ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن

ہر فرد کی ترقی کے لیے ملازمتیں پیدا کرنا سب سے بڑا چیلنج!

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

کیا سال 2025 تک بھارت پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بن پائے گا؟
دنیا میں جہاں ہر بڑی معیشت دھیمی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے وہیں بھارت کی معیشت بڑی تیزی سے مسلسل ترقیوں کی جانب گامزن ہے اور عالمی سرمایہ کاروں کا بھارت میں بڑھتا ہوا بھروسا معیشت کو مضبوط بنیاد فراہم کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بمبئی اسٹاک اکسچینج کے کل بازار کا راس المال چار ٹریلین ڈالر سے زائد ہوچکا ہے۔ سرکاری دعوے کے مطابق ہماری معیشت بہت جلد ہی چار ٹریلین ڈالر کے ہدف کو حاصل کرلے گی۔ جی ڈی پی کی بنیاد پر ہم دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکے ہیں۔ عالمی سرمایہ کار عوماً چین، امریکہ، یورپ اور بھارت میں سرمایہ لگانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔  کیونکہ یہ ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ یہاں پر معاشی شرح نمو کے اعتبار سے ہمارا ملک بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ حالیہ چار ریاستوں میں انتخابات کے نتائج سے سرمایہ کاروں کو سیاسی استحکام کی کیفیت نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف مسلسل معاشی اصلاح کے ذریعے بازار میں بہتری آئی ہے۔ بینکنگ نظام بھی بہت زیادہ ہچکولے کھانے کے بعد سنبھل کر چلتے ہوئے اچھا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انفراسٹرکچر کی ترقی، رفاہی منصوبوں اور ٹکنالوجی پر توجہ مرکوز کرنے سے اخراجات میں اضافہ تو ہوا ہے اس کے باوجود سرکاری قرض جی ڈی پی کا 82 فیصد ہے جبکہ اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ ڈیٹا سو فیصد سے بھی زیادہ رہتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی بازار کے لیے بہتر خصوصیات (Quality) کی پیداوار کو مہمیز دینے کے لیے پیداوار کی نسبت حکومت کے اچھے منصوبوں کے بہتر فوائد بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ دفاعی پیداوار نیز الکٹرونکس، انجینئرنگ اور مشینری وغیرہ کے شعبوں کے برآمدات میں تیزی آئی ہے۔
کورونا وبا کے بعد ساری دنیا میں پیدا شدہ حالات کے سبب چین میں کئی رکاوٹوں اور جیو پالٹیکل اندیشوں کے مد نظر مختلف بڑی عالمی کمپنیاں (ایم این سی) چین کے متبادل کے طور پر بھارت کی طرف دیکھ رہی ہیں جس سے توقع ہے کہ ملک کو خوب فائدہ ہوگا اور ترقی کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ لیکن اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ ایسے سبھی عوامل سے اشارے مل رہے ہیں کہ ملک کی ترقی کی رفتار روز بروز بڑھتی ہی جائے گی۔ اس کے علاوہ شیئر بازار کی پونجی اور راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں اضافہ مثبت ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھے منافع کے باوجود گھریلو صنعت اس تناسب میں سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہے۔ میوچول فنڈ میں سرمایہ کاروں نے 1.66 لاکھ کروڑ روپیہ لگایا ہے۔
  ملک کی صنعتی پیداوار امسال اکتوبر میں 11.7 فیصد بڑھی ہے جو ملکی معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔ ہماری صنعتی پیداوار کی شرح نمو اکتوبر میں بڑھ کر 16 ماہ کی سب سے اونچائی پر آگئی ہے۔ گزشتہ سال اسی مدت میں 4.1 فیصد کی تنزلی دیکھی گئی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ صنعتی پیداوار میں مینوفیکچرنگ، تعمیرات، کان کنی اور برقی شعبہ میں بہتر مظاہرہ کی وجہ سے ایسی مثبت تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ این ایس او کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں مینوفیکچرنگ کی پیداوار 10.4 فیصد بڑھی ہے۔ کان کنی میں 13.1 فیصد بہتری آئی ہے جبکہ برقی شعبہ کے پیداوار میں 21.4 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اس طرح مالی سال 2023-24 کے پہلے سات ماہ (اپریل تا اکتوبر) میں ملک کی کل صنعتی پیداوار 6.9 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ سال اسی مدت میں یہ 5.9 فیصد رہی تھی۔ امسال نومبر میں مسافر گاڑیوں کی تھوک فروخت سالانہ بنیاد پر چار فیصد بڑھی ہے۔ یہ اضافہ یوٹیلیٹی گاڑیوں کی مضبوط طلب کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے۔ یہ ڈیٹا گاڑیوں کی تنظیم سوسائٹی آف انڈین آٹوموبائل مینوفکچررس (SIAM) کی طرف سے فراہم کیا گیا ہے۔ SIAM کے صدر ونود اگروال نے کہا کہ نومبر کے پہلے پندرہ روز میں ختم تیوہاری موسم میں موٹر گاڑی صنعت کے دو پہیہ تین پہیہ اور موٹر صنعت کے سبھی شعبوں میں گزشتہ سال کے مقابلے زبردست تیزی دیکھی گئی ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک (ADB) نے دوسری سہ ماہی کی امید سے بہتر اعداد و شمار کے بعد جاریہ مالی سال کے لیے شرح نمو کا اندازہ 6.3 فیصد سے بڑھاکر 6.7 فیصد کر دیا ہے۔ ایشین ڈیولپمنٹ آوٹ لیک دسمبر 2023 کے مطابق مالی سال 2023-24 کی دوسری سہ ماہی میں امید سے بہتر 7.6 فیصد کی جی ڈی پی گروتھ دیکھی گئی ہے جس سے پہلی ششماہی اپریل تا ستمبر میں 7.7 فیصد کی بہت بہتر شرح نمو درج کی گئی۔ پچھلے دنوں  جاری اس آوٹ لیک کے مطابق کلی طور سے مالی سال 2023-24 کے لیے زراعت میں امید سے تھوڑی کم رفتار سے اضافہ کی امید ہے، لیکن جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں صنعتی پیداوار میں امید سے زیادہ بہتر مظاہرہ بتایا گیا ہے، اس سے وہ مذکورہ کمی کو رفع کر دے گا۔ اس لیے آر بی آئی نے گزشتہ ہفتہ مالی سال 2023-24 کے لیے اپنے شرح نمو کے اندازہ کو 6.5 فیصد سے بڑھاکر سات فیصد کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ فچ ریٹنگس نے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے بعد بھارتی معیشت کو  BBB/Stable کے زمرے میں رکھا ہے اور امید ظاہر کی کہ جنرل الیکشن کے بعد ملکی معیشت پالیسی میں تسلسل برقرار رہے گا۔ نومورا نے بھی کہا کہ تینوں ریاستوں میں بی جے پی کا مضبوط مظاہرہ وزیر اعظم مودی کو جنرل الیکشن میں کلین سویپ دلائے گا۔ مادھوی اروڑہ جو ایکھے گلوبل فائنانشیل سروسز کی مشہور اکانومسٹ ہیں، نے کہا ہے کہ 2024 میں مودی کی واپسی دراصل پارٹی کی طویل عرصہ سے جاری کامیاب معاشی پالیسی ہے۔ فچ کے مطابق پالیسی کا تسلسل آئندہ الیکشن کا خاص ایجنڈا ہوگا۔
بنیادی ڈھانچوں پر خرچ اور عالمی طور پر بڑی معیشتوں میں قدرے بہتری کے مظاہرہ کی وجہ سے جاریہ مالی سال 2023-24 کے پہلی ششماہی میں ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں اچھا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھورام راجن کے مطابق بھارت کو پانچ ٹریلین ڈالر کے ہدف کو پانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ 2025 تک پانچ ہزار ارب امریکی ڈالر کی معیشت کا ہدف ممکن نہیں ہوسکے گا۔ پروفیسر راجن نے مزید کہا کہ بھارت کی شرح نمو بہتر ہونے کے باوجود نجی سرمایہ کاری اور نجی کھپت میں تیزی نہیں آئی ہے۔ اس کے باوجود پہلی ششماہی میں بہت اچھے مظاہرہ کی وجہ بنیادی انفراسٹرکچر پر زبردست سرکاری خرچ ہے۔ اسی وجہ سے جولائی۔ستمبر سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 7.6 فیصد رہی۔ مگر گزشتہ چار سالوں میں بھارتی معیشت کی شرح نمو چار فیصد کی رفتار سے بڑھی ہے جو ہماری 6 فیصد کی شرح نمو سے کافی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی بس  کسی طرح قابو میں ہے۔ مشہور ماہر اقتصادیات نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ اس میں بہت تیز رفتاری کی ضرورت ہے جس کے لیے حسب ضرورت روزگار کی بڑی کمی ہے۔ جب تک کچھ عجوبہ نہیں ہوتا بھارت کے لیے 2025 تک پانچ ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت بننا تقریباً ناممکن ہی ہوگا۔ اس وقت ہم تقریباً 3500 ارب امریکی ڈالر کی معیشت ہیں اور ہمیں پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کے لیے آئندہ دو سالوں میں شرح نمو کو بارہ سے پندرہ فیصد کی رفتار سے بڑھانا ہوگا۔ پروفیسر راجن نے کہا بھارت کی سب سے بڑی طاقت اس کی 1.4 بلین آبادی ہے، اس لیے ملک کی ترقی کے لیے ہر مرحلے پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔

 

***

 جب تک کچھ عجوبہ نہیں ہوتا بھارت کے لیے 2025 تک پانچ ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت بننا تقریباً ناممکن ہی ہوگا۔ اس وقت ہم تقریباً 3500 ارب امریکی ڈالر کی معیشت ہیں اور ہمیں پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کے لیے آئندہ دو سالوں میں شرح نمو کو بارہ سے پندرہ فیصد کی رفتار سے بڑھانا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023