ملک کی معاشی ترقی عدم اطمینان کے باوجود بہتری کی راہ پر
عالمی معاشی نمو میں سستی کے باوجود دوسری سہ ماہی میں مینو فیکچرنگ کے شعبہ میں 13.9فیصد اضافہ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
گریجویٹ بیروزگاری میں کوئی کمی نہیں ہوسکی کیونکہ سرمایہ ایک ہی جگہ پر جمع ہورہا ہے
آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2023 تک غیر ملکی کرنسی کا ذخیرہ 620.80 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے ساتھ ہی غیر ملکی کرنسی اثاثے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ قومی شماریاتی آفس (این ایس او) کے مطابق صارفین قیمت اشاریے (Consumer price index) کی بنیاد پر افراط زر خوردنی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھ کر 5.55 فیصد ہوگیا ہے جو اکتوبر 2023 میں 4.87 فیصد تھا۔ پھر بھی خردہ مہنگائی آر بی آئی کے ذریعہ مہنگائی کے طے شدہ اوپری قوت برداشت 8 فیصد سے کم ہے۔ بھارتی معیشت میں تیز رفتار بہتری کی وجہ سے جی ڈی پی مسلسل رفتار پکڑ رہی ہے۔ مالی سال 2023-24 کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 6.7 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے جبکہ پہلی سہ ماہی میں یہ 7.8 فیصد تھی جو گزشتہ چار سہ ماہیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں 6.5 فیصد کے اضافہ کا اندازہ تھا۔ فی الحال بھارت کی شرح نمو امریکہ، چین، روس اور برطانیہ سے بہتر ہے۔ مالی سال 2022-23 کی چوتھی سہ ماہی میں جی ڈی پی کے 6.8 فیصد رہنے کا امکان تھا۔ مگر اب یہ اندازے سے بڑھ 7.2 فیصد ہو گئی ہے کیونکہ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کی مسلسل کوشش ہورہی ہے۔ برآمدات بڑھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی غیر ملکی کرنسی کا ذخیرہ foreign portfolio investment (ایف پی آئی) بھی مسلسل بھارتی بازار میں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں صنعتی پیداوار میں کافی اضافہ درج کیا گیا ہے۔ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت میں بھی کمی آرہی ہے۔ سرکاری اور نجی کمپنیوں کے بیلنس شیٹس میں اچھے خاصے منافع ظاہر ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً سرمایہ کاری اور خرچ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق جی ڈی پی کی شرح نمو میں مینوفیکچرنگ اور شعبہ تعمیر کا اہم رول ہے۔ دھیمی عالمی معاشی نمو کے باوجود دوسری سہ ماہی میں مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں 13.9 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے جبکہ شعبہ تعمیر میں 13.3 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔ کانکنی کے شعبہ میں تیز رفتار ترقی ہوئی ہے۔ قومی شمایارتی آفس کے ذریعہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطاابق اکتوبر میں ملک کی صنعتی پیداوار 11.7 فیصد رہی ہے جو گزشتہ 16مہینوں میں سب سے زائد ہے۔ ستمبر میں یہ 5.8 فیصد ہی تھی اور گزشتہ سال 2022 کے ستمبر میں یہ محض 3.3 فیصد تھی۔
معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ ایسے حالات میں شیئر بازار میں چمک آنا لازمی ہے جو معیشت کی موجودہ حالت کے لیے بھی مثبت ہے کیونکہ شیئر بازار میں قیمتوں میں اتار چڑھاو سے محض سرمایہ کاروں کو ہی نقصان نہیں ہوتا ہے بلکہ ملکی معیشت بھی منفی طور سے متاثر ہوتی ہے جس سے ماہر سرمایہ کاروں کے ذریعے لگائے گئے راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں روزگار شرح نمو اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑے ہیں۔ چونکہ سرمایہ کاری کے لیے شیئر بازار کا ماحول موافق ہے جس سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یاد رہے کہ بمبئی اسٹاک ایکسچینج (بی ایس ای) کا اشاریہ 28 دسمبر کو اب تک سب سے اونچائی 72484 پر پہنچ گیا ہے۔ جبکہ نیشنل اسٹاک ایکسچینج (این ایس ای) یا نفٹی بھی 21801 کی اونچائی پر چلا گیا ہے۔ بی ایس ای کے تیس کمپنیوں میں سے 22 کمپنیوں کے شیئرز میں اچھال دیکھا گیا ہے جس میں سب سے زیادہ تیزی توانائی اور بینکنگ شعبوں میں دیکھنے کو آئی ہے۔ فی الحال امریکہ کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کے شیئر بازاروں کی حالت خستہ ہے اور عالمی معیشت پر بھی سستی کے آثار ہیں۔ اس کے برخلاف بھارتی شیئر بازار میں چمک بڑھتی جا رہی ہے۔ شیئر بازار میں اچھال کی وجہ ایف پی آئی کے ذریعے بھارتی بازار میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ ملک میں سیاسی استقلال بہتر معیشت اور امریکی بازار میں مسلسل گراوٹ کے مد نظر بھارتی شیئر بازار میں صرف دسمبر میں 57 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری ایف پی آئی کے ذریعے ہوئی ہے۔ سال بھر میں یہ سرمایہ کاری 1.62 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی ہوئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایف پی آئی ایکویٹی کے علاوہ ڈیٹ فنڈ میں ساٹھ ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری بھی ہوئی ہے ۔ اس لیے آئندہ دنوں میں بھی سیاسی استقلال اور معیشت میں تیزی کے آثار ہیں اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ ایف پی آئی کی سرمایہ کاری برقرار رہے گی۔
انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھارت کو اسٹار پرفارمر بتایا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ امسال گلوبل گروتھ میں بھارت کی حصہ داری 16 فیصد سے زیادہ کی ہوگی۔ ڈیجٹلائزیشن اور بنیادی ڈھانچہ (Basic Infrastructure) جیسے اہم شعبے میں معاشی اصلاحات کی وجہ سے بھارت کی شرح نمو مضبوط ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر ناڈا چو اے ری نے کہا کہ ہم کچھ دنوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی معیشت تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ اس کے ہم مرتبہ ممالک کی ترقی کی بات آتی ہے تو یہ ایک اسٹار پر فارمینس کونے والوں میں سے ایک نظر آتا ہے۔ یہ سب ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ معاشی پالیسی بہتر نہ ہو اس میں آر بی آئی گورنر اور ان کی ٹیم کے ساتھ وزارت مالیات کے لوگوں نے مل کر معاشی ترقی کا راستہ ہموار گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ گورنر نے خود بینکنگ صنعت میں دیے گئے قرض پر رسک کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں آمدنی کی غربت (Income Poverty) عروج پر ہے۔ امیر مزید امیر ہو رہے ہیں اور غریب مزید غریب۔ یہاں سیاسی سماجی اور معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔ مودی حکومت کے دوسرے دورانیے میں غربت میں محض 0.3 فیصد سالانہ کی رفتار سے کمی آئی ہے۔ ملک کی 16 کروڑ کی آبادی انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ مودی کے 10 سالہ دور حکومت میں زرعی اخراجات میں محض 1.3 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ منموہن سنگھ کے دور حکومت میں میں 4.1 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ جی-20 ممالک میں ہمارے ملک کی فی کس آمدنی سب سے کم یعنی 3 تا 3.5 ڈالر یومیہ ہے۔ حکومت آج بھی 80 کروڑ آبادی کو محض پیٹ بھرنے مفت راشن دینے پر مجبور ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ملک پر 2028 تک جی ڈی پی کا سو فیصد سے زیادہ جو قرض کا امکان ہے۔ ابھی ضرورت ہے کہ آمدنی کی غربت (Income Poverty) کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ آج بھی ملک میں بہت زیادہ ہے اور پانچ سالوں سے معاشی تفاوت اور نابرابری برقرار ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ روزگار پیدا کیے جائیں تاکہ خاطر خواہ گروتھ (Intensive Growth) ہو۔ اور ہنر مندی کے ذریعہ زراعت کو خیر باد کہنے والوں کو شہروں میں اچھا روزگار میسر ہو۔ ساتھ ہی حاشیے پر پڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں نقدی بھی منتقل کی جائے اور طلب میں اضافہ کرکے پیداوار، روزگار اور گھریلو بازار میں طلب کو بڑھانے پر دھیان دیا جائے۔
ایسے تمام اتار چڑھاو کے باوجود بھارت خود کو سرمایہ کاروں کی جنت کی شکل میں چین کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ مودی حکومت نے میکرو اکنامی کے نقطہ نظر سے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔ بھارت عالمی سپلائی چین کے ایک مرکز کے طور پر خود کو اجاگر کر رہا ہے لیکن معاشی بہتری پر تشویش کا سایہ منڈلا رہا ہے کیونکہ بھارت کے ورک فورس کی طبیعت زراعت سے اچاٹ ہو رہی ہے اور ہم ابھی بھی بہتر روزگار پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ گریجویٹ بیروزگاری بہت زیادہ ہے کیونکہ سرمایہ ایک ہی جگہ پر زیادہ جمع ہوتا جا رہا ہے۔ 2024 کے انتخاب کے بعد موجودہ حکومت مضبوط حکومت کی تشکیل کے ذریعہ معاشی تغیر پذیری کے ساتھ سماج پر اپنی گرفت مضبوط کرے گی اور سیاسی اعتبار سے شخصیت پرستی ملک کے لبرل اسٹرکچر کو پس پشت ڈال دے گی۔ فرقہ پرستی اور جارح قوم پرستی کو بڑھاوا دیا جائے گا۔ جمہوریت کا جنازہ نکل جائے گا۔ ساتھ ہی معاشی ترقی کی حصہ داری سے ملک کی بڑی اکثریت محروم کردی جائے گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024