ملک میں بھکمری اور بے روزگاری حکومت کی اندھی اور بے سمت پالیسیوں کا نتیجہ

کروڑہا غریب ومفلس عوام کے درمیان چند دولت مند کروڑ پتی خاندانوں کا بسیرا

سرشٹی جیسوال

اس ملک میں جہاں ہر دن 70 لوگ ارب پتی بنتے ہیں، سب سے زیادہ بھوکے رہتے ہیں
دارالحکومت نئی دلی کے ایک انتہائی پسماندہ علاقے میں زندگی گزارنے والی دو بچوں کی ماں نسرین خاتون نے وائس ورلڈ نیوز کو بتایا کہ اس کے گھر میں جس دن دودھ ہوتا ہے اس دن شکر نہیں ہوتی اور جس دن شکر ہوتی ہے اس دن دودھ نہیں ہوتا۔ روزانہ سوچتی ہوں کہ کل مجھے اور میرے بچوں کو کھانے کے لیے کچھ ملے گا بھی یا نہیں؟ مجھے اس بات کا بھی کوئی یقین نہیں ہوتا کہ بھوک کی ناقابل برداشت تکلیف سے کل تک زندہ رہ پاوں گی بھی یا نہیں۔ جب میرے بچے بھوک سے روتے بلبلاتے ہیں تو کبھی کبھی میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ کیوں نہ میں خود اپنے آپ کو ختم ہی کر لوں؟
بھارت میں غربت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور فاقہ کشی کی تکلیف سے لوگ بلبلا رہے ہیں۔ بھارت! یہ وہ ملک ہے جہاں 80 کروڑ بھوکے عوام، حق غذا اسکیم کے تحت، مفت غذا فراہم کیے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ رعایتی قیمت پر راشن کی دوکانوں سے اناج خریدنا چاہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق سو کروڑ عوام دو وقت کی روٹی کےلیے فاقہ کشی سے بچنے کے لیے رعایتی قیمت پر اناج خریدنے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن شاید انہیں معلوم نہیں کہ وہ اس سرکاری اسکیم کے ثمرات سے عمداً محروم کر دیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان پسماندہ خاندانوں اور ان کے افراد کے نام سرکاری اسکیموں سے استفادے کے لیے تیار کردہ فہرستوں میں موجود نہیں ہیں۔ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ غریبوں کو مفت اناج فراہم کرنے کے لیے تیارکردہ فہرست میں مزید ایک کروڑ خاندان شامل کیے جائیں گے۔ نسرین خاتون بھی انہیں بدنصیبوں میں سے ایک ہے جو اس اعلان کے بعد پر امید تھی کہ کم از کم اب تو خوش نصیب خاندانوں کی اس نئی فہرست میں اس کا نام بھی شامل کیا جائے گا، اسے بھی مفت اناج ملے گا، اب اس کے بچے بھوک سے نہیں بلبلائیں گے لیکن افسوس! اس نئی ترتیب شدہ فہرست میں بھی اس کا نام نہیں تھا۔ 2022ء کے اعداد و شمارکی روشنی میں کچھ عرصہ قبل جاری کردہ بھوک سے متاثرہ 121 ممالک کی عالمی فہرست جاری کی گئی تھی جس میں بھارت کا نمبر 107 ہے۔ بھارت میں بھوک و فاقہ کشی کی یہ صورت حال ہمارے لیے شدید تشویشناک ہے۔ حکومت نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے گمراہ کن، غلط، بے بنیاد اور ملک کو بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیا ہے۔ حکومت ملک میں حقیقی طور پر موجود غربت، افلاس اور بھکمری کی چاہے کتنی ہی تردید کیوں نہ کرے، حقیقت تو یہی ہے کہ عوام کو ملنے والی ملاوٹ شدہ غذاوں اور کھلے مقامات پر ذخیرہ کردہ سرکاری اناج کی بربادی پر تحقیق کے بعد جرات مندی کے ساتھ ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے جس کی حکومت تردید کرتی ہے۔
وایس ورلڈنیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے سابق مشیر براج پٹنایک جنہوں نے حق غذا کے حصول میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی تھی، کہا کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک میں بچوں کی ایک تہائی آبادی ناکافی اور غیر تغذیہ بخش خوراک کا شکار ہے۔ انہوں نے ایک سرکاری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں بچوں کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے ضائع کرنے کا مطلب واضح کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو کم غذائیت والی غذائیں دینے سے بچوں کی نشو و نما رک گئی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جسمانی خرابیاں ان بچوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہیں۔ بالفاظ دیگر بچوں کو ایسی کم غذائیت والی غذائیں میسر آنا جن سے ان میں جسمانی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں بچوں کا وزن کم ہو جاتا ہے اور نشو و نما کا عمل رک جاتا ہے، دراصل انہیں ضائع کرنا ہی ہے۔ نتیجتاً ایسے بچے یا تو بڑے ہونے سے پہلے ہی مرجاتے ہیں یا زندگی بھر جسمانی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔
