ملک میں سیٹھوں کی آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے مگر غریب حاشیے پر
منریگا سے کام مل رہا ہے مگر مہنگائی کے سبب بچت ممکن نہیں
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ملک میں تعلیم دن بدن مہنگی، نوکریاں غائب اور گرانی کے باعث تنخواہیں کم ہو رہی ہیں
آر بی آئی نے مرکزی حکومت کو 2.11 لاکھ کروڑ روپے کا زبردست منافع منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 2022-23 کے مقابلے میں یہ منافع 141 فیصد زیادہ ہے۔ یہ منافع کا حصہ مالی سال 2023-24 کی مدت میں غیر ملکی اور گھریلو اثاثے (Assets) سے آر بی آئی کی کمائی ہوئی دولت ہے۔ یاد رہے کہ وزیر مالیات کے پیش کیے گئے عبوری بجٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ آر بی آئی مالی اداروں اور غیر مالی اداروں والی کمپنیوں سے حکومت کو کل 1.5 لاکھ کروڑ روپے دے گا ۔ اس طرح محض آر بی آئی کے منافع کے حصہ میں آئی ہوئی دولت ممکنہ دولت سے چالیس فیصد زائد ہے۔ اس طرح یہ ابھی تک حکومت کو ملنے والا سب سے زیادہ منافع کا حصہ ہے۔ 2022-23 میں یہ رقم محض 87 ہزار 416 کروڑ روپے ہی تھی۔ اس سے قبل بھی 2018-19 میں بھی اچھا خاصا منافع ملا تھا جس کی مالیت 1.76 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ اب یہ رقم حکومت کے کھاتے میں 2024-25 میں نظر آئے گی۔ اس طرح آئندہ حکومت کو اپنے فلاحی کاموں اور انفراسٹرکچرل منصوبوں میں خرچ کرنے کے لیے بڑی رقم ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس سے بجٹ خسارہ کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا۔ عبوری بجٹ میں مالی خسارہ کو نامینل جی ڈی پی یعنی 5.1 فیصد تک رکھنے کا ہدف متعین کیا گیا ہے۔
آر بی آئی کی اس خطیر آمدنی میں غیر ملکی کرنسی کے ذخیرہ میں حاصل شدہ رقم بذریعہ سود شامل ہے۔ ملک میں جو اثاثے ہیں اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوئی ہے۔ مالی خسارہ (Inflation) کو قابو میں رکھنے کے لیے دنیا کے زیادہ تر مرکزی بینکوں نے شرح سود کو بڑھایا ہے۔ اس آمدنی کی ایک وجہ غیر ملکی کرنسی کے ذخیرہ کی تخمینی قدر بھی ہے جو اندازہ سے زیادہ رہی۔ مارچ کے اخیر میں آر بی آئی کے پاس 646 ارب ڈالر کا غیر ملکی کرنسی کا ذخیرہ تھا جو اپریل میں بڑھ کر 648.56 ارب ڈالر ہو گیا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے چنانچہ مرکزی بینک نے ہنگامی فنڈ کو چھ فیصد سے بڑھا کر6.51 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آر بی آئی کے سابق گورنر بمل جالان کی زیر سربراہی کمیٹی کی سفارش کے مطابق آر بی آئی کے بہی کھاتہ میں اس فنڈ کو 5.5 فیصد سے چھ فیصد تک رکھنا ہوتا ہے اس سے حکومت کے فلاحی اسکیموں کو عوام الناس تک پہنچانے میں سہولت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ مالی سال 2024 کے لیے حکومت کو آر بی آئی نے 2.11 لاکھ کروڑ روپے کے سرپلس ٹرانسفر کی منظوری دی ہے۔ اس طرح کے سرپلس کی منتقلی 2024 کے لیے ہے۔ اس سرپلس کا اعلان آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے آر بی آئی کے سنٹرل بورڈ کے ڈائرکٹرس کی 608ویں میٹنگ میں کیا جو گزشتہ 22 مئی کو منعقد ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ آمدنی اور خرچ کو سرپلس کہتے ہیں۔ آر بی آئی کے لیے پروویژن اور رینیڈیڈ کمائی کے بعد سرپلس کو حکومت کو ٹرانسفر کرنا ہوتا ہے۔ آر بی آئی کی 1934 کی آرٹیکل 47 (Allocation of Surplus Profit) کے مطابق ہی اس طرح کی منتقلی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں سرپلس جنریشن کا ایک طریقہ کار، گھریلو اور غیر ملکی سیکیوریٹیز پر سود سروسز سے فیس اور کیش فارن اکسچینج معاملتوں سے نفع اور سبسیڈئیری اور اسوسی ایٹ کمپنیوں سے ریٹرن وغیرہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی آر بی آئی کے اخراجات ہوتے ہیں۔ مثلاً نوٹوں کی چھپائی، بینک میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ، بینک کو فوری طور سے پیسوں کی ضرورت اور Depreciation کے لیے نظم کرنا ہوتا ہے۔
