ملک میں خوشحالی کیونکر ممکن نہیں؟

قومی آمدنی میں سالانہ 7تا8 فیصد اضافہ ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ کسی ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرکے وہاں کی غربت کو کم کیا جاتا ہے۔ یہ اسی وقت ہوتا ہے جب آمدنی میں اضافہ ہو اور بے روزگاروں کو روزگار ملے۔ بھارت کی فی کس آمدنی سالانہ 3000ڈالر یا تقریباً 2.4لاکھ روپے ہوتی ہے جو جی 20ممالک میں سب سے کم ہے اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی قومی آمدنی سالانہ 7تا8 فیصد کی شرح سے بڑھے۔ اس کی حقیقی گنتی کے لیے مہنگائی پر نظر رکھنا ضروری ہے یہ کم از کم چند دہائیوں تک کیوں نہ ہو۔ ساتھ ہی اس آمدنی کی تقسیم متناسب طور پر ہونا چاہیے تاکہ موجودہ عدم مساوات پر کسی حد تک قدغن لگ سکے اور نابرابری میں اضافہ نہ ہو۔ تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے قومی بچت بھی اہم ہے۔ یہ قومی آمدنی کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے اچھی قومی بچت ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور حکومت 2010-11میں ہوئی تھی۔ جو ہماری جی ڈی پی کا 37فیصد تھی۔ جبکہ آج کی قومی بچت محض تیس فیصد رہ گئی ہے جس میں سے 20فیصد عوام الناس سے ملتا ہے۔ اس میں چھوٹے کاروباری بھی شامل ہیں۔ بچت کا ایک حصہ امرا کی طرف سے بھی ہوتا ہے کیونکہ عوام میں غربا کے پیسے بہت جلد ختم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ مہنگائی کی اڑان تیز ہے اور کمائی کم۔ اگرآمدنی شرح مہنگائی سے کم رفتار سے بڑھتی ہے تو ایسے حالات میں بھی لوگوں کی بچت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ کل مالیاتی بچت میں تنزلی باعث تشویش ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومتوں پر 9 سالوں میں لاکھوں کروڑ روپے کا قرضہ بڑھ گیا ہے۔ بھارت جے پی مارگن انڈیکس میں شمولیت کے بعد ابھی تقریباً 20ارب ڈالر کا نیا قرض لینے کی توقع کرتا ہے لیکن شرح بچت اور کل مالیاتی بچت کی حالت میں تغیر ضروری ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے کے ساتھ مالیاتی قرض کو کنٹرول کرنا ضروری ہوگا۔ کسی ملک کی کل مالیاتی بچت سے ہی قرض دیے جاتے ہیں۔ یہ 2022-23میں کم ہوکر جی ڈی پی کا 5.1فیصد رہ گئی ہے جو تقریباً 50سالوں میں سب سے کم ہے۔ 2020-21میں یہ 11.5فیصد تھی۔ مگر اسی مدت میں قرضوں کو دینے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ عوام الناس بینکوں اور غیر بینکنگ ذرائع سے دھڑا دھڑ قرض لے رہے ہیں اور وہ پرسنل لون ،کریڈیٹ کارڈ، ہوم لون اور گاڑیوں کے لیے قرصے لے رہے ہیں اور غیر بینکنگ ذرائع کو خطرہ میں ڈالنے کا سبب ہوسکتا ہے۔ اگران کا بلبلہ ٹوٹا تو معیشت پر منفی اثر پڑے گا۔
ہمارا ملک دنیا کے نقشہ پر امیروں کا ملک بن کر ابھر رہا ہے۔ مگر یہاں 28کروڑ لوگ غربت کی مار جھیل رہے ہیں۔ عالمی غربت انڈیکس میں 123ممالک میں ہم 107ویں مقام پر ہیں۔ ہم بہت زور دار طریقے دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے ہیں۔ تیسری بڑی معاشی قوت بننے کے لیے ہمیں مجموعی قومی پیداورا(جی ڈی پی) کی شرح نمو کو مزید بہتر کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور حکومت میں اوسط شرح نمو 7.5فیصد تھی۔ مگر مودی دور حکومت یہ محض 5.7فیصدپر آگئی ہے۔ آج23کروڑ لوگ غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیونکہ غریبوں کی ذاتی کیفیت (Personal Consuption) شہری علاقوں میں 1290روپے اور دیہی علاقوں میں 1090روپے ہے۔ ویسے ہم چاند اور سوراج پر کمندیں ڈال رہے ہیں مگر ملک میں آٹھویں جماعت کے تیس فیصد بچے ہر سال فیل ہوجاتے ہیں۔ ملک میں لاکھوں سرکاری اسکول ہیں جہاں محض ایک استاد ہی اسکول چلاتے ہیں۔ ایسے بھی اسکول ہیں جس میں پانی کا نظم ہے نہ ہی بیت الخلا کا۔ اکثر خوشحال ممالک اپنے بجٹ کا کم از ک چھ فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں ملک کا تعلیمی بجٹ تین فیصد سے کبھی بھی زیادہ نہیں رہا ہے۔ اس کے بعد شعبہ صحت پر وہ ممالک اچھا خاصہ سرمایہ لگاتے ہیں۔ مگر یہاں طبی شعبہ پر جی ڈی کا محض 1.4فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے یہاں بنیادی ضرورتوں پر معقول سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔ مارا ملک آزادانہ تجارت کے فروع میں بھی بہت پیچھے ہے۔ مثلاً صارفین قیمتوں، اکسپورٹ ڈیوٹیز ، امپورٹ لائسنسنگ اور ملک کی خصوصی ڈیوٹیز میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے جو قابل تشویش ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے یہاں سماجی و معاشی عدم مساوات بھی بہت زیادہ ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح 8.5فیصد ہے اور 15سے 25سالوں کی عمر کے نوجوانوں میں 24فیصد بے روزگار ہیں۔ سات کروڑ انکم ٹیکس کی ادائیگی کرنے ولے کی اوسطا آمدنی ملک کی بقیہ آبادی کے مقابلے اچھا خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے لیبر پارٹیسپشین میں خواتین کی شراکت محض 24فیصد ہے۔ جبکہ چین میں خواتین کی شراکت 54فیصد ہے۔ منریگا کے ذریعہ دیہی علاقوں میں 100دنوں کی کام کی بات کی گئی تھی۔ مگر فنڈ کی کمی کی وجہ سے اوسطاً 45یوم ہی کام دیا جارہا ہے وہ بھی وقت پر نہیں۔ ہم تو ڈیمو گرافک ڈیوڈینڈ کو معاشی بے راہ روی کی وجہ سے بھرپور طریقے سے استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ جو ہمارا قیمتی اشیا فی سرمایہ ہے۔ ایسے حالات میں ہم کیونکر خوشحال ہوں گے؟ کیونکر آبادی کا 50فیصد نچلا اور پست طبقہ قومی آمدنی کا 13فیصد ہی ہماتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قومی دولت کے صرف 31فیصد کی ہی مالکیت رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک کی معاشی ترقی کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہا ہے۔ مگر یہ ترقی نامکمل ہے جب تک اس کا فائدہ مساوی طور پر سماج کے حاشیے پر پڑے لوگوں تک نہ پہونچے۔ ملک جب ہی خوشحال سمجھا جاتا ہے جب وہاں کے سبھی طبقے کے لوگوں کی ترقی ممکن ہو۔ اس کی مثال خاندان کے سربراہ کی رہتی ہے جو گھر کے ہر فرد کی ضرورتوں کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ اس طرح حکومت کو سارے ملک میں سماج کے ہر طبقہ کی ضروریات کا خیال اور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم مودی نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ وہ 2047تک ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں مودی نے گزشتہ 30ستمبر کو ہفتہ عزم (سنکلپ ہفتہ) کا آغاز کیا ہے جس کے ذریعے ملک میں بلاک سطح کی ترقی پر گفت و شنید اور چرچا ہوگی اور سات جنوری aspirational block programme(اے بی پی) کو نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت مختلف پیمانہ (Standard) کی بنیاد پر مختلف ریاستوں اور یونین ٹیرٹیرز کے 329اضلاع میں 500بلاکوں کو نشان زد کیا گیا ہے۔ 2018میں وزیراعظم نے Aspirationalاضلاع کے پروگرام میں آزاد بھارت کے اہم دس نکاتی پروگرام کی نشان دہی کی گئی تھی۔ اس کے ذریعے ترقی کے لیے ضروری وسائل کی تقسیم منصفانہ کرنے کی بات کی گئی تھی۔ مگر یہ دور کی کوڑی ہے اور یہ بھی کہیں جملہ بن کر نہ رہ جائے۔ اس کے باوجود ملک کی ہمہ جہتی ترقی اور خوش حالی کے لیے اے بی پی کا منصوب اہم بھی ہے اور ضروری بھی۔
***

 

***

 اگرآمدنی شرح مہنگائی سے کم رفتار سے بڑھتی ہے تو ایسے حالات میں بھی لوگوں کی بچت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ کل مالیاتی بچت میں تنزلی باعث تشویش ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومتوں پر 9 سالوں میں لاکھوں کروڑ روپے کا قرضہ بڑھ گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 اکتوبر تا 21 اکتوبر 2023