عالمی معیشت کی سطح پر ہمارا ملک پانچویں مقام پر ہے اور اسی ملک میں مفلسی، فاقہ کشی اور بیروزگاری کی سطح تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ حیرت ناک صورت حال یہ بھی ہے کہ اسی ملک میں انہیں مفلوک الحال آبادی کے درمیان سیکڑوں ناقابل یقین دولت کے مالک اور غیر معمولی دولت مند خاندان بھی رہتے بستے ہیں۔ بھارت کے غریب، نادار، مجبور اور مفلس آبادی کی اس تحقیقی فہرست کے جاری ہونے سے ایک مہینہ قبل ہی ایک بھارتی تاجر گوتم اڈانی کے دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہونے کا اعلان کیا گیا۔ فوربس رئیل ٹائم Forbes Real Time نے گوتم اڈانی کو ارب پتیوں کی فہرست میں تیسرا مقام دیا ہے اور ایشیاء کے امیر ترین افراد کی فہرست میں گوتم اڈانی کا نام پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا کے دیگر امیر ترین لوگوں میں بھارت کے ارب پتی مکیش امبانی کا نام آٹھویں نمبر پر ہے۔ آکسفام Oxfam کے مطابق بھارت کی کل دولت کا 77 فیصد حصہ یہاں کے 10 فیصدامیر ترین افراد کے قبضے میں ہے۔ ایک اور مستند رپورٹ کے مطابق 2018 سے آج تک بھارت میں ارب پتیوں کی فہرست میں روزانہ بلا مبالغہ 70 نئے ارب پتیوں کا مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
تحریک حق غذا سے وابستہ حقوق انسانی کے علمبردار انجلی بھاردواج نے News VICE World وائس ورلڈ نیوز کو بتایا کہ آج ملک میں دراصل دو بھارت بستے ہیں، ایک بھارت دولت مندوں کا، جہاں امیر دن بدن مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں اور دوسرا بھارت جس میں فاقہ کش، غریب، مفلس افراد بستے ہیں، جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں امیروں کی دولت میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف غریب بھوکے عوام تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ بھارت سرکار کی طرف سے ان حقائق کی پردہ پوشی، انکار اور تردید کے باوجود ملک میں فاقہ کشی سے مرنے والوں کی خبریں متواتر آرہی ہیں۔ چنانچہ اسی سال مغربی بنگال میں ایک 30 سالہ غریب و نادار جوڑا ایسا بھی تھا جسے جو کچھ بھی میسر آتا تھا اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خود بھوکا رہ کر انہیں کھلا دیا کرتا تھا۔ مسلسل غذا نہ ملنے سے اور بھوک کی شدت کی تاب نہ لا کر دونوں نے خود کشی کر لی۔ بھارت سرکار نے اس خبر کی پر زور تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس جوڑے کی موت بھوک سے نہیں بلکہ ٹی بی کے مرض سے ہوئی۔ حقوق انسانی کی علمبردار ایک مقامی تنظیم نے حکومت کے اس تردیدی بیان کو غلط ٹھیرایا اور کہا کہ یہ جوڑا موت سے کئی دن پہلے سے غذا سے محروم رہا۔
بھارت کے ایک سابقہ وزیر فینانس نے 2020ء میں لکھا تھا کہ عوام کو ہرگز یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ فاقہ کشی سے ملک میں کتنے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیوں کہ کوئی بھی ریاست ہرگز اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گی کہ ان کی اپنی ریاست میں ایک بھی شخص فاقہ کشی سے مرا ہو۔ ملک میں فاقہ کشی سے ہونے والی کئی اموات کی تصدیق کے باوجود جنوری 2022ء میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ملک میں فاقہ کشی سے آج تک ایک بھی شہری کی موت نہیں ہوئی۔