یہ اب تک کا سب سے بڑا سرپلس ہے۔ ماہرین کے مطابق سرپلس کی رقم میں تیزی سے اضافہ کی وجہ فارکس ہولڈنگ سے آر بی آئی کی آمدنی ہے۔ یہ بڑا سرپلس مرکزی حکومت کے لیے ایک طرح سے زائد ہے۔ کیونکہ یہ مرکز کی لیکیوڈیٹی سرپلس اور اس کے بعد اخرجات کو مضبوطی سے سہارا دے گا۔ مختصر یہ کہ اس سے حکومت کو اپنا مالیاتی خسارہ کم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ حکومت نئے منصوبوں پر ہاتھ کھول کر خرچ کرسکے گی اور سرمایہ کاری کی ہدف میں کمزوری کے بعد ریونیو کلکشن میں ہونے والی کمی کو پورا کرے گی۔ ماہرین کے مطابق مالیاتی خسارہ میں اس نفع سے 0.4 فیصد کی کمی آسکتی ہے۔ کوٹک مہندرا کی چیف اکنامسٹ اپاسنا بھردواج کا ماننا ہے کہ ڈیوایڈینڈ سے مالی سال 2025میں مالیاتی خسارے میں کمی آئے گی، جبکہ آر بی آئی یہ بھی باور کروا رہا ہے کہ یہ سریلس بمل جالان کمیٹی سفارشوں کے مطابق دیا جا رہا ہے۔
حکومت کی آمدنی بڑھ رہی ہے۔ سنسیکس آسمان پر ہے۔ ہفتہ کے آخری کاروباری دن یعنی 24 مئی کو شیئر بازار آل ٹائم ہائی پر پہنچ گیا ہے۔ سنسیکس 75 ہزار سے اوپر پہنچ گیا تھا جبکہ نفٹی 23 ہزار 26 کے نشانہ پر تھا۔ وزیر اعظم مودی نے اکنامک ٹائمس کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ 4 جون کو جیسے ہی بی جے پی ریکارڈ عدد کو پہنچے گی شیئر بازار بھی نئی اونچائی پر پہنچ جائے گا۔ اس بیان کا مثبت اثر بازار پر نظر آرہا ہے۔ اس طرح حکومت کی آمدنی جس کا تذکرہ بالتفصیل مذکورہ سطور میں درج کیا گیا ہے اور شیئر بازار میں اچھال سے سرمایہ کاروں کی جے جے ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ملک کے کروڑوں غربا تفریق اور منافرت کی مار جھیل رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کولکاتا جیسے بڑے شہروں کے سڑکوں کے کنارے سیکڑوں کی تعداد میں مزدوروں، مفلس اور حاشیے پر پڑے لوگ سوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ انہیں بھی مودی کے جملہ بازی کے ذریعے پکا مکان ملنا تھا۔ ہمارے ملک کا بڑا حصہ ایسا ہے جہاں پانی دستیاب نہیں ہے لوگ بڑی مشقت سے میلوں جاکر پانی حاصل کرتے ہیں پھر بھی انہیں صاف پانی میسر نہیں ہے۔ نل سے جل کا منصوبہ یوں ہی سسک رہا ہے۔ بے آب و گیاہ علاقوں میں زراعت کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں پھر بھی لوگ وہاں گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ ہماری ملک کی معیشت بڑی تیزی سے دنیا کی سب سے تیز تیسری بڑی معیشت بننے جارہی ہے۔ متوسط طبقہ کی آبادی میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ موبائل فون روز مرہ کے ساز و سامان کی بڑھتی دستیابی بڑے بڑے مالس، سینما ہالس، شراب خانے، چوڑی چوڑی بین ریاستی سڑکیں جس سے شائننگ انڈیا کا نمونہ ہمارے سامنے آرہا ہے مگر یو این ڈی پی نے ہمارے ملک کی فی کس آمدنی کا شہروں میں اندازہ 1286 روپے اور گاوں میں 1086 روپے ماہانہ بتایا ہے جبکہ مفلسوں کی تعداد 23 کروڑ ہے جو اندازہ سے کم ہے۔ ورلڈ ایکویٹی لیب کے مطابق نچلی سطح کے 50 فیصد یعنی کروڑ لوگوں کے پاس قومی دولت کا محض تین فیصد ہی ہے اور وہ قومی آمدنی کا صرف 13 فیصد ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ حکومت کے ہاوس
