ملک سود کے شکنجے میں

سماجی عدم مساوات کی بڑھتی خلیج کے ساتھ ساتھ ملک کیسے ترقی کرے گا؟

زعیم الدین احمد حیدرآباد

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ حکومت کس شعبے میں سب سے زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہے؟ ہمارے ملک میں جو آمدنی ہوتی ہے اسے کن مصارف میں خرچ کیا جاتا ہے؟ ہم میں سے اکثر کا خیال یہ ہوگا کہ شاید دفاعی شعبے میں سب سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہوگا یا شعبے تعلیم پر یا ملک کی ترقی پر یا پھر عوام کو مفت راشن کی تقسیم پر خرچ کیا جاتا ہوگا؟ یہ سوالات ایک عام شہری کے ذہن میں آنے لازمی ہیں، ہر کوئی سوچتا ہے کہ حکومت کو جو آمدنی ہو رہی ہے آخر وہ کہاں خرچ ہو رہی ہے؟ اگر ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ آمدنی ملک کی ترقی میں خرچ ہو رہی ہے، ریاستوں کی بہبود میں صرف ہو رہی ہے تو یہ ہماری خام خیالی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کو جو آمدنی ہوتی ہے اس کا زیادہ تر حصہ قرضوں پر عائد سود ادا کرنے میں خرچ ہو جاتا ہے۔
ہمارا ملک سالانہ 45 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرتا ہے اور 2023 تا 2024 کے دوران وہ تقریباً پینتالیس لاکھ کروڑ روپے مختلف کاموں میں خرچ کرنے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی کثیر رقم آخر کس میدان میں خرچ ہو رہی ہے؟ یہ جان آپ کو حیرت بھی ہوگی اور افسوس بھی ہو گا کہ جملہ رقم کا تقریباً 20 فیصد حصہ تو محض سود کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔
مرکزی حکومت لیے گئے قرضوں پر جو سود ادا کر رہی ہے اس میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر گزشتہ سالوں کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ سود کی ادائیگی میں کس قدر بھاری اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2017-18 میں قرضوں پر جو سود کی رقم ادا کی گئی وہ 5 عشاریہ 29 لاکھ کروڑ روپے تھی جبکہ 2021-22 میں 8 عشاریہ صفر 5 لاکھ کروڑ روپے سود ادا کیا گیا۔ رواں سال کے اعدادوشمار وصول طلب ہیں۔
یعنی ان پانچ سالوں میں سود کی ادائیگی میں 52 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اور حالت یہ ہے کہ کسی بھی سال اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ مرکزی حکومت تو کہہ رہی ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا کمی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔
سال 2022-23 کا تخمینہ ہے کہ اس سال قرضوں پر سود کی ادائیگی تقریباً 9 عشاریہ 41 لاکھ کروڑ روپے تک ہونے کا امکان ہے جب حسابات مکمل ہوں گے تب ہمیں حقیقی اعداد و شمار معلوم ہو جائیں گے۔ اس سال بھی کمی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے بلکہ کے اس میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے، آئندہ مالی سال یعنی 2023-24 میں 10 عشاریہ 79 لاکھ کروڑ روپے لیے گئے قرضوں پر سود ادا کیا جائے گا۔ دیکھیے کس طرح ہر سال سود کی رقم کی ادائیگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کسی سال بھی کمی کا سوال ہی نہیں ہے بلکہ گزشتہ چھ سالوں میں یہ دوگنا ہو گیا ہے۔ مرکزی وزیر خزانہ نے جب بجٹ پیش کیا اس میں انہوں نے کہا کہ اس مالی سال میں 45 لاکھ کروڑ روپے مختلف کاموں میں خرچ کیے جائیں گے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان 45 لاکھ کروڑ روپے میں سے تقریباً 11 لاکھ کروڑ روپے ہم لیے گئے قرضوں کا سود ادا کریں گے۔
اگر اس رقم کو فیصد کے حساب سے دیکھیں گے تو یہ بیس فیصد ہوگا، یعنی سود کی ادائیگی کا تناسب تمام اخراجات میں سب سے زیادہ ہے۔ ریاستوں کو جو رقم مختص کی جاتی ہے وہ 16 فیصد ہوتی ہے، دفاع کو جو رقم مختص کی جاتی ہے وہ 8 فیصد ہوتی ہے، یہاں تک مفت راشن کی تقسیم پر بھی جو رقم خرچ کی جاتی ہے وہ بھی محض 8 فیصد ہی ہوتی ہے۔ مفت تقسیم پر مرکزی حکومت بڑا واویلا مچاتی ہے کہ مفت کی ریوڑیاں بند ہونی چاہئیں یہ کسی بھی جمہوریت کے لیے اچھی علامت نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کو مفت تقسیم کے بارے سوچنا چاہیے وغیرہ، اس کے باوجود اس مفت تقسیم پر صرف آٹھ فیصد ہی خرچ ہوتا ہے، یعنی ریوڑوں پر کی جانی والی رقم کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ سود ادا کیا جا رہا ہے، مگر اس معاملے میں حکومت کے لب سلے ہوئے ہیں کوئی بات ہی نہیں ہوتی، سارے میڈیا اداروں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ کبھی ہمارے ملک کے مکھیا کی زبانی آپ نے سنا ہے کہ ملک قرضوں تلے دبا جا رہا ہے اور سود ادا کرتے کرتے ملک کی معیشت کا دم نکل رہا ہے؟ ہاں آپ نے یہ ضرور سنا ہوگا کہ ریوڑی کلچر کو ختم ہونا چاہیے، لیکن آپ نے ان کی زبان سے یہ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ سودی کلچر کو ختم ہو جانا چاہیے۔
