
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
اگر غربت کم ہوئی ہے تو مفت راشن کی قطاریں کیوں طویل ہیں؟ کیا ترقی صرف امیروں کا حق ہے؟
ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ 2011-12سے 2022-23کے درمیان انتہائی غربت (Extreme Poverty) میں زندگی گزارنے والے لوگوں کو اس حالت سے نکالنے میں بھارت نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ عالمی بینک نے بھارت کے تعلق سے غربت اور نابرابری پر اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت نے غربت کو بڑی حد تک کم کیا ہے۔
بے انتہا غربت، یعنی یومیہ 2.15 ڈالر سے کم آمدنی پر گزر بسر کرنے والوں کی تعداد 2011-12میں 16.2فیصد تھی، جو گھٹ کر 2023-24میں محض 2.3فیصد رہ گئی ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 17.1کروڑ لوگ خطِ افلاس سے اوپر آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں انتہائی غربت کی شرح 18.4 فیصد سے گھٹ کر 2.8 فیصد رہ گئی ہے جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 10.7فیصد سے گھٹ کر 1.1فیصد پر آ گئی ہے۔ اس سے دیہی و شہری علاقوں کے درمیان فرق 7.7فیصد سے گھٹ کر 1.7فیصد پر آ گیا ہے جو واقعی ایک حوصلہ افزا تبدیلی ہے۔ یہ سالانہ 16 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ بھارت ’لووَر مڈل انکم کلاس‘ (Lower Middle-Income Class) کی فہرست میں شامل ہونے میں کامیاب رہا ہے۔ اس زمرے میں 3.65 ڈالر یومیہ آمدنی کو خطِ افلاس تصور کیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر بھارت میں غربت 61.8 فیصد سے کم ہو کر 28.6 فیصد ہو گئی ہے یعنی 37.8 کروڑ لوگ غربت سے باہر آ چکے ہیں۔
دیہی علاقوں کی غربت اس دوران 69 فیصد سے کم ہو کر 32.5 فیصد ہو گئی جبکہ شہری غربت 43.5 فیصد سے کم ہو کر 17.2 فیصد پر آ گئی ہے۔ اس طرح دیہی و شہری فرق 25 فیصد سے گھٹ کر 15 فیصد پر آ گیا اور سالانہ اوسط کمی 7 فیصد رہی۔
رپورٹ کے مطابق 2021-22میں بھارت میں انتہائی غربت سے متاثرہ افراد کی سب سے بڑی تعداد پانچ ریاستوں اترپردیش، مہاراشٹر، بہار، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش میں تھی، جو کل شرح کا 62فیصد بنتی ہے۔ تاہم 2022-23تک ان ریاستوں میں غربت میں کمی آنے کے باوجود ان کی مجموعی شراکت اب بھی دو تہائی ہے۔ عالمی بینک کی مختصر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ریاستوں میں 2022-23 تک بھارت کی مجموعی انتہائی غریبی کا 54فیصد اور مختلف سطحوں کی غربت (2019-21) کا 51 فیصد حصہ پایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کی آٹھ ریاستوں میں غربت کی سطح اتنی زیادہ ہے کہ بعض عالمی سطح پر سب سے غریب ممالک میں بھی یہ صورتِ حال نہیں پائی جاتی، حالانکہ یہ ممالک بھی بھارت کے ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے۔ بھارت کی ایک بڑی آبادی آج بھی دنیا بھر میں یومیہ 150روپے یا اس سے کم پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ ان میں سے 30فیصد آبادی یومیہ 50روپے ہی کما پاتی ہے۔ Poverty India Index کے مطابق بھارت 2047تک خود کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی کوشش کر رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ غریبوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ غربت کیسے کم ہو؟ حکومت کیا کرے کہ غربت میں کمی آئے؟
