ملک میں گرتا ہوا معیار تعلیم
تعلیمی میدان میں تبدیلی لائے بغیر وشو گرو بننے کا تصور ممکن نہیں!
زعیم الدین احمد حیدرآباد
مرکزی حکومت کے محکمے تعلیم نے نیشنل اچیومنٹ سروے کیا جس کے مطابق تعلیمی معیار کے پیمانوں میں سب سے ناقص مظاہرہ کرنے والی پانچ ریاستیں ایسی ہیں جو ہر میدان میں ترقی کے دعوے کرتی ہیں، جہاں فلک بوس عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں، شاندار سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں جن پر چمچماتی ہوئی گاڑیاں فراٹے بھرتی ہوئی گزرتی ہیں، بڑے بڑے ڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں جس میں ہزاروں ٹی یم سی پانی کو محفوظ کیا جا رہا ہے، ان کے مطابق مقابلہ تو بس ہم ہی سے ہے، کسی اور سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
ملک ہر میدان میں ترقی کر رہا ہے، ملک کی ریاستیں بھی ترقی کے دعوے کر رہی ہیں، لیکن ایسی ریاستیں جن کے شہر بین الاقوامی معیار کے کہلائے جاتے ہیں ان ریاستوں میں معیار تعلیم اپنی نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے بڑی حیران کرنے والی ہے کہ نئی ریاست جو ہر میدان میں آگے ہونے کا دم بھرتی ہے درحقیقت وہ تعلیمی معیار کے معاملے میں نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
مرکزی حکومت کے محکمے تعلیم نے نیشنل اچیومنٹ سروے کیا جس کے مطابق تعلیمی معیار کے پیمانوں میں سب سے ناقص مظاہرہ کرنے والی پانچ ریاستیں ایسی ہیں جو ہر میدان میں ترقی کے دعوے کرتی ہیں، جہاں فلک بوس عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں، شاندار سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں جن پر چمچماتی ہوئی گاڑیاں فراٹے بھرتی ہوئی گزرتی ہیں، بڑے بڑے ڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں جس میں ہزاروں ٹی یم سی پانی کو محفوظ کیا جا رہا ہے، ان کے مطابق مقابلہ تو بس ہم ہی سے ہے، کسی اور سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
ہائے رے ہماری بدقسمتی، ہم نے عالی شان عمارتیں تو تعمیر کرلیں، ہم نے خوب صورت سڑکیں تو تعمیر کر لیں، جس پر ہزاروں کروڑ روپے صرف کردیے، لیکن تعلیم جو انسان کی اصل شناخت ہے، اس کی اچھی تہذیب و معاشرت کی ضامن ہے، اس کے معیار پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو غیر معیاری ہو، جو صرف ورق گردانی کی قابلیت پیدا کرتی ہو۔ معیاری تعلیم کے بغیر سنہرا مستقبل کیسے بن سکتا ہے؟ ہم ہر وقت سنہرے مستقبل کا ورد کرتے رہتے ہیں، وہ بغیر تعلیم کے کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ ملک میں ہر بچے کو مفت تعلیم کے وعدے کیے جاتے ہیں، لیکن وہ وعدے وفا نہیں ہو پا رہے ہیں، تعلیمی میدان میں تبدیلی لائے بغیر سنہرے مستقبل، اور وشو گرو بننے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس سروے سے پتہ چلتا ہے کہ تیسری جماعت ہو یا پانچویں جماعت، یا پھر دسویں جماعت یعنی کوئی بھی جماعت ہو اس میں زیر تعلیم طلباء کا معیار انتہائی غیر معیاری ہے، یہ معاملہ کسی ایک مضمون کا نہیں ہے بلکہ سارے مضامین کا یہی حال ہے، اسکولوں میں بچوں کو جو مضامین پڑھائے جارہے ہیں ان مضامین کو وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں، یعنی learning outcomes انتہائی ناقص ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے معیار تعلیم کا موازنہ یورپی و امریکہ جیسے ممالک سے کیا جائے تو انتہائی ناقص ہے۔ یورپ اور امریکہ میں تعلیم کو عملی طور پر سکھایا جاتا ہے، بچوں کو ہنر کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں کتابی علم دیا جاتا ہے۔ سائنس جیسا مضمون بھی کتابوں کے حد تک ہی پڑھایا جاتا ہے جبکہ یہ مضمون عملی تجربات کا متقاضی ہے۔ تعلیمی معیار کی سطح یوں ہی اچانک نیچے نہیں آئی ہے، یہ بتدریج تنزل کا شکار ہوئی ہے۔ 2017 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے تعلیمی معیار کی صورت حال موجودہ صورت حال سے کچھ بہتر تھی۔ ایسی بات نہیں کہ وہ پہلے سے خراب ہی رہی ہو، پہلے بھی یہ بہتر نہیں تھی۔ ملک بھر سے جملہ ایک لاکھ 18 ہزار 274 اسکول، 5 لاکھ 26 ہزار 824 اساتذہ، 34 لاکھ طلباء کا سروے کیا گیا، اس سروے میں پچاس فیصد لڑکے اور پچاس فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ یہ سروے 67 دیہی علاقوں اور 33 فیصد شہری علاقوں میں انجام دیا گیا، جس میں سرکاری اسکولوں کے 40 فیصد، سرکاری ایڈیڈ اسکولوں کے 17 فیصد، غیر سرکاری مستند اسکولوں کے 35 فیصد اور مرکزی حکومت کے سرکاری اسکولوں کے 7 فیصد اسکولوں میں یہ سروے کیا گیا، اس سروے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں مختلف طبقات کے بچوں کو شامل کیا گیا، جیسے بی سی طبقے کے 42.1%، ایس سی طبقے کے 16%، ایس ٹی طبقے کے 15.2% اور جنرل کیٹگری کے 26.6% بچے شامل ہیں۔ قومی سطح پر طلباء کی اوسط کارکردگی (500 نشانات) کا اسکور یہ رہا: لسانیات میں 311، ریاضی میں 266، ای وی یس میں 295، سائنس میں 228، سماجی علم میں 243، انگریزی میں 277 نشانات۔ کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں کا اوسط قومی اوسط سے بہت کم ہے، جیسے اتر پردیش اور تلنگانہ وغیرہ۔ یہاں طلباء مضامین کے بنیادی سوالات کے جوابات دینے کے قابل بھی ہیں۔
سائنسی مضامین جن میں خاص طور پر ریاضی مضمون کو سمجھنے میں بچے قاصر ہیں، معیار تعلیم کے حوالے سے اس وقت پانچ ریاستیں قومی اوسط سے بھی کم ہیں۔ یہاں کہ حکم رانوں کی جانب سے یہ بہانا بنایا جاتا ہے کہ کورونا کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دی جا سکی، اسی لیے معیار تعلیم تنزلی کا شکار ہوا ہے۔ ان حکم رانوں کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ کورونا صرف ان کی ریاستوں میں ہی نہیں آیا تھا، وہ سارے ملک میں پھیلا تھا، تو ایسی صورت میں معیار تعلیم ہر ریاست میں خراب ہونی چاہیے تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور معیار تعلیم کو پروان چڑھانے کا کوئی منصوبہ ان کے منصوبوں میں تھا ہی نہیں۔ حالت یہ ہے کہ سب سے اہم مضمون سائنس میں 75 فیصد طلبا معیار کے کم ازکم پیمانوں پر بھی پورے نہیں اترتے، یہ انتہائی معیوب اور تشویشناک بات ہے۔ ہمارا ملک بین الاقوامی سطح پر ابھرنا چاہتا ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کا مرکز بننا چاہتا ہے، بڑے بڑے کارپوریٹ تعلیمی ادارے بھی وجود میں آ رہے ہیں اور دوسرے طرف دسویں، نویں، آٹھویں الغرض ہر درجے کے طالب علم کا معیار انتہائی ناقص ہوتا جا رہا ہے، وہ بنیادی سطح پر بھی پورا نہیں اتر رہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دسویں جماعت کے 66 فیصد طلباء سماجی علم مضمون کے بنیادی سوالات کا جواب دینے کے قابل بھی نہیں ہیں، ریاضی میں 33 فیصد طلباء ایسے ہیں جو Basic learning outcomes نہیں بتا سکے، یعنی ہمارا مستقبل سائنس اور سماجی علوم کے بنیادی سوالات کے جوابات دینے سے بھی قاصر ہے۔ کورونا کے زمانے میں جب کہ آن لائن تعلیم فراہم کی جارہی تھی 33 فیصد طلباء کے پاس الکٹرانک آلات موجود نہیں تھے، ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچوں نے کیسے ان لائن تعلیم حاصل کی ہوگی۔
حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا اندازہ لگانا چاہیے کہ بچوں میں learning losses کس درجے میں پایا جاتا ہے، خاص طور پر ان طلباء میں learning losses کس سطح پر ہوا ہو گا جو سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے خاندانوں نے اپنے بچوں کے لیے تعلیم کا کچھ نہ کچھ انتظام کیا ہی ہوگا جو متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں، لیکن غریب طلباء کا کیا حال ہوا ہوگا اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ورنہ یہ غیر معیاری تعلیم تا زندگی ان طلباء کا پیچھا کرتی رہے گی۔
تعلیم اور معیار تعلیم کے بارے میں یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس کے بغیر ترقی بے معنی ہے، مادی سرمایہ سے کہیں زیادہ قیمتی علمی سرمایہ ہوتا ہے، کیوں کہ تعلیم سے ہی مادی سرمایہ کا حصول ممکن ہے، علم کے بغیر مادی ترقی بھی ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف زمینوں کی لین دین اور اس کا کاروبار پروان چڑھتا جارہا ہے، ہزاروں کروڑ روپے کا لین دین ہو رہا ہے، تو دوسری طرف ہم معیار تعلیم میں نچلی سطح پر گرتے جارہے ہیں۔ آپ بتائیں کہ ہم نے یہ کیسا سماج بنا رکھا ہے، یہ کیسے عدم مساوات پر مبنی سماج کو ہم ترقی دے رہے ہیں اور پروان چڑھا رہے ہیں؟
یہ ملک میں بسنے والے ہر ہوشمند شہری کے لیے تشویش کی بات ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس پر فی الفور اقدامات کرے، اس کی وجوہات کو جاننے، اگر انفراسٹرکچر کی کمی ہے تو اس کو دور کرے، اساتذہ کی کمی ہے تو اس کو فوری پر کرے، اور ایک ایسا نظام ترتیب دے جس سے معیار تعلیم بلند ہو۔ طلباء اور اساتذہ کو تناسب سے اس کے مطابق تقررات عمل لائے۔ دوسری طرف سماجی تنظیموں کو بھی اس جانب فوری اور توجہ دینی چاہیے تاکہ ریاست کا مستقبل محفوظ کیا جاسکے، ورنہ بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ ایک وقت آئے گا جب یہاں طلباء تعلیم گاہوں سے فارغ ہوں گے لیکن انہیں کہیں نوکری نہیں ملے گی، اور جو کمپنیاں یہاں قائم ہوں گی وہ معیاری ملازمین کی بھرتی کسی دوسری ریاست سے پوری کریں گی، جس کے نتیجے میں ایک غیر متوازن اور عدم مساوات پر مبنی سماج وجود میں آئے گا، جس کے نتائج ملک کے نقصان کا باعث بنیں گے۔
***
***
سائنسی مضامین جن میں خاص طور پر ریاضی مضمون کو سمجھنے میں بچے قاصر ہیں، معیار تعلیم کے حوالے سے اس وقت پانچ ریاستیں قومی اوسط سے بھی کم ہیں۔ یہاں کہ حکم رانوں کی جانب سے یہ بہانا بنایا جاتا ہے کہ کورونا کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دی جا سکی، اسی لیے معیار تعلیم تنزلی کا شکار ہوا ہے۔ ان حکم رانوں کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ کورونا صرف ان کی ریاستوں میں ہی نہیں آیا تھا، وہ سارے ملک میں پھیلا تھا، تو ایسی صورت میں معیار تعلیم ہر ریاست میں خراب ہونی چاہیے تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور معیار تعلیم کو پروان چڑھانے کا کوئی منصوبہ ان کے منصوبوں میں تھا ہی نہیں۔ حالت یہ ہے کہ سب سے اہم مضمون سائنس میں 75 فیصد طلبا معیار کے کم ازکم پیمانوں پر بھی پورے نہیں اترتے، یہ انتہائی معیوب اور تشویشناک بات ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023