ملک میں خواتین کی حالتِ زار اور مودی سرکار

خواتین اور لڑکیوں کے لاپتہ ہوجانے سے متعلق وزارت داخلہ کی رپورٹ پریشان کن

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

شیوراج کا جنگل راج ۔ مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ واقعات
مدھیہ پردیش میں جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں اور بی جے پی کی شکست کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں شیوراج کا جنگل راج بھیانک سے بھیانک تر ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ایک قبائلی پر پیشاب کیا گیا اور پھر اس کے بعد دوسرے کو فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا۔ اب جسے گولی ماری گئی وہ اسپتال میں موت سے جنگ لڑ رہا ہے۔ ان سب کے بیچ ضلع اجین سے ایک مسلم میڈیکل پریکٹیشنر زرین خان پر چار نامعلوم مرد اور ایک خاتون کے وحشیانہ حملہ کی خبر بھی آگئی۔ اس شنیع حرکت سے قبل زرین خان سے چھیڑ چھاڑ اور عصمت ریزی کی کوشش کی گئی۔ تیئیس سالہ فزیوتھراپسٹ کے ساتھ یہ بدسلوکی شام ساڑھے پانچ بجے اسکوٹر پر گھر لوٹتے ہوئے ہوئی۔ یہ حملہ تیز دھار ہتھیار، تلواروں، اور لوہے کی سلاخوں سے کیا گیا اور کپڑے پھاڑے گئے۔ خاتون ڈاکٹر کے رشتہ دار توقیر نے بچانے کی کوشش کی تو اسے بھی مارا گیا۔ اس کے بعد دونوں کو علاج کے لیے اسپتال جانا پڑا۔ زرین خان کے مطابق حملہ آور کہہ رہے تھے کہ منی پور میں جو کچھ ہوا ہے اسے دہرائیں گے۔ ہندوتوا نواز درندوں کا منی پور سانحہ پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس کو ملک بھر میں دہرانے کا ارادہ انتہائی تشویش ناک ہے۔
پولیس نے اس واقعہ پر مقامی احتجاج کے بعد ایک خاتون سمیر اور دیگر تین افراد کے خلاف دفعہ 354 (عورت پر حملہ یا اس کی عزت کو مجروح کرنے کے ارادے سے مجرمانہ زبردستی کرنا) 341 (غلط تحمل) 323 تعزیرات ہند کی 294 (عوام میں فحش حرکت) 506 (مجرمانہ دھمکی) اور دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ پولیس اسے معمولی مار پیٹ کا واقعہ بتا رہی ہے جبکہ متاثرین کے اہل خانہ نے پولیس پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ کانگریس نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ شیوراج سنگھ کے دور حکومت میں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔ کمل ناتھ نے کہا کہ وہ پریشان ہیں کہ منی پور کہاں کہاں پھیل سکتا ہے، یہ تشویش کی بات ہے۔ اس واقعہ سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی پریس نے اسے کور کیا ہے۔ کمل ناتھ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ معاملہ صرف بدنامی کا نہیں بلکہ ایک خاتون کی عزت و ناموس کا ہے جو فسطائی حکومت کے تحت سرِ عام پامال ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے بھکتوں سے اگر سوال کیا جائے کہ ملک میں خواتین کی حالتِ زار پر مودی سرکار کیا کر رہی ہے؟ تو جواب ملے گا یکساں سول کوڈ لا رہی ہے۔ لیکن فی الحال وہ قانون راستے میں کہیں غائب ہوگیا ہے اور ملک میں لاپتہ ہونے والی خواتین کے حوالے سے ایک نہایت تشویشناک رپورٹ امیت شاہ کی وزارتِ داخلہ نے ایوان کے جاری اجلاس میں پیش کر دی ہے۔ ایوان پارلیمان میں پیش ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق ملک میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے این سی آر بی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سال 2019ء سے 2021ء تک تین سالوں میں ملک سے 13.13 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہو چکی ہیں۔ یہ رپورٹ اگر کوئی غیر ملکی ادارہ پیش کرتا تو اسے ملک دشمنی کی سازش کا حصہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا۔ اس پر ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا جاتا۔ کسی ملکی غیر سرکاری تنظیم نے ایسی رپورٹ شائع کرنے کی جرأت کی ہوتی تو اس پر ای ڈی کا چھاپہ پڑ جاتا اور اس پر غیر ملکیوں کا آلہ کار ہونے کا الزام لگا کر ملک دشمن قرار دے دیا جاتا لیکن یہ چونکہ امیت شاہ کی وزارتِ داخلہ کا انکشاف ہے اس لیے مودی بھکتوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آخر کریں تو کیا کریں اور بولیں تو کیا بولیں؟
وزارت داخلہ نے اس رپورٹ کو خاصی عرق ریزی سے تیار کرکے بتایا کہ لاپتہ خواتین میں 10,61,648 کی عمر تو اٹھارہ سال سے زیادہ ہے مگر اٹھارہ سے کم عمر والی 2,51,430 لڑکیاں بھی غائب ہوگئی ہیں۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ظاہر ہے کہ ان خواتین کے ہیں جن سے متعلق پولیس تھانوں میں شکایت درج کروائی گئی۔ ہندوستانی معاشرے میں کئی وجوہات کی بناء پر بیشتر لوگ پولیس تھانے کا رخ نہیں کرتے۔ اس میں سب سے بنیادی وجہ بدنامی ڈر کا ہوتا ہے۔ لوگ نہیں چاہتے کہ ایسی باتیں ذرائع ابلاغ میں آئیں۔ آج کل اگر کوئی معاملہ پولیس تھانے پہنچتا ہے تو اس کے آس پاس کوئی موبائل بردار نامہ نگار نمودار ہو جاتا ہے۔ وہ بغیر کسی محنت کے شکایت کنندہ، اس کے کچھ رشتے داروں اور پولیس والوں سے چند سوالات پوچھ کر ایک ویڈیو تیار کر لیتا ہے۔ لڑکی ہندو ہو تو وشوا ہندو پریشد کے لیڈر کے رد عمل سے ’لو جہاد‘ کا تڑکا لگوا لیتا ہے اور مسلمان ہو تو کسی مولوی صاحب سے تذکیر کروالیتا ہے۔ اس طرح اس چینل کو تو کئی ہزار بلکہ لاکھوں ناظرین مل جاتے ہیں جبکہ وہ خاندان کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہتا۔
متاثرین کی جانب سے شکایت نہیں لکھوانے کی اور بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً پولیس تھانے کا عملہ عام طور پر بغیر رشوت کے رپورٹ لکھنے پر راضی نہیں ہوتا۔اس لیے متاثر خواتین کے غریب ونادار اہل خانہ بے بس ہو جاتے ہیں۔ ذات پات بھی رکاوٹ بنتی ہے۔ پولیس تھانے دار اور دست درازی کا ملزم اگر ایک سماج کے ہیں تو وہ شکایت کنندہ کو سمجھا بجھا کر یا ڈانٹ ڈپٹ اور دھونس دھمکی سے شکایت لکھوانے نہیں دیتا۔ عوام کو پولیس سے کسی ٹھوس پیش رفت کی توقع نہیں ہوتی۔ اس لیے بھی لوگ شکایت لے کر تھانے نہیں جاتے اور نتیجتاً بیشتر ایسے معاملے دب جاتے ہیں۔ کمل ناتھ کے مطابق صرف دس فیصد متاثرہ خواتین شکایت کرتی ہیں بقیہ نوے فیصد ظلم سہنے کے بعد بھی آگے نہیں آتیں۔ ان ساری مشکلات کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں شکایات کا درج ہو جانا خوف ناک حالات کی سنگینی کا مظہر ہے۔
بی جے پی اس معاملے میں مخالف جماعتوں کی ریاستی حکومتوں کو مودرِ الزام ٹھہرا کر اپنا دامن نہیں چھڑا سکتی کیونکہ خواتین کی گمشدگی میں سرِ فہرست مدھیہ پردیش ہے جہاں پچھلے پندرہ سالوں میں چند ماہ کے استثناء کے ساتھ ڈبل انجن سرکار رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بارہ فیصد یعنی 1,60,180 خواتین مدھیہ پردیش سے لاپتہ ہوئی ہیں۔ بی جے پی کی حکومت والی اس ریاست سے تین سال کے دوران لاپتہ ہونے والی خواتین میں 38,234 کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے۔ صوبہ مدھیہ پردیش آر ایس ایس کے صدر دفتر ناگپور سے بالکل متصل ہے۔ ترنمول کانگریس کے زیر اقتدار مغربی بنگال دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں لاپتہ ہونے والی خواتین کی تعداد 1,56,905 اور اٹھارہ برس سے کم عمر کی غائب ہونے والی لڑکیاں 36,606 تھیں۔ اتفاق سے وہاں ایک نہایت تیز و طرار خاتون وزیر اعلیٰ ہیں، وہ مودی اور شاہ کو انتخابات میں تو ہرا سکتی ہیں مگر خواتین کے تحفظ میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
ملک میں فی الحال ایک قبائلی خاتون محترمہ دروپدی مرمو صدر مملکت ہیں۔ ان کی آبائی ریاست اڈیشہ میں 70,222 خواتین اور 16,649 لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی خبر ہے۔ صدر بننے سے قبل وہ قبائلی اکثریتی ریاست چھتیس گڑھ کی گورنر تھیں، وہاں سے بھی 48,116 خواتین اور 10,817 لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹیں درج کرائی گئی ہیں۔ خیر یہ تو معاشی طور پر غریب ریاستیں ہیں مگر اقتصادی لحاظ سے بہتر ریاست مہاراشٹر میں بھی 1,87,409 خواتین اور اٹھارہ برس سے کم عمر کی 13,033 لڑکیاں لاپتہ ہوئی ہیں۔ جموں و کشمیر جیسے کم آبادی والے صوبے میں سال 2019ء سے 2021ء کے درمیان 8,765 خواتین لاپتہ ہو گئیں ان میں اٹھارہ برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی تعداد 1,148 تھی۔ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پہلے نمبر پر دلی ہے جہاں مذکورہ مدت کے دوران 61,054 خواتین اور اٹھارہ برس سے کم عمر کی 22,919 لڑکیاں لاپتہ ہوئیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل مودی نے نربھیا کے تناظر میں یہ نعرہ دیا تھا کہ ’بہت ہوا ناری پر اتیاچار، اب کی بار مودی سرکار‘۔ یہ سرکاری اعداد و شمار اس نعرے کا پول کھولتے ہیں۔
مرکزی وزارت داخلہ میں وزیر مملکت اجئے کمار مشرا کے مطابق حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے اور ان پر جنسی جرائم کو روکنے کی خاطر 2013ء میں جو قانون بنایا تھا اسے 2018ء میں ترمیم کر کے مزید سخت اور موثر بنایا گیا مگر اس رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ کاغذی قوانین اگر قوت نافذہ سے محروم ہوں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایوان پارلیمان کے اندر بحث کا جواب دینے والے وزیر مملکت کے اپنے علاقہ لکھیم پور میں ستمبر 2022ء میں پندرہ اور سترہ برس کی دو بہنوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس میں ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ پولیس نے گینگ ریپ اور قتل کے الزام میں چھ افراد کو گرفتار بھی کیا مگر آگے کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ 2014ء میں بھی یو پی کے ضلع بدایوں میں دو کمسن بہنوں کو اغوا اور عصمت دری کے بعد قتل کرکے درخت سے لٹکانے کی بھیانک یاد تازہ کر دی۔ 2020ء میں بھی یو پی کے ہی ضلع ہاتھرس میں ایک انیس سالہ دلت لڑکی کو گینگ ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ ہاتھرس اور دیگر مقامات پر دلتوں کے خلاف ہونے والے اندوہناک سانحات کے بعد احتجاج وغیرہ تو ہوتا ہے، سخت قوانین بھی وضع کیے جاتے ہیں مگر مجرموں کو سزا کم ہی ملتی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق 2021ء کے اواخر تک دلتوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کے تقریباً اکہتر ہزار مقدمات زیر التوا تھے۔ دلت خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات اتر پردیش، بہار اور راجستھان میں پیش آتے ہیں۔ ان ریاستوں میں اکثر بی جے پی برسرِ اقتدار رہی ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2015ء سے 2020ء کے درمیان دلت خواتین کے ساتھ ریپ کے واقعات میں پینتالیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ دلت ہیومن رائٹس کی بینا پالیکل کے مطابق یوگی کی اتر ریاست میں دلتوں کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے لیکن خواتین کمیشن اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتا۔ ہندوستان میں دلتوں کے خلاف جرائم کے لیے سخت قوانین موجود تو ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دلت خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ایسے میں مودی سرکار کا دعویٰ کہ یونیفارم سیول کوڈ خواتین کو محفوظ ومامون کر دے گا، بالکل کھوکھلا معلوم ہوتا ہے۔
خواتین کے استحصال کی ایک مثال ملک میں رائج دیو داسی کا نظام بھی ہے۔ اس کے تحت لڑکیوں کے والدین چند رسمیں ادا کر کے از خود اپیا کمسن بیٹیوں کی شادی ایک ہندو دیوی سے کر دیتے ہیں۔ دیو داسیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مذہبی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے عقیدت کی زندگی گزاریں گی۔ انہیں کسی بھی انسان سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ تحائف کے عوض اپنے کنوار پن کو ختم کرنے کے لیے کسی عمر رسیدہ شخص کے ساتھ جنسی عمل کریں۔ اس طرح دیوی کی خدمت کے نام پر دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی عمل پر مجبور کرکے دیوداسی کو خاندان چلانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جو جسم فروشی کی ہی ایک شکل ہے۔ مسلمانوں کی چار شادیوں اور طلاق پر آنسو بہانے والے وزیر اعظم کو خود اپنے سماج کی یہ استحصال زدہ خواتین نظر نہیں آتیں جن کا مذہب کی آڑ میں کھلے عام استحصال ہوتا ہے اور قانون کچھ نہیں کر پاتا۔
دیو داسیاں صدیوں سے جنوبی ہندوستانی ثقافت کا حصہ رہی ہیں اور ایک زمانے میں انہیں معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہوا کرتا تھا۔ تب بہت سی دیو داسیاں تعلیم یافتہ ہوتی تھیں، انہیں کلاسیکل رقص اور موسیقی کی تربیت دی جاتی تھی اور یہ ایک آرام دہ زندگی گزارا کرتی تھیں۔ اس وقت انہیں اس بات کی بھی اجازت تھی کہ وہ اپنے جنسی ساتھی کا انتخاب کر سکیں۔ برطانوی نو آبادیاتی دور میں، دیوداسی اور دیوی کے درمیان ہونے والا یہ مذہبی معاہدہ جنسی استحصال کے ایک ادارے میں تبدیل ہو گیا لیکن اس بہانے سے بات نہیں بنتی۔ انگریزوں کو ملک چھوڑے ہوئے تین چوتھائی صدی گزر چکی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نام نہاد نچلی ذات کے غريب خاندان اس نظام کی مدد سے بیٹیوں کی ذمہ داری سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مندروں میں دیوداسی بنانے کے عمل کو ’’شیطانیت‘‘ قرار دیا ہے جبکہ کرناٹک میں یہ عمل غیر قانونی ہے۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے ایک سال قبل اعتراف کیا تھا کہ پابندی کے چار عشرے گزر جانے کے بعد بھی کرناٹک میں ستر ہزار سے زائد دیو داسیاں موجود ہیں۔