اکیسویں صدی میں بھی بھارت میں 7 ہزار بچے ایسے ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے اور وہ غذائی قلت کا شکار ہو کر بھوک سے جان دے رہے ہیں۔ بڑے بڑے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر ہمارا ملک آج بھی لووَر مڈل انکم کلاس میں بھی بدترین پوزیشن میں ہے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس 2024کے مطابق بھارت 127ممالک میں سے 105ویں مقام پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت بھوک اور غذائی قلت کے معاملے میں اپنے پڑوسی ممالک سری لنکا، نیپال، حتیٰ کہ بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔ بھارت کا GHI اسکور 0-7.3 ہے جو خطرناک حد تک بھوک کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ملک میں آج بھی لاکھوں بچے مناسب غذا سے محروم ہیں اور بچوں میں غذائی کمی (Malnutrition) ایک بڑی پریشانی بنی ہوئی ہے۔
ملک میں 18 کروڑ لوگ جھگی جھونپڑیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایک طرف معاشی ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف ملک کے بڑے شہروں اور میٹرو علاقوں میں جھگی بستیوں کا پھیلاؤ صاف دکھائی دیتا ہے جہاں رہنے والے افراد زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
دنیا کا کوئی ملک خواہ کتنا بھی خوش حال کیوں نہ نظر آئے اندرونی غربت ضرور موجود ہوتی ہے۔ ہم اپنے ملک کا موازنہ پڑوسی ملکوں کی غربت سے نہیں کر سکتے۔ ملک کے دیہی و شہری علاقوں میں بھی بھکاریوں کی کثرت نظر آتی ہے، خاص طور پر ہر چوراہے پر یہ منظر عام ہے۔
آج ‘ڈیجیٹل انڈیا’ کے دور میں بھی ملک میں 20فیصد افراد ایسے ہیں جن کے پاس بینک اکاؤنٹ نہیں ہے، حالانکہ بینک اکاؤنٹ کے ذریعے کم شرحِ سود پر قرض حاصل کیا جا سکتا ہے، جس سے وہ اپنی معاشی حالت بہتر کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایک لڑکا جو بارہویں جماعت تک تعلیم یافتہ ہے، ہوٹل میں کام کر کے 18ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے۔ اگر وہ دو یا تین ہزار روپے خرچ کر کے انگریزی سیکھنے کا کورس کرے اور کال سنٹر میں کام حاصل کرے تو اس کی آمدنی 15تا 18ہزار ہوسکتی ہے۔ مگر غریبوں کے لیے دو تین ہزار روپے بھی جمع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ملک میں بہتر پالیسی سازی اور مؤثر بینکنگ نظام کی ضرورت ہے تاکہ مائیکرو فائنانسنگ کے ذریعے لوگوں کو خود کفیل بنایا جا سکے۔ اس سے نہ صرف ملک کو زیادہ ٹیکس حاصل ہوگا بلکہ کھپت بڑھے گی اور ملک ترقی کرے گا۔
بھارت میں غربت ایک پیچیدہ، مشکل اور ہمہ جہتی (Multidimensional) مسئلہ ہے جو تاریخی، معاشی اور سیاسی عوامل کا نتیجہ ہے۔ کئی ماہرین اقتصادیات اور دانشوروں نے بھارت میں بڑھتی غربت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات پروفیسر امرتیہ سین نے بھارت میں غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کے لیے سماجی و اقتصادی نابرابری کو ختم کرنے اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں بھرپور سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ Multidimensional Poverty Report 2023 کے مطابق دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ غریب آبادی جنوبی ایشیا میں مقیم ہے جو تقریباً 39 کروڑ بنتی ہے جن میں سے زیادہ تر یعنی 70فیصد بھارت میں انتہائی غربت (Extreme Poverty) کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عالمی بینک نے International Poverty Lines کی بنیاد پر غربت کی تعریف کی ہے جس کے مطابق:
• فی کس یومیہ آمدنی 2.15 ڈالر سے کم ہونے پر انسان ’’انتہائی غریب‘‘ شمار ہوتا ہے۔
• 3.65 ڈالر یومیہ آمدنی ’’لور مڈل انکم کلاس‘‘ کی علامت ہے۔
• 6.85 ڈالر یومیہ آمدنی ’’اپر مڈل انکم کلاس‘‘ کے زمرے میں آتی ہے۔ Global Multidimensional Poverty Index (MPI) 2020 کے مطابق بھارت 107 ممالک میں 62ویں مقام پر ہے۔ بھارت کا ایم پی آئی اسکور 0.123 ہے اور ملک کی 27.9 فیصد آبادی کو ایم پی آئی زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔
مذکورہ ورلڈ بینک کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک سے غربت تقریباً غائب ہوگئی ہے۔ لوگوں کو تو اس کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ غریب کا کچھ پتہ نہیں، مگر غربت ناپنے میں حکومت اور اداروں کا خاص مفاد ہوتا ہے۔ مودی بھی اس پر خوب اچھل کود کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں غربت تقریباً نہ ہونے کے برابر بتائی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ زیادہ لوگ معیشت کو چلانے میں شامل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کو سماجی، سیاسی اور معاشی وقعت بھی حاصل ہو رہی ہے۔
آج جب ہر چیز میں ملاوٹ ہے تو اعداد و شمار کیسے محفوظ رہ پائیں گے؟ خطِ افلاس کی پیمائش کے لیے ہمارا ملک ’’کھپت اشاریے‘‘ (Consumption Index) کو استعمال کرتا ہے۔ قومی شماریاتی دفتر (NSSO) اس ڈیٹا کو جمع کرتا ہے۔ 2009 میں تنڈولکر کمیٹی نے خطِ افلاس کا معیار طے کیا تھا۔ اس وقت کے ڈیٹا کے مطابق، دیہی علاقوں میں فی کس 447 روپے ماہانہ اور شہری علاقوں میں 579 روپے ماہانہ آمدنی کو غربت کی حد مانا گیا جو کہ بے حد کم ہے۔
2011-12تک افراطِ زر میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے شہری علاقوں میں یومیہ 33روپے اور دیہی علاقوں میں 27روپے ہی خطِ افلاس کے معیار کے طور پر برقرار رکھا گیا۔
2012 میں رنگا راجن کمیٹی نے نیا فارمولا استعمال کر کے خطِ افلاس کو کچھ اوپر اٹھایا۔ شہری علاقوں میں 47روپے یومیہ اور دیہی علاقوں میں 32روپے یومیہ آمدنی رکھنے والوں کو غربت کی لکیر کے نیچے شمار کیا گیا۔ رنگا راجن کمیٹی کے حساب سے غربت کی شرح 29.5 فیصد رہی۔
اس کے بعد دوسرا سروے 2022-23اور 2023-24میں سامنے آیا۔ تاہم، ان دونوں کے ڈیٹا کلیکشن اور سیمپلنگ کے طریقوں میں خاصا فرق تھا۔
۔۔۔ میں شائع شدہ رپورٹ میں ہیمانشو، فلپ شوبے، وغیرہ نے دکھایا کہ غربت کے خاتمے کی رفتار میں سستی آ گئی ہے۔ 2011-12 میں 25 کروڑ لوگ انتہائی غریب تھے جبکہ 2022-23 میں ان کی تعداد کم ہوکر 22.5 کروڑ رہ گئی۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2011-12 میں اترپردیش، بہار، مہاراشٹر، بنگال اور مدھیہ پردیش میں 65 فیصد انتہائی غریب تھے، جبکہ 2021-22 میں یہ شرح 54 فیصد رہ گئی۔
محض کھپت کی بنیاد پر غربت کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ کیونکہ غربت بذاتِ خود ہمہ جہتی (Multidimensional) مسئلہ ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی شہری کھانے کا خرچ برداشت کر رہا ہو مگر بیماری کی صورت میں علاج مہیا نہ ہو۔ گھر میں روٹی موجود ہو، مگر اسکول کے داخلے کے لیے پیسہ نہ ہو، کتابیں خریدنے کی سکت نہ ہو۔
