ملک کی پارلیمنٹ: قانون ساز ادارہ یا پہلوانوں کا دنگل؟

ساورکر کا نظریہ رکھنے والے امبیڈکر کی شخصیت کو بھی داغ دار کرنے لگے

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

امیت شاہ کا متنازعہ بیان: بی جے پی کی سیاست یا ملک کے دستور پر حملہ؟
آٹھویں لوک سبھا کے حالیہ اختتام پذیر سرمائی اجلاس کے دوران سیاسی نمائندوں کا جو طرزِ بیان و طرزِ عمل رہا، اسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ملک کی جمہوریت کیا رنگ ڈھنگ اختیار کر رہی ہے۔ آئینِ ہند کے 75 سال مکمل ہونے پر ایوان میں جو مباحث ہوئے، اس کا بھی کوئی اچھا تاثر ملک کے عوام کے سامنے نہیں آیا۔ یہ ایک بہترین موقع تھا کہ سیاسی قائدین اس بات پر غور کرتے کہ آیا جس دستور کو ملک میں نافذ ہوئے 75 سال ہو چکے ہیں، اس کے مطابق ملک کو چلانے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی ہے یا نہیں؟ آئین کے معماروں نے جو خواب دیکھے تھے، کیا وہ اس دوران پورے ہو سکے؟ آئین نے شہریوں کو جو آزادی دی ہے، کیا اس کا تحفظ ہو سکا؟ ان ساری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ارکان نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ حزبِ اختلاف کے قائدین نے جب یہ الزام لگایا کہ موجودہ حکومت دستور کی دھجیاں اُڑا رہی ہے، دستور نے شہریوں کو جو حقوق دیے ہیں، ان کی فراہمی میں یہ حکومت ناکام ہو گئی ہے۔ حکم راں جماعت پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ پورے ملک میں خوف کا ماحول پیدا کر رہی ہے، سماج کے تمام طبقے حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اپوزیشن کے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے برسرِ اقتدار پارٹی کے قائدین نے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت آئین کی روشنی میں اس ملک کو ترقی کی راہوں پر لے جا رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے دو گھنٹے کے خطاب میں کہا کہ جو لوگ آج آئین کی دہائی دے رہے ہیں، انہی لوگوں نے دستور کو پامال کیا ہے۔ انہوں نے اندرا گاندھی کی جانب سے 1975 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی کے ذریعے جمہوریت کا گلا گھوٹنے والوں کو یہ حق نہیں کہ وہ آئین کی پاسداری کی بات کریں۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے تو دستور کے بانی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے خلاف توہین آمیز بیان دیتے ہوئے ان سارے مباحث کی افادیت پر ہی سوال کھڑا کر دیا۔ انہوں نے بحث کا جواب دیتے ہوئے راجیہ سبھا میں کہا کہ "یہ لوگ (یعنی اپوزیشن کے ارکان) امبیڈکر، امبیڈکر کہتے رہتے ہیں، اگر انہوں نے اتنا بھگوان کو یاد کیا ہوتا تو سورگ مل جاتا”۔ ان کے اس بیان پر اپوزیشن پارٹیاں آپے سے باہر ہوگئیں اور امیت شاہ کے اس بیان کو بابا صاحب کی توہین قرار دیتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ سے معافی مانگنے اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے لگیں۔ امیت شاہ کے اس بیان کے بعد معاملہ صرف راجیہ سبھا کے ایوان تک محدود نہیں رہا بلکہ پارلیمنٹ کے احاطہ میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے زبردست احتجاج شروع ہو گیا۔ اب یہ مسئلہ پارلیمنٹ سے نکل کر ملک کی سڑکوں پر آ گیا ہے۔ امبیڈکر کے چاہنے والوں کی جانب سے پورے ملک میں امیت شاہ کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس تو گزشتہ ہفتے ختم ہو گیا ہے لیکن اپوزیشن پارٹیاں زور انداز میں اس مسئلے کو ایک عوامی مسئلہ بنا کر حکومت کے خلاف مورچہ بندی کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اسی دوران 19 دسمبر (جمعرات) کو پارلیمنٹ کے احاطہ میں ارکانِ پارلیمنٹ کے درمیان جو دھینگا مشتی ہوئی، اس سے بھی حالات خطرناک رخ اختیار کر چکے ہیں۔ مبینہ طور پر اس میں بعض ارکان پارلیمنٹ زخمی بھی ہوئے ہیں اور معاملہ پولیس میں رپورٹ درج کرانے تک پہنچ گیا۔