ہولڈ کنزمپشن اکسپینڈیچر سروے(Household Expenditure Survey) کے اندازہ کے مطابق نچلی سطح پر 50 فیصد گاوں میں ماہانہ 3094 روپے اور شہروں میں 2001 روپے ماہانہ گھریلو کھپت (Household consumption per month) کا اندازہ ہے۔ یعنی آمدنی اتنی ہی ہوتی ہے کہ کسی طرح گزر بسر کے قابل رہیں۔ ایک بڑی حقیقت جسے ہماری مرکزی حکومت ہمیشہ کئی سالوں سے ناقابل بھروسا کہتی ہے، وہ ہے گلوبل ہنگر انڈیکس ( GHI) جس میں 125 ممالک میں ہمارا مقام 111واں ہے۔ ایچ سی ای ایس کی رپورٹ کے مطابق غرباء میں او بی سی کی حالت عام سطح پر ہے۔ جبکہ ایس سی/ ایس ٹی کی حالت معاشی طور سے بد ترین ہے۔ اسی زمرے میں ملک میں رہنے والے مسلم طبقات بھی آتے ہیں۔ ملک کے کئی صوبے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعلیمی معاشی حالت سچر رپورٹ کے مطابق ایس سی ایس ٹی سے بھی بدتر ہے۔ گرچہ دیگر کچلے ہوئے طبقات کو ذات پات کے نام پر بنیادی ضروریات سے سالہا سال سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انہیں آج بھی کم اجرت پر گندگی صاف کرنے کے کام پر لگایا جاتا ہے۔ آج ملک میں تعلیم دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہے، ساتھ ہی نوکریاں بھی غائب ہوتی جارہی ہیں اور تنخواہیں بھی کم ہوتی جارہی ہیں۔ مودی کہتے ہیں کہ 6 سالوں میں 6 کروڑ روزگار پیدا کیے گئے تو پھر سوال یہ ہے کہ 80 کروڑ لوگوں کو مفت پانچ کلو اناج کیوں دیا جا رہا ہے؟ ایسے میں صارفین کی تعداد بڑھنی چاہیے لیکن ڈیٹا بتا رہا ہے کہ لوگ کم خریدی کر رہے ہیں۔ آمدنی اتنی کم ہو رہی ہے کہ بچت مشکل ہو گئی ہے۔ گھریلو بچت میں تاریخی گراوٹ آگئی ہے۔ ضرورت سے مجبور لوگ قرض لیتے رہے۔ اس طرح خاندانی قرض بڑھتا گیا۔ سینٹ جوزف انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کے اکنامکس کے پروفیسر ویویوک مورتی کہتے ہیں کہ کسی ملک کی جی ڈی پی میں اضافے سے ہم معیشت میں ہونے والی بہتری کو نہیں ماپ سکتے ہیں بلکہ نوکری کا پیمانہ بھی ضروری ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کی معاشی پالیسی سے کتنی نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ پی ایل ایف کے سروے کا حوالہ دے کر دعوی کیا جا رہا ہے کہ بے روزگاری میں کمی آئی ہے اس میں زیادہ تر نوکریاں دیہی علاقوں کی ہیں۔ منریگا میں رجسٹرڈ کام کے کل دنوں کی تعداد 2022-23 کے مقابلے میں 2023-24 مالی مسائل میں دس کروڑ سے بڑھ کر 305 کروڑ سے زائد ہوگئی ہے۔ منریگا میں کام مل رہا ہے مگر مہنگائی کے اضافہ کی وجہ سے آمدنی میں بچت نہیں ہو پا رہی ہے، جبکہ مودی کی کوشش ہے کہ نوکری اور معیشت پر کسی طرح کے مباحث نہ ہوں۔
***
***
کسی ملک کی جی ڈی پی میں اضافے سے ہم معیشت میں ہونے والی بہتری کو نہیں ماپ سکتے ہیں بلکہ نوکری کا پیمانہ بھی ضروری ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کی معاشی پالیسی سے کتنی نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ پی ایل ایف کے سروے کا حوالہ دے کر دعوی کیا جا رہا ہے کہ بے روزگاری میں کمی آئی ہے اس میں زیادہ تر نوکریاں دیہی علاقوں کی ہیں۔ منریگا میں رجسٹرڈ کام کے کل دنوں کی تعداد 2022-23 کے مقابلے میں 2023-24 مالی مسائل میں دس کروڑ سے بڑھ کر 305 کروڑ سے زائد ہوگئی ہے۔ منریگا میں کام مل رہا ہے مگر مہنگائی کے اضافہ کی وجہ سے آمدنی میں بچت نہیں ہو پا رہی ہے، جبکہ مودی کی کوشش ہے کہ نوکری اور معیشت پر کسی طرح کے مباحث نہ ہوں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024