اسی طرح بجلی، پانی اور آمد و رفت کی سہولیات بھی طے کرتی ہیں کہ ملک میں غربت کتنی ہے۔
اگر واقعی غربت کم ہو گئی ہے تو پھر 30 فیصد کنبے منریگا کے کام پر منحصر کیوں ہیں؟ جہاں اجرت بازار سے کہیں کم ہے۔
اگر غربت کم ہو گئی ہوتی تو 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دینے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟
کھپت کے ڈیٹا کو بنیاد بنانے سے ایک بڑی دقت یہ ہوئی کہ نابرابری (inequality) کا اندازہ درست نہیں ہو پایا۔
ورلڈ بینک کی Poverty and Equity Brief کہتی ہے کہ 2022-23 میں گِنی انڈیکس (Gini Index) 25.5 ہے، جو آمدنی کی نابرابری کی پیمائش ہے۔ اس میں صفر سے 100 تک درجہ بندی کی جاتی ہے۔
2011-12میں یہ 28.8 تھا یعنی ورلڈ بینک کے مطابق نابرابری میں کمی آئی ہے۔
مگر 2023 کے World Inequality Database کے مطابق آمدنی کی بنیاد پر گِنی کوایفیشنٹ 62 ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ نابرابری کی خلیج اور گہری ہو گئی ہے۔
ملک کے ٹاپ ایک فیصد امرا کے پاس ملک کی 40 فیصد دولت ہے۔
کووڈ وبا کے دوران جب لوگ شہر چھوڑ کر گاؤں کی طرف ہجرت کر رہے تھے، مکیش امبانی یومیہ 90 کروڑ روپے کما رہے تھے۔
مگر عام شہری کی نصف آبادی کے پاس تین لاکھ روپے سے بھی کم کا اثاثہ ہے۔
ایک بار کا اسپتال کا بل انہیں خطِ افلاس کے نیچے لے جا سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں گیگ اکانومی سے وابستہ مزدور گرمی کی تپش میں جان توڑ محنت کر رہے ہیں۔
26 اپریل کو وارانسی کے 150 بلینکٹ ورکروں کو ہڑتال کرنی پڑی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ گرمی کے لیے سوتی یونیفارم، آرام کے لیے ساریہ، پینے کا پانی، بارہ سے چار بجے تک کام سے چھٹی اور شدید گرمی میں 10 منٹ میں ڈیلیوری کرنے کی شرط ختم کی جائے۔
مگر بلینکٹ نے ان کی آئی ڈی ضبط کر لی اور کام سے نکال دیا۔
امسال بجٹ میں گیگ ورکرز کے لیے شناختی کارڈ شامل کیا گیا ہے۔
بذریعہ رجسٹریشن اب یہ ضروری ہے کہ ان مزدوروں کو استحصال سے نجات دلائی جائے۔
ابھی ابھی یومِ مزدور گزرا ہے۔ 1886 میں مزدوروں کا مطالبہ تھا: آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے اپنی مرضی کا وقت۔
مگر 139 سال بعد ہم اپنے ورکروں سے یہ حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔
آج گیگ ورکرز(وقتی مزدور) 12 تا 14 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ترقی کی سوئی مخالف سمت میں گھوم رہی ہے۔
آج جب ہم اپنے ورکرز کے حقوق متعین کریں گے تبھی تو مستقبل میں ترقی کی ندیاں بہیں گی۔
(مضمون نگار سے رابطہ کا نمبر: 9883409298)
***
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں غربت تقریباً ختم ہو چکی ہے لیکن زمینی حقائق اور معاشرتی اشاریے اس دعوے پر کئی سوالات اٹھاتے ہیں۔ غربت کے اندازے میں استعمال ہونے والا نظام، جیسے کہ "کھپت اشاریہ” اور سرکاری شماریاتی طریقے، عملی حقیقت سے ہم آہنگ نہیں۔ 2011-12 میں افراطِ زر کو نظرانداز کرتے ہوئے جو خطِ افلاس طے کیا گیا وہ بہت کم آمدنی پر مبنی تھا، جس سے اصل غربت کی پیمائش مشکوک ہو گئی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025