خواتین کے پرانے مسائل ابھی حل بھی نہیں ہوئے کہ نئے سامنے آگئے۔ سماج میں جب سے بغیر نکاح کے تعلقات یعنی لیو ان ریلیشن کا فروغ ہونے لگا ہے تب سے خواتین پر مظالم کا ایک نہایت بھیانک باب کھل گیا ہے۔ پچھلے سال دلی میں آفتاب پونا والا کے ہاتھوں اس کی پارٹنر شردھا واکر کے قتل کا معاملہ میڈیا میں خوب گونجا۔ وہ ایک انتہائی مذموم حرکت تھی جس میں لاش کے پینتیس ٹکڑے کر کے پہلے فرج میں رکھا گیا اور پھر انہیں تھوڑا تھوڑا دہلی کے قریب جنگل میں مختلف جگہوں پر پھینک دیا گیا۔ اس واقعہ میں چونکہ ہندو-مسلم زاویہ تھا اس لیے اسے ’لو جہاد‘ کا نام دے کر خوب اچھالا گیا اور گجرات کے انتخابات میں بھی اس کا سیاسی استعمال کیا گیا مگر بعد میں وہ دب گیا۔ یہاں شردھا سے ہمدردی کے بجائے مسلم دشمنی غالب آگئی۔ ہندوستانی معاشرے میں جب کوئی دلت لڑکا کسی نام نہاد اونچی ذات والی لڑکی سے شادی کر لے یا اگر لڑکا مسلم ہو اور لڑکی ہندو تو اس پر ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور اگر جرم ہو جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ورنہ دوسری صورت میں ایسے معاملات رفع دفع کردیے جاتے ہیں۔ سیاسی فائدہ اٹھالینے کے بعد عدل وانصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاتے۔
شردھا اور آفتاب کے بعد یو پی میں ایک شخص نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کو قتل کر کے اسے چھ ٹکڑے کر کے کنوئیں میں پھینک دیا جبکہ مدھیہ پردیش میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے دو ٹکڑے کر کے جنگل میں دو مختلف مقامات پر دفنا دیے، لیکن بات آئی گئی ہوگئی کیونکہ ان واقعات میں قاتل و مقتول دونوں ہندو تھے۔ متھرا کے پاس دلی کی رہنے والی ایک بائیس سالہ خاتون کی لاش قومی شاہراہ کے پاس سوٹ کیس میں ملی۔ پولیس نے بعض کو گرفتار کیا مگر میڈیا کی پیالی میں کوئی طوفان نہیں آیا۔
یو پی کے ہی ضلع اعظم گڑھ میں پرنس یادو نامی ایک شخص نے بیس سالہ لڑکی کو محض اس لیے قتل کر دیا کیونکہ اس نے کسی دوسرے سے شادی کر لی تھی۔ قتل کے بعد لڑکی کی لاش کے متعدد ٹکڑے کر کے ایک کنویں میں پھینک دیے گئے۔ مقتولہ کا نام آرادھنا تھا، اگر شبانہ ہوتا تو کم ازکم ملی میڈیا میں اس کا تھوڑا بہت شور و غل دیکھنے کو ملتا مگر نہیں ملا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ مدھیہ پردیش کے شہڈول میں پیش آیا جہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کے کئی ٹکڑے جنگل میں مختلف جگہوں پر دفن کر دیے۔اس کیس میں مقتولہ کی شناخت سرسوتی پٹیل کے طور پر ہوئی جبکہ قاتل رام کشور پٹیل ہے۔ عوام اور میڈیا دونوں کو خواتین پر ہونے والے مظالم سے زیادہ دلچسپی دیگر مسائل میں ہے اس لیے اس قسم کے جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک رویہ ’بیٹی پڑھاو اور بیٹی بچاو‘ کا نعرہ لگانے والی حکومت کا ہے جسے یونیفارم سول کوڈ جیسے تماشوں سے فرصت نہیں ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 دلت ہیومن رائٹس کی بینا پالیکل کے مطابق یوگی کے اتر پردیش میں دلتوں کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ خواتین کمیشن اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولتا۔ ہندوستان میں دلتوں کے خلاف جرائم کے لیے سخت قوانین موجود تو ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ دلت خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ایسے میں مودی سرکار کا دعویٰ کہ یونیفارم سیول کوڈ خواتین کو محفوظ ومامون کردے گا، بالکل کھوکھلا معلوم ہوتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023