت کا انعقاد کرکے وقف کے برسوں پرانے مسائل کو حل کرنے میں کچھ حد تک کامیاب ہوئی تھی، خاص کر وقف املاک کے اور کرایے کے مسائل کو حل کیا گیا تھا اور کئی ایسے وقف املاک جس کے کرائے کئی برسوں سے وصول شدنی تھے ان کی وصولی کی گئی، جس کی وجہ سے وقت بورڈ کی آمدنی میں اضافہ تو ہوا لیکن کئی املاک پر غیر قانونی قبضہ ہو گیا۔ اب ان املاک کو دوبارہ حاصل کرنے میں بورڈ ناکام ثابت ہوا ہے۔ بورڈ کے مطابق وہ حکومت اور پولیس کی جانب سے تعاون نہ ملنے کی وجہ سے بورڈ وقف املاک کے غیر قانونی قبضے کو ختم کرانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ وقف املاک پر قبضے میں سیاسی لیڈر بھی ملوث ہیں، ایسے میں ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان تک پہنچنا بورڈ کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ بنگال کے مختلف شہروں میں وقف املاک کی ہزاروں جائیدادیں بکھری پڑی ہیں، بیشتر جائیدادیں ایسی ہیں جن پر غیر قانونی قبضے ہیں۔ بورڈ کے چیئرمین جسٹس عبدالغنی کے مطابق اگر وقف بورڈ کو اپنی جائیدادیں حاصل کرنے میں کامیابی ملتی ہے تو بورڈ کے ذریعہ مسلم سماج کی ترقی کے لیے ایک بڑا کام کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے 2011 میں جب پہلی بار اقتدار سنبھالا تھا تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنی پہلی میٹنگ میں ریاست کے اماموں اور مؤذنوں کو بالترتیب ماہانہ ڈھائی ہزار اور ایک ہزار روپے وظیفہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ وظیفہ بھی وقف بورڈ کے ذریعہ دیا گیا کیونکہ وزیر اعلیٰ کے اعلان کے بعد حکومت کو سیاسی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔یہی وجہ ہے کہ حکومت نے وقف بورڈ کو فنڈ فراہم کیا اور بورڈ کے ذریعہ اماموں اور مؤذنوں کو وظیفہ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ گزشتہ سال وظیفے کی رقم میں پانچ سو روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اب امام کو تین ہزار جبکہ مؤذن کو ڈیڑھ ہزار روپیے وظیفہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس وظیفے کے لیے بھی لوگوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ بورڈ کے مطابق اگر بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوتا تو بورڈ وظیفے میں اضافہ کر سکتی تھی لیکن وہ امام اور مؤذن کے وظیفے کے لیے پوری طرح سے حکومت پر انحصار کرتی ہے۔ بورڈ کی آمدنی اتنی محدود ہے کہ اس کی جانب سے چلائے جانے والا بیوہ بھتہ اور اسکالرشپ اسکیم کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ بورڈ ان دنوں صرف اماموں و مؤذنوں کے بچوں کو اسکالرشپ فراہم کرتا ہے۔ چیئرمین عبدالغنی کے مطابق بورڈ کی آمدنی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ بیواؤں کو دیے جانے والا بھتہ دوبارہ شروع کر سکے اور حکومت کی جانب سے بھی اتنا فنڈ فراہم نہیں کیا جاتا ہے کہ بورڈ کسی نئی اسکیم کو شروع کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بورڈ کے آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور بورڈ اپنی جائیدادوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ تعلیمی میدان میں ضرور کام کرے گا۔ انہوں نےمزید کہا کہ حکومت کو بھیجی گئی سفارشات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وقف بورڈ میڈیکل کالج اور لاء کالج بنانا چاہتا ہے۔ ایسے میں اگر بورڈ کو اپنی جائیدادیں حاصل کرنے میں کامیابی ملتی ہے تو ان جائیدادوں پر میڈیکل کالج و لاء کالج بنانے کا منصوبہ ہے لیکن بورڈ کے مطابق نہ ہی ان کے پاس جائیدادیں ہیں اور نہ ہی آمدنی، لہٰذا بورڈ بے بس ہے۔
دوسری طرف لوک سبھا الیکشن کے بعد بڑی کارروائی کرتے ہوئے ممتا حکومت نے وقف بورڈ کے چیئرمین اور بورڈ کے ممبر قاری فضل الرحمٰن سے استعفیٰ طلب کر لیا ہے۔ خبروں کے مطابق دونوں نے اپنا استعفی بورڈ کو بھیج دیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان دونوں کو لوک سبھا الیکشن میں ممتا بنرجی کے ایک بیان کی تنقید کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے جس کے خلاف لوگوں میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ بورڈ کے چیئرمین کو برخاست کیے جانے کے خلاف بھی لوگوں میں ناراضگی ہے۔ متولی ایسوسی ایشن کے رکن عرفان شیر نے چیئرمین جسٹس عبدالغنی کو بغیر کسی وجہ ہٹائے جانے کو حیران کن بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت کسی بھی چیئرمین کو اس طرح سے برخاست نہیں کر سکتی۔ حکومت کو جواب دینا ہوگا کہ آخر جسٹس عبدالغنی کو کیوں ہٹایا جا رہا ہے؟ کیا ان کے خلاف بھی کچھ ایسے الزامات ہیں جس پر کارروائی کرتے ہوئے حکومت نے ان سے استعفی طلب کیا ہے؟ قاری فضل الرحمن سے استعفی لیے جانے پر بھی متولی ایسوسی ایشن نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق الیکشن کے کے موقع پر وزیر اعلیٰ کے خلاف بیان دینا انہیں مہنگا پڑا ہے۔ بہرحال محکمہ اقلیتی امور کی جانب سے اس تعلق سے کچھ کہنے سے انکار کیا گیا ہے۔ عرفان شیر نے مزید کہا کہ وقف بورڈ کا محکمہ وزیر اعلیٰ کے ماتحت ہے، متولی ایسوسی ایشن کی جانب سے ہزاروں خط وزیر اعلیٰ کو بھیجے جا چکے ہیں لیکن نہ اس پر کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی متولی کمیٹی کے ساتھ کوئی بات چیت کی گئی ہے۔ ایسے میں وقف بورڈ کا محکمہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے ماتحت ہونے کے باوجود بورڈ کو کوئی فائدہ نہیں ملا۔ لہٰذا اس پورے معاملے پر حکومت کو صفائی دینی ہوگی۔ وقف بنگال کا ایک بڑا موضوع ہے جس کو بنیاد بنا کر ترنمول کانگریس نے الیکشن لڑا تھا۔ ترنمول کانگریس نے اپنے الیکشن منشور میں وقف بورڈ کے مسائل کو حل کیے جانے کا بھی وعدہ کیا تھا اس کے باوجود ایک بڑے موضوع کو نظر انداز کرنا افسوس ناک بات ہے۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024