2020ء میں اتر پردیش کے ضلع آگرہ میں ایک پانچ سالہ لڑکی سونیا کماری نے پندرہ دن تک کھانا نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ دیا۔ جس دن اس معصوم لڑکی کی موت ہوئی، اسی دن ان کے کسی پڑوسی نے گلوکوز بسکٹ کا ایک پیکٹ اس خاندان کو لا کر دیا تھا جو خود بھی پندرہ دن سے فاقہ کشی کاشکار تھا۔ اسی سال ایک چار ماہ کی معصوم بچی جو اس کی فاقہ زدہ ماں کا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے بھوک سے بلک بلک کر مرگئی۔ اس بچی کی ماں نفیسہ نے بتایا کہ وہ خود کئی دن سے فاقہ کشی کا شکار ہے جس کی وجہ سے اسے دودھ نہیں آ رہا تھا۔ اسی سال جھارکھنڈ میں ایک پانچ سالہ لڑکا نعمانی بھوک کی شدت سے بیہوش ہو گیا تھا اور اسی حالت میں وہ دم توڑ گیا۔
آکسفیم OXFAM کے ایک مشاہدے کے مطابق بھارت میں امیروں اور غریبوں کے درمیان جو خلیج ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں کام کرنے والا ایک مزدور اگر 941 سال تک مسلسل کام کرے تو اس کی آمدنی ایک ایسے ملازم کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہو سکتی ہے جو کسی کپڑے بنانے والی کمپنی میں بحیثیت مینیجر کام کرتا ہو۔ بھارت میں دولت کی انتہائی غیر متناسب اور غیر معقول تقسیم کے ضمن میں آکسفیم نے انکشاف کیا ہے کہ 2017 سے دیس کی 73 فیصد دولت پر صرف ایک فیصد امیروں کا مکمل قبضہ ہے۔ اس کے علاوہ 67 کروڑ غریب ہندوستانی شہری جو کل آبادی کا نصف حصہ ہیں، ان کی ماہانہ آمدنی میں صرف ایک فیصد ہی کا اضافہ ہوا ہے۔ امیروں کی دولت کا اندازہ اس بات سے بھی بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی نجی دولت ملک کے کل وفاقی بجٹ برائے سال 2018-2019 سے، یعنی 296 بلین ڈالر سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دلی کی جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے معاشیات کے ایک پروفیسر ہیمانشو نے وائس نیوز ورلڈ کو بتایا کہ ملک میں بھوک اور عدم مساوات کا ماحول جو چاروں طرف برپا ہے محض حکومت کی اندھی اور بے سمت پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج ملک میں غذائی تقسیم کا ایک بہت بڑا نظام چلایا جا رہا ہے لیکن اس کے طریقہ کار میں کئی نمایاں نقائص، بے شمار خامیاں اور بڑے بڑے شگاف پائے جاتے ہیں۔ غذائی تقسیم کے اس نظام کو چلانے کے لیے بجٹ میں بلاوجہ کٹوتی بھی کی جاتی ہے جو اس نظام کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ غذائی تقسیم کے اس نظام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اگر حکومت واقعتا سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ اس کام پر کڑی نگرانی رکھے اور اگر ضرورت پڑے تو اس کے طریقہ عمل میں مداخلت بھی کرے۔ OXFAM کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ پرواس رنجن مشرا نے VICE World News کو بتایا کہ جاری کردہ مختلف اعداد وشمار اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے اکثر غذا اور صحت کے تمام شعبہ جات کی اسکیموں پر عمل آوری کے لیے مطلوبہ بجٹ سے کئی گنا کم بجٹ الاٹ کیا جاتا رہا ہے۔سونیا، نعمانی اور عارض جنہوں نے فاقہ کشی کی وجہ سے اپنی جانیں گنوائیں، ان کے خاندانوں کو آج تک نہ راشن کارڈ دیا گیا نہ کوئی سرکاری اجازت نامہ، جس سے وہ راشن کی دوکان سے رعایتی قیمت پر سستا اناج خرید کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ غذا کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن راشن کارڈ صرف چند محدود اور مخصوص خاندانوں کو ہی اجرا کیے جاتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر راشن کارڈ رکھنے کا حق صرف منتخب شہریوں کو ہی حاصل ہے جو یقینا صحیح نہیں ہو سکتا۔ شری مشرا نے یہ بھی کہا کہ غذا کی ایسی غیر منصفانہ تقسیم کی ذمہ دار ٹیکس وصول کرنے کی سخت پالیسی بھی ہے جو غریبوں سے سختی سے وصول کرلیتی ہے لیکن امیروں کے ساتھ انتہائی نرم رویہ رکھتی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ 2015 سے قبل تک حکومت امیروں سے دولت ٹیکس وصول کیا کرتی تھی لیکن حکومت نے 2015 میں ’دولت ٹیکس‘ قانون برخاست کر دیا جب کہ ملک میں 142 ارب پتی خاندان موجود تھے۔ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر 2019 میں حکومت نے اجتماعی ٹیکس Corporate Tax بھی برخاست کر دیا جس سے ملک کو دو سال میں 22 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بجائے بالراست ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا کیوں کہ کارپوریٹ ٹیکس ہر عام شہری آج بھی پابندی سے ادا کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والا غریب مزدور اور ایک کروڑ پتی امیر، دونوں یکساں یعنی 12 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں جب وہ بسکٹ، مکھن کا پیکٹ یا کوئی بھی چیز بازار سے خریدتے ہیں یا کوئی چیز کھاتے ہیں۔