پارلیمنٹ میں شروع ہوئی لفظی جنگ کا جسمانی ہاتھا پائی تک پہنچ جانا جمہوریت کی برقراری کے لیے کوئی صحت مند علامت نہیں ہے۔ حکم راں جماعت نے اپنے وزیر کی جانب سے استعمال کیے گئے توہین آمیز جملوں کی مذمت کرنے کے بجائے اس کا ساتھ دیتے ہوئے ایک غلط مثال قائم کی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اپوزیشن قائد راہل گاندھی پر قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔ یہ واضح طور پر سیاسی انتقام کا ثبوت ہے۔ راہل گاندھی کے خلاف سنگین دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنا دراصل اپوزیشن پارٹی کے قائدین کو ڈرانے اور دھمکانے کا ایک سیاسی حربہ ہے۔ سیاسی مخالفت کی وجہ سے کسی سیاسی قائد کو جیل بھیجنے کی تیاری کوئی مناسب عمل نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے احاطہ میں ہونے والی دھکم پیل کو بہانہ بنا کر راہل گاندھی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حالات کیوں اس قدر بگڑ گئے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سارا ملک جانتا ہے کہ امیت شاہ نے ہی حالات کو خراب کیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسی شخصیت کے خلاف زبان درازی کی جو نہ صرف آئین کی معمار ہے بلکہ اس ملک کے بچھڑے طبقے کی مسیحا مانی جاتی ہے۔ ملک کا دلت طبقہ ڈاکٹر امبیڈکر کو دیوتا مانتا ہے۔ امبیڈکر نے ہمیشہ مظلوموں کی تائید میں آواز اٹھائی ہے۔ مسلمان بھی انہیں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایسے مجاہدِ آزادی اور ایسے محب وطن جنہوں نے ایک جامع دستور قوم کے حوالے کیا، ان کے متعلق غیر شائستہ الفاظ کا استعمال کرنا یقینی طور پر سارے ملک کے شہریوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔ امیت شاہ، آج جو وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں، وہ اس ملک کے دستور کی دین ہیں۔ ملک کا یہ دستور نہ ہوتا تو نہیں معلوم کہ امیت شاہ آج کہاں ہوتے۔
ڈاکٹر امبیڈکر کی شخصیت ایک قد آور شخصیت ہے، ان کا ہم پلہ آج کا کوئی لیڈر نہیں ہو سکتا۔ امبیڈکر نے اپنے کارناموں کی ایک تاریخ بنائی ہے۔ ان کے سیاسی نظریات کی آج بھی معنویت ہے۔ امیت شاہ ان کے مقابلے میں رتی برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ اگر امبیڈکر کی یہ کہہ کر توہین کرتے ہیں کہ جو لوگ امبیڈکر، امبیڈکر کی رٹ لگاتے ہیں وہ اگر اتنی مرتبہ بھگوان کا نام لیتے تو سورگ میں ہوتے، تو راست طور پر وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی شخصیت کو داغ دار کر رہے ہیں۔ یہ بات مشہور ہے کہ کوئی سورج پر تھوکتا ہے تو وہ سورج پر تو نہیں پڑتا بلکہ خود تھوکنے والے کے چہرے پر پلٹ کر گرتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف امیت شاہ کی یاوہ گوئی سے امبیڈکر کی شخصیت متاثر نہیں ہوئی بلکہ اس سے امیت شاہ کی ذہنی پستی کا اظہار ہوا ہے۔ بعض شخصیات پارٹی حد بندیوں سے بہت اوپر ہوتی ہیں۔ امبیڈکر کا شمار بھی ان قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی سیاسی فکر کے ذریعے ہندوستان کو ایک نئی سمت دکھائی ہے۔ ان کی قیادت میں جو دستور مدوّن کیا گیا، اس سے ہندوستان دنیا کے نقشے میں ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے ابھرا۔ سماج کے تمام طبقوں کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے امبیڈکر نے جس آئین کو ملک میں نافذ کرنے کی تائید کی، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر اقلیتوں اور کمزور طبقات کے مستقبل کو لے کر امبیڈکر فکر مند تھے۔ اسی لیے انہوں نے ان طبقات کو دستوری مراعات دیں۔ آر ایس ایس کو یہی بات پریشان کر ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار کے نظریہ ساز ساورکر نے کہا تھا کہ "دستور میں کچھ بھی ہندوستانی نہیں ہے”۔ امیت شاہ بھی معنوی طور پر ساورکر کے شاگرد ہیں اور وہ ان کے نظریات کو قبول و تسلیم کرتے ہیں، اسی لیے انہوں نے دستور کے بانی کے تعلق سے تضحیک آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں اتفاقی طور پر یہ جملے نہیں کہے بلکہ انہوں نے ساورکر کے نظریات کی ترجمانی کی ہے۔
