ملک کو تیزرفتار معاشی ترقی میں مددگار منصوبے درکار

ترقی کا فائدہ سبھی طبقات تک پہنچنا چاہیے

پروفیسر ظفیر احمد ، کولکاتا

تعلیمی شعبہ اور ریسرچ و ترقی کے لیے خاطر خواہ بجٹ ناگزیر
ہماری چند کمزوریاں ایسی ہیں جو ترقی کی رفتار کو سست کرتی ہیں۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ ایسے منصوبے بنائے جائیں جو ہماری معیشت کو تیزگام کرنے میں مدد کریں اور ملک کے تمام طبقوں کو ترقی کا فائدہ ملے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت ملک کے تعلیمی ڈھانچہ کو بہتر اور معیاری بنانے پر بھرپور توجہ دے۔ کیونکہ تعلیم تمام تر ترقیوں کی شاہ کلید ہے۔ تعلیم پر حسب ضرورت خرچ کو بڑھائے بغیر وشو گرو ہوسکتے ہیں اور نہ ہی 2047تک ترقی یافتہ ملک۔ اگلے پچیس سالوں میں ترقی یافتہ ملک بننے کو لے کر بحث شروع ہوچکی ہے۔ ملک میں کئی کمیٹیاں جی ڈی پی کا چھ فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کی سفارش کرتی آرہی ہیں لیکن ملک میں محض آدھی رقم ہی خرچ کی جاتی ہے۔تعلیم کا یہ حال ہے کہ 67فیصد گریجویٹس کو روزگارکی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتا ہے۔ کورونا وبا کے بعد ایجوکیشن سیکٹر میں طلبا کو ڈیجیٹل ذرئع سے تعلیم کو جاری رکھنے میں کافی مدد ملی ہے۔ مگر طلبا کی اکثریت کو وہاں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مشقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے آئندہ بجٹ سیشن میں تعلیمی بجٹ میں اضافہ کی گنجائش رہنی چاہیے۔ امسال عبوری بجٹ میں گزشتہ سال کےمقابلے میں اسکولی تعلیم کے مختلف مدات پر 20فیصد کا اضافہ ضرورکیاگیا ہے لیکن جی ڈی پی کے چھ فیصد تعلیم پر خرچ کرنے سے ہنوز دور ہے۔ 60سال پہلے 1964میں کوٹھاری کمیشن نے تعلیم پر جی ڈی پی کا 6فیصد خرچ کرنے کی سفارش کی ہے۔ ویسے 6تا 14سال کے بچوں کو مفت تعلیم کا دستوری طور سے خصوصی اختیار حاصل ہے۔ اس کے باوجود ملک میں تعلیم پر اخراجات کا اوسط کافی کم ہے۔ زیادہ تر ریاستیں اپنی جی ڈی پی کا ڈھائی تا تین فیصد تک ہی خرچ کرتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کا تعلیمی بجٹ 3.5 فیصد سے زیادہ کبھی نہیں رہا۔ NEP-20 میں بھی تعلیمی بجٹ کو چھ فیصد تک لے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک کا تعلیمی بجٹ ہمیشہ 6فیصد کے قریب رہا ہے۔ چین اپنے جی ڈی پی کا 6.13 فیصد ، امریکہ 6 فیصد، جاپان اپنےتعلیمی مد پر 7.43 فیصد خرچ کرتا ہے کوریاکابھی تعلیمی بجٹ 6فیصد کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں ان ممالک سے کافی پیچھے ہیں۔ہمارے ملک کے سرکاری منصوبہ سازوں کا ماننا ہے کہ طبی شعبہ، دفاع، انفراسٹرکچر اور سماجی فلاح کے مدات میں زیادہ خرچ کیے جانے کی وجہ سےتعلیم پر خرچ نہیں ہوپاتا ہے۔ 2022 میں 20کروڑطلبا رجسٹرڈ تھے۔ جس میں 74فیصد پرائمری اسکولوں میں تھے۔ 2021میں ملک کی 77فیصد آبادی ہمہ جہتی غربت (Multiple Poverty ) کی مار سہہ رہی تھی۔ تقسیم میں اضافے کے باوجود اس طبقے تک ڈھنگ کی تعلیم نہیں پہنچ پائی ہے۔ دیہی علاقوں میں اسکولی بچوں کو ڈھنگ کی تعلیم میسر نہیں ہے۔ شہروں کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔ اس لیے سرپرستوں کو ٹیوشن اور کوچنگ سنٹروں پر اپنی کم آمدنی سے خرچ کرنے پر مجبورہونا پڑتا ہے۔ ملک کی 50فیصد آبادی کی عمر 25سال سے کم ہے اور یہ ملک نوجوانوں کا ہے اس لیے اسکولی پڑھائی ، اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ہی روزگار کے لیے اسکِلڈ منصوبوں پر خرچ بڑھانا ضروری ہے تاکہ ان کو روزگار کے حصول میں پریشانی نہ ہو۔ ہمارے ملک میں 40فیصد اسکولوں میں اساتذہ کی بحالی رکی ہوئی ہے۔ این ای پی20 کے نفاذ کے اعلان کےوقت مودی نے بڑے طمطراق سے اساتذہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے لیکن کیا اساتذہ کی خالی پوسٹوں کی بحالی کے یہ ممکن ہے؟ اسکولوں کی پرانی عمارتوں کےرنگ و روغن سے یہ ممکن نہیں ہوگا۔ تعلیمی خدمات جی ایس ٹی کو 18سے کم کرکے پانچ فیصد یا زیرو فیصد کرنے کا مطالبہ بڑھ رہا ہے۔ ساتھ ہی طلبا کو کم شرح سود یا بغیر سود پر قرض دینے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ ملک میں لڑکیوں کا تعلیمی نظام ناگفتہ بہ ہے۔ اسکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ ہمارا اسکولی تعلیمی نظام بے انتہا انحطاط کا شکار ہے۔ اس کے مقابلے میں پڑوسی ممالک نیپال، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اسکولی معیار ہم سے بہتر ہے۔ بھارت میں پرائمری اسکول کی تعلیم کے پانچ سال مکمل کرنے والی طالبات کا تناسب 48فیصد ہے۔ جبکہ یہ نیپال میں 92فیصد ، پاکستان میں 74فیصد اور بنگلہ دیش میں 54فحصد ہے۔ سروے کے اعتبار سے ہمارا ملک 51 ترقی پذیر ممالک میں 38ویں نمبر پر ہے۔ انڈونیشیا ،ایتھوپیا، روانڈا اور تنزانیہ میں خواتین کی شرح خواندگی ہمارے ملک سے بہتر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لڑکیوں کی بہترین پرورش اور مناسب تعلیم و تربیت کا نظم ہوتو لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب بھی بڑھے گا اور ملک کا تعلیمی نظام بھی بہتر ہوگا۔
ہمارا ملک ترقی یافتہ ملک بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ پائیدار ترقی کےلیے ریسرچ کے شعبہ میں باتیں بہت کی گئی ہیں اور اس مد میں زیادہ خرچ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ نہرو نے ہی بڑی کامیابی سے خلائی تحقیق اور ایٹمی توانائی پر کام کی شروعات کی تھی اور کئی مواقع پر پرزور انداز میں کہا تھا کہ اگرہم سائنسی طور پر پیش رفت نہیں کریں گے تو جدید دنیا میں ہماری معنویت ختم ہوجائے گی۔ آج بھی خلائی اور ایٹمی انرجی کےشعبوں کے علاوہ کوئی بڑا اور غیر معمولی کام نہیں ہوپایا۔ مرکزی حکومت نے آر اینڈ ڈی پر جی ڈی پی کا دو فیصد بڑھا لیکن یہ محض 0.6-0.7 فیصد ہی رہا ہے۔ من موہن سنگھ نے 2012 میں بھوبنیشور میں انڈین سائنس کانگریس کے افتتاحی تقریر میں کہا تھا کہ سائنسی دنیا میں ہماری حیثیت کم ہوئی ہے۔ ہم چین سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اس لیے ہمیں بھارتی سائنس کو بڑی اونچائی پر لے جانا ہے ۔ موجودہ وزیر اعظم کے اکنامک ایڈوائزری کونسل کی ایک آر اینڈ ڈی رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکہ اپنی جی ڈی پی کا 2.8فیصد چین 1.2فیصد، اسرائیل 3.4فیصد اور ساوتھ کوریا 2.4 فیصد خرچ کرتے ہوئے بھی بھارت سے بہت آگے ہیں۔ اب 2022-23 میں وزیر مالیات نے نیشنل ریسرچ فاونڈیشن کی پچاس ہزار کروڑ روپے سے تشکیل کی مگر اس کے باوجود اس شعبہ میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ چین اور امریکہ کے بعد آر اینڈ ڈی پر کل اخراجات Research Powerpoint Presentation(PPP) کی مناسبت سے 2019میں 525.7بلین ڈالر کا ہے جو ہمارے آر اینڈ ڈی کے اخراجات سے دس گنا زیادہ ہے۔ چین میں اس شعہ میں 7,38000 لوگ کام کرتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں محض 1,58000ہی ہے۔ چین کے سائنس اور ٹکنالوجی کے ڈائرکٹر نے کہا کہ چین 2050تک بڑی اختراعی ٹکنالوجی کولے کر اول مقام پر آنا چاہتا ہے۔ آر اینڈ ڈی کے رپورٹ کے مطابق 2016-17میں حکومت نے 42ہزار کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ تین اداروں جیسے ڈیفنس ریسرچ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) پر 31.8فیصد اسپیس پر 19 فیصد اور ایٹمی انرجی نے اپنی زیادہ تر ریسرچ بنیادی گرانٹس کے ذریعہ کی ۔ سرکاری اخراجات کا فائدہ جن تحقیقی اداروں نے اٹھایا ان میں آئی سی اے آر 10.4فیصد ، سی ایس آئی آر 5.9فیصد ، ڈی ایس ٹی 8.4فیصد، ڈی بی ٹی 3.4 فیصد اور آئی سی ایم آر 5.2فیصد قابل ذکر ہیں۔ اگر حکومت آر اینڈ ڈی کو فروغ دینے کے لیے واقعی سنجیدہ ہےتو اسے چاہیے کہ وہ سرکاری اخراجات کو بڑھائے تاکہ زمینی سطح پر غریب عوام کو بھی اس کا فائدہ ملے۔
حالیہ پیپر لیکس نے بھارتی اکزامنیشن سسٹم کی خامیوں کو طشت از بام کردیا ہے۔ نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی (NTA) میں بے انتہا اصلاح کی ضرورت ہے۔ اب وہ اس قابل نہیں رہی ہے کہ اس پر بھروسا کیا جاسکے۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ امتحانات کو قابل بھروسا بنانے کے لیے اس کے اعتماد کو بلاتاخیر بحال کیا جا سکے۔ این ٹی اے نےنیٹ یو جی 2024کا امتحان 5مئی کو لیا جس میں 24لاکھ طلبا شامل ہوئے۔ اس کا نتیجہ 14جون کو شائع ہونے والا تھا لیکن اسے 4جون کو ہی افشا کردیا گیا۔ 67طلبا کو 720 میں سے 720نمبرات ملے جس میں کچھ طلبا خاص امتحانی مرکز ہی کے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار طلبا کو بے ڈھنگے طریقے سے گریس مارکس سے نوازا گیا ۔ بعد میں سپریم کورٹ کے ایما پر ان کا دوبارہ امتحان لیا گیا۔ اس طرح Neetکے ذریعہ امتحان نے سماجی و معاشی تفریق کو بڑھاوا دیا ہے۔ اے کے رنجن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق نیٹ نے غیرمتناسب طریقے سے زیادہ آمدنی والے خاندان کے کو فائدہ پہنچایا ہے۔ جب کہ غریب طلبا اس سے محروم رکھے گئے۔ فی الحال اوپین کیٹگری (O.C) کے طلبا کی تعداد گورنمنٹ کالجز میں 5.17فیصد اور پرائیویٹ میڈیکل سیلف سپورٹیڈ کالجز میں 12.87فیصد بڑھی جبکہ پری نیٹ اگزام کی مدت میں وہ بالترتیب 3.34 فیصد اور 6.08فیصد ہی تھی۔ اس طرح جس خاندان کی سالانہ آمدنی 2.5لاکھ روپے تھی۔ ویسے طلبا اس دوڑ سے معدوم ہوگئے جبکہ 2.5لاکھ روپے سے زیادہ آمدنی والے طلبا کی تعداد خاصی بڑھ گئی۔ نیٹ نے دیہی اور شہری طلبا کے درمیان تفریق کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اس طرح نیٹ امتحان نے میڈیکل تعلیم میں بڑے پیمانے پر ملک میں نابرابری کو بڑھایا ہے۔ میڈیکل ایڈمیشن میں اتنے بڑے اسکینڈل اور گڑبڑی کا سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے۔ کیوں کہ اس سے لاکھوں بچوں کے زندگی سے کھلواڑ ہوا۔ اور سپریم کورٹ میں درجنوں کیسز زیر سماعت ہیں۔ ایس آئی او جو جماعت اسلامی ہندکی طلباتنظیم ہے اس نے بھی انصاف کے تقاضے کی تکمیل کے لیے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا ہے۔ اپوزیشن نے اس معاملے کو لوک سبھا میں اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ مگر سپریم کورٹ نے رنجن کمیٹی کی یافت کو تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں اس پر گہرائی سے بحث کرنے کی تجویز کو مان لیاہے تاکہ سبھوں کو سماجی و معاشی انصاف میسر ہو۔ ایسے امتحان کو غیر مرکزیت (decentralisation) کے ذریعے انعقاد اس کا بہتر متبادل ہے جہاں مختلف ریاستی اور علاقائی اداروں کو جواب دہی کا احساس زیادہ ہی رہتا ہے۔ وہ بہت احسن طریقے سے علاقائی ذرائع وسائل سے آنے والے مسائل کے سدباب کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ریاستی ادارے اپنی معتبریت کو کام میں لگانے کے بہتر طریقے کے اہل ہوتے ہیں اور نوکر شاہی جو Centralisationکے ساتھ رہتی ہے۔ ان سے چھٹکارا کے ذریعہ اور حل ڈھونڈ نکال لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ این ٹی اے جیسے مخدوش اور بدنام زمانہ ایجنسی کو خیرباد کرکے امتحان کے پروسیس میں اصلاح کی جائے۔ نیٹ کے بعد این ٹی اے کے ذریعے منعقد کرائے جانے والے امتحان نیٹ یو جی سی اور نیٹ سی ایس آئی او کے امتحان میں ممکنہ دھاندلی اور پیپر لیک کی وجہ سے امتحان کو رد کرنا پڑا ہے۔ طلبا کے حق میں امتحان کی معتبریت والی پالیسی کی تشکیل کی جائے جس سے طلبا کو یکساں مواقع کے ساتھ اپنے جوہر کےاظہار کا موقع ملے۔ اب ملک میں ماہرین تعلیم، سیول سوسائٹی اور منصوبہ سازوں کو لے کر ایک معتدل تعلیمی نظام بنانے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے ہر طالب علم کی ضروریات کی منصفانہ تکمیل ہو سکے۔ تادم تحریر یو پی ایس سی امتحان میں بڑے گھپلے کا پردہ فاش ہوا۔ پوجا جیسے ہزاروں بہتی گنگا میں ڈبکی لگا رہے ہیں۔ اس معاملہ میں یو پی ایس سی چیرمین کا استعفی سامنے آیا ہے۔
ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی اظہر من الشمس ہے۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق ملک میں شرح خواندگی 74فیصد تھی جس میں مرد و خواتین کی شرح بالترتیب 81 اور 65فیصد تھی۔ وہیں عیسائیوں میں 85فیصد تھی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں شرح خواندگی دلت اور قبائیلیوں سے بھی کم ہے۔ آزادی کے بعد سرکاری و نجی اداروں کے ذریعے کی گئی کوششوں سے شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے لیکن مختلف طبقات کے درمیان ابھی بھی نابرابری عیاں ہے۔ مرکزی حکومت نے پسماندہ طبقات جیسے دلتوں اور قبائیلیوں کے لیے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے ریزرویشن پالیسی تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے نہیں بنائی ہے۔ البتہ دستور کے آرٹیکل 29 اور 30کے ذریعے اقلیتوں کو اس کااختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے تعلیمی اور ثقافتی ادارے قائم کریں اور ان اداروں کو چلانے کے لیے ہر طرح کی آزادی انہیں دی گئی ہے۔ 