بھاردواج نے کہا کہ ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور بالراست ٹیکس عائد کیے جانے کی وجہ سے روزمرہ کے استعمال کی عام اشیاء، ادویات اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں روزانہ بے تحاشہ اور مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں صحت کی برقراری کے لیے ضروری غذاوں سے حاملہ عورتیں، نوزائدہ بچے اور عام خواتین غذائیت بخش غذاوں اور دواوں سے محروم ہو گئے ہیں جس سے حاملہ عورتیں، جسمانی طور پر کمزور اور نوزائدہ بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
مشرا نے کہا کہ حکومت غریب عوام سے ہر قسم کے راست اور بالراست ٹیکس تو بڑی پابندی اور نہایت سختی کے ساتھ وصول کر لیتی ہے لیکن سماجی خدمات کے لیے ضروری بجٹ میں مسلسل کٹوتی کرتی رہتی ہے۔ بالراست ٹیکسوں کی وصولی سے اجتماعی ٹیکسوں کی شرح میں کمی سے حکومت کو ہونے والا نقصان ایک حد تک کم بھی ہوجاتا ہے۔ بالفاظ دیگر حکومت دولت مند طبقے کو اپنی دولت بچانے کا قانونی موقع فراہم کرتی ہے اور غریب عوام کو فاقہ کشی، غربت اور بیماریوں کے سبب سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔
ہیمانشو نے کہا کہ ایک طرف بھوک اور دوسری طرف غریب عوام کی غیر منصفانہ اور غیر متناسب آمدنی دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر آمدنی کا غیر مساویانہ تناسب گھٹا دیا جائے تو بھوک اور فاقہ کشی کا تناسب بھی کم ہوگا! لیکن ہاں، اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو تو یہ بھی ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ دولت مندوں سے دولت ٹیکس وصول کرنے کا قانون دوبارہ نافذ کیا جائے۔ اس آمدنی سے اگر حکومت سماجی تحفظات کی اسکیمات پر عمل آوری کے لیے دل کھول کر خرچ کرے گی تو یقینا ملک میں کسی مثبت تبدیلی کی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت ایسا نہیں چاہتی ہے تو سماج میں کسی بھی بہتر تبدیلی کی امید کرنا ہی فضول ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نسرین خاتون جیسے کروڑوں مجبور اور غیر محفوظ خاندان، عمر بھر رعایتی قیمتوں پر غذائی اجناس حاصل کرنے کے لیے راشن کارڈ کی اجرائی کا انتظار کرتے کرتے فاقہ کشی اور بیماریوں سے مرجائیں گے۔
( ترجمہ: سلیم الہندی حیدرآباد)

 

***

 عالمی معیشت کی سطح پر ہمارا ملک پانچویں مقام پر ہے اور اسی ملک میں مفلسی، فاقہ کشی اور بیروزگاری کی سطح تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ حیرت ناک صورت حال یہ بھی ہے کہ اسی ملک میں انہیں مفلوک الحال آبادی کے درمیان سیکڑوں ناقابل یقین دولت کے مالک اور غیر معمولی دولت مند خاندان بھی رہتے بستے ہیں۔ بھارت کے غریب، نادار، مجبور اور مفلس آبادی کی اس تحقیقی فہرست کے جاری ہونے سے ایک مہینہ قبل ہی ایک بھارتی تاجر گوتم اڈانی کے دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہونے کا اعلان کیا گیا۔ فوربس رئیل ٹائم Forbes Real Time نے گوتم اڈانی کو ارب پتیوں کی فہرست میں تیسرا مقام دیا ہے اور ایشیاء کے امیر ترین افراد کی فہرست میں گوتم اڈانی کا نام پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا کے دیگر امیر ترین لوگوں میں بھارت کے ارب پتی مکیش امبانی کا نام آٹھویں نمبر پر ہے۔ آکسفام Oxfam کے مطابق بھارت کی کل دولت کا 77 فیصد حصہ یہاں کے 10 فیصدامیر ترین افراد کے قبضے میں ہے۔ ایک اور مستند رپورٹ کے مطابق 2018 سے آج تک بھارت میں ارب پتیوں کی فہرست میں روزانہ بلا مبالغہ 70 نئے ارب پتیوں کا مسلسل اضافہ ہوا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022