بھارت کے جمہوری سفر کے دوران شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پارلیمنٹ میں دستور کی 75ویں سالگرہ بھی منائی گئی اور اس کے ساتھ دستور کے معمار کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے اگر کوئی ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف لب کشائی کرتا تو کیا مودی حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی؟ اس پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا۔ لیکن چونکہ معاملہ خود کا ہے اس لیے وزیر اعظم نے بھی تادم تحریر امیت شاہ کے بیان کی مذمت میں دو لفظ بھی نہیں کہا ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ اس سنگین معاملے کو دوسرا رخ دے دیا گیا۔ امیت شاہ کے جرم کو چھپانے کے لیے پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کا ماحول پیدا کر دیا گیا اور حالات اس قدر بے قابو ہوگئے کہ ارکان کے درمیان ٹکراؤ بھی ہوگیا ہے۔ اب پورے ملک میں گودی میڈیا اور مودی حکومت کے چاہنے والے راہل گاندھی کو اس سارے تنازعے میں گھسیٹ کر امیت شاہ کو بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کی زبان کو بند کرنے کے لیے یہ سارا ڈرامہ کھیلا گیا ہے۔ راہل گاندھی پر یہ بے تکا الزام بھی لگا دیا گیا کہ انہوں نے بی جے پی کی ایک خاتون رکن پارلیمنٹ کو دھکا دے دیا جس سے وہ زخمی ہو گئیں۔ اس قسم کے اوچھے حربے اختیار کر کے بی جے پی حکومت حقائق پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی ہتک کے اصل مسئلے سے عوام کی توجہ کو ہٹانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران کانگریس کے قائد راہل گاندھی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ان کے خلاف رچی جانے والی ہر سازش ناکام ہوگئی۔ ان کی لوک سبھا کی رکنیت منسوخ کردی گئی اور ان کو ان کے سرکاری بنگلے سے نکال دیا گیا۔ اس کے باوجود بی جے پی ملک کو کانگریس سے "مکت” نہیں کر سکی۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب کانگریس کا احیاء نہیں ہوسکے گا۔ لیکن حالیہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں انڈیا الائنس کی قیادت میں کانگریس نے اپنی کارکردگی کا جو مظاہرہ کیا اس سے بی جے پی کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ چار سو پار کا نعرہ لگانے والی بی جے پی دو سو چالیس کے آس پاس آ کر رک گئی ہے۔ نتیجے میں حکومت تشکیل دینے کے لیے اسے سہارے ڈھونڈنا پڑا۔ بہار کی یونائیڈڈ (جنتا دل) اور آندھرا پردیش کی تلگو دیشم پارٹی، بی جے پی کی بیساکھیاں بنیں تب جا کر مرکز میں این ڈی اے کی حکومت بن سکی۔ یہ دونوں پارٹیاں بی جے پی کا ساتھ نہ دیتیں تو آج ملک کی تصویر کچھ اور ہوتی۔ اب ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف امیت شاہ کی جانب سے نازیبا الفاظ کے استعمال کے بعد بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندر بابو نائیڈو کو احساس ہو رہا ہوگا کہ انہوں نے فسطائی قوتوں کا ساتھ دے کر ملک کا کتنا بڑا نقصان کیا ہے۔ آئندہ الیکشن میں یہ پارٹیاں دلتوں اور دیگر بچھڑے طبقات کے ووٹوں سے محروم ہو سکتی ہیں۔ بی جے پی کی سوچ ہی ملک کے دستور کے خلاف ہو تو اس پارٹی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آئین کے تقاضوں کی تکمیل کرے گی ایک خام خیالی ہوگی۔ بی جے پی کی جانب سے دستور پر نظر ثانی کے نام پر دستور کو بدلنے کی کوشش سابق میں بھی ہو چکی ہے، اور اب بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ آئین ساز اسمبلی کی جانب سے دیے گئے دستور کو ختم کر کے ہندتوا نظریات پر مبنی دستور نافذ کیا جائے۔ اسی لیے دستور کے معمار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب امیت شاہ کے بیان سے ملک میں بی جے پی کے خلاف لاوا پھٹ پڑا تو اس طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ کو دنگل بنا دیا گیا اور اپوزیشن بالخصوص راہل گاندھی پر من گھڑت الزامات لگا کر مسئلے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں ملک کے عوام کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب تک بی جے پی کی ذہنی ساخت (Mind Set) نہیں بدلتی، اس وقت تک ملک کے دستور کو سنگین خطرات لاحق رہیں گے۔

 

***

 بھارت کے جمہوری سفر کے دوران شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پارلیمنٹ میں دستور کی 75ویں سالگرہ بھی منائی گئی اور اس کے ساتھ دستور کے معمار کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اپوزیشن میں سے کوئی ڈاکٹر امبیڈکر کے خلاف لب کشائی کرتا تو کیا مودی حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی؟ اس پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا۔ لیکن چونکہ معاملہ خود کا ہے اس لیے وزیر اعظم نے بھی تادم تحریر امیت شاہ کے بیان کی مذمت میں دو لفظ بھی نہیں کہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024