2020میں قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس کے ذریعہ ایس سی اور ایس ٹی کے بچوں کے ساتھ اقلیتوں کو بھی تعلیم کے مساوی مواقع فراہم ہوں گے مگر یہ محض کاغذی باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔ مسلمان جو بھارت کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہے جسے معاشی، طبی اور تعلیمی مشکلات کا سامنا رہتا ہے ایک قلیل آبادی کے پاس تنخواہ والی ملازمت ہے بقیہ غیر منظم سیکٹرس میں خستہ حالی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت اپنے سنگھی ایجنڈے کو بروئے کار لاتے ہوئے سال در سال ہمہ جہتی فلاحی اسکیمیں ختم کرتی جارہی ہے۔ وزارت اقلیتی امور کے 2022 کے بجٹ کو مرکز نے 38.3فیصد کم کردیا اور بجٹ کا تخمینہ 202-324میں 5020.5 کروڑ سے کم کرکے 3,097کروڑ کردیا ہے۔ وزارت اقلیتی امور نے 2023-24 کے اقلیتی اسکالرشپ پورٹل کا اب تک افشا نہیں کیا ہے ۔ ایس آئی او سبھی مسلم اقلیتی طلبا کے لیے تعلیمی اداروں میں دس فیصد ریزرویشن غیر مسلم اقلیتی طلبا کے لیے پانچ فیصد ریزرویشن کا مطالبہ کرتی ہے۔ جیسا کہ رنگناتھ مشرا کی سفارش رہی ہے۔ اس کمیشن کے سفارشات کو بلاتاخیر طلبا اور اساتذہ کے لیے نافذ کیا جائے۔ اقلیتی یونیورسٹیوں اے ایم یو اور مانو کے آف کیمپس سنٹرس کثیر اقلیتی آبادی والے اضلاع میں قائم کیے جائیں۔ معاشی، سماجی اور تعلیمی طور سے بدحال اضلاع کے لیے حسب ضرورت بجٹ الاٹ کرتے ہوئے خصوصی توجہ دی جائے اور حکومت سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے موثر اور مکمل آر ٹی ای ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ اگرچہ کہ اقلیتوں کی تعلیم کو ترجیحات میں رکھ کر مرکزی حکومت نے وزیر اعظم کی 15 نکاتی پروگرام اور ملٹی سیکٹورل پروگرام کے ذریعہ بہت ساری کوششیں کی ہیں۔ ان پروگراموں کے تحت مدرسہ کی جدید کاری اسکیم ، اسکالرشپ پروگرام اور اقلیتی اضلاع۔ بلاک یاٹاون میں اسکول، ہاسٹلس، پالی ٹیکنک اور آئی ٹی آئی کی تعمیر ہوئی۔ لیکن ان اسکیموں کے نفاذ کے دو دہائیوں کے باوجود مسلم طلبا کئی وجوہات کے بنا پر ان اسکیموں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ کیونکہ عوام میں ان اسکیموں کے متعلق بیداری کی کمی ہے۔ ساتھ ہی حکومتی سطح پر بھی ان اسکیموں کے نفاذ میں کافی کمیاں ہیں۔
***

 

***

 ہمارا ملک ترقی یافتہ ملک بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ پائیدار ترقی کےلیے ریسرچ کے شعبہ میں باتیں بہت کی گئی ہیں اور اس مد میں زیادہ خرچ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ نہرو نے ہی بڑی کامیابی سے خلائی تحقیق اور ایٹمی توانائی پر کام کی شروعات کی تھی اور کئی مواقع پر پرزور انداز میں کہا تھا کہ اگرہم سائنسی طور پر پیش رفت نہیں کریں گے تو جدید دنیا میں ہماری معنویت ختم ہوجائے گی۔ آج بھی خلائی اور ایٹمی انرجی کےشعبوں کے علاوہ کوئی بڑا اور غیر معمولی کام نہیں ہوپایا۔ مرکزی حکومت نے آر اینڈ ڈی پر جی ڈی پی کا دو فیصد بڑھایا ہے لیکن یہ محض 0.6-0.7 فیصد ہی رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024