عوام کی بہبود پر ہونے والے خرچ کو ریوڑی کہہ کر غریبوں کو بے عزت کیا جاتا ہے ان کی تذلیل کی جاتی ہے، لیکن سود کی ادائیگی کے بارے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ کیا اس سے سارے ملک کی بے عزتی نہیں ہورہی ہے؟ کیا ملک کا وقار مجروح نہیں ہو رہا ہے؟ مفت کی ریوڑیاں ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن سود کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ کیوں ملک کی آمدنی کو بڑھا کر اور پیداوار میں اضافہ کر کے قرضوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا رہا ہے؟ آخر کیوں اتنی بھاری مقدار میں سود ادا کیا جا رہا ہے؟ ملک کے خزانوں کا صحیح استعمال کرکے سود کو ختم کیا جا سکتا ہے، اس جانب حکمرانوں کی توجہ کیوں نہیں ہے؟ ملک کی آمدنی کو بڑھانے سے کس نے روکا ہے؟ اس مالی سال کے بجٹ کے حساب سے تو بیس فیصد سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ 45 لاکھ کروڑ روپے میں سے 11 لاکھ کروڑ روپے محض سود میں ادا کیے جائیں گے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ عوامی بہبود کے کاموں پر خرچ کم کیا جا رہا ہے رعایتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں، اس کے بجٹ میں خرچ کو گھٹا کر سات فیصد کردیا گیا ہے، ایک طرف سود ادا کرنے کے لیے رقم بڑھائی جا رہی ہے دوسری طرف سبسیڈی کی رقم میں کمی لائی جا رہی ہے۔ غذاؤں پر رعایت یعنی فوڈ سبسڈی میں 90 ہزار کروڑ روپے گھٹائے گئے ہیں، کھاد پر رعایت یعنی فرٹیلائزرس پر 50 ہزار کروڑ روپے سبسڈی گھٹائی گئی ہے، پٹرولیم سبسڈی پر 6 ہزار 8 سو کروڑ روپے گھٹائے گئے ہیں، واہ رے مودی سرکار تیرے روپ نرالے۔
جس ملک کے پاس معدنی ذخائر موجود ہوں، جو اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھا کر آمدنی میں اضافہ کر سکتا ہو اس ملک کو قرض لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہمارا ملک معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ یہاں گھریلو پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، متمول سرمایہ داروں پر اضافی ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے، اس کے ذریعے آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ حکومت تو سرمایہ داروں کے قرضوں معاف کرتی ہے، ان کے ٹیکسوں میں کمی کرتی ہے، غریبوں اور متوسط طبقے پر نت نئے طریقوں سے ٹیکس عائد کرتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس بجٹ میں بھی جن کی آمدنی پانچ کروڑ سے زائد ہے ان پر آمدنی کے ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، کیا ان جیسے متمول گھرانوں کو ٹیکس میں کمی کرنے کی ضرورت ہے؟ آپ کو یاد ہوگا مودی سرکار نے 2019 میں کارپوریٹ انکم ٹیکس میں کمی کی تھی جس سے ملک کو ہر سال ایک لاکھ 84 ہزار کروڑ روپیوں کا نقصان ہو رہا ہے، کیا مودی سرکار کو ایسا کرنے کی ضرورت تھی؟ ایک طرف کارپوریٹ گھرانوں کو اور متمول گھرانوں کو انکم ٹیکس میں رعایتیں دی جا رہی ہیں، دوسری طرف عوامی بہبود کے کاموں میں صرف ہونے والی رقم میں کمی لائی جا رہی ہے؟ اس طرح کی عدم مساوات سماج میں رہیں گی تو بھلا ملک کیسے ترقی کرے گا؟ عوام کو جاگنا چاہیے اور صورت حال بدلنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔

 

***

 ایک طرف کارپوریٹ گھرانوں کو اور متمول گھرانوں کو انکم ٹیکس میں رعایتیں دی جا رہی ہیں، دوسری طرف عوامی بہبود کے کاموں میں صرف ہونے والی رقم میں کمی لائی جا رہی ہے؟ اس طرح کی عدم مساوات سماج میں رہیں گی تو بھلا ملک کیسے ترقی کرے گا؟ عوام کو جاگنا چاہیے اور صورت حال بدلنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 اپریل تا 15 اپریل 2023